رفیق منزل، مئی 2023

سہیل بشیر کار

ماہنامہ ’رفیق منزل‘ میں ہر ماہ الگ الگ theme پر مضامین شائع ہوتے ہیں۔ موضوع ایسا چنا جاتا ہے جس پر بہت ہی کم لٹریچر دستیاب ہے۔ اس کے دو فائدے ہیں: ایک قاری کے سامنے موضوع کے حوالے سے مختلف جہات آتے ہیں اور نادر موضوعات پر نیا مواد جمع ہوجاتا ہے۔ رفیق منزل کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مضامین لکھوائے جاتے ہیں۔ ادارت سے وابستہ افراد عرق ریزی سے کام لیتے ہیں، اگرچہ رسالہ میں دیگر مضامین بھی ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر مضامین مبنی بر تھیم ہوتے ہیں،اور رسالہ کی خاص بات یہ ہے کہ مضامین میں تقرار  نہیں ہوتی۔ رسالہ کے مضامین نوجوان نسل کے ذہن کو مدنظر رکھ کر لکھوانے کی کوشش ہوتی ہے، جو نوجوان رفیق منزل کے مستقل قاری ہیں، انہیں نوجوانوں سے وابستہ مسائل سمجھنے میں فکری رہنمائی ملتی ہے۔

مئی 2023 کے شمارے کا تھیم ’سنیما‘ ہے۔ اداریہ  ہے: ’’آرٹ اینڈ کلچر کے میدان کے ساتھ ہماری واقفیت، ہمارے نقطہ نظر اور فلسفیانہ بنیادوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہم دراصل اپنے پیغام کو اس معاشرے کے ہر کونے تک پہنچانے کے لیے جوش کے ساتھ کام کرنے والی ایک نظریاتی تحریک ہیں۔ اس طرح یہ بنیادی مزاج ہماری واقفیت اور نقطہ نظر کو تشکیل دیتا ہے۔ جب ہم فن اور ثقافت کے دائرہ کار میں سر گرم ہوتے ہیں، تو ہمارے پیغام کی تبلیغ کے لیے یہ جوش بعض دفعہ جمالیاتی حساسیت کو زیر کر دیتا ہے، جو عموما فن اور تخلیق کی موت کا باعث بنتا ہے۔ پھر ایک فلم ، شارٹ فلم، یا نکڑ ناٹک ایک اور توسیع شدہ تقریر بن جاتی ہے اور جمالیات پس پشت چلی جاتی ہے۔ لہذا آرٹ اور ہماری دعوت کے در میان توازن پیدا کرنے کی طرف پیش قدمی کی جائے تو گویا ایک گہری کھائی عبور کرنی ہو گی تبھی ہم کامیابی کی راہ پر گامزن ہوں گے۔ ہمارا اگلا منطقی قدم یہ ہو نا چاہیے کہ آرٹ اینڈ کلچر کی فطری خوبصورتی کو ارسطو کے تصور کیتھار کس(بے خودی یا بے حجابانہ اظہار) کے طور پر پہچانا جائے جو کہ فن اور ثقافت کے لیے بنیاد ہے۔ ایک بار جب اس پہلو پر توجہ دی جائے تو فنکار فطری طور پر تخلیقی ماحول میں جینے اور سانس لینے اور معجزہ تخلیق کرنے کے قابل ہو جائے گا۔‘‘

رسالہ میں ابو القمان صاحب نے فلمیں اور سنیما، انس شاکر صاحب نے متوازی سنیما، محمد مدثر قمر صاحب نے، دلت سنیما کی اٹھان، صفیہ شیریں نے فلیمں کیا کرتی ہے، نحال وازور نے مین اسٹریم سنیما میں مسلمانوں اور اسلام کی نمائندگی، طلال محمود نے ایرانی فلموں ،سید سیف الدین نے کشمیر فائلز اور شجاع الحیات نے فلم فرح پر مضامین لکھیں ہیں۔ عنوانات سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ سنیما کے موضع پر کس قدر جامعیت اور تنوع سے لکھا گیا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ تھیم کے اہم پہلوؤں سے نوجوان نسل کو آگاہ کیا جائے، کشمیر فائلز اور فرح پر مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک پروپگنڈہ اور سچی فلم میں کیا فرق ہے۔

سید سیف الدین نے کشمیر فائلز کے کے مضمرات پر خوبصورت بحث کی ہے لکھتے ہیں: ’’بد قسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ اگنی ہوتری کی منشاء کشمیری پنڈتوں کے تجربے کی اصلاح کرنا نہیں تھا۔ اس فلم نے کشمیر میں نسل کشی؛ جس نے ہزاروں جانیں لے لیں، پر ایک بحث شروع کی۔ جو لوگ مبالغہ آرائی کی وجہ سے فلم پر تنقید کرتے ہیں وہ اس نکتے کو کھو دیتے ہیں۔ یہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ اس غیر انسانی سلوک کے بارے میں ہے جو انسان کو انسان کے خلاف کرتی ہے۔ سورج کی پہلی کرن دیکھنے سے پہلے ہی کئی جانیں ضائع ہو گئیں۔ جنگ نہ صرف ٹھوس بلکہ غیر محسوس خصوصیات کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ انسانی زندگیوں پر جنگ کے اثرات وقت کی ہواؤں کے ذریعے گونجتے ہیں اور ایک دیر پا، اور اکثر ایسے داغ چھوڑ جاتے ہیں جو صدیوں تک زائل نہیں ہوتے۔ فلسطین کی تباہی کو یاد رکھنا تاریخ کے سب سے سرد واقعات میں سے ایک تھا اور اس نے جغرافیہ کے ساتھ ساتھ فلسطین کی تاریخ میں بھی زبر دست تبدیلیاں کیں۔ جنگیں ہمیشہ انسانیت کے لیے اسباق ہوتی ہیں کہ ملکی اور عالمی سطح پر امن اور ہم آہنگی کو بر قرار رکھنے کے لیے کیا نہیں کرنا چاہیے۔ فرحہ اس دعوے کا ایک اچھا ثبوت ہے، اور یہ لوگوں کو در پیش ان گنت ہولنا کیوں کی یاددہانی کا کام بھی کرتی ہے۔ کشمیر فائلز میں کوئی آسکر شنڈلر نہیں ہے۔ شنڈ لر ایک جرمن تھا، جس نے اپنی فیکٹری میں تقریبا ایک ہزار یہودیوں کو کام پر لگا کر اکیلے ہی بچایا۔ اگنی ہوتری کی فلم میں ذبح کرنے والوں میں کوئی بھیڑ کا بچہ نہیں ہے۔ کشمیر فائلیں انسانیت کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ یہ بربریت کے بارے میں ہے۔‘‘ وہیں فلم فرح کے بارے میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح وہ سچے واقعات پر مبنی فلم ہے۔ رسالہ میں sio کے نومنتخب صدر رمیس ای کے کا ایک عمدہ انٹرویو شامل کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ sio کے مستقبل کے منصوبے کیا ہیں، برادر عمیر انس ایک عرصہ سے فکری مضامین لکھ رہے ہیں، آپ کی فکر پختہ ہے اس شمارے میں آپ کا ایک مضمون "ایک مشترک مستقبل کی فکری جدوجہد” کے عنوان سے شائع ہوا ہے، ایڈووکیٹ ابوبکر صاحب نے ایک قانونی کتاب "Anti conversion law” پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔

عوامی و فکری رہنما راشد غنوشی کو حال ہی تیونس میں گرفتار کیا گیا، عزیزی ابوالاعلٰی نے اس حوالے سے ایک مضمون لکھا ہے۔ وہ راشد غنوشی کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’راشد غنوشی بیس سے زائد اہم علمی و فکری کتابوں کے مصنف ہیں۔ حقوق انسانی، خواتین، اسلامی تحریک، اسلامی سیاست اور قضیہ فلسطین کے علاوہ شہریت، جمہوریت اور دوسرے موضوعات پر آپ کی گراں قدر تصانیف کافی اہم اور فکر انگیز ہیں۔ علامہ قرضاوی کی قائم کر دہ انٹر نیشل یونین فار مسلم اسکالرس میں بھی آپ کا نمایاں رول رہا، نائب صدر بھی رہے اور اس کی شوری اور سکریٹریٹ کا حصہ بھی رہے۔ امت کے عالمی مسائل، خاص طور پر قضیہ فلسطین کے سلسلہ میں بھی آپ نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔‘‘

ان کی گرفتاری پر ان کی بیٹی کا ایک ہمت افزا بیان آیا۔ ابوالاعلٰی وہ پیغام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’میرے والد بالکل عین جوانی میں اس وقت کے ظالم حکمراں حبیب بور قیبہ کے زمانے میں جیل گئے، اور جب پختہ عمر کو پہنچے تو اس وقت کے ظالم حکمراں بن علی کے دور میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ، اور آج وہ بڑھاپے کی عمر میں ایک باغی حکمراں کے زمانے میں قید کر لیے گئے۔ وہ ہمیشہ اپنے طریقہ کار پر ثابت قدم رہے، اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے، ان کے بال سفید ہو گئے لیکن ان کے دل میں ایمان اور آزادی کی جو چنگاری تھی وہ ابھی تک بجھی نہیں ہے۔ انتہائی ذہین، زندہ دل ، اور جد وجہد کا پیکر یہ ایک ایسے شخص کی داستان زندگی ہے جس نے اللہ سے کیے گئے وعدے کو بلا کم و کاست پورا کیا۔‘‘

الغرض مضامین کے انتخاب اور مواد سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک نوجوان فکری تنظیم کا ترجمان ہے۔

جتنے بھی اردو رسائل میری نظروں سے گزرے ہیں، گیٹ اپ اور کاغذ ’رفیق منزل‘ جیسا کسی اور رسالہ میں نہیں ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل کو اس رسالہ سے متعارف کروایا جائے۔ یہ رسالہ فون نمبر 7042406091 کے ذریعہ جاری کرایا جاسکتا ہے۔

مبصر سے رابطہ 9906653927

تبصرے بند ہیں۔