ائمہ مساجد سے چند باتیں

الطاف جمیل شاہ

 ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق

جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

امام لفظ جوں ہی زبان پر آتا کے تو ہم سب کے دماغ میں جلد ہی امام کا خاکہ آجاتا ہے امام مطلب وہی جو ہماری مساجد میں ہماری نمازوں میں محراب کے بالکل سامنے کھڑے ہوکر نماز کے امام بن جاتے ہیں ، ویسے امام کے کئی اور معنی بھی بیان کئے جاتے ہیں پر آج اسی امام کے بارے چند باتیں کرتے ہیں، قوم کے سامنے کھڑے ہوکر نماز میں امام بننا ایک عظیم اعزاز ہے جسے ہم لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے یہ ایک ایسی سعادت ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ملی اور انہوں نے اس فرض منصبی کو کچھ اس خوبصورت انداز سے ادا کیا کہ تا قیامت اہل ایمان انہیں خصوصیات کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے رکھنے کو سعادت سمجھتے رہیں گئے، اور ایسا کیوں نہ ہو وہ تو مسلمانوں کے مرشد اعظم ہیں رہبر کامل ہیں جن کا ہر عمل ہمارے لئے باعث افتخار ہے جہاں میں اور آخرت میں کامیابی کی کلید اس لئے یہ جو امام ہیں کسی صورت خود کو کمتر نہ سمجھیں بلکہ اس اعزاز کے حصول پر اللہ کی بارگاہ میں سجدہ شکر ادا کیا کریں کہ اس اندھیرے میں جب ہر سو انتہائی درجہ تک بدی و گمراہی کا دور دورہ ہے ایسے میں اللہ تعالٰی نے آپ کو اپنے دین مبین کی خدمت کے لئے پسند کیا اور اس دور ظلمات میں آپ کو چراغ ہدایت کو تھامنے والا بنا کر پوری انسانیت کے سامنے اعزاز و افتخار بخشا، یہ سب ایسے ہوتا نہیں ہے بلکہ جب اللہ تعالٰی کو آپ کا کوئی لمحہ کوئی آہ پسند آجائے تو اللہ تعالٰی اعزاز و افتخار سے سرفراز فرماتے ہیں۔

چند باتیں 

تُو نے پُوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے

حق تجھے میری طرح صاحبِ اَسرار کرے

چند باتیں جنہیں جاننا لازمی ہے کہ امام میں یہ خوبیاں ہوں تو وہ سراپا رحمت ہوتے ہیں گر ہم دور دور تک نظر دوڑائیں یا صرف اپنا ہی محاسبہ کریں تو ممکن کے ہمارا حال بہتر ہو اور وہ وقار و افتخار میسر آجائے جس کے امام مستحق ہیں آپ دھیان میں رکھیں کہ مندرجہ بالا اوصاف ہی اصل مطلوب ہیں امام کے لئے ورنہ انسان خواہ کتنا بھی بڑا منصب ہو وہ بے فائدہ ہے جب تک اس میں چند ایسی خصوصیات موجود نہ ہوں جو اسے بقیہ قوم سے ممتاز کرتی ہوں

۱. قرآن مجید زیادہ سے زیادہ یاد ہو: نماز میں تلاوت ہی وہ ظاہری خوبی ہے جو مقتدی حضرات سے امام کو ممتاز کرتی ہے۔ باقی رہا امام کا ورع، تقویٰ، خلوص اور تعلق باللّٰہ یہ سب معنوی خوبیاں ہیں۔ آپﷺنے اسی لیے سب سے پہلے اسی بات کا تذکرہ فرمایا کہ امامت وہ کرائے: «أَقْرَئُهُمْ لِکِتَابِ اللهِ…» ’’جو ان سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو۔اور اگر قراَت میں برابر ہوں تو سنت کو زیادہ جاننے والا امامت کرائے، اگر اس میں بھی برابر ہوں تو ہجرت میں پہل کرنے والا اور اگر اس میں بھی برابر ہوں تو امامت وہ کرائے جوان میں سے عمر میں بڑا ہے۔‘ قرآن کریم اور سنن نبوی ہی ایک ایسا علم ہے جس میں امتیازی حیثیت اور عبور آپ کو تمام قوم سے ممتاز کرتا ہے اب گر اس میں کمی ہے یا ناکافی ہے جیسے کہ ضروری فرائض و واجبات سے لاعلمی تو ایسے شخص کا امام بن کر قوم کی گردن پر سوار ہونا مناسب ہی نہیں ہے اور نہ ہی موزوں

۲۔۔ قراء ت سکون سے ٹھہر ٹھہر کر کرے: نبیﷺ کی زوجہ محترمہ اُمّ سلمہؓ روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ کی قراَت لمبی لمبی ہوتی تھی۔ ایک ایک آیت کرکے پڑھتے تھے، پھر اُنھوں نے باقاعدہ تلاوت کرکے دکھائی۔ چنانچہ ائمہ کرام کے لیے یہ سنّت ٹھہری کہ وہ ایک ایک سانس میں 5،5 آیات پڑھنے کی بجائے ایک ایک آیت کو علیحدہ علیحدہ پڑھیں۔ سکون سے پڑھیں اور خوب اچھی طرح سے پڑھیں کہ دل اس کی اور خوب متوجہ ہوں ایسا نہ ہو کہ صرف اس حد تک پڑھا جائے کہ نماز ہوگئی اور قرآت کے نام پر لوگوں کو متنفر کرایا جائے یہ تو غلط ہے ہاں آپ پوری یکسوئی اور حضور قلبی سے قرآت کریں نتائج اللہ دے گا

۳ امام حوصلہ مند ہو: ایک امام کا واسطہ مختلف ذہن اور طرز و اَدا کے لوگوں سے رہتا ہے۔ کسی کے لہجے میں ترشی، کسی کے انداز میں درشتی، کوئی اعلیٰ اقدار کا حامل، کسی کو بولنے کا سلیقہ نہیں اور کوئی مسئلے پوچھ کر امام کو نیچا دکھانے کا آرزو مند۔ ان مختلف قسم کے لوگوں کو ڈیل کرنا، کڑوی کسیلی باتیں سننا یہ امام کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اُنھیں چاہیے کہ اس کام کے لیے پہاڑوں جتنا حوصلہ پیدا کریں۔ اس کے لئے بھی چاہئے کہ اپنے مرشد اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں اور واقعات سے سبق لیں کہ کیسے کٹھن اور سخت حالات و حوادث میں بھی حوصلہ بر قرار رہا آپ نمائندہ ہیں تو اس نمائندگی کا آپ کو احساس ہو اور آپ اپنے ہر عمل کو میزان سنت میں رکھ کر انجام دیں

۴. امام جلد باز نہ ہو: اگر امام جلد بازی کرے، کسی کو فوراً جواب دے یا فوری ردّ عمل کا اظہار لے تو اس سے اس کی اپنی ساکھ متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ کیونکہ جلد بازی کے اکثر فیصلے یا اقدامات درست نہیں ہوتے۔ نبی کریمﷺ نے نماز پڑھائی اور دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیا۔ ایک صحابی جن کا لقب ذو الیدین تھا، انھوں نے آپﷺ سے عرض کی: «أَنَسِیتَ أَمْ قُصِرَتِ الصَّلَاةُ؟»

یا تو آپ بھول گئے ہیں یاپھر نماز میں کمی ہوگئی ہے؟

آپﷺنے اسے کچھ کہنے کی بجائے یہ اظہار فرمایا: «لَمْ أَنْسَ وَلَمْ تُقْصَر»

’’نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہوئی ہے۔‘‘

پھر آپﷺنے عمومی رائے لیتے ہوئے پوچھا: «أَکَمَا قَالَ ذُوالْیَدَیْنِ؟»

’’کیا بات اسی طرح ہے جس طرح ذُوالیدین کہہ رہے ہیں؟‘‘

صحابہ نے جواب دیا: جی ہاں! تو پھر آپﷺ آگے ہوئے اور جو حصہ رہ گیا تھا وہ پڑھایا، پھر سلام پھیرا۔ پھر دوسجدۂ سہو کیے اور سلام پھیر دیا۔ ‘‘ کوئی تکرار نہیں کی ورنہ کرسکتے تھے پر اپنی امت سے حد درجہ شفقت اور معلم اخلاق کی حیثیت سے اللہ تعالٰی نے نمونہ بنایا ہوا تھا اس لئے وہ کسی سے تکرار یا ضد نہیں کرتے تھے بلکہ تحمل سے سنتے اور تصدیق کرتے اور پھر بقیہ عمل انجام دے کر خود کو بھی اور لوگوں کو بھی اللہ تعالٰی سے جوڑے رکھتے اب گر امام صاحبان چھوٹی چھوٹی باتوں پر تکرار یا غصہ کرنا شروع کریں اور اپنے ماسوائے ہر کسی کو غلط ہی سمجھیں تو پھر یہ تو ناممکن ہے کہ اہل جہاں اس کی تعظیم و تکریم کریں

۵۔۔ امام کاطرزِ تکلّم اچھا ہو: مقتدی حضرات کو کوئی بات سمجھانے کے لیے بہتر سے بہتر طرزِ تکلّم اور عمدہ اُسلوب اختیار کیا جائے۔ بعض اوقات انسان ضد کی وجہ سے اپنے فائدے کی بات بھی ٹھکرا دیتا ہے۔

۶۔۔امام حساس اور ہمدردی کے جذبات سے متصف ہو:امام کو دیگر اوصاف کے ساتھ ساتھ حساس اور ہمدردی سے متصف ہونا چاہیے۔ وہ امام ہی کیا جو اپنے مقتدیوں کے جذبات و احساسات ہی سے نا آشنا ہو۔ دیکھیے رسولِ اکرمﷺ سے زیادہ قراء ت میں تاثیر اور خوش الحانی کسے ودیعت ہوسکتی تھی، اس کے باوجود آپﷺ نمازیوں کا خیال رکھا کرتے تھے۔

سیدنا عثمان بن ابی العاص نے آپﷺ سے عرض کیا کہ مجھے اپنی قوم کا امام مقرر فرما دیں۔ آپﷺ نے فرمایا: «أَنْتَ إِمَامُهُمْ» ’’تم ان کے امام ہو۔‘‘ اور ساتھ ہی مقتدیوں کا خیال رکھنے کی تلقین فرما دی:« وَاقْتَدِ بِأَضْعَفِهِم ’’اور ان میں سے سب سے کمزور کی اقتدا کرنا (خیال رکھنا)

۷۔۔ امام یا خطیب داروغہ بننے کی کوشش نہ کریں: اپنی منصبی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ائمہ کرام یا خطبائے عظام داروغے نہ بنیں کہ زبردستی کسی سے نیکی کا کام کروائیں نہ کرے تو نفرت و کدورت کو اس قدر جگہ دیں کہ پھر اصلاح کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ بچے آپ داروغہ نہیں ہیں آپ تو ضامن ہیں آپ کا منصبی فریضہ ہے کہ ترغیب دیں کوشش کریں اور مسلسل کریں باقی نتائج اللہ کے ہاتھ ہیں وہ کس کو نیکی کی توفیق دیتا ہے کس کو نہیں دیتا ہے یہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے آپ اپنا کام کریں اللہ تعالٰی جانتا ہے اسے کیا کرنا ہے

۸۔۔وقت کی پابندی بہت ضروری ہے۔ اگر نمازِ جمعہ کا وقت ڈیڑھ بجے مقرر ہے، تو تقریر چند منٹ پہلے ہی ختم کریں، تاکہ نماز اپنے وقت پر شروع ہو۔آپ وقت کی پابندی کریں گے، تو مقتدی بھی وقت کی پابندی شروع کریں گے اور اس بات کو خوب سمجھیں کہ آپ نے گر ڈیڑھ بجے نماز کا وقت مقرر کیا ہے اب آپ جوش خطابت میں دس پندرہ منٹ زائد لے رہے ہیں یہ عمل عبث ہے کیونکہ ہر کوئی یہاں تبلیغ سننے سے زیادہ نماز کو ادا کرنے کے لیے آتا ہے اس لئے اسے بلا وجہ اپنی تقریر سننے کا پابند بنانا ظلم ہے اور ان کا وقت زائد لینے پر آپ غلط ہیں سو آپ اپنی بات رکھیں بلکہ اسی وقت تک جو آپ نے دیا ہے دیکھا گیا ہے کہ اکثر خطیب اس بات کا خیال نہیں رکھتے اب جب سامنے سے کوئی وقت کا کہہ دے تو کہا جاتا ہے کہ دین سمجھنے کے لئے آپ کے پاس فرصت نہیں ہے یا کوئی زیادہ ہی جوشیلا مقرر ہو تو وہ کہہ دیتا ہے فاسق ہے فاجر ہے ارے بھائی جمعہ کے دن آپ کی تبلیغ سننا یا نہ سننا یہ معیار ایمان نہیں ہے آپ اپنے اکابر علماء سے بھی اس باپت پوچھ سکتے ہیں

۹ ۔۔ دوران تبلیغ اکثر آج کل خطیب حد سے زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ کرتا ہے آواز کو اکثر بلند ہی رکھا جاتا ہے یہ بھی غلط ہے آپ کو چاہئے کہ کبھی آپ کی آواز میں جلال ہو ، تو کبھی عاجزی ، کبھی التجا ، تو کبھی حکم ہو ، کیوں کہ آجکل اکثر آپ نے بھی اور میں نے بھی کسی مسجد میں کم آواز تو نہیں سنی ہوگی ، اکثر ضرورت سے زیادہ بلند آواز ہوتی ہے۔ یہ سماعت پر گراں گزرتی ہے لیکن کسی کی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ کہہ سکے کہ ’’آواز بہت بلند ہے اور اس کو ذرا پست ہونا چاہیے۔‘‘ اس لیے آپ خود لوگوں اور مجلس کی ضرورت کے مطابق اپنی آواز کو بلند یا پست رکھا کریں اور لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کے لئے اپنی آواز کو استعمال کریں،،، اچھا آپ یہ بھی یاد رکھیں کہ غضبناک ہوکر یہ جو آجکل خطیب چلاتے ہیں یہ بھی کوئی مسنون عمل نہیں آواز کو بلند کرنا یا سختی پیدا کرنا جہاں لازم ہو وہاں بقدر ضرورت اس کا استعمال کریں پر مسئلہ وضو کا بیان کرتے ہوئے یا نماز روزہ زکاة کے مسائل بیان کرتے ہوئے غضبناک ہونا انتہائی درجہ کی لاعلمی اور سطحیت ہے

دے کے احساسِ زیاں تیرا لہُو گرما دے

فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

سنو اور یاد رکھو آئے ائمہ کرام 

یقین کیجئے کہ پیار بھری مسکراہٹ انمول ہوتی ہے۔ یہ کشش کا راز ہے، یہ دلوں کو جوڑنے والا مختصر ترین راستہ ہے۔مسکراہٹ صالح صحت کی علامت ہے۔

    نبی کریم مسلمانوں کو خندہ پیشانی اورمسکراہٹ کے ساتھ پیش آنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ اسی ضمن میں نبی کریم کا وہ ارشاد انمول ملفوظات میں شمار ہوتا ہے جس میں آپ نے فرمایا:

    "کسی بھی بھلائی کو حقیر ہرگز نہ جانو، اگرچہ تمہارا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو۔”(مسلم )۔

    نبی کریم نے یہ بھی فرمایا کہ اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا صدقہ ہے (ترمذی)۔

    نبی کریم کا ایک ارشاد یہ بھی ہے کہ تم لوگوں کے دل اپنی دولت سے ہرگز نہیں جیت سکتے، تمہیں لوگوں کے دل جیتنے کیلئے خندہ پیشانی اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے (بیہقی) ۔

    نبی کریم کا معمول تھا کہ آپ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجی رہتی تھی۔عبداللہ الحارث بن حزمؓروایت کرتے ہیں کہ میں نے آپ سے زیادہ مسکراتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا(ترمذی)۔ اس کی عادت بنائے کہ آپ اپنوں کے درمیان ہیں اور ان کا آپ پر حق ہے آپ امام ہیں آپ کا فرض ہے کہ لوگوں کو جوڑے رکھیں اور اس کے ساتھ ہی آپ مقدور بھر کوشش کریں کہ لوگوں کی اخلاقی تربیت کریں انہیں پیار و محبت سے دعوت اصلاح اعمال دیں انہیں دین کی ضروری باتیں سکھائیں آپ یہ نہ طے کریں کہ نماز جمعہ پر آپ نے خوب خطبہ دیا اور آپ کی ذمہ داری ختم نہیں ایسا نہیں ہے آپ کو اللہ تعالٰی نے جس دین کی خدمت کے صدقے دنیاوی مفاد بھی فراہم کر رکھا ہے اس کا احسان مانیں کہ اللہ نے آپ کا انتخاب کیا ہے اب آپ کا یہ فریضہ ہے آپ داعی بن کر زندگی گزاریں اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دیں نتیجہ اللہ تعالٰی لوگوں قلوب میں آپ کی محبت و عقیدت پیدا فرمائیں گئے گر آپ نے سمجھا کہ آپ دہاڑی مزدور کی طرح ہیں اور آپ صرف نماز کے امام ہوکر انتہائی قابل عزت و تکریم ہیں اب آپ کے ذمہ فاتحہ اور قل کی رسم کے ساتھ ہی نکاح خوانی سے لیکر فاتحہ خوانی تک کے سفر کو انجام دینے پر رقم کا حصول اور لذیذ کھانے ہی حصول زندگی ہے تو یاد رکھیں آپ کو یہ سب میسر تو آجائے گا پر جس کام کے لئے اللہ تعالٰی نے آپ کا انتخاب کیا تھا اسے انجام نہ دینے کے سبب آپ لوگوں کو نگاہوں میں گر جائیں گئے آپ کو حقیر نظروں سے دیکھا جائے گا پھر خواہ آپ کتنی بھی اپیلیں کریں کتنا بھی علماء فضائل امام بیان کریں کچھ نہیں ہوگا یہ سب مناظر آپ کو ازخود اپنے داعیانہ کردار و گفتار سے بدلنے ہوں گئے اور نتائج آپ کے لئے اچھے ہوں گئے جن کا حصول آپ کو ہی کرنا ہے اور طریقہ وہی ہے کہ دعوت دین کے لئے خود کو وقف کرکے الہی تعلیمات کو عام کرنا اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہر بات کو سہنا خواہ وہ کڑوی ہو یا میٹھی ہو کیوں کہ یہ اعزاز صرف آپ کے لئے ہی ہے آپ جی لگا کر تو دیکھیں اللہ تعالٰی آپ کے لئے اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دے گا

دے کے احساسِ زیاں تیرا لہُو گرما دے

فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

 چند باتیں مقتدی حضرات سے 

مساجد اللہ تعالٰی کا گھر ہیں اس لئے اب آپ نے جن ائمہ کا انتخاب کیا ہے انہیں دین و ایمان کی باتوں پر عمل کرنے کی آزادی دین احیاء توحید و سنت کی آبیاری کے لئے معاون بنیں یہ نہ کریں کہ اپنی چوہدراہٹ کو برقرار رکھنے کے لئے مساجد کے امام کے ساتھ اکثر ایسا رویہ رکھیں کہ وہ خون کے آنسو پینے پر مجبور ہوجائیں آپ کو صالح بننا ہے تو اس کے لئے یہ لازم نہیں کہ آپ اپنی صالح والی صفت کی تکمیل کے لئے اپنی مساجد کو اپنا گھر یا آفس بنانے کی سعی مزعومہ کو انجام دیں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جن کی بات اہل خانہ بھی نہیں سننا پسند کرتے وہ بھی مساجد میں آکر امام کے لئے شیر کی طرح دھاڑنا عین ایمانی غیرت تصور کرتے ہیں اب ان کی دنیا گردی کو گر دیکھیں تو انسان ماتم کناں ہوجائے کہ کس مخلوق سے پالا پڑ گیا ہے یا تمام عمر کسی بڑے عہدے پر رہ کر رشوت سود حرام کمائی کے ساتھ خوب نام کمایا اب جب جسم میں تازگی نہ رہی تو اللہ کی چوکھٹ پر سر رکھ کر توبہ و استغفار کرنا شروع کیا اچھی بات ہے پر اس میں آپ اپنی مساجد کے پیش امام کو تنگ کریں مختلف حیلے بہانے تراش کر اس کے ساتھ سخت رویہ اختیار کریں یہ تو اللہ کے ہاں آپ کے مبغوض ہونے کا ایک اور طریقہ آپ اپنا رہے ہیں کاش امت مسلمہ کے صالح مزاج لوگ اس طرف توجہ دیتے کہ مساجد کے امام آپ کے امیر ہیں دینی امورات میں ان کی عزت افزائی ان کی قدر و منزلت کرنا آپ کا دینی فریضہ ہے اسی سلسلے میں آپ یہ اقتباس پڑھتے جائیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں

موت کے آئِنے میں تجھ کو دکھا کر رُخِ دوست

زندگی تیرے لیے اور بھی دُشوار کرے

بقول ڈاکٹر طارق ایوبی:

میں نہیں سمجھتا کہ اس قوم کی صورت حال بدلنا ممکن ہے جس قوم نے قرآن کے طالب علموں اور اس کے حاملین کو بے کس ونادار سمجھ رکھا ہو، انہیں معاشرے کا کمزور و پسماندہ طبقہ بنا کر رکھ چھوڑا ہو، ان کی حالت یہ کر دی گئی ہو کہ انہیں قابل ترس اور لائق رحم سمجھا جانے لگے، وہ متولیوں اور مساجد کی کمیٹیوں کے رحم پر جینے پر مجبور ہوجائیں، اس کے جہاں اور بہت سے اسباب ہیں وہیں بڑا سبب یہ ہے کہ ذمہ داران مساجد ائمہ ومو ¿ذنین کے مقام سے واقف ہی نہیں، ان کی ضروریات کا انہیں احساس ہی نہیں، یاد رکھا جائے کہ دنیا میں کوئی معزز ترین شخص اہل دنیا کے نردیک تو محترم ومعزز ہو سکتا ہے لیکن اللہ کے یہاں ایک حافظ قرآن کا جو مقام و مرتبہ ہے (جس کے بیان کا یہ موقع نہیں) اسے دیکھ کر یہ اہل ثروت اور دنیا پرست روز قیامت ہاتھ ملیں گے اور سوچیں گے کاش ان کے گھر میں بھی کوئی حافظ ہوتا، کاش انہوں نے کسی حامل قرآن کی قدر کی ہوتی، کاش کسی خادم قرآن کے پیر کی جوتی بن گئے ہوتے، کسی کی ضرورت اور کسی کا لباس بن گئے ہوتے۔

فی امان اللہ

تبصرے بند ہیں۔