کیا پلاسٹک آلودگی سے چھٹکارا ملنا ممکن ہے؟

سید انیس الحق

(پونچھ)

اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ پلاسٹک آلودگی اس وقت ماحولیات کو بڑا نقصان پہنچا رہی ہے۔ لیکن با وجود اس کے یہ ایک خوش آئند بات ہے کے پلاسٹک کے استعمال پر روک لگانے کیلئے پوری دنیا کمر بستہ ہے۔ وہیں امسال کے عالمی یوم ماحولیات کا تھیم ’بیٹ دا پلاسٹک‘ہے جو ہمیں پلاسٹک سے نجات حاصل کرنے کا درس بھی دیتا ہے۔ جبکہ رواں سال کے عالمی یوم ماحولیا ت کی میزبانی مغربی افریقی ملک کوٹ ڈی آئیوری جو کے نیدرلینڈ کی شراکت سے کر رہا ہے۔ واضح رہے کوٹ ڈی آئیوری نے 2014 سے ہی پلاسٹک کے استعمال پر پابندی لگا دی تھی۔ وہیں اس ملک کاایک بڑا شہر ابد جان با ضابطہ طور پر ماحولیاتی ذہن رکھنے والے اسٹارٹ اپس کا ایک مرکز بن گیا۔ واضح رہے ماحولیات کا عالمی دن جو پوری دنیا کی طرح بھارت میں بھی 5 جون کو منایا جاتا ہے، تاہم یہ ایک ایسا موقع ہے جو ملک بھر کے لاکھوں لوگوں کو ماحولیات کے لیے اقدامات کرنے اور بیداری پیدا کرنے کے لیے اکٹھا کرتا ہے۔وہیں گزشتہ  برس یکم جولائی سے ہی ہمارے ملک نے پلاسٹک کی ایسی مصنوعات پر پابندی عائد کر دی ہے جو ایک مرتبہ استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں۔ اسی سلسلہ میں سال2019 میں منعقدہ چوتھی اقوام متحدہ کی ماحولیاتی اسمبلی میں، بھارت نے سنگل یوز پلاسٹک کی مصنوعات سے ہونے والی آلودگی سے نمٹنے کے لیے ایک قرارداد بھی پیش کی تھی، جس میں عالمی برادری کی، اس انتہائی اہم مسئلے پر توجہ دینے کی فوری ضرورت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ جبکہ یو این ای اے میں اس قرارداد کی منظوری ایک اہم قدم تھا۔وہیں مارچ 2022 میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی اسمبلی کے حال ہی میں ختم ہونے والے 5 ویں اجلاس میں، ہندوستان نے پلاسٹک سے ہونے والی آلودگی پر عالمی سطح پر کارروائی کرنے کے لیے قرارداد پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے تمام رکن ممالک کے ساتھ تعمیری انداز میں تعاون کیا۔

علاہ ازیں حکومت نے سنگل یوز پلاسٹک سے ہونے والی آلودگی کو کم کرنے کے لیے مضبوط اقدامات بھی کیے ہیں۔جن میں ممنوعہ اشیاء کی فہرست میں پلاسٹک کی چھڑیوں کے ساتھ کان کی کلیاں، غباروں کے لیے پلاسٹک کی چھڑیاں، پلاسٹک کے جھنڈے، کینڈی کی چھڑیاں، آئس کریم کی چھڑیاں، سجاوٹ کے لیے پولی اسٹیرین (تھرموکول)، پلاسٹک کی پلیٹیں، کپ، گلاس، کٹلری جیسے کانٹے، چمچ، چاقو، ٹرے، مٹھائی کے ڈبوں پر لپیٹی جانے والی یا پیکنگ کے کام آنے والی فلم، دعوتی کارڈ، سگریٹ کے پیکٹ، پلاسٹک یا 100 مائکرون سے کم پی وی سی بینرز، اسٹیرررز وغیرہ شامل ہیں۔لیکن با وجود اس کے ملک میں ہر سال تقریباً 40 لاکھ ٹن پلاسٹک کا کوڑا پیدا ہوتا ہے، جس کا تیسرا حصہ ری سائیکل نہیں ہوتا اور پانی کے راستوں اور دلدلی زمین میں پھنس جاتا ہے۔جبکہ اسے ختم کرنے کیلئے آگ لگائی جاتی ہے، جو فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث ہے۔اور اس سے دریا اور زمین بھی آلودہ ہوجاتے ہیں جس سے جنگلی زندگی کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے جہاں پلاسٹک پر پابندی عائد کی گئی وہیں پلاسٹک کا متبادل بھی نکالا گیا ہے۔ان حالات میں ایکو ویئر ان چند کمپنیوں میں سے ایک ہے، جو ماحول دوست مصنوعات بناتی ہے، جو پلاسٹک کی مصنوعات کا متبادل ہو سکتی ہیں۔ وہیں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2040تک پلاسٹک سے ہونے والی 80فیصد عالمی آلودگی کی روک تھام ممکن ہے۔ وہیں رپورٹ میں تحقیقی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر 2040تک خارج ہونے والی 19فیصدزہریلی گیسوں کا اخراج پلاسٹک کی وجہ سے ہوگا۔اسی حوالے سے ایک جارہ کردہ رپورٹ میں یو این ای پی کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر انڈرسن اینگر نے بتایا کہ جس طرح ہم پلاسٹک کے ذریعے ماحول کو آلودہ کر رہے ہیں، اس سے انسانی صحت اور ماحولیات کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ میں ان خطرات کو ڈرامائی حد تک کم کرنے کے لیے روڈ میپ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا کہ ایک سے زیادہ بار قابل استعمال پلاسٹک کے استعمال کو بڑھانے سے 2040 تک پلاسٹک کی آلودگی کو 30 فیصد تک کم کرنا ممکن ہے۔اسی طرح ری سائیکلنگ سے آلودگی کی شرح میں مزید 20 فیصد کمی آسکتی ہے جبکہ پلاسٹک مصنوعات جیسے فوڈ پیکجنگ اور دیگر کے متبادل کو متعارف کراکے اس آلودگی میں مزید 17 فیصد کمی لانا ممکن ہے۔وہیں رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگلے 20 برسوں میں پلاسٹک کی آلودگی میں 80 فیصد کمی لانے سے صحت، ماحولیاتی، فضائی آلودگی اور دیگر شعبوں کو ہونے والے 3 ٹریلین ڈالرز کے نقصان سے بچنا ممکن ہو جائے گا۔تاہم ان رپورٹس اور اعداد شمار کی روشنی میں اگر باریک بینی سے لیا جائے تو امید کی جا سکتی ہے مستقبل قریب میں پلاسٹک کے بے تحاشہ استعمال پر قابو پانا ممکن ہے۔ لیکن یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پلاسٹک کی اس آلودگی کو کم کرنے کیلئے جہاں دنیا بھر کے ممالک اور حکومتیں کوشاں ہیں وہاں عام شہریوں اور والدین کو چاہئے کے اپنے گھروں میں ایسا ماحول پیدا کریں کہ بچوں کو پلاسٹک کی چیزیں استعمال کرنے سے روکا جائے اگر والدین، اساتذہ، طلباء برادری اور تمام سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں پلاسٹک کے روک تھام کیلئے آگے آئیں گی تو یقینا اس سمت ایک بڑا انقلاب لاکر کر اپنے ماحول کو پلاسٹک آلودگی سے بچایا جا سکتا ہے۔

 اسی حوالے سے مسلسل سماجی اور ترقیاتی مدعوں پر لکھنے والے بشارت بخاری کہتے ہیں کہ اگر حکومتی کوششوں کے ساتھ عوامی تعاون بھی شامل ہو جائے تو مستقبل قریب میں ملک سے پلاسٹک کے استعمال کا خاتمہ ممکن ہے ۔ انہیں کے ایک اور ساتھی قلمکار نے بتایا کہ پلاسٹک کے لفافے اور دیگر اشیاء اتنی مضبوط ہوتی ہیں جو سالوں زمین میں دبے رہنے سے بھی نست و نبود نہیں ہوتی جس سے زرعی زمین پر بھی خاصہ اثر پرٹا ہے۔ وہ کہتے ہیں جہاں سرکاریں اس طرف سنجیدہ ہیں۔ وہیں عام شہری بھی اپنا بھرپور تعاون پیش کریں اور پلاسٹک کا استعمال کرنے سے گریز کریں۔ تاہم اس سے صاف ہے کہ جہاں دنیا بھر کے ممالک پلاسٹک کو شکست دینے کیلئے کمر بستہ ہیں وہیں ماحول کو پاکیزہ بنانے کیلئے عوامی تعاون بھی درکار ہے۔ (چرخہ فیچرس)

تبصرے بند ہیں۔