عمران خان کا کھیل کے میدان سے، میدانِِ سیاست  تک کامیابی کا سفر

ڈاکٹر سلیم خان

پاکستان کو نیا کپتان اور عمران خان کو نیا میدان مبارک ہو۔ کسی کرکٹ کھلاڑی کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہ ایک ایسی ٹیم کو عالمی  چیمپین بنادے جس کا کہیں شمار نہ ہو اور ایسی پارٹی کو اکثریت  دلا دے جس کا کہیں  امکان نہ ہو۔ عمران خان  ناممکن کو ممکن بنانے کا فن جانتے ہیں۔ عمران کو مودی جی کی مانند بنی بنائی جماعت نہیں ملی بلکہ انہوں نے  خوداپنی پارٹی بنائی اور مسلسل  کشمکش کرتے رہے۔ کئی ناکامیوں کے باوجود وہ بددل نہیں ہوئے بلکہ اپنی جدوجہد جاری رکھی۔  نواز شریف و شہباز شریف  اور آصف زرداری و بلاول بھٹو جیسے تجربہ کار  سیاستدانوں کو شکست فاش دے کر وزیراعظم بن جانا  سونیا ومنموہن سنگھ کو ہرانے سے بہت سے زیادہ مشکل ہے جبکہ عمران کے پیچھے آرایس ایس جیسی  کوئی تنظیم بھی نہیں تھی کہ جو ملک بھر میں نفرت پھیلا کر ان  کی راہ ہموار کرتی  لیکن فوج کا نرم گوشہ ان کے ساتھ تھا۔

پاکستان کی فوج کو اقتدار کا چسکا لگا ہوا ہے اس لیے وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کے اندر اپنا عمل دخل رکھنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انتخاب میں پاکستانی فوج کا نمائندہ یا ہمدرد موجود رہتا ہے۔ نواز شریف کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے ہمیشہ فوج کی مرضی کے خلاف انتخاب میں کامیابی حاصل کی اور اپنے دورِ اقتدار میں فوج کی ایک نہیں چلنے دی۔ یہی وجہ ہے کہ  فوج  ان سے ان کی کبھی نہیں بنی۔ پرویز مشرف نے تو خیر ان کو بزورِ قوت اقتدار سے بے دخل کردیا۔ پاکستانی فوج کی حکمت عملی یہی ہوتی ہے کہ وہ سیاستدانوں کے عیش و آرام کی زندگی عوام کو دکھا کر انہیں سیاسی رہنماوں سے  بہ آسانی بدظن کر دیتے ہیں اور  اس فوجی حکومت کا جواز فراہم  ہوجاتاہے۔ پرویز مشرف نے یہ کیا تھا کہ نواز شریف کا محل صحافیوں کے لیے کھول دیا۔ ان کے عیش و آرام کی تفصیلات جب لوگوں کے سامنے آئیں تو انہیں نواز برے اور پرویز اچھے لگنے لگے۔

پرویز مشرف نے اقتدار کے حریص مسلم لیگیوں کی مدد سے مسلم لیگ(ق) بنائی لیکن جب انہیں محسوس ہوا کہ وہ نواز شریف کو نہیں ہراسکتے تو بے نظیر بھٹو کو  بلوا لیا۔ جب دیکھا کہ وہ بھی نہیں ہراسکتیں تو پی پی پی کے حق میں ہمدردی کی لہر پیدا کرنے کے لیے پنجاب کے اندربےنظیر کا قتل کروادیا۔ اس معاملے  میں وہ فی الحال ماخوذ ہیں۔ پرویز مشرف کا یہ پانسہ درست بیٹھا اور پی پی پی  پہلے نمبر پر آگئی۔ جنرل صاحب کو  امید تھی آصف زرداری حکومت سازی کے لیے ان کو ساتھ لیں گے اورمخلوط حکومت ان کے اشارے پر چلے گی   لیکن نواز شریف نے آصف زرداری کی حمایت کرکے پرویز مشرف کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ اب حکومت پرویز مشرف کے بجائے نواز شریف کی حمایت پر منحصر ہوگئی۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پرویز مشرف کو فرار ہونا پڑا۔ آصف زرداری نے وزیراعظم بن کرحکومت چلانے کی  ذمہ داری نبھانے  کے بجائے صدر بن کر عیش کرنا مناسب سمجھا۔ اس کے بعد والے الیکشن میں پرویز غائب تھے مقابلہ زرداری اور شریف کے بیچ تھا۔ اس میں شریف کامیاب ہوگئے۔

عمران خان جس طرح پہلے کھلاڑی اور پھر سیاستداں ہے اسی طرح نواز شریف تاجر پہلے اور سیاستداں بعد میں ہے۔ بدعنوانی جمہوری سیاست کے رگ و بے میں بسی ہوئی ہے اور اگر کوئی تاجر حکمراں بن جائے تب تو  اس کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ عمران خان نے نواز شریف کی بدعنوانی  کے خلاف مسلسل جہاد کیا۔ یہاں تک کہ عدالت نے نواز شریف کو اقتدار سے محروم کردیا۔ انہیں اور ان کی بیٹی مریم نواز کو ۱۰ اور ۷ سال کی سزا سنا دی گئی۔ عدالت کو فوج کی حمایت حاصل نہیں ہوتی تو اس کے لیے اتنا بڑا فیصلہ کرناممکن نہیں  تھا۔ پاکستان کی عدالت نے ملک کے سربراہ کو سزا سنا کراس دور میں  ایک عظیم مثال پیش کی  ہے۔

اس بار  انتخابات ایک غیر سیاسی  وزیراعظم کی قیادت میں ہوئے۔ نواز شریف کو جس وقت سزا سنائی گئی وہ برطانیہ میں اپنی اہلیہ کا علاج کرا رہے تھے۔ نواز شریف کو یقین تھا کہ  پاکستان لوٹتےہی انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔اس کے باوجود وہ اس  امید  واپس آئے  کہ ان کی اور بیٹی کی حراست کے سبب ہمدردی کی جو لہر اٹھے گی وہ  انہیں کامیاب کردے گی  لیکن ایسا نہیں ہوا۔پاکستانی فوج نے اس بار دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے کسی جماعت یا رہنما کی کھل کر حمایت نہیں کی اس لیے کہ  یہ حرکت اس امیدوار کی ناکامی کی ضمانت بن جاتا۔ اس مرتبہ نواز  شریف کے گڑھ صوبہ پنجاب میں حافظ سعید کی تحریک اللہ اکبر (ملی مسلم لیگ)  ، مولانا خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک پاکستان اور سپاہ صحابہ کے مولانا محمد احمد لدھیانوی  کی راہِ  حق  پارٹی  کو کھل کر کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ ان کا کوئی امیدوار کا میاب تو نہیں ہوسکا لیکن ان کے سبب  پاکستان تحریک  انصاف کو کامیابی حاصل کرنے میں مدد ملی۔  اس طرح نواز شریف سے دومرتبہ شکست کھانے کے بعد پاکستانی فوج اپنےپسندیدہ امیدوار عمران خان کی مدد سے ان کو ہرانے میں  کامیاب ہوگئی۔ خدا کرے کامیابی کا یہ نیا سفر  پاکستان اور عمران خان دونوں کو راس آئے۔

عمران خان’جدید پاکستان‘ کا نعرہ لگا کر انتخابی میدان میں اترے تھے ۔ ان کے نوجوان گیندبازوں نے کمال مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑے بڑے تجربہ کار بلہ بازوں کو کلین بولڈ کردیا۔ اب دیکھنا یہ ہے آئندہ پانچ سالوں  تک وہ کیسی بلے بازی کرتے ہیں اور کتنے چوکے چھکے مارتے ہیں۔ عمران نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز خدمت خلق سے کیا تھا۔    اپنی ماں کے نام پر کینسر  اسپتال قائم کرکے مستحقین کو مفت میں اعلیٰ طبی سہولیا ت فراہم کرنے کا مبارک قدم ان  کوملک کے سب سے اعلیٰ عہدے تک لے گیا ۔  اس سفر کے بامِ عروج پر پہنچ کر عمران نے اعلان کیا کہ وہوزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے بلکہ  اس عمارت کو تعلیمی ادارے میں تبدیل کردیا جائے گا۔

ایک اور مبارک عزم کا اظہار کرتے ہوئےعمران خان  نے  کہا کہ  وہ  پاکستان کو مدینہ منورہ کے طرز پر ایک فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ عمران خان اگر پاکستان کو مدینہ کا ہلکا سا پرتو بھی بنانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ نہ صرف ملک  کی عوام کے لیےباعثِ  خیرو برکت ہو گا بلکہ ساری دنیا کے لیے نمونہ  بن جائے گا۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جو شکوک و شبہات تھے ان کوانتخابی کامیابی کے بعد اپنے پہلے ہی خطاب میں دور کردیا۔ کشمیر کے اندر امن و مان قائم کرنے کے باہمی مذاکرات کی پیشکش کرنے کے بعد عمران خان نے ہندوستان کے ساتھ ایک قدم کے جواب میں دوقدم بڑھنے  کی خواہش ظاہر کرکے برصغیر ہندو پاک میں   جوقابلِ تحسین مثبت فضا پیدا کی ہے ،اس کے لیے وہ  خصوصی مبارکباد کے مستحق  ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔