ناموں کی تبدیلی: عوامی مقامات کا بھگوا کرن

ڈاکٹر رضوان احمد

(اسوسی ایٹ پروفیسرشعبۂ انگریزی و لسانیات، قطر یونیورسٹی، دوحہ قطر)

ترجمہ: وسیم احمد علیمی

اگست 2018 میں بی جے پی حکومت نےاتر پردیش کے تاریخی ریلوے اسٹیشن ’مغل سرائے جنکشن‘ کا نام بدل کر دائیں بازوکے ہندو مفکر دین دیال اپادھیائے کے نام پر رکھ دیا۔ شاید صرف اس لیے کہ موجود ہ نام مغلیہ عہد کی یاد دلاتاہے۔ تین سال قبل مئی 2015 میں نئی دہلی کی کئی گلیاں جن کے نام اردو میں تھے یا مسلم حکمرانوں کے نام پر رکھے گئے تھے بہ شمول ’اورنگ زیب روڈ ‘، جو چھٹے مغل بادشا ہ کے نام پر تھا، شیو سینا نے ان پرکالک پوت دی۔ اس کے بعد اسی سال بی جے حکومت نے سرکاری طور پر اورنگ زیب روڈ کا نام بدل کر بی جے پی کے حامی سابق صدرجمہوریۂ ہند اے پی جے عبدالکلام کے نام پر رکھا۔ اپریل 2016 میں بی جے حکومت نے ہریانہ کے شہر’ گڑگاؤں ‘کو مہابھارت کے ہندو اعلی طبقہ کے گرو درون اچاریہ کے نام پر ’گروگرام‘ کر دیا جو ہندوستان کے دلت سماج کی نظر میں ایک وِلن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ گزشتہ مہینے یوپی کی بی جے پی حکومت نے بریلی، کانپور اور آگرہ شہروں میں واقع ہوائی اڈوں کے نام بدلنے کی تجویز پیش کی۔ تین ہوائی اڈوں میں سے دو کے لیے تجویز کردہ نام خالص ہندوانہ ہیں۔ بریلی کا نام تبدیل کرکے ہندو فرقہ ’ناتھ ‘سے موسوم کرکے ’ناتھ نگری ‘ رکھنے کی تجویز سامنے آئی۔ ہندو سیاسی رہنما اور اتر پردیش کے موجودہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی اسلام دشمنی مشہور ہے، ان کا تعلق بھی ہندو کے اُسی فرقے سے ہے۔دوسری جانب آگرہ ہوائی اڈے کا نام بدل کر مغل سرائے ریلوے اسٹیشن کی طرح ہندو مفکر دین دیال اپادھیائے کے نام پر رکھے جانے کا منصوبہ ہے۔ بی جے پی کا نظریاتی سرپرست آر ایس ایس بھی ان شہروں کے نام بدلنے کی مانگ کر رہا ہے جو مسلم ناموں کی طرف منسوب ہیں، چنانچہ مستقبل قریب میں احمد آباد، حید ر آباد اور اورنگ آباد جیسے وہ شہر جو مسلم ناموں سے موسوم ہیں، کو بدل کر ان کا ہندوانہ نام رکھنا ان کے عزائم میں شامل ہیں۔

تجدید ِنام یا از سر نو تاریخ نویسی؟

شہروں، گلیوں یا اہم تاریخی علامتوں کا نام بدلنا صرف ہندوستان یا بی جے پی  ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ روس میں موجود شہر جو ’سینٹ پیٹرس برگ ‘ کے نام سے جانا جاتاتھا، پہلی جنگ عظیم کے آغاز 1914 میں اس کا نام ’پیٹروگارڈ‘ رکھا گیا، کیوں کہ حکومتی اہلکاروں کو لگتا تھا کہ اس کا اصل نام جرمن سے بہت زیادہ متأثرہے۔یو ایس ایس آر(USSR) کے قیام اور لینن کی موت کے بعد اس شہر کا نام ایک بار 1924 پھر تبدیل کرکے ’لینن گارڈ ‘ رکھا گیا، البتہ سویت یونین کے انہدام کے بعد 1991 میں اس شہر کا نام پھر سے ’سینٹ پیٹرس برگ ‘ کر دیا گیا۔

 بی جے پی کے دور حکومت سے بہت پہلے ہندوستان میں بھی بہت سے شہروں کے نام تبدیل کیے گئے تھے۔1995 میں بامبے، بنگلور اور کلکتہ کو ان کے اصل ہندوستانی نام ممبئی، بنگلورو اور کولکاتا واپس دیے گئے، تاکہ بریطانیہ سے اس کی آزادی کا اظہار ہوسکے، نیز نوآبادیاتی دورکے لسانی علامات کو مسترد کیا جاسکے۔اگر چہ عالمی سطح پر ناموں کی تبدیلی کا عمل وسیع پیمانے پر دہرایا گیا ہے، لیکن بیشتر حالات میں سماجی اور سیاسی اختلافات بھی رونما ہوئے ہیں؛ کیوں کہ نام کی تبدیلی محض نقشے پر کوئی لفظ یا کسی گلی کا سائن بورڈ بدل دینے کا نام نہیں ہے؛بلکہ جگہوں کے نام کسی بھی ملک کے تہذیبی پس منظر کے اہم عناصر ہیں، جن سے فطری طور پر مقامی تاریخ و آثار کی شناخت نمایاں ہوتی ہیں۔ نام بدلنے کے عمل کو اکثر از سر نو تاریخ نویسی کے طور پر دیکھا گیا ہے اور یہ تبدیلی ہمیشہ موضوع بحث رہی ہے۔ کسی بھی علاقے کے نام کی تبدیلی اگرنوآبادیاتی شناخت کومٹانے کے غرض سے کی جائے، تویہ وہاں کے مقامی باشندگان کے لیے قابل قبول عمل ہے، لیکن جب یہ کام محض کسی مقام کی تاریخ یا شناخت پر قبضہ جمانے کی نیت سے ہو تو اسے ایک باعث تفریق عمل کہا جائے گا اوریہ کسی قوم میں سیاسی، سماجی اور تاریخی تنازعات برپا کرنے کے مترادف ہے۔

ہندوستان کے مسلم تاریخی آثار کو مٹانا:   

نئی دہلی کے اورنگ زیب روڈ کا نام بدلنے کے سلسلے میں اس کی حمایت کرنے والوں کا یہ ماننا نے ہے کہ مغل بادشاہ ایک حملہ آوراور ظالم انسان تھے، لہٰذا نئے ہندوستان میں وہ یاد کیے جانے کے مستحق نہیں ہیں۔ اس روڈ کا نام بدلنے میں دراصل صرف اورنگ زیب کے طریقۂ کار ہی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے مذہبی عصبیت کے گہرے اسباب کارفرما ہیں۔آرایس ایس اور بی جے پی صرف اورنگ زیب ہی نہیں بلکہ پورے اسلامی عہد وسطٰی کو ملک کی تاریخ کا تاریک دور تصور کرتے ہیں. 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہاتھا کہ ہندوستان بارہ سو سال تک غلامی سے دوچار رہا ہے۔انہوں نے واضح طور پر دو سو سالہ برطانوی حکومت اور عہد وسطٰی میں ہزار سالہ اسلامی حکومت کو نو آبادیاتی مشکلات کے طویل اور غیر منقسم عہد سے تعبیر کیا۔ جن لوگوں نے نام بدلنے کی مخالفت کی ان کی دلیل یہ تھی کہ مذہبی شناخت سے قطع نظراورنگ زیب ہندوستان کے دیگر حکمرانوں سے، جو دشمنوں کے خلاف اپنی طاقت بڑھانے کے لیے تشددآمیز سرگرمیاں انجام دیتے تھے، بہت زیادہ مختلف اور جدا نہیں تھے، انہوں نے واضح طور پر اس کی نشاندہی کی کہ جہاں اورنگ زیب نے کچھ مندروں کو منہدم کرایا، وہیں انہوں نے دوسرے بہت سے مندروں کی حفاظت بھی کی جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے یہ اقدامات ظلم و استبداد یا مذہبی تسلط حاصل کرنے کے لیے نہیں تھے، بلکہ سیاسی تقاضوں کے تحت تھے۔ نیز ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اورنگ زیب روڈ کا نام بدلنا دائیں بازو کی جانب سے تاریخی آثارکو مسخ کرنے کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں تھی۔اس سے قبل بھی انہوں نے مغل حکمراں اکبر کے نام سے مشہور گلیوں کے نام پر کالک پوتنے کی احمقانہ کوششیں کر چکے ہیں، حالانکہ دائیں بازوکے ہندو بھی اکبر کو ایک سیکولر حکمراں تسلیم کرتے ہیں۔ان دلائل و شواہد سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دائیں  بازووالوں کو اورنگ زیب اور ان کے طرزِ حکومت سے ہی پریشانی نہیں ہے، بلکہ ان کو ہندوستان کی پوری اسلامی تاریخ سے ہی پریشانی ہے۔آرایس ایس اور بی جے پی کی دوسری سرگرمیوں سے بھی واضح طور پر ان کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاََ جولائی 2017 میں آر ایس ایس کے حامی دینا ناتھ بترانے ’قومی کونسل برائے تعلیمی تحقیق و تربیت ‘ (NCERT) کو ایک دستاویز بھیج کر ملک کی نصابی کتابوں سے چند اردو الفاظ اور انیسویں صدی کے اردو شاعر غالب کا ایک شعر حذف کرنے کی مانگ کی۔ اسی طرح اسلامی آثارقدیمہ پر حملہ آور ہوتے ہوئے 2016 میں دائیں بازو کے چند کارکنان نے ایک غیر حکومتی مہم ’دلی تم سے پیار ہے ‘ کے سلسلے میں دہلی کے جی ٹی روڈ کی دیواروں پر فن کاروں کو اردو میں شعر لکھنے سے روک دیا۔

بھارت کو ہندوانے کی کوشش:

 ’گڑ گاؤں‘ کو گروگرام کرنا یا بریلی اور آگرہ ہوائی اڈے کا نام بدل کر بالترتیب ناتھ نگری اور دین دیال اپادھیائے کے نام سے منسوب کرنے کا مطالبہ کرنا بھلے ہی مسلم آثار وعلامات کو مسخ کرنے کی کوشش نہ ہو، تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب ہندوستان میں ہندو آثار نمایاں کرنے کی واضح کوششیں ہیں۔بھارت کو کھلے طور پر ہندوریاست تصور کرنے سے اکثر دلت اور اسی طرح مذہبی اقلیتی طبقوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔بی جے پی کی طرف سے یہ صفائی دی گئی کہ اس شہر کا نام گروگرام اس لیے رکھا گیا کیوں کہ ’گڑگاؤں‘ سنسکرت لفظ ’گروگرام‘ کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے۔جبکہ گڑگاؤں ہریانہ کے کلچر اور روز مرہ کی بول چال کا ایک لفظ ہے ۔اس لفظ کی سنسکرت شکل اونچی ذات برہمن کی زبان و تہذیب کی آئینہ دار ہے۔ساتھ ہی اس کا رشتہ ان کے گرو درون اچاریہ سے بھی جڑا ہواہے۔یہ سب کمزور طبقہ پرغلبہ حاصل کرنے کے حربے ہیں۔اسی وجہ سے دلت اسکالروں نے بی جے پی حکومت کے اس نام بدلنے کی پالیسی کو اعلیٰ طبقے کے ووٹروں کو خوش کرنے اور کمزور طبقہ کو حاشیہ پر لانے کی سازش کے طور پر دیکھا ہے ۔

ناموں کو مقبول عام ہونا چاہیے:   

ہندوستان جیسےکثیر لسانی اور متنوع تہذیب و ثقافت والے ملک میں مقامات کے ناموں کی تبدیلی اہمیت کی حامل ہے۔حکومت اور سول سوسائٹی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارے تہذیبی آثار جن میں نام، علامت، زبان اور رسم الخط شامل ہیں کا رشتہ الگ الگ ذات، مذہب، قوم اور ملک کے دیگر باشندوں سے وابستہ ہو، تاکہ ہر شخص ان آثار سے خود کوجوڑ کر دیکھ سکے۔یہ دعوی ٰکرنا، جیساکہ اکثر لوگ کرتے ہیں کہ مغلیہ حکومت نو آبادیاتی حکومت تھی، نہ صرف تاریخی طور پر غلط ہے (کیوں کہ اس سے نو آبادیات کا غلط مفہوم ظاہر ہوتاہے ) بلکہ باعث تنازع بھی ہے۔ بقول عرفان احمد کہ انگریزوں کے برعکس مغل شہنشاہوں نے ہندوستان کی دولت کو اپنے وطنِ اصلی کے لیے صرف نہیں کیا بلکہ وہ لوگ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کا حصہ بن کر رہے۔مسلمان اسی ملک کے باشندے ہیں باہری نہیں۔ان کے ساتھ یکساں برتاؤ ہونا چاہیے۔مقامات کے نام قبول عام، کشادہ دلی اور مشترکہ تہذیب کی علامات ہیں نہ کہ کسی کو خارج کرنے، حاشیہ پر لانے اور مذہبی یا نسلی فوقیت کے اظہار کے لیے ہیں.

شائع شده الجزیرہ 12 اکتوبر 2018

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔