خطبات احمدیہ اور سرسیدؔ کا نوکِ قلم

ڈاکٹرامتیازعبدالقادر

                رسول اکرم ؐ کی سیرت مبارکہ پرکچھ لکھنے کاجذبہ علوم اسلامی پرلکھنے والوں کے شعوراورتحت الشعور میں ضرورموجودہوتاہے۔اس میں مسلم یاغیرمسلم کی تخصیص نہیں۔ ان کے محرکات وعوامل کی تخصیص ضرورہے۔مسلم اہل قلم میں محبت وعقیدت دونوں کا رفرما ہوتے ہیں جبکہ غیر مسلم سیرت نگار صاحب سیرت کی شخصی عظمت اورتاریخی وجاہت سے مرعوب ومتاثرہوتے ہیں۔ یہی محرکات ان کاطرزادااوراسلوبِ بیان بھی متعین کرتے ہیں اوران کی تحریروں کامقصد ومنہاج بھی؛اپنی ذہنی ساخت وپرداخت اورعلمی تعلیم وتربیت کے مطابق؛ بقول ابن خلدونؔ:

   ’’…..یاتو یہ مورٔخین وسیرت نگار بچکانہ روش والے کندذہن ہوتے ہیں کہ عقل ودانش، تنقید وتبصرہ اورتجزیہ وتحلیل کی صلاحیتوں سے محروم ہوتے ہیں اوروہ جوکچھ لکھتے ہیں وہ محض نقل واقعات تک محدودہوتاہے۔ان میں سے اکثرقدیم مؤلفین کی تحریروں سے اخذواستفادہ کرکے واقعات نقل کرتے چلے جاتے ہیں۔ کچھ تلخیص نگار اوراصحابِ اختصار ہوتے ہیں۔ جومحدود ترپیمانے پر واقعات کی کھتونی کاکام کرتے ہیں۔ البتہ ان میں کچھ ایسے صاحبانِ بصیرت اوربہرہ مندانِ شعوربھی ہوتے ہیں جوتجزیہ وتحلیل اورتنقید وتبصرہ کی صلاحیتوں سے مالامال ہوتے ہیں اوروہ واقعات کوان کے صحیح تاریخی تناظر اورشخصیت کواس کے ماحول وپس نظر میں دیکھتے اورپرکھتے ہیں، یہی طبقہ اصل میں ائمہ فحول (امامانِ فن)کاہے……‘‘

                جدیدتاریخی اصطلاح میں یہی تاریخ داں اورسیرت نگار عہد گزشتہ کی بازآفرینی اورشخصیت کی تصویرکشی کاکام انجام دیتے ہیں، جوان کے فرض منصبی کے تقاضوں اورمطالبوں کے عین مطابق ہوتاہے۔سرسیدؔ اگرچہ خالص اصطلاحی معنوں میں سیرت نگارنہیں تھے تاہم ان کی مشہورزمانہ اورمعرکہ الآراء تصنیف’خطبات احمدیہ‘‘ اس فن کی ایک اہم کتاب ہے اوراردو زبان میں تنقیدی اورتحقیقی نگارش کی اولین کوشش ہے۔ اس کتاب کامحرک ایک تورسول اکرم ﷺ سے بے پناہ عقیدت ومحبت، علمی وتجزیاتی روش کے علاوہ جو سب سے اہم خارجی اور فوری محرک ہواتھا؛ وہ ولیم میورؔ کی کتاب’’Life of Mohammad‘‘کی طباعت اورہندوستان میں اس کی اشاعت تھی۔ولیم میورکی کتاب۴جلدوں میں شائع ہوکرآئی ؛جس کے بارے میں عیسائیوں میں مشہورتھاکہ اس نے اسلام کے استیصال کا’فریضہ‘انجام دیاہے۔ دوسرے اہل علم کی مانند سرسیدؔ کے دل ودماغ پربھی انگریز مؤلف کے تعصب اورسیرتِ طیبہ کومسخ کرنے کی مکروہ سازش نے بڑا اثرڈالا۔دوسرے صرف تڑپ کررہ گئے مگرسرسیدؔ مؤلف کے ہفوات والزامات کاجواب جلدازجلدلکھ دیناچاہتے تھے۔ہندوستان میں مواد کی کمی کے باعث انگلستان کارُخ کیا۔لاطینی انگریزی اوردوسری زبانوں سے ترجمے کرواکے پڑھے۔ برٹش میوزیم، انڈین لائبریری، ترکی اورمصرکے کتب خانوں سے موادجمع کیا۔ اپنے رفیق کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :

     ’’ان دنوں ذراقدرے دل کوشورش ہے۔ولیم میورؔ صاحب کی کتاب کو میں دیکھ رہاہوں، اس نے دل جوجلا دیااوراس کی ناانصافیاں اور تعصبات دیکھ کردل کباب ہوگیا اورمصمم ارادہ کیا کہ آنحضرت ﷺ کی سیرت میں جیساکہ پہلے سے ارادہ تھا ؛کتاب لکھ دی جائے اگرتمام روپیہ خرچ ہوجائے اورمیں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہوجاؤں توبلاسے۔‘‘(بحوالہ ’خطبات احمدیہ‘؛ص۱۶)

 ایک اورخط میں رقمطرازہیں :

  ’’میں شب وروز تحریرکتاب میں مصروف ہوں۔ سب کام چھوڑدیاہے۔ لکھتے لکھتے کمردردکرنے لگتی ہے اورکسی شخص کے مددگار نہ ہونے سے یہ کام اوربھی سخت ہوگیاہے…..‘‘(ایضََا)

  ’خطباتِ احمدیہ‘ بارہ طویل خطبوں پرمشتمل اردوزبان میں سیرت النبیﷺکے موضوع پرلکھی جانے والی پہلی باقاعدہ تصنیف ہے؛جوعلمی وعقلی منہج کے مطابق مستندتاریخ اوروحی کی روشنی میں رقم کی گئی ہے۔بقول مولانا ابولحسن علی ندویؒ’خطباتِ احمدیہ کوپہلے تحقیقی شاہکارکی حیثیت حاصل ہے۔‘

 اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی محسوس کیاجاتاہے کہ سیرت نگاری کے نقطہ نظرسے ’خطبات احمدیہ‘ معذرت خواہانہ طریق نگارش کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دراصل ان کافوری محرک اورمقصودہی ان کی فطری ماہیت کومتعین کرنے کاعامل بناہے۔ چونکہ سرسیدؔ، ولیم میورؔ کے ان الزامات واتہام کاجواب دیناچاہتے تھے،جوانھوں نے اپنی کتاب میں لگائے تھے؛اس لئے عذرخواہانہ طریق تالیف لازمی تھا،ڈاکٹرمحمد یٰسین مظہرصدیقی لکھتے ہیں :

 ’’اگرسرسیدؔ چاہتے بھی تواس طریق نگارش سے نہیں بچ سکتے تھے۔ اس سے بچنے کی واحدصورت یہ تھی کہ سرسید ؔسیرت پر اپنی جامع، مستند اورصحیح کتاب لکھنے کااولین ارادہ پوراکرتے اوراس میں متعلقہ مقامات پرولیم میوریادوسرے مؤلفین ومصنّفین کی غلط بیانیوں، بے بنیاد تعبیروں اورمتعصبانہ نتیجوں کی تردید بھی کرتے رہتے لیکن وہ ایک مشکل اوروقت طلب کام تھا جس کی اجازت ان کے دل کی سوزش، روح کی بے چینی اورذہنی اضطراب نہیں دے سکے۔‘‘

                ’خطبات احمدیہ‘ اس اعتبارسے اولیت کادرجہ رکھتی ہے کہ انیسویں صدی میں استشراق Orientalism))کے حملے کوروکنے اور رسول اللہ ﷺکی شبیہ کوداغدارکرنے کی مذموم کوششوں کاپہلامدلل جواب ہے۔کتاب کی ایک اوراہم خصوصیت ہے کہ اس نے ولیم میور اوراس کے حوالہ سے دوسرے مستشرقین اورمخالفین اسلام کے الزامات واتہامات پرمبنی نگارشات کی قلعی کھول دی اوربہت سے نوجوان مسلمانوں کوگمراہی سے بچایا۔ ا س سے زیادہ اہم کارنامہ یہ ہے کہ سرسیدؔ نے یورپی مؤلفین ومصنّفین کی علمی برتری کا رعب وداب ختم کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ یورپ کی تصنیفات کی بظاہرعلمی وقعت اورتحقیقی منزلت سے جدید تعلیم یافتہ اذہان متاثر ہوکر نہ صرف مرعوب ہوتے بلکہ اپنے دین وایمان اوررسول ﷺ وتاریخ کے بارے میں احساس کمتری کاشکار بھی ہوتے۔سرسیدؔ نے نہ صرف ان کی مرعوبیت دورکی بلکہ ان کواپنے پیغمبرؐ اورتاریخ اسلام پرافتخار وانبساط کااحساس وجزبہ بھی بخشا۔سرسیدکہتے ہیں :

  ’’۱۸۷۰ء میں جبکہ ’خطباتِ ا حمدیہ‘چھپ کرلندن میں شائع ہوئی تولندن کے ایک ا خبارمیں ایک انگریزنے لکھاتھاکہ عیسائیوں کوہوشیارہوناچاہئے۔ ہندوستان کے ایک مسلمان نے انھیں کے ملک میں بیٹھ کرایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے دکھایاہے کہ اسلام ان تمام داغوں اوردھبوں سے پاک ہے جوعیسائی اس کے خوشنماچہرے پرلگاتے ہیں۔ ‘‘  (بحوالہ ’خطبات احمدیہ‘؛ص۱۹)

  آرنلڈ لکھتے ہیں :

  ’’ایسی مثالیں توپائی جاتی ہیں کہ کسی مسلمان نے بمقابلہ عیسائیوں کے اپنی زبان میں اپنے ہی ملک میں بیٹھ کراسلام کی حمایت میں کوئی کتاب لکھی اوراس کاترجمہ کسی یورپی زبان مینہوگیالیکن مجھے کوئی ایسی مثال معلوم نہیں کہ کسی مسلمان نے یورپ جاکریورپ ہی کی کسی زبان میں اس مضمون میں کتاب لکھ کرشائع کی ہو۔‘‘(بحوالہ ’خطبات احمدیہ‘؛ص۱۱)

خطبات احمدیہ کاایک اہم لسانی امتیازیہ ہے کہ انہوں نے اردوزبان میں اعلیٰ علمی اورتحقیقی نگارش کاعمومی طریقہ فراہم کرنے کے علاوہ سیرت نگاری کے باب میں علمی،تحقیقی اورمعقول ومدلل اندازبیان اوراسلوب پیداکیا۔ مجموعی طورپرسرسیّد ؔ کی سیرت نگاری نے اپنی بعض قابل گرفت کمزوریوں کے باوجود اپنے معاصرین اورجانشینوں خاص کرسیرت نگاروں کوایک نیااورمعقول علمی اسلوب بھی دیا اورسیرت نگاری کے میدان میں ان کی کثیرجہتی رہنمائی بھی کی۔ الطاف حسین حالی ؔکتاب کے حوالے سے اپنی رائے یوں پیش کرتے ہیں :

  ’’سرسیدؔنے اس کتاب میں مناظرہ کے اس مخاصمانہ طریقہ کی جگہ جومسلمانوں میں عمومََادائروسائرہے اورجس سے فریق مخالف کے دل میں بجائے رغبت کے نفرت اوربجائے آشتی کے ضدپیداہوتی ہے؛ایک ایسادوستانہ اوربے تعصّبانہ طریقہ اختیارکیاہے جوکسی کوناگوارمعلوم نہیں ہوتا۔‘‘(تعارف؛خطباتِ احمدیہ۔ص۱۹)

                سرسیدؔکے اس مدلل اسلوب ومبنی برخلوص کاوش نے اپنااثرکردکھایااوریورپ کے غیرمتعصب اہلِ علم ونکتہ سنج مفکرین نے ولیم میورکے خلاف فیصلہ دینے میں کنجوسی نہیں برتی۔کرنل گریہمؔاپنی کتاب’حیاتِ سرسید‘میں سرسیدکی غیرمعمولی تعمق نظری وبے تعصبی کاذکرکرتے ہوئے ابنائے قوم کومخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جولوگ مذہب سے دلچسپی رکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ سرسیداحمدخان کی سیرت پرلکھی ہوئی کتاب کابغورمطالعہ کریں۔ دینِ محمدﷺفی زمانہ انگریزوں کے نزدیک ایک غیرمعقول وسخت دین رہاہے۔اسلام عمومََاایک تلوارکامذہب خیال کیاجاتاہے اورہرایک چیزتعصب؛مغائرت اورتنگدلی کی اس میں خیال کی جاتی ہے لیکن میں وثوق سے کہتاہوں کہ جب سرسیداحمدخان کی اس کتاب کوغورسے پڑھیں گے تومیں کہہ سکتاہوں ک وہ بالکل مختلف خیالات لے کراٹھیں گے۔‘

                جیسا کہ بتایاگیاکہ ’خطباتِ احمدیہ ‘بارہ ابواب پرمشتمل کتاب ہے۔ان ابواب میں مصنف نے تفصیل سے تاریخ عرب سے لے کربعثتِ شمعِ رسالت کامدلل احاطہ کیاہے۔پہلا باب میں انہوں نے عرب کانہایت ہی مفصل تاریخی جغرافیہ پیش کیاہے۔ولیم میورنے اپنی کتاب میں مسلمانوں کے بعض مسلمات کی نفی کی ہے؛اس کے جواب میں سرسیدنے یہ باب باندھا۔دوسراباب عرب جاہلیت کے رسوم وعادات اورخیالات وعقائدکی عکاسی کرتاہے۔اس باب میں مصنف کامقصدیہ واضح کرناہے کہ اسلام نے اہل عرب کے اخلاق،عقائدوروایات میں کیسے صالح انقلاب لایا۔تیسراباب؛ان ادیان کے تفصیلی تذکرہ پرمشتمل ہے؛ جوقبل اسلام عرب میں رائج تھے۔چوتھے باب کوسرسیدنے چارذیلی حصوں میں منقسم کیاہے۔مشہورعیسائی دانشوروں کے اقوال نقل کرکے سرسیدنے یہ ثابت کیاہے کہ اسلام ہی نے انسانی معاشرت کوفوائدپہنچائے ہیں۔ ایورڈگبن،جان ڈیون پورٹ،ٹامس کارلائل وغیرہ کے اقوال اس باب میں درج ہیں۔

پانچواں باب؛مسلمانوں کی مذہبی کتب جیسے کتبِ حدیث،کتب سیر،تفاسیراورفقہ کی تصنیف کامنشاواضح کرنے کے لئے رقم کیاہے۔مقصددرپیش یہ تھاکہ نکتہ چیں جواسلام کے خلاف لکھناچاہیں، انہیں ہماری کتابوں کی طرزتصنیف سے آگاہی اوربصیرت حاصل ہو۔چھٹاباب طویل ہے۔اس میں اسلام کی روایات کورقم کیاگیاہے۔روایت کی تاریخ،اس کی اصلیت اوردین کن روایتوں پرمنحصرہے؛اس کاتفصیلی جائزہ لیاگیاہے۔ساتواں باب ؛اس میں قرآن مجیداوراس کانزول؛سورتوں اورآیتوں کی ترتیب،مختلف قراٗتوں، ناسخ ومنسوخ کی بحث، جمع قرآن کازمانہ،اس کی نقلوں کی اشاعت وغیرہ کابیان ہواہے۔مزیدولیم میورودیگرمتعصب عیسائی مصنفین کی قرآن کے حوالے سے اعتراضات کانہایت شافی تحقیقی جوابات دئے گئے ہیں۔

آٹھواں باب؛خانہ کعبہ کی تاریخی اورجغرافیائی تحقیقات پرمشتمل ہے۔اس باب کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ ولیم میورنے اپنی کتاب میں ایک دروغ گوئی یہ کی کہ حضرت اسمائیلؑ کامکہ میں آبادہونا؛خانہ کعبہ کی تعمیراوراس کی تمام مراسم کاحضرت ابراہیمؑ واسماعیلؑ سے تعلق ہونا؛یہ سب اُس کے نزدیک بناوٹ اورافسانہ ہے۔

سرسیدؔمرحوم نے اس باب میں نہ صرف مسلمانوں کی تاریخوں سے بلکہ اہل یورپ کے عیسائی محققوں اورجغرافیہ دانوں کی تحقیقات سے حضرت اسماعیلؑ اوران کی ذریت کاعرب میں ہوناثابت کیاہے۔بعض بے بنیاداعتراضات کاتورات وانجیل سے دلائل پیش کرکے ڈنکے کی چوٹ پرجوابات پیش کئے ہیں۔ نواں باب؛رسول اللہ ﷺکے نسب کی تحقیقات پرہے۔ولیم میورنے اپنی کتاب میں رسالتمآبﷺ کے بنی اسماعیل ہونے سے انکارکیاہے۔اس بے جادعوے پرسرسیدنے نہایت عمدہ تمہیدباندھ کرمفصل شواہدپیش کرکے مدلل جواب دیاہے۔اس باب میں بھی سرسیدنے کچھ دانشوارانِ یورپ کی شہادتیں نقل کرکے علم وتحقیق کاحق ادکیا۔گبنؔ کانقطہ نظروہ یوں نقل کرتے ہیں ؛’محمدﷺکوحقیراورمتبذل نسل سے کہنا؛عیسائیوں کاایک احمقانہ افتراہے۔۔۔اسماعیلؑ سے ان کی نسل کاہوناایک قوی تسلیم کی ہوئی بات اورملکی روایت سے ثابت شدہ امرہے۔دسواں باب؛ان بشارتوں کے بارے میں ہے جوتورات اورانجیل میں حضورﷺکے نبی ہونے کی بابت مذکورہیں۔ گیارہواں باب؛معراج اورشقِ صدرکی حقیقت، جیساکہ سرسیدکی تحقیق ہے،پرمشتمل ہے۔قرآن میں معراج کی نسبت جوبیان ہواہے؛اسی پرانحصارکیاگیاہے۔عیسائیوں کے طعن وتشنیع کاجواب الزامی وتحقیقی دونوں طرح سے دیاگیاہے۔

بارہواں باب؛رسول اللہ ﷺکی ولادت سے بارہ برس کی عمرتک کاحال معتبرروایتوں کی بنیادپررقم کیاگیاہے۔ولیم میورنے حضورکی حیات مبارکہ کے ابتدائی دورپرجواعتراضات واردکئے اورجن روایات کاانہوں نے سہارالیاتھا،ان پرسرسیدنے تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔اس باب میں ولیم میورکی تعریضات کے اورببھی کچھ لطیف مباحث ہیں ؛جنہیں کتاب میں دیکھاجاسکتاہے۔

  سرسیداحمدخان کاارادہ ولیم میورکی چاروں جلدوں کاجواب لکھنے کاتھالیکن لندن میں ان کاطویل قیام ممکن نہ ہوسکا۔لندن میں تحقیق کے لئے جوکتب میسر تھیں ؛وہ ہندوستان میں دستیاب نہیں ہوسکتی تھیں۔ مگرجومباحث ولیم میورکی کتاب میں زیادہ اہم تھے،ان میں سے اکثرمباحث کامدلل وتفصیلی جواب سرسیدنے ایک ہی جلدمیں دیا۔اس کتاب کی خوبی وحقیقت مطالعہ کے بعدہی سامنے آتی ہے۔

  واضح رہے کہ دریدہ دہنوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ اس دعوتِ توحید کی۔ رسول اللہ ﷺ حرا سے پیغام ہدایت لے کرنکلے توظلمات کے علمبردار تضحیک وتنقیص کے سامان سے مسلح ہوکر میدان میں اترے۔ ابولہب سے لے کر چارلی ہیبڈو(Charlie Hebdo) تک بد تہذیب ا قوام اورافراد اسلام کی بڑھتی ہوئی روشنی سے بوکھلاہٹ کاشکار ہوکر چاندوسورج کوتھوکتے رہے ہیں، نتیجہ صاف ہے، وہ واپس اُن کے منہ پر آگرتاہے۔ استہزاوتمسخر تب اسلام کے لئے کوئی رکاوٹ بنا جب فاراں کی وادیوں میں چندگنے چنے افراد رسالتمآب ﷺ پرایمان لائے اورنہ اب اسلام کواس سے کوئی خطرہ ہے جبکہ ہماری آبادی ان شریر قوموں اورفاسد ذہنوں کی خباثت کے علی الرغم دوارب کے قریب ہے۔ نئی پود اسلام کے دامنِ رحمت میں پناہ لے رہی ہے اوروہ اقلیت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کی تہذیب، اُن کاتمدّن،آخری ہچکی لے رہاہے۔ اس لئے اپنی بقاء کے لئے وہ ایسے اوچھے ہتھکنڈے اورانسانیت سے گرے ہوئے مکروہ حرکات کرتے رہتے ہیں۔

 ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ اتحاد واتفاق کامظاہرہ کرے۔ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ آپسی رسہ کشی کوترک کرکے عوام کومتحدکرے۔ مسلک کی تشہیر سے اجتناب کرکے دین کی تبلیغ کافریضہ انجام دے۔ ممبررسول ﷺ سے نفرت اوربغض نہیں بلکہ پیارومحبت کے موتی بکھیریں۔ امت مسلمہ کا دین کی بنیادوں پر کھڑا ہونا ہی سب سے بڑا احتجاج ہوگا۔ تہذیب وشائستگی ہمارا زیورہے اورکسی فرد یا قوم کی دشمنی ہمیں اتنامشتعل نہ کرلیں کہ ہم اس زیورسے محروم ہوکر بدتہذیبوں کی صف میں کھڑے ہوں۔

مکہ کے نامساعد وسنگین حالات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کارفعِ ذکر کیا اور تاقیامت یہ نام بلند وبالا ہی رہے گا،چاہے تہذیب سے ناآشنا اقوام کویہ کتنا ہی برالگے۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔