لایموت: ایک تعارف

سہیل بشیر کار

دنیائے اردو کے دانشور صحافی محمد طفیل (مدیر ‘نقوش’) خود نوشت کے بارے میں لکھتے ہیں : "کسی انسان کی زندگی کے تجربات، مشاہدات، محسوسات، نظریات اور عقائد کی ایک مربوط داستان ہوتی ہے۔ جو خود اس نے بے کم و کاست اور راست قلم بند کر دی ہو جسے پڑھ کر اس کی زندگی کے نشیب و فراز معلوم ہوں ؛ اس کے نہاں خانوں کے پر دے اُٹھ جائیں اور ہم اس کی خارجی زندگی کے سوا اس کی داخلی کیفیات کے حجرے میں بھی جھانک کر دیکھ سکیں۔ آپ بیتی لکھنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ دنیا کے عظیم انسانوں نے اب بیتی لکھی۔ آپ بیتی لکھنے والے اپنے حالات اور دل چسپ واقعات کے تانے بانے میں تأثرات گوندھ کر خود نوشت کامواد تیارکرتے ہیں ،گویاکہ آپ بیتی میں نہ قصہ کہانی کاذکر ہوتاہے اور نہ ہی فرضی واقعات کابیان ممکن ہے۔

اسےہندوستانی مسلمانوں پر گزرے حالات پر مصنف کے جذبات و احساسات کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے۔ کتاب کا انداز کچھ اس قسم کا ہے کہ مصنف کے قریب کچھ مضطرب انسان ہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ ہندوستان میں مختلف مظالم کا شکار ہوئے ہیں ، اور الگ الگ حوالوں سے گفتگو کے دوران اپنے کرب کو بیان کرتے ہیں یعنی مصنف نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے مختلف کرداروں کا سہارا لیا ہے۔ "اردو میں بھی بہت سے افراد نے اپنی اپنی اب بیتی لکھی ہے۔ 417 صفحات پر مشتمل زیر تبصرہ کتاب "لا یموت” دراصل راشد شاذ صاحب کی آپ بیتی ہے۔ اس کی اہمیت اس وجہ سے بڑھ جاتی ہے کہ پروفیسر صاحب جہاں ایک طرف دانشور ہیں ؛ وہی امت مسلمہ خصوصاً ملت اسلامیانِ ہند کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی اس کا انداز بیان ہے۔ انداز بیان موثر اور رواں ہے۔ کتاب قاری پر سحر طاری کردیتی ہے۔ مظلومین کے کرب کو اس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ قاری خود اس درد کی کسک کو محسوس کرنے لگتا ہے اور یہ اسے اپنی آب بیتی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں : "بات یہ ہے کہ یہودیوں کا ہولو کاسٹ، سیاہ فام غلاموں کا ڈی ہیومنائزیشن ، نو آبادیاتی استعمار کے ہاتھوں مقامی آبادی کی نسل کشی جیسے واقعات کا تعلق ایک محسوس عمل سے تھا۔ لوگوں کے لیے ان مظالم سے آگہی کچھ زیادہ مشکل نہ تھی لیکن آزاد ہندوستان میں مسلمانوں پر جو گزر رہی تھی؛ اس کا حقیقی احساس و ادراک ہمارے کبار زعماء کو بھی کم ہی تھا۔ ان کا جسم تو جیل کی سلاخوں سے باہر تھا، لیکن ان کے دل و دماغ میں اہنی سلاخیں کچھ اس انداز سے آگ آئی تھیں کہ اب ان کے لیے خود اپنی حقیقی قدرو قیمت کا ادراک مشکل ہو کر رہ گیا تھا۔ بظاہر ان کے پیر زنجیروں سے آزاد تھے، لیکن فی الواقع انھیں اپنی زنجیروں سے پیار تھا۔ وہ ایک مجبور و بے بس اور مقہور اقلیت میں تبدیل ہو چکے تھے اور انھیں اپنی اسی حیثیت کے برقرار رکھنے پر اصرار بھی تھا۔ ایک دن اپنے مشفق استاذ سیدی وقارحسین صاحب مرحوم کی مجلس میں بیٹھا تھا، کہنے لگے: ہمارے ہاں یہ جو تعذیب کا انداز ہے ، شکست وریخت کا داخلی عمل ہے، اس پر خود تعذیب کے ماروں کو بھی پتا نہیں چلتا کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے، پھر بھلا دوسروں کو اس حادثہ فاجعہ کی اطلاع کیسے ہو”مصنف نے کتاب میں بہت سے فسادات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے آسام کے نیلی، بہار کے بھاگلپور، یو پی کے مرادآباد اور میرٹھ کے خونین مسلم کش فسادات سے پیدا شدہ صورتحال پر بحث کی ہے۔

اپنی اس آدھی خودنوشت کو مصنف نے 54 ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ کتاب کے پہلے چند ابواب  میں اپنے بچپن کے جو واقعات لکھے ہیں ؛ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو بچپن میں ہی مختلف طرح کے افراد سے سابقہ پیش آیا،جہاں انہوں نے اس وقت کی بہترین عکاسی کی ہے؛ وہی یہ بھی قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کو کس طرح کا کمپوزڑ کلچر ملا۔ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مصنف چھوٹے  تھے؛ اسی زمانے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول تیار ہورہا تھا۔

پروفیسر راشد شاذ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ‘مرکز فروغِ تعلیم و ثقافت مسلمانانِ ہند’ میں پروفیسر اور نئی دہلی میں واقعہ ایک غیرمنفعتی ادارہ ‘پیس انڈیا انٹرنیشنل’ کے سربراہ ہیں۔ مختلف اقوام و ملل کے مابین افہام و تفہیم کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے عالمی ادارہ ‘ایس یس کیو’ نے انہیں اپنا سفیر بھی متعین کر رکھا ہے۔ فاضل مصنف فکرِ اسلامی پر اپنی فکر انگیز تحریروں کے حوالے سے دُنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ ایک عرصے سے مختلف زبانوں میں ان کی کتابوں کے ترجمے عالمِ عرب اورعالمِ غرب کے مختلف شہروں سے شائع ہوتے رہے ہیں ، ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو مصائب کا شکار رہے ہیں۔ وہ بھی جو عبادات میں ہمشہ لگے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی مختلف طرح کی کتابوں سے واسطہ بھی پڑا ہے۔ موصوف اپنے والد کے مزاج کے متعلق لکھتے ہیں : "ابا کی زندگی میں ویسے تو عقلی رویے کو بڑا دخل تھا لیکن ان کے اکثر فیصلے وجدان اور اشاروں کے تابع ہوتے، ان کے ہاں عقل اور وجدان ایک دوسرے کے مخالف نہ تھے بلکہ باہم ایک دوسرے کی تکمیل کرتے تھے۔ ” (صفحہ 19)

چھٹے اور ساتویں باب میں ملت اسلامیہ ہند کے سنجیدہ افراد پر سانحہ سقوط ڈھاکہ کا خوبصورتی سے نقشہ کھینچا ہے۔ ان موضوعات کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ امت مسلمہ جسد واحدہ ہے۔ مصنف نے اپنے والد محترم کے حوالے سے کتاب میں اندرا گاندھی کے دور میں ایمرجنسی کے دوران مسلمانوں پر ظلم عظیم کا تذکرہ تفصیل سے کیا ہے۔ ایمرجینسی میں گرفتار شدہ افراد کے اہل خانہ کی حالتِ زار کو نہایت ہی بہترین طریقے سے پیش کیا ہے۔ مصنف نے جگہ جگہ اندرا گاندھی کے ان تقایر کا حوالہ دیا ہے جس میں وہ بار بار کہتی ہے ککہ ہندوستان کو ہزاروں سالوں کی غلامی سے نجات ملی اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کے نزدیک مسلم دور حکومت بھی دور غلامی تھا۔ اندرا جی کی ان تقایر کے سماجی و سیاسی اثرات کا  ہونا یقینی تھا؛ جگہ جگہ مسلم کش فسادات پھوٹے۔ شاذ صاحب نے ان فسادات کا ذکر جگہ جگہ کیا ہے؛ جیسے میڑھ کا مسلم کش فساد، احمد آباد کا فساد۔

کتاب سے اس بات کا عندیہ بھی ملتا ہے کہ  کانگرس جو کہ خود کو سیکولر پارٹی کے زمرے میں رکھتی ہے؛ اصل میں برہمنوں کی پارٹی ہے۔ انہوں نے مولانا آزاد کی درگت کرکے ان کو بے دست و پا بنایا، باقی جن مسلمانوں کو کرسی دی وہ دراصل خادم تھے؛ چاہے وہ مولانا حضرات ہوں  یا سوٹ ٹائے پہنے ہوئے "دانشور”۔

مصنف نے کتاب میں ان نام نہاد علماء پر تنقید کی ہے جو صرف اپنے حقیر مفادات کے لیے امت مسلمہ کے امنگوں کا سودا کرتے ہیں ؛ لکھتے ہیں :”یہی تو سب سے بڑا سانحہ ہے، والد صاحب نے اپنے کرب کا اظہار کیا۔ بولے: ان مولوی نما سیاست دانوں کی شکل وصورت پر نہ جائیے ، ان کے نماز و روزے سے دھو کہ نہ کھائیے ، یہ دراصل ظالم کانگریسی آقاؤں کے سیارچے ہیں جو عین مسلم معاشرے کے مدار میں اس اذیت ناک صورت حال کو برقرار رکھنے کی مہم میں مصروف ہیں۔ حالات خواہ کیسے بھی نا گفتہ یہ ہوں۔ کانگریس سے ان کی وفاداری پر کوئی حرف نہیں آئے گا، یہ ایک عجیب مکروہ طلسم ہے۔ ایک طرف سنگھی ذہنیت کی ریشہ دوانیاں اور دوسری طرف سنگھی کا نگریسیوں کی مسلم نسل کشی کا منظم منصوبہ۔ مولوی پہلے کو دشمن اور دوسرے کو دوست بناتا ہے۔ "(صفحہ 29)

مصنف نے امت مسلمہ میں پائی جانے والی لاعلمی اور اس کے نتیجے میں ان کے استحصال کی تصویر نہایت ہی بہترین طریقے سے کھینچی ہے؛ لکھتے ہیں :”ایک صاحب جو خاصی دیر سے کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھے، ان سے رہا نہ گیا، بولے: ارے بھئی بڑا مقام ہے منت اللہ رحمانی صاحب کا ، ہمارے ہاں پورنیہ کے علاقہ میں تو ان کا ایسا سکہ چلتا ہے کہ ایک بار جب وہ وہاں تشریف لے گئے تھے تو حضرت سے پانی پر دم کرانے والوں کا تانتا بندھ گیا، کچھ دیر تو آپ برتنوں اور بوتلوں پر پھونکتے رہے پھر خلقت کا بڑھتا اژ دہام دیکھ کر ایک گلاس پر پھونک ماری اور فرمایا کہ اس گلاس کو ٹیوب ویل میں الٹ دیا جائے۔ اب شام تک لوگ اس نل سے حضرت کا برکت شدہ پانی بھربھر کر لے جاتے رہے۔ اتنے بڑے اہل دل کے بارے میں بھی اگر آپ شبہات وارد کریں گے تو عام مسلمان رشد و ہدایت کے لیے پھر کس کی طرف دیکھیں گے۔ ” (صفحہ 99)

پھر عام مسلمانوں کی تعریف یوں کرتے ہیں : "یہ سن کر بزرگ کو غصہ آگیا، انھوں نے جلال میں اپنی لاٹھی زمین پر پٹخی ، بولے: ارے بھئی بزرگی پانی پھونکنے اور مرید بنانے کا نام نہیں ، اصل بزرگی تو یہ ہے کہ آپ ظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا یارا رکھتے ہوں ، آپ کے اندر بلاخوف لومة لائم کلمہ حق کہنے کی جرات ہو، اب دیکھئے نا ملک بھر میں مسلمانوں کی جبر انس بندی ہو رہی ہے، انھیں ان کے گھروں سے نکالا جارہا ہے، پولیس جب چاہتی ہے مسلمانوں پر بندوق کے دہانے کھول دیتی ہے لیکن سیاسی مسلمان ہوں یا کانگریسی علماء کہیں سے مخالفت میں کوئی آوار نہیں اٹھتی۔ دو بڑی خانقا ہیں تو اس بہار میں ہیں ، مجیبیہ پٹنہ اور رحمانیہ مونگیر، یہاں سے کوئی آواز نہیں اٹھتی بلکہ مسلمانوں کے بڑے علما، خواہ وہ دیوبند یا ندوہ سے وابستہ ہوں یا جمعیتہ علماء جیسی تنظیموں سے، کسی کی مجال نہیں کہ اندرا گاندھی کے اس صریح ظلم کے خلاف ایک لفظ کہہ سکے۔ میرے خیال میں اصل اصحاب عزیمت تو یہ غریب مسلمان ہیں جو خاندانی منصوبہ بندی کے اس پروگرام کی مخالفت میں سڑکوں پر اترے اور دینی فریضہ کے طور پر اپنی اگلی نسلوں کی حفاظت کے لیے پولیس کی گولیاں کھانا قبول کیا، یہاں تک کہ شہادت سے سرفراز ہوئے۔ ” (صفحہ 100)

کتاب کے پندرھویں ؛ سولہویں اور سترہویں باب میں مصنف نے ایرانی انقلاب پر مسلم علماء خاص کر مولانا ابو الحسن ندوی اور مولانا منظور نعمانی کے منفی رویہ کی نشاندہی کی ہے،اس باب میں شیعہ کے ہاں کے سفر کی روداد بیان کی گئی ہے۔ آیت اللہ خمینی کے حوالے سے لکھتے ہیں : "ایک بات جو بڑی امید افزا ہے وہ یہ ہے کہ خمینی کی تحریروں میں مسلسل ایک ارتقا دکھائی دیتا ہے۔ ‘کشف الاسرار’ جو ان کی ابتدائی تصنیف ہے اس میں وہ شہنشاہیت کے لیے گنجائش پیدا کرتے ہیں ، لیکن اسلامی حکومت میں جو انقلاب سے چند سال پہلے کی تصنیف ہے؛ وہ ولایت فقیہ کا تصور پیش کرتے ہیں۔ آگے چل کر مستضعفین کی اصطلاح ان کے ہاں انقلاب کا حوالہ اور جواز بن جاتی۔ ان باتوں سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ عام روایتی شیعہ علماء کے برعکس مسلسل راستے کی تلاش میں ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ امام غائب کے ظہور میں محض انتظار کرنے کے بجائے انھوں نے پوری شیعہ قوم کو تنظیم و تطہیر  کی دعوت دی ہے تا کہ اس عقیدے کے مطابق جب امام آئیں تو اپنے متبعین کو بہتر اور منظم شکل میں پائیں۔ ” (صفحہ 137)شیعوں کے فکری رہنما ڈاکٹر علی شریعتی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ تقلیب فکری کی وجہ سے شیعیت رسوم میں قید ہوئی جس کی وجہ سے شیعیت، شہادت کے بجائے ماتم کا دین بن گیا۔ (صفحہ 143)

کتاب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آیت اللہ خامنائی نے سید قطب کی دو کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ سنی دنیا پر ایرانی انقلاب کے اثرات بیان کیے گئے ہیں۔ مصنف نے اپنے علی گڑھ کے قیام کے دوران وہاں کے ماحول کی بہترین عکاسی کی ہے، مولانا ابو الحسن سے اپنے تعلقات اور ملت اسلامیہ کی قیادت کا نقشہ کھینچا ہے۔ جہاں ان کی سادگی اور خلوص کی تعریف کی ہے؛ وہیں یہ بھی لکھا ہے: "بورڈ کی میٹنگ میں شرکت کے بعد مجھے اس بات کا شدید احساس ہوا کہ ہم جسے مسلمانوں کی اجتماعی ملی قیادت سمجھتے ہیں اس کی حقیقت ایک سراب اور واہمہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ بیشتر قائدین نے اپنی اپنی خانقاہوں ، تکیوں ، اداروں ، انجمنوں اور مدرسوں میں انتظام و انصرام کی کمان سنبھال رکھی ہے۔ ان کی گونا گوں تنظیمی اور سماجی مصروفیات اس بات کی اجازت ہی کب دیتی ہیں کہ وہ امت کے مسائل کا با قاعدہ تحلیل و تجزیہ اور مستقبل کے لیے کوئی مؤثر پلاننگ کر سکیں۔ اور پھر کسی ایسی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی ملک گیر تنظیمی ڈھانچہ بھی تو نہیں۔ اپنی موجودہ صورت حال میں یہ حضرات زیادہ سے زیادہ یہی تو کر سکتے ہیں کہ کسی ہنگامی صورت حال پر کوئی میٹنگ طلب کر لیں۔ پھر قرار داد، میمورنڈم، اخباری بیانات اور زیادہ سے زیادہ وزیراعظم سے بالمشافہ ملاقات کے ذریعہ انھیں اپنے موقف سے آگاہ کر دیں۔ مگر عوام تو ان حضرات کی طرف بڑی پُر امید نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ وہ ان کی ایک اپیل پر بڑے بڑے اجلاس کے لیے وسائل کا انبار لگادیتی ہے۔ اسے دین کے نام پر خرچ کرنے کا جو تصور عطا کیا گیا ہے اس کی پوری پاسداری کرتے ہوئے وہ مسجدوں اور مدرسوں کو دل کھول کر چندہ دیتی ہے۔ زکوۃ وصدقات کی رقمیں اور قربانی کی کھالیں خوشی خوشی مولویوں کے حوالے کر دیتی ہے۔ بورڈ کی ایک آواز پر شریعت کے تحفظ کے لیے عامتہ الناس کے غول کے غول سڑکوں پر نکل پڑتے ہیں۔ عام لوگ تو اسی تاثر کے ساتھ جیتے ہیں کہ ایک بیدار مغز، بے لوث اور صالح قیادت ہمارے جملہ امور پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ کاش کہ انھیں پتہ ہوتا کہ عدیم الفرصت مسلم قائدین اس کارواں کے پیش نظر مروجہ نظام (status quo) کو برقرار رکھنے کے علاوہ سرے سے کسی منصوبہ کا کوئی وجود ہی نہیں۔ ” (صفحہ 253) یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مصنف کو اس وقت ایک متحرک قائد کے بطور دیکھتی تھی،ان کے اپنے قائدانہ کردار پر بھی وہ اگر بات کرتے تو مناسب رہتا۔

البتہ راقم کا ماننا ہے کہ ملت اسلامیہ ہند کی قیادت کی کمزوریوں کے باوجود اگر دیکھا جائے تو یہی قیادت تھی جنہوں نے مسسلمانانِ ہند کے حقوق کے لیے دفاع کیا؛ وہ بھی ان ناگفتہ بہہ حالات میں۔ تینتیسویں اور چونتیسویں باب میں مصنف نے افغان اور بوسنیا جنگ کا نقشہ کھینچا ہے، یہ دونوں ابواب مسلمانوں کی احیاء کی تحریکوں کے لیے نہایت ہی اہم ہے۔ عام طور پر بابری مسجد اور دیگر مسلمانوں کی تاریخی عمارتوں کو ہم عام عمارتیں سمجھتے ہیں لیکن ان عمارتوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے، مصنف نے بابری مسجد اور دیگر مسلم عمارتوں پر قیمتی نکات پیش کیے ہیں۔ کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کی کتاب ‘غلبہ اسلام’ کو زبردست پزیرائی ملی۔ ہر حلقہ میں یہ کتاب زیربحث رہی لیکن راقم کا ماننا ہے کہ اس کتاب کے معاشرہ پر کم اثرات پڑے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ مولانا مودودی کی ابتدائی تحریروں میں پیغمبرانہ بصیرت تھی لیکن بعد کی تحریروں میں اس چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ یہ بات وضاحت طلب ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ پیغمبرانہ بصیرت کیا ہوتی ہے اور اس سلسلے میں کس کی تعبیر درست مانی جائے؟

مصنف نے کئی ممالک جن میں شرق اور غرب شامل ہیں ؛ کا دورہ کیا ہے۔ اگر ان ممالک کی روداد بھی مختصر آتی تو وہاں کے کلچر، تہذیب، تمدن وغیرہ کے بارے میں قاری کو معلومات ملتی۔

کتاب میں خوبصورت عبارتیں بھی ملتی ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں : "کلمہ حق کہنا آسان نہیں ہوتا۔ خاص طور پر اپنی قوم کے خلاف زبان کھولنا جو آپ کو کاندھوں پر اٹھائے پھرتی ہو۔ کلمہ حق کہنے والے لوگ حاشیہ پر چلے جاتے ہیں۔ جولوگ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلتے ہیں وہی اعزاز واکرام سے نوازے جاتے ہیں۔ ایسا ہر قوم اور ہر زمانے میں ہوتا آیا ہے۔ یہ بڑے بڑے نام جو تم دیکھتے ہوجن کی تو قیر میں لوگ پلکیں بچھاتے ہیں ، حکومتیں ان کی پشت پناہی کرتی ہیں تو اس کا سبب بھی یہی ہوتا ہے کہ یہ حضرات دانستا پورا سچ نہیں بولتے۔ اور سچ جب تک کامل نہ ہو، اسے بلا خوف لومتہ لائم

نہ بولا جائے، اس پر جھوٹ کا شائبہ ہوتا رہتا ہے۔ "(صفحہ 371) ایک جگہ اور لکھتے ہیں :” خدا سے مجھے بہت شکایت تھی مگر میں جاتا کہاں۔ میں اس کھونٹے سے جتنا بھی اپنا پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا مجھے ایسا لگتا جیسے میری ڈور مزید اس کھونٹے میں الجھتی جارہی ہو۔ مجھے ایسا لگتا کہ جو خدا میرے ذاتی معاملات میں میری انگلی پکڑے لئے چلتا ہے، وہی خدا قومی اور ملی معاملات میں میری باتوں کی سنی ان سنی کر دیتا ہے۔ مگر کرتا بھی کیا میرے پاس کوئی اور دوسرا کھونٹا بھی تو نہ تھا جہاں اپنا سر ٹکاتا۔ سو کبھی رات کی تنہائی میں ٹمٹماتی شمع کی پر اسرار روشنی میں الحاح و زاری کرتا اور کبھی اور ادو وظائف کی زنبیل سے کسی نئے فارمولے کی تلاش میں رہتا۔ ایک عرصہ اسی اضطراب میں گزرا۔ کبھی درختوں کے نیچے قیام نیم شبی کو آزمایا اور کبھی روحانی ارتکاز میں مخل ہونے والی بجلی کی روشنی کے تمام تار کاٹ ڈالے مبادا اس زاہد شب بیدار کے مصلے سے روشنی کا کوئی روزن ملائے اعلیٰ میں کھلتا دکھائی دے۔ ان کوششوں سے ملائے اعلی میں کوئی ہلچل تو کیا پیدا ہوتی البتہ ہم غم کے مارے ہندوستانی مسلمانوں پر ایک نئی افتاد ٹوٹ پڑی۔ "(صفحہ 388)کتاب میں مصنف نے کئی الفاظ کی تشریح کی ہے۔ مداہنت کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :” جان بوجھ کر کلمہ حق سے اعراض کرنا، حقیقت پر پردہ ڈالنا۔ "(صفحہ 54)

 مصنف کتاب کا اختتام خوبصورتی سے اس طرح سے کرتے ہیں : "عرصہ بعد جب آکسیجن کی شدید قلت کے سبب ملک بھر میں کرونا وائرس کے مریضوں کی بے دریغ اموات ہو رہی تھیں ، لوگ آکسیجن سلنڈر کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے؛ اس وقت پریشاں حال لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے ایک معروف یوگ گرو نے کہا تھا کہ کون کہتا ہے ملک میں آکسیجن کی کمی ہے۔ فضا میں آکسیجن کی کوئی کمی نہیں۔ کمی تو آپ کے کمزور پھیپھڑے میں ہے جو فضا سے مناسب مقدار میں آکسیجن کشید نہیں کر پا رہا ہے۔ تب یہ سن کر مجھے ایسا لگا کہ لوگ گرو نے میری مشکل حل کر دی ہو۔ یہی تو وہ گھٹن ہے جس کے ہم ہندوستانی مسلمان عرصے سے شکار ہیں۔ گزشتہ تہتر چوہتر برسوں سے ہم کھل کر سانس نہیں لے پا رہے ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں آکسیجن کا بہاؤ روک لیتے ہیں اور ہم کسی ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگتے ہیں۔ ہمارے پھیپھڑوں میں اتنی قوت نہیں اور دستوری تحفظات ہمیں نشاط زندگی کا آکسیجن فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ ” (صفحہ 416)

زیر تبصرہ کتاب ‘لایموت’ کا مطالعہ کئی  سوالات کو جنم دیتی ہے۔ امید ہے کہ دوسری جلد؛ جس کا مصنف نے عندیہ دیا ہے اور نام ‘ ولا یحییٰ’ بھی تجویز کیا ہے؛ میں تشفی بخش جوابات ملیں گے۔ مصنف قائدانہ صلاحیتوں سے پُر ہیں  اور قائد کا کام ہوتا ہے قوم کو مایوسی سے نکلنے کی راہ بتانا۔ میرے مطالعہ کی حد تک ‘ لایموت’ میں مصنف اس سلسلے میں ناکام رہے ہیں۔ امید ہے ‘ولا یحییٰ’ میں ملت اسلامیہ ہند کو مایوسی سے نکلنے کا راستہ بھی تجویز کریں گے۔

 ایسی کتاب لکھنے کے لیے جرت اور ہمت کی ضرورت ہے۔ کتاب میں بہت سے علمی اشخاص، اداروں اور کتابوں کا تعارف ملتا ہے، کتاب پڑھ کر قاری کی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے، کتاب کے آخر میں انڈکس دیا گیا ہے جس سے قاری کو فائدہ ملتا ہے۔ کتاب کی طباعت کے بارے میں اتنا کافی ہے کہ کتاب کو ملی پبلیکیشنز نئی دہلی نے  حسب روایت اعلیٰ معیار پر چھاپا ہے اور کتاب کی قیمت 450 مناسب ہے۔ کتاب ملی پبلیکیشنز دہلی سے فون نمبر 9873414540  پر حاصل کی جاسکتی ہے۔

مبصّر سے رابطہ : 9906653927

6 تبصرے
  1. عمر فاروق کہتے ہیں

    جناب راشد شاز صاحب کی خود نوشت "لا یموت” تو دیکھی ہے مگر ابھی اس کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔سہیل صاحب نے اس پر تبصرہ کرکے اس کتاب کا خلاصہ ہمارے سامنے رکھ دیا،جس سے اصل کتاب کو پڑھنے کی تحریک ملی۔
    اس کے ساتھ ساتھ مبصر نے شاز صاحب پہ چند مقامات پر تنقید بھی کی ہے ،گویا اس سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ انہوں نے اس کتاب کا سرسری مطالعہ نہیں کیا ہے بلکہ اس کا خوب تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے۔

  2. شوکت شاہین کہتے ہیں

    خودنوشت عمومی طور خودنمائی کا مظہر ہوتی ہے۔ لیکن یہاں اپنی قوم کے درد کی عکاسی واضح ہے ۔
    مبصر نے واقعی طور پر اپنے تبصرے میں پوری کتاب کو سمیٹ کے رکھاہے اور زبردست تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ماشاءاللہ

    1. سہیل بشیر کار* کہتے ہیں

      شکریہ سر

  3. ڈاکٹر فاروق عادل کہتے ہیں

    بہت خوب صورت اور جامع تبصرہ ہے جس نے کتاب کے مطالعے کی تحریک پیدا کر دی ہے۔ تبصرے میں مسلم تحریکوں کا ذکر کثرت سے آیا جس سے کتاب کے موضوعات کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن جہاں مولانا مودودی علیہ رحمہ کا ذکر ہے، چونکا دیتا ہے ۔ تبصرہ نگار کے مطابق فاضل مصنف مولانا کی ابتدائی تحریروں میں پیغمبرانہ بصیرت کی نشان دہی کی ہے لیکن یہ بصیرت انھیں بعد کی کتب میں دکھائی نہیں دیتی۔ تبصرہ نگار اس کمنٹ پر تعجب کرتے ہیں اور سوال اٹھاتے ہیں کہ اسکاکیا مطلب ہے؟ ایک عام قاری کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فاضل مصنف نے مولانا کے ذکر کرتے ہوئے صرف یہی ایک آدھ جملہ تو نہیں لکھا ہو گا، کوئی دلیل پیش کی ہوگی اور کوئی مثال بھی نقل کی ہوگی۔ اگر سرسری انداز میں وہ ا س قسم کا تبصرہ کر کے آگے بڑھ گئے تو یہ بڑی حیرت کی بات ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ ایک اچھی کتاب پر خوب صورت تبصرہ ہے

    1. سہیل بشیر کار* کہتے ہیں

      بہت شکریہ محترم

  4. مبشرہ فردوس کہتے ہیں

    بہترین تبصرہ
    بہت پہلے آدھی کتاب پڑھ کر چھوڑ دیا تھا ۔۔۔آپ کا تبصرہ پڑھ کر تازہ ہوگئی اور ان شاءاللہ مکمل کر لیں گے ۔۔۔جزاک اللہ

تبصرے بند ہیں۔