مولانا محمد فاروق خاں: چند یادیں چند باتیں

 سہیل بشیر کار

سال 2011ء کو مولانا محمد فاروق خان صاحب ادارہ فلاح الدارین بارہمولہ کی دعوت پر وادی کشمیر تشریف لائے۔ ان کی آمد گرچہ دعوتی نوعیت کی تھی البتہ وادی کے چند خوبصورت مقامات کی بھی انہیں سیر کرائی گئی۔ یہاں کے قدرتی مناظر سے حظ اٹھاتے ہوئے؛ ایک دن وہ گویا ہوئے :

 ’’اللہ کے فضل سے وادی کشمیر کے سفر کا موقع حاصل ہوا۔ اس میں شبہہ نہیں کہ جن لوگوں نے کشمیر کو جنت نشاں کہا، انہوں نے مبالغہ سے کام نہیں لیا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر حسن و جمال کا سراپا پیکر معلوم ہوتا ہے۔ یہاں کی شامیں اور یہاں کی صبحیں ، یہاں کے سبزہ زار، یہاں کے درخت خاص طور سے چنار کے درخت دلوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں ۔ فطرت کا مطالبہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے رہنے والے اور یہاں بود و باش اختیار کرنے والے حسن اخلاق کے پیکر ہوں، ان کی زندگیاں وادی کے حسن و جمال سے ہم آہنگ ہوں۔‘‘

 میں دریائے جہلم کے کنارے تھا، وقت شام کا تھا، مغرب کی اذان کی آوازیں جب آنے لگیں تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے پیمانہ وادی سے سرور انگیز نغمہ چھلک رہا ہو، جس کے سامنے سارے جام و مینا پھیکے لگ رہے تھے۔ کاش حکمراں طبقہ بھی وادی کشمیر کی اہمیت و خصوصیت کو پوری طرح محسوس کرتا، اور عدل وحسن کے جو فطری تقاضے ہیں ان کی طرف توجہ دے سکتا۔ مجھے یہاں کے کالج میں بھی جانے کا اتفاق ہوا، اور طلبہ کو خطاب کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ ہندو اور مسلمانوں کے ملے جلے جلسے کو بھی خطاب کرنے کا موقع ملا۔ مساجد اور مجالس میں بھی لوگوں سے مخاطب ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ نوجوانوں کی دعوت پر ایک اجتماع میں شریک ہوا، اور وہاں ان کے صالح جذبات کو دیکھتے ہوئے ان پر یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی کہ راز حیات کیا ہے اور وہ خوئے دلبری کیا ہے جو اہل ایمان کو برتری اور امتیاز بخشتی ہے اور ان کی زندگیوں میں ایسی جاذبیت پیدا ہو جاتی ہے جس پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہاں کے لوگوں، خاص طور سے نوجوانوں سے مل کر ہمیں بے حد مسرت ہوئی کہ ان کے اندر دینی بیداری پائی جاتی ہے اور دینی جذبے سے وہ سرشار نظر آتے ہیں ، اور اس کے لیے بھی وہ کوشاں ہیں کہ یہ جذبہ سرد نہ ہو، بلکہ پروان چڑھے اور معاشرے میں ایک ایسی معتبر فضا قائم ہو جس میں لوگوں کے درمیان ہم آہنگی اور پیار ومحبت کی کارفرمائی ہو۔ نو جوانوں کو دیکھ کر ہم کو یہ سب کچھ ممکن نظر آیا، لیکن ضرورت صحیح رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہ بھی ایک اچھی علامت محسوس ہوئی کہ یہاں کے لوگوں میں خود داری پائی جاتی ہے اور مہمانوں کی مہمان نوازی سے انہیں روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے اور مہمانوں کی مدارات کو وہ اپنے لیے باعث شرف سمجھتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خیر کے بڑے سے بڑے کام وہ انجام دے سکتے ہیں۔ خدا کرے کہ مفسد عناصر سے ان کی توانائیاں اور ان کے جذباتِ نیک محفوظ رہیں۔‘‘

کشمیر کے بارے میں مختصر مگر جامع تبصرہ میں آپ نے یہاں کی تہذیب، تمدن، ثقافت اور حسن  کو عمدگی سے بیان کیا ہے۔ شعور کی آنکھ کھولتے ہی جن عظیم لوگوں سے متعارف ہوا، ان میں مولانا محمد فاروق خان صاحب شامل ہیں۔ مولانا محمد فاروق صاحب کا نام سنتے ہی ایک ایسی شخصیت کا خاکہ ذہن میں آتا تھا جو روحانیت کے اعلی مراتب پر فائز بھی ہیں اور ایک معتبر عالم دین بھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب قران کریم اور احادیث کے مطالعہ کرتے ہوئے کوئی اشکال ذہن میں آتا تو فوراً مولانا کو خط لکھتا، مولانا کی طرف سے ایک تفصیلی جواب ملتا جس میں آپ ایک ایک نقطے کو وضاحت سے بیان کرتے۔ مولانا کی اس دلنوازی کو دیکھ میں اکثر سوچتا تھا کہ اتنا عظیم عالم دین ایک معمولی طالب علم کے اشکالات دور کرنے میں اپنا کتنا وقت صرف کرتے ہیں۔یہ ان کی عظمت کا عندیہ ہے۔ مولانا کی جس خوبی سے میں سب سے زیادہ متاثر تھا وہ آپ کی  تحریر تھی، جو بیک وقت عقل و دل دونوں کو متاثر کرتی۔ آپ قاری کو آس پاس کی چیزوں سے گزارتے ہوئے اللہ کی حقانیت ظاہر کرتے ہیں۔

2011 میں ادارہ فلاح الدارین بارہمولہ کے ذمہ داران نے فیصلہ کیا کہ اس سال سالانہ کانفرنس اور دیگر پروگراموں کے لئے مولانا محمد فاروق خاں صاحب کو دعوت دی جائے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس سلسلے میں جب میں نے انہیں فون کیا تو آپ نے نہ صرف حامی بھر لی بلکہ خوشی کا اظہار بھی کیا۔ جب آپ کشمیر وارد ہوئے تو آپ نے کئی ایک خطاب کئے۔ سالانہ کانفرنس میں خطاب کیا۔غیر مسلموں کے ایک اجتماع سے بھی مخاطب ہوئے، کالج کے طلبہ اور طالبات کو بھی آپ نے ایڈرس کیا۔ درس قرآن اور درس حدیث کے پروگرام بھی کئے۔ ساتھ ہی کئی ایک ملاقاتیں بھی رہیں۔مولانا نے سالانہ کانفرنس کے موقعے پر ایک بڑے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’موت و حیات اور دنیا وآخرت، دوایسی چیزیں ہیں جو نوع انسانی کے لئے دی گئ تاکہ وہ اپنی حقیقی سرشت اور مقصدِ وجود کو سمجھ سکے۔ لیکن ہم اس دنیا کی سرگرمیوں میں اس قدر محو ہوجاتے ہیں کہ اپنی آخرت کو فراموش کر بیٹھتے ہیں، جو کہ ہماری حقیقی اور ابدی آماجگاہ ہے۔‘‘

مولانا نے مزید کہا :

’’ابن آدم کو تخلیق کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس دنیا اور دنیا کے خالق کے متعلق اپنے تعلق کو سمجھ جائے۔ لہٰذا ایک فردِ واحد اسی وقت کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے جب وہ اپنے مقصدِ وجود کو جان جائے اور ان ہدایات کے مطابق اپنی زندگی گزارے جن کا درس رسول رحمتﷺ نے پوری انسانیت کے سامنے پیش کیا۔‘‘

 آپ یہاں کشمیر میں انتہائی مصروف رہے۔ اس وقت مولانا کی عمر قریب 80 سال تھی؛ اس کے باوجود آپ کافی زیادہ متحرک رہے۔ جب کبھی تھکاوٹ محسوس ہوتی تو آپ کہتے مجھے سکون پہنچاؤ۔ ان کا اشارہ  کسی ایسی جگہ لے جانے کی طرف ہوتا جہاں وہ دو رکعت نماز ادا کرپاتے، نماز پڑھ کر آپ کے اندر عجیب سی کیفیت پیدا ہوتی یا یوں کہوں فرحت و نشاط کے احساسات سے لبریز ہوجاتے۔  مولانا کی نماز دیکھ کر مجھے احساس ہوتا کہ وہ اللہ کے حضور باتیں کر رہے ہیں، آپ واقعی اللہ سے سرگوشیاں کرتے تھے۔ آپ کے ٹانگوں میں درد تھا لیکن  آپ کرسی کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ قعدہ میں بیٹھنے میں دقت ہوتی, تب بھی قعدہ سنت کے مطابق کرتے اور نماز کے بعد تب تک مسلسل دوزانو بیٹھے رہتے جب تک اپنے ساتھ دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے افراد اپنی جگہ سے نہ ہل جاتے۔ ان کے سجدہ سے ایسا محسوس ہوتا کہ ایک ایک انگ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہے، مولانا جب کشمیر آئے تو یہاں کے حسن سے کافی متاثر ہوئے۔ اکثر کہتے بھائی کشمیر کو دیکھنے کے لیے کنواری آنکھیں چاہیے۔ مشہور سیاحتی مقام گلمرگ ہم انہیں گھمانے لے گئے؛ وہاں انہوں نے جنت کی خوبیاں بیان کی۔ مجھے یاد ہے کہ ان وادیوں کی تمثیل بیان کرتے ہوئے وہ کیسے جنت کا نظارہ پیش کرتے تھے۔ گلمرگ کے گنڈولہ (Cable Car) جو کہ دنیا بھر میں مشہور ہے، کی سیر کے لئے ہم مولانا کو لے گئے۔ پہلے Phase پر جب ہم پہنچے تو  کافی بھیڑ پائی۔ ایک لمبی قطار لگی تھی دوسرے Phase تک جانے کے لئے۔ میں اسی مخمصے میں تھا کہ مولانا کب تک اس قطار میں انتظار کرتے رہینگے کہ اچانک ایک شخص آیا اور اس نے ہمیں قطار سے باہر نکال کر سیدھے اسٹیشن کی طرف لے  جانے کے لئے اپنے ساتھ لے لیا۔ میں نے کہا میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔ انہوں نے کہا آپ بھی آجاؤ۔  میں نے مولانا سے کہا کہ روز قیامت جب سب لوگ کھڑے ہونگے تو اللہ کے مقرب فرشتے ایسے ہی آپ کو جنت کی طرف لے جائیں گے بنا انتظار کروائے۔ اس وقت بھی میں ساتھ ہونگا اور فرشتوں سے کہوں گا کہ میں بھی ساتھ ہوں اور مجھے بھی لے چلو۔ اس پر مولانا خوب ہنسے۔ مولانا فکر فراہی سے خوب متاثر تھے ہم جب کیبل کار میں تھے چاروں طرف خوبصورت نظارہ تھا۔ میں نے مولانا سے کہا ہم اس وقت گویا اصحاب اعراف میں سے ہیں۔ فکر فراہی کے حامل اعراف سے وہ مفہوم نہیں لیتے جو رائج ہے۔  اس وقت بھی مولانا خوب ہنسے۔ جب ہم afterwit پہنچے تو مجھے احساس ہوا کہ مولانا کو سہارے کی ضرورت ہے۔ مولانا کو میں نے سہارا دیا۔ تاہم سہارا دینے کے بعد میں نے کمر درد محسوس کیا۔ گلمرگ واپسی پر  میں نے مولانا سے کمر درد کی شکایت کی اور دعا کی درخواست بھی کی۔ مولانا نے کمر پر ہاتھ پھیرا۔ کسی آیت کا ورد کیا اور پھونک ماری۔ چند ہی منٹوں میں درد غائب ہوا۔ مولانا کی موجودگی میں انکی روحانی شخصیت کا ادراک ہر کسی کو ہوتا تھا۔ دوران سفر میں نے خود مشاہدہ کیا کہ مشکل کام آسان ہو رہے ہیں۔ مولانا کو کسی چیز کی لالچ نہیں تھی؛ ہم نے ایک بار سوال کیا کہ آپ کو جماعت اسلامی ہند کے امرا میں کس امیر کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ مزہ آیا۔ آپ نے کہا میں مامور ہوں میرا کام اطاعت کرنا ہے لہذا جو بھی آیا ہم نے اطاعت کی۔

مشہور و معروف عالم دین ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب کے ساتھ مولانا کی بہت عقیدت تھی۔ سفر میں وہ شریک تھے۔آپ مولانا کی ہر بات گہرائی سے سنتے۔ جب دو عظیم لوگ مختلف مسائل پر بات کرتے تو سارے سامعین دیکھتے رہتے، مولانا کو قرآن کریم کے ساتھ خاص شغف تھا۔ آپ قرآن کریم کے وہ وہ نکات بیان کرتے؛ سننے والا حیران رہتا۔ آپ نے بارہمولہ کی ایک مجلس میں سورۃ الاعلی کا درس دیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ سورہ ابھی نازل ہو رہی ہے۔ میں نے کئی تفاسیر کا مطالعہ کیا لیکن مولانا فاروق صاحب کے تفسیری نکات سن کر حیران ہوا۔ اسی درس کے دوران ’’لا یموت فیھا ولا یحییٰ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے کہا:

’’سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی انسان یا تو مردہ ہو سکتا ہے یا پھر زندہ لیکن یہاں تو کہا گیا کہ نہ وہ جیے اور نہ مرے گا۔ یہ بات شاید آپ کو غیر معقول معلوم ہو ۔ لیکن باری تعالیٰ نے اصل میں یہاں زندگی اور موت کے حقیقی معنی کھول کر بیان کر دیے ہیں۔ خدا کے نزدیک تو زندگی صرف وہ ہے جس میں خوشی ہو، مسرت ہو اور اپنے رب کی معرفت کی لذت ہو۔ یہ لوگ جنہیں آگ کے حوالے کر دیا جائے گا، اُن کی زندگی ان تمام چیزوں سے خالی ہوگی ۔ وہ تو بس اس لیے زندہ ہوں گے کہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت سکیں۔ اس لیے اس کو زندگی سے تعبیر نہیں کیا ، اور موت کا تو وہاں کوئی وجود ہی نہیں ہوگا کہ مرکر عذاب سے خلاصی نصیب ہو۔ جیے جائیں گے اور صرف اس لیے کہ آگ کی تپش سے جلتے رہیں، اور اس فضا میں جس کی ہوا سڑی اور بد بودار ہوگی ، سانس لیتے رہیں گے۔ پیاس کی شدت تڑپائے گی تو پانی نہیں بلکہ کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا کہ جس سے آنتیں بھی کٹ جائیں۔ ایک عذاب ختم ہوگا تو اس لیے نہیں کہ چھٹکارا مل گیا بلکہ اس لیے کہ دوسرا عذاب شروع ہونا ہے۔ اس طرح کی زندگی تو زندگی کہلانے کے لائق ہی نہیں ہے، اسی لیے فرمایا گیا کہ نہ تو وہاں زندگی ہے اور نہ ہی موت۔‘‘ (پیام اعلی صفحہ 15)

یہ درس قرآن یو ٹیوب پر بھی دستیاب ہے اور عزیری ڈاکٹر وسیم مکائی نے اس کو افادہ عام کے لیے تحریری طور پر مرتب بھی کیا ہے؛ جس کو راقم نے مولانا کی اجازت اور ضروری ترمیم  کے بعد ’پیام اعلی‘‘ کے نام سے چھاپا۔ اس کے علاوہ آپ کی زندگی اور فکر سمجھنے کے لیے برادر ابوالاعلٰی نے ان سے ایک طویل انٹرویو کیا جو کہ راقم نے ’’مطالعات، مشاہدات، تجربات‘‘ (ایک نشست معروف اسلامی دانشور مولانا محمد فاروق خان کے ساتھ) کے نام سے چھاپا۔ ایک بار اس سفر کے دوران مولانا راقم کے گھر پر تشریف فرما تھے کہ میرے کچھ عزیز علم دوست ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔ قرآنیات پر بات ہورہی تھی۔ نظم قرآن کے سلسلے میں مولانا نے سورۃ القیامہ کا مطالعہ پیش کیا۔ ان آیات کا جن کا مفہوم جمہور کے نزدیک قرآن ہے؛ وہی مولانا نے نظم کو پیش نظر رکھتے ہوئے سمجھایا کہ یہاں کتاب سے مراد قرآن نہیں بلکہ کتاب نامہ اعمال ہے جس کو قیامت کے دن ہر شخص کے سامنے پیش کیا جائیگا۔

اس سفر کے دوران میں نے پایا کہ آپ کو قرآن کریم سے خاص شغف ہے۔ قرآن سے تعلق اور اس کے نتیجے میں سکون اور اطمینان قلب جو آپ کو حاصل ہوا تھا؛ وہ کسی اور میں راقم  نے نہیں پایا۔ آپ اللہ کی ہر مرضی کے آگے دل سے راضی تھے۔ آپ کو کسی چیز کی لالچ نہ تھی، آپ کو میں نے کسی کی شکایت کرتے نہیں سنا، کسی کی  غیبت کرتے نہیں دیکھا، ہم سب کو ان کے ازدواجی مسائل سے واقفیت تھی۔ ہم اس سے متعلق کوئی سوال نہیں کرتے لیکن ملاقاتی کبھی کبھار سوال کرتے, مولانا کا جواب ہوتا اس موضوع کو رہنے دیجئے کسی اور موضوع پر بات کرتے ہیں۔ آپ ہر دل عزیز تھے۔ اس سفر میں میرے دوست ظہور صاحب نے اپنی Endeavour Ford گاڈی ان کے لیے حاضر رکھی۔ مولانا اسی گاڑی میں سفر کرتے اور پیار سے ظہور صاحب کو pilot پکارتے۔ ظہور صاحب گاڑی میں مولانا کے لیے پان وافر مقدار میں رکھتے۔ جوں ہی مولانا کسی پروگرام سے فارغ ہوتے تو pilot صاحب پان پیش کرتے جس کو کھا کر آپ تازہ دم ہو جاتے۔ میں بھی ان کے ساتھ اکثر سفر میں ساتھ رہتا۔ مولانا چونکہ شاعر بھی تھے آپ مختلف مواقع پر برجستہ اشعار بھی کہتے۔ مولانا چاہتے تھے انسان image of God بن جائے۔ غیر مسلموں کے ساتھ اپنے خطاب میں انہوں نے اس کی اہمیت بیان کی۔ مولانا چاہتے تھے کہ انسانوں کے درمیان بہت ہی بہترین تعلق ہو۔ ایک بار انہوں نے ایک قصہ سنایا کہ ایک شخص کے پاس ایک فقیر کچھ مانگنے آیا۔ اس کے پاس دینے کو کچھ نہیں تھا البتہ اس نے دیکھا کہ فقیر سردی سے ٹھٹھر رہا ہے؛ تو اس شخص نے اس فقیر کو تب تک گلے لگایا جب تک اس سے گرمی محسوس نہ ہوئی۔پھر مولانا نے کہا کہ ہمیں ہر حال میں کچھ نہ کچھ دینا چاہیے۔

اس سفر کے بعد بھی آپ سے فون پر رابطہ رہا۔ ایک بار ہم نے دوبارہ کشمیر بلانا چاہا۔ پروگرام طے بھی ہوا لیکن انہی دنوں  مولانا کا bike پر حادثہ ہوا جس کی وجہ سے دورہ ملتوی کرنا پڑا۔ البتہ آن لائن آپ کے کچھ پروگرام ہوئے۔ ان کا آخری پروگرام زُوم پر برادر اسعد فلاحی کے توسط سے 5 ستمبر 2022 کو ہوا۔ رب العزت ہم سب کو جنت الفردوس میں اکھٹا کرے۔

رابط :9906653927

تبصرے بند ہیں۔