موسمیاتی تبدیلی کو روکنا ہر ایک کی ذمہ داری

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

اس سال مارچ سے ہی ہیٹ ویب ملک کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔ ویسی گرمی مئی جون میں ہوا کرتی تھی۔ اس کی وجہ سے گیہوں کی فصل جلس گئی۔ آم کی پیداوار گھٹ گئی لوگ سوچتے رہ گئے کہ بسنت ہے یا گرمی۔ لوگ گرمی سے پریشان ہیں، شہر گرم ہو کر تندور بنے ہوئے ہیں۔ پہلے دنیا کے آلودہ شہروں میں ہمارے ملک کے کئی شہر شمار کئے جاتے تھے۔ اب دنیا کے گرم ممالک میں ہمارے شہروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ 2019 میں جون کے پہلے ہفتہ میں دنیا کے 15 سب سے گرم شہروں میں 10 ہمارے ملک کے تھے۔ 15 مئی 2022 کے آس پاس دنیا کے سب سے گرم شہروں میں 12 ہمارے ملک کے پائے گئے۔ آلودگی، زمین کے بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی اور اس کے مضر اثرات کے پر اقوام متحدہ نے 1972 میں تشویش ظاہر کی۔ اس نے ممبران ممالک کا کنونشن بلا کر ماحولیات کی حفاظت کے لئے اقدامات کرنے پر زور دیا۔ 1973 سے ہر سال 5 جون کو عالمی یوم ماحولیات منایا جاتا ہے۔ اس دن کلائمٹ چینج کو روکنے کیلئے بیدار کرنے والے پیغامات، اس کے اثرات اور ماحولیات کی حفاظت پر زور دیا جاتا ہے۔ اس سال کی تھیم ہے "صرف ایک زمین”۔

موسمیاتی تبدیلی سے زندگی کے لئے نت نئے خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔ آزادی کے وقت ملک میں 24 لاکھ تالاب تھے۔ جن کی تعداد سن 2000 میں پانچ لاکھ کے قریب رہ گئی تھی۔ تالاب زیر زمین پانی کے زخائر کی حفاظت کے علاوہ زمین کی مٹی میں نمی بنا کر رکھتے ہیں۔ تالابوں کو پاٹ کر پکے مکان بنا دیئے گئے۔ اس کی وجہ سے ایک طرف بارش کا پانی بھرنے کا مسئلہ پیدا ہوا۔ وہیں دوسری طرف زمین کے خشک ہونے سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا۔ پکے مکان بھی دن میں گرمی جذب کرکے بعد میں خارج کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی درجہ حرارت بڑھتا ہے۔ ملک میں80 فیصد پکے مکان بن چکے ہیں۔ 21-2022 میں مختلف تعمیراتی اسکیموں کے لئے 31 لاکھ پیڑ کاٹے گئے۔ ایک اندازہ کے مطابق پچھلی آٹھ دہائیوں میں 28 فیصد جنگلات کٹ چکے ہیں۔ موٹر گاڑیوں سے نکلے دھوئیں سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہریانہ، پنجاب کے کسانوں کے ذریعہ جلائی گئی پرالی کا دھواں دہلی این سی آر کو گیس چیمبر بنا دیتا ہے۔ فضائی آلودگی سے دہلی جیسے شہر کے ہر پانچویں شخص کو سانس لینے میں دشواری کی شکایت ہے۔ مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں 700 ملین لوگ آلود ہوا میں سانس لیتے ہیں۔ آلودہ ہوا کی وجہ سے وقت سے پہلے موت ہو رہی ہے۔ گرین ہاؤس گیس ہماری صحت کے لئے سب سے خطرناک ہے۔ اس کی پیداوار کو کم کر کے آلودگی میں کٹوتی کر سکتے ہیں۔

ایئر کنڈیشن کا بڑھتا چلن بھی گرمی بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اے سی گھر یا آفس کو تو ٹھنڈا رکھتا ہے لیکن باہر گرم ہوا چھوڑ کر گرمی میں اضافہ کرتا ہے۔ عالم ادارہ صحت کے مطابق عالمی سطح پر 1.5 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت میں بڑھوتری کے ساتھ کلکتہ جیسے شہر کے لوگ جہاں ڈیڑھ کروڑ کی آبادی ہے۔ سالانہ 2015 جیسی ہیٹ ویب کا سامنا کریں گے جس نے 2500 جانیں لی تھیں۔ ہیٹ ویب سے عدم غذائیت میں اضافہ ہوگا۔ اندازہ کے مطابق اس سے سال 2030 سے 2050 کے دوران ہر سال 2.5 لاکھ موتیں ہوں گی۔ یونیسیف میں ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کے ماہر سرب جیت سنگھ سہوتا کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر اوسطً ایک دو ڈگری درجہ حرارت بڑھنے کا خطرہ ہے۔ ایک ڈگری ٹمپریچر نارتھ اور ساؤتھ پول پر پانچ ڈگری کا اثر ڈالتا ہے۔ اس کے سبب گلیشئر پگھل رہے ہیں جس سے سمندر کے پانی کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سمندر میں پانی کی بڑھوتری سے کئی ممالک کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ گلیشئرز کے پگھلنے سے پینے کا پانی بھی کم ہو رہا ہے۔ تمام بڑے شہروں میں پانی کی قلت ہے۔ اس نے پانی کے کاروبار کو جنم دیا ہے۔ جس نے پرندوں، جانوروں یہاں تک کہ زراعت بھی صاف پانی سے محروم ہو گئی ہے۔ اعداد کے مطابق 6 ارب ٹن کچرا ہر روز سمندر میں چھوڑا جاتا ہے۔ آلودگی کی وجہ سے بھارت کو دو لاکھ کروڑ روپے سالانہ کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آلودہ پانی پینے سے ہر 8 سیکنڈ میں ایک بچے کی موت ہو جاتی ہے۔

بے وقت کی بارش، اولے، سیلاب اور سوکھا موسمیاتی تبدیلی کی علامت ہے۔ شہروں کا کچرا ندیوں میں بہایا جاتا ہے۔ پلاسٹک اور دوسرا سولڈ کچرے نے ندی کی تلی میں جمع ہو کر اسے اتھلا بنا دیا ہے۔ یہ کچرا ندی کی زندگی کے لئے خطرہ بن گیا ہے۔ ندیوں میں پانی کی زخیرہ اندوزی کی صلاحیت کم ہو گئی ہے۔ اس لئے بارش کا پانی ندی میں آکر سیلاب بن جاتا ہے۔ ملک کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جو سیلاب اور سوکھے سے متاثر نہ ہوا ہو۔ گاندھی جی ماہر ماحولیات نہیں تھے اور نہ ان کے زمانہ میں موسمیاتی تبدیلی اتنا سنگین مسئلہ تھا۔ پھر بھی انہوں نے اپنی کتاب ہند سوراج میں اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ زمین، ہوا اور پانی بزرگوں سے ملی دولت نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے بچوں کی امانت ہے۔ وہ جیسی ہمیں ملی ہے ویسی ہی ہماری آنے والی نسلوں کو سونپنی ہوگی۔ دھویں، اور شور سے ہوا کو آلودہ کرنے کے لئے انہوں نے کارخانوں پر بھی تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زمین پر انسان کے لئے کافی وسائل ہیں مگر اس کی ہوس کے لئے نہیں۔ ان کی بات صحیح ثابت ہو رہی ہے۔ ایک سال کے لئے زمین کے وسائل کو سات ماہ میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ آج صرف زمین، ہوا، پانی ہی آلودہ نہیں ہے بلکہ استعمال میں آنے والی غذا بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔

کھیتی میں استعمال ہونے والا فرٹیلائزر اور پیسٹی سائیڈ ہماری غذا کا حصہ بن رہا ہے۔ جس جسم کی مدافعتی قوت کمزور ہو رہی ہے۔ کووڈ – 19 اور کینسر جیسی بیماریاں اسی کی مرہون منت ہیں۔ پہلے لاکھوں میں کوئی ایک کینسر کا مریض ہوتا تھا۔ اب یہ عام شکایت ہے آپ اپنے آس پاس ایسے کسی مریض کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بھی موسمیاتی تبدیلی کا ہی اثر ہے۔ پانی کی وجہ سے بھی کئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ آلودگی سے مچھر پیدا ہوتے ہیں جو کئی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کا ترقی سے سیدھا تعلق ہے۔ اس لئے اب ایسی ترقی کی بات کی جا رہی ہے جس کا ماحول پر کم سے کم اثر پڑے۔ کیوں کہ موسمیاتی تبدیلی کا سے سب سے زیادہ متاثر عورتیں اور بچے ہوتے ہیں۔ سیلاب اور خسک سالی کی صورت میں عورتوں کو دور دراز سے پینے کا پانی لانا پڑتا ہے۔ بیماری کی حالت میں کام چھوٹتا ہے جسے خاندان کو اقتصادی نقصان کے طور پر برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یونیسیف دنیا بھر میں عورتوں اور بچوں کی صحت کو بہتر بنا کر اچھی زندگی دینے کے لئے کام کرتا ہے۔

اسی منصوبہ کے تحت یونیسیف نے امر اجالا فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر ڈیجیٹل جرنلزم کے ذریعہ نوجوانوں میں موسمیاتی تبدیلی اور کووِڈ – 19 ویکسین کے بارے میں واقفیت پیدا کرنے کے لئے دو روزہ ورکشاپ منعقد کی۔ جس میں شاردا یونیورسٹی، امیٹی یونیورسٹی، گلگوٹیا یونیورسٹی، نوئیڈا انٹرنیشنل یونیورسٹی میں زیر تعلیم ماس میڈیا کے طلبہ، اساتذہ اور امر اجالا کے ضلعی سطح کے صحافیوں نے ماحولیاتی تبدیلی کے بچوں پر اثرات اور ڈیجیٹل جرنلزم خاص طور پر موبائل جرنلزم، پوڈکاسٹ کے ذریعہ عوام کو بیدار کرنے کے بارے میں سیکھا۔ ساتھ ہی کووڈ – 19 ویکسین کی اہمیت اور ٹیکوں کے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں سے لڑنے کے لئے بھی ان ہمت افزائی کی گئی۔ ورکشاپ میں گروپ ورک کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ موسمیاتی تبدیلی کو مل کر مقامی سطح پر روکا جا سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔