آخر کیوں نہیں تھم رہا ہے معصوم بچیوں سے جنسی تشدد کا سلسلہ؟
ذوالقرنین احمد
ہندوستان میں معصوم بچیوں اور خواتین کے ساتھ جنسی جرائم دن بہ دن بڑھتے جارہے ہے انسانیت سوز ظلم کیا جارہا ہے نربھیا، دامنی، آصفہ ، اناؤ ، سورت، اندور، ایٹہ، میں ہوے بے گناہ معصوموں کے ساتھ درندگی کرنے والے حوس کے پجاری دندناتے پھر رہے ہیں جنہوں نے پہلے ان معصوموں کو اپنی حوس کا نشانہ بنایا اور پھر قتل کر دیا ، اندور میں ۴ ماہ کی بچی کے ساتھ درندگی کی گی اور قتل کر دیا گیا، اور روزانہ خبریں پڑھنے اور سنے کو مل رہی ہے روز کسی نہ کسی جگہ بنت حوا کو حوس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیا وجہ ہے انسان کے اس حد تک گر جانے کی آخر کیوں کیے جارہے ہے اسطرح کے جرائم۔
آج معاشرے کا جأیزہ لے تو پتہ چلتا ہے کسطرح سے ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے اور چھوٹی سی چھوٹی اشیا بچنے کیلے عورت کا استعمال کیا جا رہا ہے نمایش کیلے پرچار کیلے اور پروڈکٹ کو فروغ دینے کیلے، اسکے علاوہ سوشل میڈیا ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے بے حیائ کو فروغ دیا جارہا ہے، ڈارک ویب سائٹ کے زریعے کروڑوں اربوں روپے کا کاروبار چلایا جا رہا ہے، ڈارک ویب سائٹ جسے پوری طرح سیکور رکھا جاتا جسے چأیلڈ پورن گرافی بھی کہتے ہے ان ویب سائٹس تک عام عوام کی پہنچ ممکن نہیں ہوتی اس میں بڑے بڑے بزنس مین اور سیاسی لیڈران بھی بھی شامل ہوتے ہے جس میں نا بالغ لڑکیوں کو اغوا کر کے انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس میں مختلف قسم کے ٹاسک دیے جاتے ہے جسے پورا کرنے پر لاکھوں ڈالر دیے جاتے جسے لایو براڈکاسٹ کیا جاتا ہے اور دیکھنے والے درندنے معصوم بچیوں کے ساتھ ظلم کو دیکھ کر لطف اٹھاتے ہے اس میں مخصوص عضو کو تیز دھار ہتھیار سے نقصان پہنچایا جاتا ہے ہاتھوں کی کلائیوں کو کاٹا جاتا ہے اس طرح تڑپا کر حوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
2009 ممبئی کے ایک اپارٹمنٹ میں رادھا نام کی 6 سالہ بچی کی تشدد شدہ لاش ملی تھی جسے جنسی درندگی کے شدید جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اسکی کلایاں کاٹی گی تھی زبان نوچی گی تھی اور اعضائے مخصوصہ پر وار کے گے تھے ممبئی پولس نے اس کیس کی تحقیقات میں قاتل کے نفسیاتی بیمار ہونے کی وجہ بتا کر قاتل کو سیریل کلر کا نام دے کر کیس بند کردیا تھا لیکن اصل معاملہ کچھ اور تھا دو سال بعد ایک ہیکر نے ڈارک ویب کی کچھ جنسی ویب سائٹ کو ہیک کیا تو اسی وہاں رادھا کی ویڈیو ملی جس پر لایو براڈکاسٹ کا ٹیگ لگا ہوا تھا یہ تمام سلسلہ کہی سالوں سے چلتا آرہا ہے کچھ کیسس میڈیا کے ذریعے باہر آجاتے ہے اور اکثر اسکی بھینٹ چڑھ جاتے ہے اس پر قابو پانا ضروری ہے حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کے وہ ایسے ریکٹ کا پردہ فاش کرے اور ان ویب سائٹس پر مکمل پابندی عائد کرے اور اسے قانون جرم قرار دیا جأے۔
ایسے پر فطن دور میں والدین کی ذمہ داری ہے کے وہ اپنے بچوں کی پوری طرح سے نگرانی کرے۔ اور ایک بہترین معاشرے کی تشکیل دینے کیلے اصلاحی تحریک کے زریعے کام کرے۔صرف قانون بنانے سے جرائم نہیں روک جاتے جب تک خدا کا خوف دل میں نہیں پیدا ہوجاتا اور معاشرے کے اندر اخلاقی قدرے پروان نہیں چڑھتی۔ ان حالات سے بنت حوا کو بچانے کیلے پہلے ابن آدم کو اسکا محافظ بنانا ہوگا انکی تربیت بچپن سے اسلامی تعلیمات کے مطابق کرنی ہوگی اور اسکا عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا تب جاکر اک بہتر معاشرے کی تشکیل ممکن ہوگی۔ اسی کے ساتھ بچیوں کو اپنی حفاظت خود کرنے کیلے کچھ انکے اندر خود اعتمادی پیدا کرنا ہوگی تاکہ وہ ظالموں سے انسان نما درندوں سے اپنا دفاع کر سکے۔
حکومت نے ابھی جو پوکسوں ایکٹ میں ترمیم کر کے 12 سال سے کم عمر کی بچیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے پر پھانسی یا عمر قید کی سزا کا قانون بنایا ہے وہ عمر کے مطابق نہیں ہونا چاہیے کیونکہ عورت کی عزت و عصمت یکساں ہے چاہے بچی ہو یا بالغ ہو اس لے حکومت کو چاہے کے زانیوں کیلےسرے عام پھانسی کا قانون بنأے تاکے یہ مجرموں کے لے عبرت کا نشان ہو۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔