ملک کے موجودہ حالات میں امکانات کی روشنی بھی ہے!

مولانا یحییٰ نعمانی

ملک کے حالات کی ایک تصویر تو آپ کو میڈیا سے ملتی ہے، جو دکھاتی ہے کہ ملک میں مسلمانوں سے نفرت اورغصہ بھر گیا ہے۔ آئے دن کے واقعات اس کی گواہی دیتے ہیں۔ شدت ونفرت اور غضب وانتقام پسندی کی یہ آگ اصل میں تو انتہا پسند تنظیموں کی لگائی ہوئی تھی ہی، لیکن ہر لمحے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے والا مواد نشر کر کے اس کو طوفانی شکل دینے کا کام بے ضمیرمیڈیاانجام دے رہا ہے۔ اور سرمایہ داروں کی لوٹ اور حکومت کی بد کرداریوں کو چھپانے اور مظلوم طبقات کی جد وجہد دبانے کے لیے بکاؤ میڈیا اور سیاسی پارٹیاں آگ بھڑکا نے کا کام کر رہے ہیں۔ یہ اصل میں ظالم ومظلوم کی کشمکش میں ظالم کی ایک مکارانہ چال ہے۔

نفرت وغصے کی یہ تصویر جھوٹی نہیں ہے۔ ملک میں نفرت ہے، بڑھ رہی ہے۔ مگر ملک میں دوسرے امکانات بھی موجود ہیں، ان کی شناخت، قدراور استعمال ہی ہمارے لیے واحد راستہ ہے۔ محض تشویش وتکلیف کا اظہارصحافت تو ہو سکتا ہے علاج تو قطعا نہیں۔

حکمت کا تقاضا ہے کہ اس صورت حال کو بہتر بنانے کے امکانات ڈھونڈے جائیں اور ان کی خوب نشان دہی کی جائے، تاکہ ملک کے امن وانصاف پسندوں کے لیے روشنی کی کرن اور راہ عمل فراہم ہو سکے۔

 ہم اللہ کی ذات عالی پر بھروسہ کر کے پورے اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ ابھی ملک میں امکانات کی بڑی گنجائش موجود ہے۔ ایک طرف تو میڈیا سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نفرت نے دلوں میں آگ لگا رکھی ہے، مگر واقعہ یقینا یہ بھی ہے کہ ابھی بھی ان جنونیوں (Fanatics) اور شر پسندوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے، ملک کی غالب اکثریت امن پسند اور شرافت کی قدر کرنے والی ہے۔

یہ میرا عمر بھر کا تجربہ ہے کہ ملک میں عام غیر مسلم آبادی، تما م ذات برادریوں اور علاقوں کی، مسلمانوں کے ساتھ اچھا ہی برتاؤ کرتی ہے۔ گزشتہ مہینوں میں میڈیا نے اپنی ہیجان خیزی سے جو نفسیاتی جنگ ملک میں چھیڑرکھی ہے، اس کی وجہ سے دل میں خیال آیا کہ جب بھی موقع ملے تو ایک مرتبہ پھر جائزہ لیا جائے کہ کیا عام غیر مسلم کی نگاہ بدل گئی ہے؟

گزشتہ ایک ڈیڑھ مہینے کے دوران جوذاتی تجربات ہوئے ان کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ عام غیر مسلم کے سامنے ایک باوقار شریفانہ مسلم کی تصویر رکھی جائے تو اس کو عزت واحترام ملتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا جو تجربہ میں پیش کرنا چاہوں گا وہ ابھی دو ہفتے قبل کا ہے۔ اہل خانہ کا ایک چھوٹا سا آپریشن ہونا تھا۔ لکھنؤ کے کنگ جارج میڈیکل کالج میں آپریشن طے ہوا۔ جن ڈاکٹر صاحب نے آپریشن کیا ان سے توکسی نے تعارف کرا دیا تھا اور وہ خصوصی توجہ دے رہے تھے۔ لیکن اس آپریشن سے پہلے کچھ نزاکتوں کی وجہ سے دسیوں جانچیں اسپتال میں کرائی گئیں، بار بار جانا اور پھر آپریشن کے دوران اور بعد میں بلا مبالغہ دسیوں غیر مسلم ڈاکٹروں اور عملے کے لوگوں سے واسطہ پڑا، میں اللہ کے شکر کے ساتھ کہتا ہوں کہ مجھے بہت سے لوگوں سے وہ اکرام ملاجو کسی مریض اور اس کے تیمار داروں کے ساتھ ان کے معاملے میں نظر نہیں آتا تھا، اپنی مولویانہ وضع وقطع کی وجہ سے میں اضافی عزت وتکریم ہی پاتا تھا، مجھ سے کہیں، نفرت تو دور، کسی اجنبیت اور غیریت کا معاملہ بھی نہیں کیا گیا۔

لکھنؤ سکریٹریٹ میں ملازم ایک صاحب اپنی بچی کا آپریشن کرانے کے لیے آئے ہوئے تھے، پاس بیٹھے تو معمولی سی کچھ بات چیت ہو گئی، ایک مرحلے پر جب ان کی بچی کو تکلیف تھی بہت معمولی سی مدد کر دی گئی۔ آپریشن کے بعد ملاقات ہوئی تو میں نے ان کی بیٹی کا حال پوچھ لیا، بس وہ شخص بِچھ ہی تو گیا!نیاز مندی سے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا، اس کے بعد خیریت بتائی۔

ایک موقع پر میں نے عملے سے کہا کہ آپ یہ کام جلد کر دیں مجھے نماز پڑھنی ہے، ہمیشہ کی طرح ہی تجربہ ہوا، ایک غیر مسلم بھائی نے فورا دوسرے ساتھی سے کہا ان کو نماز کو جانا ہے جلد کام کرو۔ سیکڑوں مرتبہ کا یہ تجربہ ہے کہ ٹرین میں، ایر پورٹ یا کسی بھی عوامی جگہ پر نماز کے لیے عزت کے ساتھ ہی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

قصہ کافی پرانا ہے مگر نماز کی مناسبت سے ذکر کردوں، سڑک کے سفر میں وضو کے لیے پانی ڈھونڈ رہا تھا، ایک مندر پر گاڑی رکوائی، پجاری سے پانی اور نماز کی اجازت مانگی، اس نے بڑی عزت کے ساتھ پانی لاکر دیا اور مندر کے صحن میں ایک تخت کی طرف اشارہ کر کے کہا: ماننیہ مولانا جی! یہ پوتر ہے اس پر پڑھ لیجیے۔ اور پھر ہم نے مندر میں نماز پڑھی۔

ابھی کچھ دن پہلے دہلی کا ایک سفر ہوا، میں ماحول کا اسی نقطہ? نظر سے جائزہ لیتا رہا کہ نفرت انگیزی کی مہم کے باوجود انسانیت کی گنجائش کتنی ہے۔ وہی جو ہمیشہ کا تجربہ ہے کہ مولویت احترام ہی کی مستحق قرار پاتی ہے۔

گزشتہ سال مئی میں والد ماجد مد ظلہ کا گجرات میں ایکسیڈنٹ ہوا۔ احمد آباد میں ایک ایسے اسپتال میں آپریشن اور علاج ہوا جس میں ایک شخص بھی مسلم نہیں تھا۔ مگر سرجن ڈاکٹر دنیش ٹھکر جو غالبا اس اسپتال کے مالک بھی تھے، نہایت عقیدت واحترام سے پیش آتے، دیر تک ادب سے کھڑے رہتے۔ بار بار اپنے اس تأثر کا اظہار کرتے کہ میں نے اپنی عمر میں ایسا مریض نہیں دیکھا۔ مریضوں کے تیمار دار دعاؤں کے لیے آتے۔ ایک تیواری صاحب جو کسی محکمے کے سکریٹری لیول کے افسر تھے، ہاتھ جوڑ کر دعائیں لیتے۔ بڑی منت ولجاجت سے کچھ ہدیہ بھی پیش کرتے۔

غور کرنے کی بات ہے کہ میڈیا کی تصویر یہ ہے کہ ڈاڑھی کرتا نفرت کی نظر سے دیکھے جارہے ہیں مگر اکثر تجربہ یہ ہو رہا ہے کہ مولویت احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ پہلی تصویر بھی بالکلیہ غلط نہیں ہے، مگر کوئی شبہہ نہیں کہ دوسری تصویر بھی ایک بڑی زمینی حقیقت ہے۔ بات یہ ہے کہ شر پسندوں اور جنونیوں کا ایک گروہ ہے، جو منظم ہے اور وسائل سے مالامال ہونے کے علاوہ ملک کو لوٹنے والے اور اس کے غریب عوام کا خون چوسنے والے سرمایہ داروں کے کام کی چیز ہے، وہ عوام کو اپنی لوٹ سے غافل رکھنے کے لیے نفرت انگیز ٹولے سے کام لیتا ہے، سرمایہ دار کی حمایت اور خود منظم ہونا یہی ان کی طاقت ہے اور بس!

وقت کی سب سے اہم ضرورت یہی ہے کہ ان امکانات سے کام لیتے ہوئے ملک میں نفرت وظلم کے ان کاروباریوں سے عوام میں نفرت پیدا کی جائے، ان کے کالے کارناموں اور جھوٹ اور فریب پر مبنی ان کے پروپیگنڈے کی حقیقت کھولی جائے۔ یاد رکھیے کہ آپ کے پاس بڑی طاقت موجود ہے، اور وہ یہ ہے کہ ملک کی آبادی کی ایک بڑی اکثریت (اگرچہ نہ بہت ایمان دار ہے نہ غیر جانب دار اور نہ حق پرست، مگر) اس میں انسانیت باقی ہے۔ ہم اگرچہ منظم نہیں ہیں، نہ اس طرح کے کسی ملکی مشن کے لیے ہمارے پاس سرمایے کی طاقت ہے، مگر ہماری طاقت عوام کی طاقت ہے۔ زمینی سطح پرہمارے لیے یقینا زیادہ گنجائش ہے، میں یہ ماننے کے لییتیار نہیں کہ اس ملک کے عام آدمی تک حق وانصاف اور انسانیت وشرافت کا پیغام پہونچانا ناممکن ہو گیا ہے۔ آپ میں سے جو شخص زمینی سطح پر عام انسانوں سے رابطہ کرتا ہوگا، وہ یقینا اس کی تصدیق کرے گا کہ اگر لوگوں سے شرافت اور وقار وسنجیدگی کے ساتھ پیش آیا جائے تو (سوائے چند بدمعاش قسم کے غنڈہ صفت عناصر کے) لوگ عزت وہمدردی کا معاملہ کرتے ہیں۔ ہمارے ملکی معاملات اور رویے میں انہی دو صفات کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔ (۱) شرافت (۲) وقار وسنجیدگی۔

ملک کی فضا اب بدل رہی ہے۔ خصوصا موجودہ حکومت کے ملکی بربادی کے اس دور نے، جس نے سب کچھ تباہ کردیا، اس کا خاص موقعہ فراہم کیا ہے کہ عام غیر مسلموں کو نفرت وعداوت اور جھوٹ کی ان سازشوں سے با خبر کیا جائے۔ لوگ دھوکے سے باہر آرہے ہیں۔ وہ میڈیا جو (Main stream media) کہلاتا ہے  اس کا ذلیل وضمیر فروش کردار اب کسی سے چھپا نہیں۔ لیکن عوام میں اپنی بار دوسروں تک پہونچانے کے دوسرے ذرائع موجود ہیں۔ جن میں سب سے اہم اور مؤثر ذریعہ ہم سب کا براہ راست رابطہ اور معاملہ ہے۔ مسلمانوں کے گھر گھر اور چپے چپے تک یہ پیغام پہونچانا ضروری ہے کہ اس ملک میں ان کی بقا اس سے وابستہ ہے کہ ان میں غیر مسلموں کو انسانیت وشرافت کی تصویر نظر آئے۔

اس کے علاوہ سوشل میڈیا ایک طاقت ور  متبادل ذریعے (Alternative Media) کے طور پر سامنے آیا ہے۔ سازشی ٹولے نے اس کو افواہیں پھیلانے اور نفرت انگیزی کے لیے خوب استعمال کیا ہے۔ بلا مبالغہ ہزاروں لوگوں کو اسی کام پر ملازم رکھا گیا ہے۔ مگر اب خود غیر مسلموں میں ایک بڑی تعداد نے جھوٹ کی تردید اور اس فسادی جماعت کو ننگا کرنے پر کمر کس لی ہے۔ ٹھیک ہے کہ ہم اتنے بڑے IT CELL نہیں بنا سکتے مگر عوامی طاقت کو متحرک کرکے اس سے کہیں بڑی سچ کی تحریک چلا سکتے ہیں۔ ہم میں سے ہر پڑھا لکھا شخص دن کا تھوڑا سا وقت خرچ کر کے ایک میڈیا رضاکار بن سکتا ہے۔ اور ایسی عوامی تحریک کا مقابلہ نہ سرمایہ دار کرسکتا ہے نہ حکومتیں۔ اس کے لیے عوامی تحریک چلائیے۔ نوجوانوں اور طلبہ کو خصوصا اس طرف متوجہ کیجیے اور تحریک پیدا کرنے کے ساتھ باقاعدہ ٹریننگ کے پروگرام بھی منعقد کیجیے۔

حالات کے پیش نظر ہم کو ملک کے عام انسانوں تک دو موضوعات پر معلومات فراہم کرنی ہیں۔ (۱) اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پھیلائے جارہے جھوٹ کی تردید۔ (۲) ملک میں نفرت اور فساد پیدا کرنے والے گروہوں کے سیاہ کارناموں اور انسانیت سوز کردار پر سے پردہ اٹھانا۔ جس میں مظلوم طبقات، اقلیتوں، دلتوں، آدی باسیوں، غریبوں، مزدوروں اور کسانوں پر ہونے والے لگاتار مظالم اور استحصال کی پالیسیوں کو بھی آشکارا کیا جائے اورحکومت کے نام سے جاری  لوٹ کے سسٹم کی پردہ دری بھی کی جائے۔

آپ جب یہ کام کریں گے تو گالیاں بھی ملیں گی اور بر افروختہ کرنے کی کوششیں بھی ہوں گی۔ مگر سمجھ لیجیے کہ یہ بد قماش ٹولہ ہمارا مخاظب ہے ہی نہیں۔ اس سے، قرآنی تعلیم کے مطابق، اعراض کر کے دوسروں تک اپنی بات پہونچائے جانا ہے۔

یہ کام اگر کسی انتظامی ارتکاز (Centralized System) کے ساتھ ہوں گے تو ان کو نشانہ بنایا جا سکے گا، اور اگر انفرادی  طور پر انجام پائیں گے تو کام کرتے رہیں گے۔ ہماری ایک بیماری یہ ہے کہ جب کسی نئے کام کی ضرورت پڑتی ہے تو پوری قوم دینی جماعتوں اور طبقۂ علماء سے ہی اس کے انجام دیے جانے کی توقع کرتی ہے۔ جان لینا چاہیے یہ کام علما ء اور دینی جماعتوں کے بس کا نہیں۔ وہ اس میں جزوی طور پر یا مددگار کے طور پر اور علمی ودینی رہنمائی کے ذریعے شریک تو ہوسکتے ہیں، خود اس کا بوجھ اٹھانے کا کام تو ٹیکنکل تعلیم یافتہ اور ملکی زبانوں سے آراستہ طبقہ ہی کر سکتا ہے۔ ہاں علماء کی خاص ذمے داری اس کی تحریک اور لوگوں کو اس طرف توجہ دلانا ہے۔

مگر کیا اپنی غفلت کو خیر باد کہہ کے ہم اس کے لیے کمر کسیں گے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. اقبال بوکڑا کہتے ہیں

    شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے،
    یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے

    1. حامد حسین شیخ کہتے ہیں

      ماشاء اللہ بہت عمدہ مثبت انداز اور تجربات اصل میں مسلمان ایک داعی گروہ ہے اُمت وسط ہے،ہر مسلمان داعی ہے،اپنے اعمال اخلاق سے اسلام کو پھیلائیں،موقع محل اسلام کی صحیح تصویر پیش کریں،اسلامی تعلیمات کو عام کریں،دعوتِ حق کا یہ جو کام ہے ،یہی تمام مسائل کا حل ہے۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔