اب میڈیا کو سانپ کیوں سونگھ گیا؟
سہیل انجم
حالیہ دنوں میں ایک بہت اہم خبر آئی جو اس بات کی مستحق تھی کہ اسے بھرپور کوریج ملے۔ نہ صرف پرنٹ میڈیا میں بلکہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی۔ الیکٹرانک میڈیا پر اس کی زیادہ سے زیادہ کوریج کی ضرورت تھی۔ لیکن وہ خبر چند انگریزی اخباروں میں سرسری طور پر گزر گئی۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے الیکٹرانک میڈیا کو اس کی ہوا تک نہیں لگی۔ وہ انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمس کی ایکسکلیوسیو خبر تھی جو دہشت گردانہ واقعات کی چھان بین کرنے والے تحقیقی ادارے این آئی اے کے ایک سینئر اہلکار کے حوالے سے تھی۔ اس کو انگریزی کے بعض دیگر اخباروں نے ہندوستان ٹائمس کے حوالے سے شائع کیا۔
قارئین اس بات سے واقف ہیں کہ کس طرح ہندووں کے ایک طبقے کو مسلمانوں کے خلاف ورغلانے کے لیے بعض ہندو لڑکیوں کی مسلم نوجوانوں سے شادی کو لو جہاد کا نام دیا گیا اور آر ایس ایس اور بی جے پی کے بڑے رہنما تک مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے لگے۔ بالخصوص انتخابات میں اس کا زور شور سے پرچار کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک دروغ گوئی کی گئی کہ ایک سازش کے تحت خلیج سے پیسے آتے ہیں اور ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھانس کر ان سے شادی کرنے اور پھر ان کا مذہب تبدیل کرانے کے لیے ایک ایک مسلم نوجوان کو دس دس لاکھ روپے دیے جاتے ہیں۔ جب کیرالہ کی ایک ۲۴ سالہ طالبہ اکھیلا نے اسلام کا مطالعہ کیا اور پھر قبول اسلام کرنے کے بعد اپنا نام ہادیہ رکھا اور ایک مسلم نوجوان شافعین جہاں سے شادی کی تو لو جہاد کے پروپیگنڈے کی دھار تیز ہو گئی۔ چونکہ اس قسم کے واقعات کیرالہ میں زیادہ ہوئے تھے اس لیے سپریم کورٹ کے حکم پر این آئی نے ۸۹ بین مذاہب شادیوں کی ایک فہرست بنائی اور ان میں سے ۱۱ کی تحقیقات کی تو اسے لو جہاد کا کوئی ثبوت ہی نہیں ملا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے نزدیک اب یہ معاملہ ختم ہو چکا ہے اور وہ اس بارے میں عدالت میں مزید کوئی رپورٹ داخل نہیں کرے گی۔ این آئی اے کے مطابق تمام شادیوں میں ایک مشترکہ پہلو یہ نکلا کہ ایک سماجی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کے اہلکار ایسے معاملات میں شامل رہے ہیں۔ لیکن ان کے خلاف ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ قانونی کارروائی کی جا سکے۔ این آئی اے کے اہلکار کے مطابق کیرالہ میں تبدیلی مذہب جرم نہیں ہے اور جن مردوں یا عورتوں نے تبدیلی مذہب کی وہ آئین کے دائرے میں کی۔ ان گیارہ میں سے کم از کم چار شادیوں میں ہندو مردوں نے اسلام قبول کیا۔ باقی معاملات میں ہندو عورتوں نے مسلمانوں سے شادی کی لیکن انھوں نے مذہب نہیں بدلا۔
یہاں یہ ذکر بھی برمحل ہوگا کہ چند ماہ قبل گجرات کی ایک ہندو عورت نے اپنے مسلم شوہر پر الزام عاید کیا تھا کہ وہ اسے سعودی عرب لے جاکر داعش کے ہاتھوں فروخت کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ اس کی رپورٹ پر اس کے شوہر ۲۷ سالہ محمد ریاض کو جدہ سے واپس آتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ یہ کیس بھی این آئی کے سپرد کیا گیا اور اس کو اس معاملے میں بھی کوئی ثبوت نہیں ملا۔ پی ایف آئی کے قانونی مشیر کے پی معمر شریف کا کہنا ہے کہ لو جہاد کا نظریہ دائیں بازو کی ہندو تنظیموں نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے گھڑا ہے۔ اب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ ایک بے بنیاد مفروضہ ہے۔ پی ایف آئی کی سیاسی ونگ ایس ڈی پی آئی کے قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی کے مطابق پی ایف آئی چونکہ دعوت دین اور انسانی فلاح و بہبود کا کام کرتا ہے اس لیے اسے بدنام کرنے کے لیے اس پر الزام لگایا گیا۔ حکومت نے اس پر پابندی بھی لگائی تھی مگر اسے اٹھانی پڑی۔ بقول ان کے این آئی اے نے اب لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کرنے کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔
نام نہاد لو جہاد کے معاملات کی تحقیقات کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل ۲۰۰۹ میں کرناٹک ہائی کورٹ نے ریاستی پولیس سی آئی ڈی سے کہا تھا کہ وہ بنگلور کی ایک ۱۸ سالہ لڑکی ٹی سلواراج کی کنور، کیرالہ کے ۲۴ سالہ اصغر نظر سے شادی کی تحقیقات کرے اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ کیا یہ لو جہاد کا معاملہ ہے۔ ۱۳ نومبر ۲۰۰۹ کو سی آئی ڈی نے عدالت میں اپنی رپورٹ داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے اس شادی میں لو جہاد کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر عدالت نے لڑکی کو اپنے شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ اس معاملے کے نمٹ جانے کے بعد کرناٹک پولیس نے سیکڑوں بین مذاہب شادیوں کی جانچ کی اور ۳۱ دسمبر کو اپنی رپورٹ میں کہا کہ ان تمام شادیوں میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ہندو یا عیسائی لڑکیوں کی مسلمانوں سے جبراً شادی کرائی گئی اور ان کا مذہب تبدیل کرایا گیا۔ در اصل سلوا راج کے والد نے عدالت سے شکایت کی تھی کہ اس کی بیٹی کو لالچ دلا کر شادی کی گئی اور اس کا مذہب بدلوایا گیا۔ اس نے یہاں تک دعویٰ کیا تھا کہ بہت سی دوسری لڑکیوں سے بھی شادی کرکے ان کو مذہب بدلنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور ہندو جاگرن ویدک نے لو جہاد کا خوب پرچار کیا تھا اور اسی دوران سری رام سینا کے لیڈر پرمود متالک نے بیٹی بچاؤ تحریک چلائی تھی۔ سی آئی ڈی نے ان تنظیموں سے کہا تھا کہ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہو تو پیش کریں۔ لیکن تنظیموں کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ سی آئی ڈی کے ڈی جی پی ڈاکٹر جی وی گروپرساد کے مطابق ایسی تمام لڑکیاں جن سے رابط قائم کیا گیا بتایا کہ انھوں نے اپنی مرضی سے شادی کی اور وہ خوش حال زندگی گزار رہی ہیں۔ کرناٹک سی آئی ڈی کی جانچ سے معلوم ہوا تھا کہ ۲۰۰۵ سے ۲۰۰۹ کے درمیان جو ۱۴۹ ہندو لڑکیاں غائب ہوئی تھیں انھوں نے مسلمانوں سے اور دس نے عیسائی لڑکوں سے شادی کی۔ جبکہ ۳۸ مسلم اور ۲۰ عیسائی لڑکیوں نے ہندووں سے شادی کی۔ ایسی ۲۲۹ شادیوں میں سے صرف ۶۳ میں مذہب بدلا گیا۔ سی آئی ڈی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بہت سی غائب لڑکیوں کے بارے میں کچھ معلومات ہی نہیں ہو سکیں۔ اس نے زور دے کر کہا کہ لو جہاد سے کہیں سنگین معاملہ انسانی اسمگلنگ کا ہے اس پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر عدالت نے لو جہاد کے اس معاملے کو بند کر دیا۔
بالکل یہی صورت حال کیرالہ میں لو جہاد کے پروپیگنڈے کی رہی ہے۔ ہادیا کے والد اشوکن نے یہ کہتے ہوئے کہ اس کی بیٹی کو حبس بیجا میں رکھا گیا ہے اور اسے سیریا لے جا یا جائے گا، بیٹی کی تحویل کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کی درخواست پر کیرالہ ہائی کورٹ نے ہادیا کو اس کی تحویل میں دے دیا اور شافعین سے اس کی شادی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ شافعین نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ عدالت عظمیٰ نے کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے شادی کو برقرار رکھا اور پھر ہادیا کو بلا کر اس کا موقف معلوم کیا۔ ہادیا نے بھری عدالت میں بتایا کہ اس پر کوئی جبر نہیں کیا گیا ہے، اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ عدالت نے اسے اس کے شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی اور اس کے ساتھ ہی اس نے کیرالہ میں بین مذاہب شادیوں کی تحقیقات کا حکم دیا اور کہا کہ وہ لو جہاد کے الزام کی جانچ کرے۔ اب این آئی اے کا کہنا ہے کہ اسے لو جہاد کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ایسے میں میڈیا پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اس خبر کو بھی اسی طرح پیش کرے جس طرح اس نے نام نہاد لو جہاد کو پیش کیا تھا یا ہادیا کی شادی کو ایک جبریہ شادی بنا کر پیش کیا تھا۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا نے اس خبر کو پی لیا اور ہضم بھی کر لیا۔ کیا میڈیا کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ جب اس نے نام نہاد لو جہاد کی مبالغہ آمیز کوریج کی تو اس کا فالو اپ بھی کرتا اور این آئی اے کے اہلکاروں سے رابطہ قائم کرکے ہندوستان ٹائمس کی خبر کی حقیقت معلوم کرتا اور اس کو اسی طرح پیش کرتا جس طرح اس نے اس کا غلط پروپیگنڈہ کیا تھا؟
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔