مسلم اقلیتیں: مسائل اور تجاویز

سہیل بشیر کار

بدلتی ہوئی دنیا کا جو منظر نامہ ہے؛ وہ یہ ہے کہ جہاں دنیا نے گلوبل ولیج کی شکل اختیار کی ہے وہیں دنیا کے بہت سے ممالک میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ موجودہ دور میں یہ ممکن نہیں کہ وہ ماس مایگریشن کریں۔ ضرورت ہے ان کے بارے میں فقہی مسائل کا از سر نو جائزہ لینے کی۔  اسلام پوری دنیا کے لیے ہے لہذا یہ ممکن نہیں ہے کہ علماء کرام اقلیتوں کے لیے فقہی رہنمائی پیش نہ کرسکیں۔

 شریعت محمدی صلعم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دنیا میں بسنے والے لوگوں کے حالات؛ مسائل و مشکلات سے غفلت نہیں برتتا، وہ صرف خیالات میں پرواز نہیں کرتا بلکہ یہ ایک حقیقت پسند اور حقیقت پر مبنی شریعت ہے جو لوگوں کے حالات اور ضرورت وحاجت کے سبب لوگوں کی مجبوری کی رعایت کرتی ہے، جو جانتی ہے کہ انسان زمان و مکان اور اپنے اردگرد کے حالات سے کس قدر متاثر ہوتا ہے لہذا شریعت کا فتویٰ ان موجبات کے بدلنے سے بدل سکتا ہے تا کہ لوگوں سے حرج اور تنگی دور ہو سکے۔ 284 صفحات کی زیر تبصرہ کتاب "مسلم اقلیتیں (مسائل اور تجاویز)” عالم اسلام کے مشہور و معروف عالم دین علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی اہم ترین تصنیف ہے۔

 علامہ یوسف القرضاوی دور حاضر کے عظیم فقیہ ہے۔

 یوسف عبد اللہ القرضاوی (9 ستمبر 1926ء – 26 ستمبر 2022ء) مصری نژاد، قطری شہریت یافتہ مسلمان عالم اور فقیہ تھے،عالمی اتحاد برائے علمائے اہل اسلام کے بانی و سابق سربراہ اور یورپی کونسل برائے افتا و تحقیق کے صدر تھے۔ اسی طرح انھیں اخوان المسلمین کا عالمی پیمانے پر روحانی سرپرست اور اولین نظریہ ساز سمجھا جاتا تھا۔ آپ کی درجنوں کتابوں کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔

کتاب کے فاضل مترجم جناب الیاس نعمانی لکھتے ہیں: "کتاب کا موضوع (جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ) غیر مسلم معاشروں ممالک میں آباد مسلمانوں کے مخصوص مسائل ہیں، ان مسائل میں سے کچھ ایسے ہیں جو صرف ان معاشروں ہی میں پائے جاتے ہیں، اور مسلم ممالک میں ان کا وجود یا تو ہوتا ہی نہیں یا پھر نہایت شاذ و نادر ہوتا ہے، اور کچھ ایسے مسائل بھی ہیں جو غیر مسلم ممالک کی طرح مسلم ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں، لیکن غیر مسلم ممالک کی مخصوص سماجی صورت حال مسلم اقلیتوں کے لیے ان مسائل پر از سر نو غور و خوض کی طالب ہوتی ہے۔ "(صفحہ 3) علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں:” رابطہ عالم اسلامی کے ذمہ داران نے مجھ سے یہ فرمائش کی کہ میں مغربی ممالک میں رہائش پذیر مسلم اقلیتوں کو در پیش فقہی مسائل سے متعلق ایک مقالہ لکھوں، جو کہ رابطہ کے ذریعہ مکہ مکرمہ میں منعقد کی جانے والی اسلامی کانفرنس میں پیش کیا جائے۔ ” فقہی مسائل سے مراد وہ مسائل ہیں جن کا شریعت اسلامی کی روشنی میں فقہ اسلامی سے حل مطلوب ہے۔ "(صفحہ 9) مزید لکھتے ہیں:” رابطہ عالم اسلامی کی یہ فرمائش اس منہج کی وضاحت اور اس کو علمی رنگ میں پیش کرنے کا ایک بہترین موقع تھا، ہوسکتا ہے کہ اہل علم وفکر اس کو قبول فرما لیں ، یا مزید مطالعہ و مباحثہ سے اس کو مزید بہتر کر دیں۔ "(صفحہ 14)

کتاب کو مصنف نے مقدمہ اور تمہید کے علاوہ 8 ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ تمہید میں مصنف نے خوبصورت باتیں لکھی ہیں:” لیکن شریعت محمدی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دنیا میں بسنے والے لوگوں کے حالات و مشکلات سے غفلت نہیں برتتی ، وہ صرف خیالات میں پرواز نہیں کرتی، بلکہ یہ ایک حقیقت پسند اور حقیقت پر مبنی شریعت ہے جو لوگوں کے حالات اور ضرورت وحاجت کے سبب لوگوں کی مجبوری کی رعایت کرتی ہے، جو جانتی ہے کہ انسان زمان و مکان اور اپنے اردگرد کے حالات سے کس قدر متاثر ہوتا ہے لہذا شریعت کا فتوی ان موجبات کے بدلنے سے بدل سکتا ہے تا کہ لوگوں سے حرج اور تنگی دور ہو سکے۔ "(صفحہ 23)

کتاب کے پہلے باب” مسلم اقلیتیں اور ان کے فقہی مسائل "میں مصنف نے سب سے پہلے اقلیت کا مفہوم یوں بیان کیا ہے:” اس سے مراد کسی بھی ملک میں وہ انسانی گروہ ہے جو اپنے دین، مذہب، نسل، زبان یا کسی اور بنیادی و اساسی چیز میں اس ملک کے اکثریتی گروہ سے مختلف ہو۔ مثلاً مغرب میں مسیحی معاشروں کے بیچ رہنے والی مسلم اقلیتیں، ہندوستان میں ہندو معاشرہ کے بیچ رہنے والی مسلم اقلیت، چین میں بودھ معاشرہ کے بیچ رہنے والی مسلم اقلیت ، یہ تمام اقلیتیں اپنے دین اور عقائد میں اس ملک کے اکثریتی گروہ سے مختلف ہیں، اسی طرح مصر، شام اور عراق وغیرہ ممالک میں مسلم معاشروں کے بیچ میں مسیحی اقلیتیں ، مراکش، ایران اور ترکی وغیرہ میں یہودی اقلیتیں اور بہت سے دیگر ممالک میں کیتھولک اقلیتیں۔ "(صفحہ 23) پھر انہوں نے مختلف اقلیتوں کا تعارف بیان کیا ہے، اس کے بعد اقلیتوں کے چند عملی انفرادی اور عائلی مسائل کی طرف قاری کو توجہ دلائی ہے، بعد ازاں لکھتے ہیں:” ہمیں ان سوالات سے حیران و پریشان نہیں ہونا چاہئے، یہ سوالات تو اس بات کی علامت ہیں کہ مسلمانوں کے فکر و ذہن اور عمل و سلوک پر ابھی تک اسلام کا بہت گہرا اثر باقی ہے، اگر چہ وہ دار الاسلام کے باہر ہی کیوں نہ رہتے ہوں، اپنے اسلامی وطن سے دوری نے ان مسلمانوں کو دین ، خدا اور شریعت سے بے نیاز نہیں کر دیا ہے، بلکہ وہ اس بات کے مشتاق ہیں کہ وہ شریعت کے دائرہ سے باہر نہ ہوں اور ان کا رب ان سے راضی رہے۔ "(صفحہ 40)

اس کے بعد ان سوالات کے جوابات کے حوالے سے علماء کے بارے میں لکھتے ہیں:” ان میں سے زیادہ تر سوالات کے جوابات علماء دے چکے ہیں، بسا اوقات مختلف علماء کے جوابات بھی مختلف ہیں، اس اختلاف کی وجہ علماء کا مختلف مسالک سے منسلک ہونا یا مختلف وجوہات کا اختیار کرنا ہے۔ بعض علماء کافی ذی علم ہیں، لیکن وہ مسلمان اقلیتوں کے حالات سے پوری طرح واقف نہیں ہیں، لہذا ان علماء کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ مسلم اقلیات کے حالات اور ان کی ضروریات کا جائزہ لئے بغیر صرف فقہی کتابوں کی روشنی میں فیصلہ کر دیں اور فتوی صادر کر دیں۔ لہذا ہمیں ایک بصیرت افروز ، حقیقت پر مبنی اور معاصر فقہ کی ضرورت ہے، ایک ایسی فقہ جو شرعی نصوص شرعی قواعد اور شرعی مقاصد پر مبنی ہو، اور جو زمان و مکان اور انسان کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کی رعایت کر سکے، آئندہ صفحات پر میں اس نقطہ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ "(صفحہ 41)

دوسرے باب” فقہ الاقلیات (اہداف، خصوصیات اور مصادر) "میں علامہ یوسف القرضاوی میں فقہ کے بارے میں حقائق، ساتھ ہی یہ بتاتے ہیں کہ آج کے دور میں مسلم اقلیت اپنی امت اور اپنے مخصوص معاشرے کا ایک حصہ ہوتی ہے۔ ساتھ ہی علامہ لکھتے ہیں کہ اقلیتوں کی فقہ بھی فقہ ہی کی ایک قسم ہے، مصنف کا ماننا ہے کہ چونکہ مغرب ہر معاملے میں اس وقت دنیا کو کنٹرول کر رہا ہے لہذا مسلمان مغرب کو چھوڑ نہیں سکتے۔ مصنف نے اس باب میں فقہ الاقلیات کے اہداف، خصوصیات، مصادر پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ مصنف امت مسلمہ کو مخصوص فقہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں: "دار الاسلام سے باہر اور مسلم معاشرہ سے دور رہائش پذیر ان مسلم اقلیتوں کو ایک ایسی مخصوص فقہ کی ضرورت ہے جو نہایت مناسب شرعی اجتہاد کی بنیاد پر قائم ہو، اور جو ان اقلیتوں کے زمان ومکان نیز مخصوص حالات کی رعایت کرے، اور اس بات کا لحاظ کرے کہ یہ مسلم اقلیتیں اپنے معاشرہ پر اپنی شریعت کے احکام نافذ کرنے کی قدرت نہیں رکھتی ہیں، اور اپنے معاشرہ کے نظاموں وقوانین کی رعایت کرنا ان کی مجبوری ہے، ان میں سے کچھ شریعت اسلامی کے مخالف بھی ہیں۔ ” (صفحہ 43)

کتاب کے تیسرے باب "فقہ الاقلیات کی بنیادیں” میں مصنف کہتے ہیں کہ فقہ اقلیات کی ضرورت مکمل فقہ اسلامی کو ہے لیکن فقہ اقلیات کو ان بنیادوں کی رعایت فقہ کی دیگر قسموں کے مقابلہ میں زیادہ کرنی چاہیے، اس باب میں وہ اجتہاد کی تاریخ بیان کرتے ہیں۔ اس باب میں مصنف نے کلی فقہی قوائد کی رعایت کے تحت عملی مثالوں سے سمجھایا ہے، مصنف کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس فقہ کے لیے مسائل کا صیح فہم ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح علامہ کا ماننا ہے کہ افراد سے زیادہ مسلم جماعت کے مصالح کا خیال رکھنا چاہیے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ صحابہ اور ان کے بعد کی نسل کے فقہاء آسان راہ اختیار کرنے کی طرف زیادہ میلان رکھتے تھے بعد میں احتیاط کی وجہ سے سختی آگئی مصنف کہتے ہیں کہ فقہ اقلیات کی بنیاد تیسیر کا منہج اختیار کرنا ہے، امام سفیان ثوری کا ایک قول ہے: "حقیقی فقہ تو یہ ہے کہ کوئی معتبر عالم رخصت کا فتویٰ دے، ورنہ تشدید کی تحسین تو سب کس و ناکس کرتے ہی ہیں۔ لکھتے ہیں:”۔ یعنی صحابہ اور ان کے بعد کی نسل کے فقہاء آسان راہ اختیار کرنے کی طرف زیادہ میلان رکھتے تھے لیکن ان کے بعد کے لوگوں کا رجحان زیادہ احتیاط والی رائے کو اختیار کرنے کی جانب تھا ، اور جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا گیا احتیاط پر مبنی فتووں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا، احتیاط پر مبنی ان فتووں کی تعداد اتنی بڑھی کہ انہوں نے ان ” طوقوں اور بیڑیوں کی صورت اختیار کر لی،جن سے انسانوں کو نجات دلانے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی تھی اور وہ( رسول) لوگوں کو ان کے طوقوں اور بیڑیوں سے نجات دلاتے ہیں۔ (سورہ اعراف 157؛ صفحہ 69)

اگرچہ تدریج کا قانون اسلام کی بنیاد ہے لیکن فقہ اقلیات میں تدریجی اصول کو کافی اہمیت ہے، مصنف لکھتے ہیں کہ فقہ اقلیات کی بنیاد میں انسانی حاجات و ضروریات کا اعتراف کرنا لازمی ہے؛ لکھتے ہیں: "فقہ الا قلیات جن بنیادوں پر قائم ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کے مسائل پر حقیقت پسندی کی نگاہ سے غور و فکر کیا جائے ، ایسی مثال ( آئیڈیل ) صورت حال کا خواب نہ دیکھا جائے جو فضا میں ہو اور جس کا حصول انسانوں کے بس میں نہ ہو۔ حقیقت پسندی کے ساتھ کیا گیا غور و فکر مزاج شریعت سے ہم آہنگ ہے کہ یہ شریعت بلا شبہ ایک حقیقت پسند شریعت ہے۔ "(صفحہ 79) اسی طرح مسلکی تعصب کو ترک کرنا لازمی ہے۔

کتاب کے چوتھے باب "عقائد و عبادات سے متعلق فقہ اقلیات کی چند تطبیقات” میں مصنف نے پانچ مسائل: 1۔ کیا ادیان کے درمیان تقریب جائز ہے؟ 2۔ زوال شمس سے پہلے یا عصر کے وقت جمعہ کی نماز۔ 3۔ بعض ممالک کے موسم گرما میں مغرب و عشاء کے درمیان نمازیں جمع کرنا۔ 4۔ اموال زکواۃ سے اسلامی اداروں کی تعمیر۔ 5۔ عیسائیوں کے قبرستان میں مسلمانوں کی تدفین پر فقہی بحث کی ہے جن کا تعلق عقائد و عبادات سے ہے؛ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس باب میں مصنف نے قرآن، احادیث، فقہاء کرام کی آراء سے استفادہ کرتے ہوئے فتوے دیے ہیں۔ مصنف کی کوشش ہے کہ اجتہاد بھی ہو اور ساتھ ہی قاری بھی مطمئن ہوجائے۔

کتاب کے پانچویں باب ‘عائلی قوانین’ کی بابت فقہ الاقلیات پر بحث کی ہے۔ مسلمان جہاں اقلیت میں رہتے ہیں وہاں بین مذاہب شادی بیاہ کے مسائل ہو جاتے ہیں۔ اس باب میں علامہ یوسف القرضاوی نے کمیونسٹ مرد سے شادی، غیر مسلم خاتون سے شادی پر سیر حاصل فقہی بحث کی ہے۔ اس باب میں مصنف نے اگر بیوی اسلام قبول کریں تو کیا زوجین کے درمیان تفریق کی جائے گی؟ پر بہترین بحث کی ہے، چونکہ ان ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہے وہاں اکثر قبول اسلام کے واقعات ہوتے ہیں؛ ایسے میں اگر غیر مسلم میاں بیوی میں ایک اسلام قبول کرے تو کیا فوراً نکاح فسق کیا جائے؟ اس مسئلہ پر مصنف نے طویل بحث کی ہے، مختلف فقہاء کرام کے آرا کا جائزہ لیا ہے۔ اس طرح اس باب میں مصنف نے کیا مسلمان کافر کا وارث ہو سکتا ہے پر بھی بہترین بحث کی ہے۔

وہ ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور کھانے پینے کے بارے میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ انسان کیا استعمال کریں اور کیا نہ کریں پر مصنف نے چھٹے باب میں بہتر فقہی  رہنمائی فرمائی ہے۔ عام طور پر جو سرکہ ان علاقوں میں ملتا ہے تو یہ تشویش رہتی ہے کہ کہیں یہ شراب سے تو نہیں بنائی گئی ہے۔ مصنف نے اس حوالے سے تفصیلی بحث کی ہے۔ اسی طرح اس باب میں مصنف نے خنزیر سے بنائے گئے انزائمس کا کیس حکم ہے پر بھی اپنی رائے پیش کی ہے۔

انسان کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے معاشرہ سے جڑا ہوا ہو، اس کے سماجی تعلقات اور معاملات ہوتے ہیں۔ مصنف نے کتاب کے ساتویں باب میں اقلیتوں کے سماجی معاملات و تعلقات کا جائزہ لیا ہے، جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں وہاں غیر مسلموں کے تہوار کے موقع پر ان کو کیا مبارکباد دے سکتے ہیں؛ پر مصنف نے روشنی ڈالی ہے، اسی طرح غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ مسلمانوں کا کیسا رویہ ہونا چاہیے؛ پر بھی فقہی بحث کی گئی ہے، ازاں جملہ کیا مغربی ممالک میں بنکوں کی مدد سے رہائشی گھر بنا سکتے ہیں؟ پر 55 صفحات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ یہاں مصنف نے علامہ مصطفی زرقا، حنفی مسلک کے ائمہ، ڈاکٹر نزیہ حماد، المجلس الاوربی للافتاوی والبحوث کا فتوی اور رابطہ علماء الشریعہ (امریکا) کے استدلال کا بھی جائزہ پیش کیا ہے، یہ قیمتی بحث ہے اور آج کل معاشرہ میں اکثریت کو اس مسئلہ کی ضرورت پڑتی ہے۔

علامہ یوسف القرضاوی کی خاص بات یہ ہے کہ وہ ان پریٹکل مسائل پر لکھتے ہیں جن سے امت مسلمہ کو سابقہ پیش آتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ان کے اندر جہاں اجتہادی بصیرت رکھی تھی وہیں وہ اسلاف سے کبھی کٹتے نہیں ہے۔

وہ پہلے قرآن و حدیث سے استدلال لاتے  ہیں پھر فقہاء کرام کی رائے کا جائزہ پیش کرتے ہیں؛ بعد ازاں اپنی رائے دیتے ہیں اہل کتاب کے تہواروں پر انہوں مبارکباد دینے کے بارے میں وہ پہلے قرآن و سنت اور آثار صحابہ پیش کرنے کے بعد اپنی رائے اس طرح پیش کرتے ہیں :”اس ساری بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کے تیوہاروں پر انہیں مسلمان فرد یا اسلامی اداروں کے زبانی طور پر اور تہنیتی کارڈس (Greeting Cards) کے ذریعہ مبارک باد دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ اس میں اسلامی بنیادی تعلیمات ہے متصادم غیر مسلموں کا کوئی شعار یا ان کی کوئی دینی عبارت جیسے صلیب استعمال نہ کی گئی ہو، اس لئے کہ اسلام صلیب بافت کے تصور کو ہی بے جا کہتا ہے، {وما قتلوه وما صلبوه ولكن شبه لهم} [نساء: ۱۵۷] (ته ان لوگوں نے عیسی کو قتل کیا اور نہ ہی انہیں سولی دی، بلکہ انہیں اشتباہ ہو گیا ) ان تیوہاروں پر جو کلمات تہنیت عام طور پر استعمال کئے جاتے ہیں ان میں عیسائیوں کے  دین کو معتبر قرار نہیں دیا جاتا ہے، یہ تو بس خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنے کے چند کلمات ہیں۔ ان غیر مسلموں سے ہدایا قبول کرنے اور انہیں بھی تحائف دینے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے مصر کے حکمراں مقوقس اور دیگر غیر مسلموں کے ہدایا قبول کئے  ہیں، لیکن ہاں ان ہدایا کی بابت یہ شرط ہے کہ یہ شراب وخنزیر کے گوشت جیسی کوئی ایسی چیز نہ ہوں جانے جو مسلمانوں کے لئے حرام ہو۔ ” (صفحہ 214)

ان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ ضرورت پڑنے کے موقع پر اپنی رائے بھی تبدیل کرتے تھے، مغربی ممالک میں بنکوں کی مدد سے رہائشی گھروں کی خریداری میں لکھتے ہیں: "میں یہاں پر یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ تقریباً بیس سال تک اس مسئلے میں میری رائے شدید درجہ کی ممانعت اور حرمت کی رہی، نیز جواز کے قائلین پر میں رد کرتا رہا۔ ” (صفحہ 223) علم ہونے پر اپنی رائے سے رجوع کرنا بڑے علماء کا وطیرہ رہا ہے اور علامہ یوسف القرضاوی ان میں شامل ہے۔

رب العزت جزائے خیر عطا فرمائے برادر الیاس نعمانی کو جنہوں نے اس اہم ترین کتاب کو اردو کا قالب دیا،ترجمہ اس قدر خوبصورت ہے کہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ترجمہ کیا گیا۔ برادر شہود صاحب کا اردو داں طبقہ مشکور ہے کہ انہوں نے اس علمی اور عملی کتاب کو معیاری انداز پر اپنے ادارہ ‘پاریکھ بک ڈیپو’ سے شائع کیا۔ امید کرتے ہیں کہ علامہ یوسف القرضاوی کی وہ کتابیں جو انہوں نے آخری دور میں لکھی ہیں؛ سے بھی اردو قارئین کو نوازتے رہیں گے۔ زیر تبصرہ کتاب کی قیمت 350 بھی مناسب ہے۔ امید ہے یہ کتاب اردو داں طبقہ کو سوچنے؛ سمجھنے کی نئی جہت دے گی۔

مبصّر سے رابطہ : 9906653927

تبصرے بند ہیں۔