ماحولیات – تحفظ کی عملی تدبیر

حنا مقبول

قرآن کریم کے بغائر مطالعہ کے  بعد یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس میں کم و بیش دوسو آیات ماحولیات سے متعلق ہیں۔ ان میں زمین، پانی، ہوا، زندہ اور مردہ مخلوقات، شجر وحجر، پہاڑ، سمندر اور وہ سب عجائباتِ عالم زیربحث آتے ہیں جن کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی گواہی دیتی ہے اور زبانِ حال سے پکار پکار کر یہ اعلان کرتی ہے کہ وہ اللہ کی کاریگری ہے، جس نے ہر چیز کو مضبوطی کے ساتھ بنایا ہے۔ (النمل)

اس کائنات کا محور انسان ہے اور اللہ نے پوری کائنات کو انسان کیلئے مسخر کرکے اس کے تابع بنادیا ہے تاکہ وہ جائز حدود میں رہ کر جس طرح چاہے اس سے فائدہ اٹھائے۔ (سورہ النحل، حج)

خلافتِ ارضی اور تسخیرِ کائنات عظیم نعمتیں ہیں۔ اب یہ خود انسان کا فرض ہے کہ وہ ان نعمتوں کی قدر کرے اور ان کا حق ادا کریں۔ ماحولیاتی آلودگی کا تعلق پوری دنیائے انسانیت سے ہے۔ یہ ایک خطر ناک مسئلہ ہے اور ہمارے خطے کیلئے ایک بڑا چلینج بھی۔ یہ صرف کسی ایک علاقے، ملک، قوم یا مذہب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پوری انسانیت کے ساتھ ساتھ جمادات ونباتات کابھی مسئلہ ہے۔ اس لئے سب کو مل کر اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا چاہیے۔ اس سلسلے میں سب سے موثرحل مذہبی تعلیمات ہوسکتی ہیں۔

ماحولیات کا لفظ یوں تو اپنے آپ میں ساری کائنات کو سمیٹے ہوئے ہے مگر آج میں اس کے چھوٹے سے جْز کے بارے میں کچھ لکھنا چاہوں گی۔ اس یقین کے ساتھ کہ یہ ندا ہمارے دل تک پہنچے گی کیونکہ زندگی کا براہ راست انحصارصاف وپاک ماحولیات پر ہے۔ ماحولیات کی اہمیت کو ہمارے اسلاف نے اس طرح اجاگر کیا ہے کہ جنگ کے دوران بھی وہ اپنی فوج کو حکم دیتے ہیں کہ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ جانوروں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے، فصلیں تباہ نہ کی جائیں اور پیڑوں کو بھی نہ کاٹا جائے۔  (Islam and environment)

مادہ پرست مغربی اقوام نے تباہ کن حالات کے پیش نظر تجدید (restoration) کا نیا علم عمل میں لایا،جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے اپنی بے لگام خواہشوں کو پورا کرنے کیلئے حد سے تجاوز کرنا اور پھر اس کے تباہ کن اثرات کو روکنے کیلئے سرتوڑ کوشش کرنا ہے۔ مگر اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ہمیں مغرب کی تقلید کرنے کے بجائے اْن کی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان بجا لاتے ہوئے اپنی دونوں زندگیوں کو بہتر بنانا چاہئے۔ ہم اس نظریہ کے قائل ہیں کہPrevention is better than cure‘‘۔ میں کچھ عملی تدابیربیان کرنا چاہوں گی۔ جن پر ہم ضلع بارہمولہ میں انفرادی سطح پر عمل کرسکتے ہیں اور ان کے مثبت اثرات عالمی سطح پر بھی ہوں گے؛ ’ Think globally act locally‘

۱) جیسا کہ کچھ وقت سے کشمیر کے مختلف علاقوں میں  میونسپل کونسل کی جانب سے محلوں میں گاڑیاں بجھوا کر کچرا جمع کیا جاتا ہے تاکہ اْس کو ایک مخصوص جگہ لے جاکر ماحولیات کو کم سے کم نقصان پہنچے۔ یہ ایک بہترین قدم ہے۔ دور دیہاتوں میں بھی یہ سہولت میسر ہونی چاہئے یا کم از کم وہاں کے لوگوں میں جانکاری  پیدا کرکے  Biodegradable wastesسے آسان طریقوں سے اپنی باڑیوں کیلئے بہترین خاد بنانا اور  Non Biodegradable waster کو ایک مقررہ جگہ جمع کرنا تاکہ پھروہاں سے گاڑیوں کے ذریعے بہ آسانی اس کو صحیح جگہوں پر پہنچایا جاسکے۔

۲) ہم سب یہ کوشش کریں کہ اپنے گھروں میں کچھ جگہ Kitchen gardens کیلئے مقررکریں تاکہ ہمارا رابطہNature سے بنا رہے۔ اس کے بے شمار فوائد بھی ہیں؛ جیسے تازہ سبزیاں، پھل وغیرہ کی دستیابی۔ اس سے ہماری معیشت بھی بہتر ہوگی۔ Transportation سے جو آلودگی پھیلتی ہے اس سے بھی حفاظت ہوگی۔

۳) Pooling یعنی چھوٹی گاڑیوں کے بجائے بڑی گاڑیوں یعنیPubic Transport کا استعمال کرنا یا اگر ملاکر کسی علاقے سے کچھ لوگ روزانہ کسی ایک کی گاڑی میں چلے  جائیں، اس سے پیسے بھی بچیں گے اور ہوا کی آلودگی بھی کم ہوگی۔

۴) کسی بھی جگہ خواہ وہ تفریحی جگہ ہو یا اسکول، سڑک یااسپتال ہم اس چیز کو لازم بنائیں کہ گندگی کو اپنے صحیح جگہ تک پہنچانا ہے۔ جیسے کوڑاکچرا کوڑادان (Dustbins)میں ڈالناہے۔

۵) جہاں بھی ممکن ہو پیڑ اْگانا۔ اسلام میں اس عمل کی بڑی غیرمعمولی تاکیدکی گئی ہے۔

۶) یوں توModular Bathroom کا رواج چل رہا ہے لیکن افسوس ناک بات ہے کہ بارہمولہ کے مین ٹاون میں ابھی تک Direct Untreated Lateriene waste دریا جہلم کا حصہ بنتا ہے جس کو فی الفور روک دینا چاہئے۔

ضروری نہیں کہ ہم تب ہی چیزوں کا موثر استعمال کریں جب ہم پر کوئی داروغہ مسلط کیا جائے بلکہ اگر ہمارا یقین اس آیت پر ہے کہ ’’ذرہ برابر بھی نیکی ضائع نہیں ہوگی۔ ‘‘ تو ہم میں وہMotivation; Self Realization; Self regulation خود بخود پیدا ہوگی اس کی ایک مثال میں پیش کرتی ہوں۔ بچپن سے مجھے یہ سکھایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو نعمتیں ضائع کرنا سخت ناپسند ہے اور ’’Energy Conserved is enery created ‘  اسلئے میں ہمیشہ ضرورت سے زائد بلب، پنکھاوغیرہ کو بند کرتی ہوں جو کہ اکثر لوگ اب میٹر کےاستعمال کے بعد کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب انفرادی سطح پر اس چیز کی اہمیت کو سمجھیں تاکہ ہمارا حال اور مستقبل محفوظ رہے۔

(کالم نگار نے ماحولیات میں کشمیر یونیورسٹی سے پی جی کیا ہے۔)

تبصرے بند ہیں۔