ڈاکٹر عابدالرحمن
تبریز انصاری معاملے میں پورے ملک میں احتجاجات ہوئے کئی جگہوں پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی ان احجاجات میں شریک ہوئے انہوں نے نہ صرف ماب لنچنگ کی مخالفت کی بلکہ ملک میں چل رہی نفرت کی مہم کے خلاف بھی اپنا احتجاج درج کروایا، انہوں نے جو پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے ان پر لکھا تھا کہ ’ میں ہندو ہوں اور مسلمانوں سے محبت کرتا ہوں، مسلمان میرے بھائی بہن ہیں، تم نے ہمارے تبریز کو مارا ہے ہم سب تبریز ہیں، تمہاری نفرت ہمارے سامنے بہت چھوٹی ہے، ہندوتوا دہشت گردی کو نہ ( #NoToHindutvaeTrrorism) اس کا مطلب ہے کہ ملک میں ایسے ہندو بھی ہیں جو مسلمانوں کے خلاف چل رہی اس نفرت کی مہم کو نہ صرف برا سمجھتے ہیں بلکہ اسے دہشت گردی بھی گردانتے ہیں اور اس کے خلاف احتجاج درج کروانا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم مسلمان ان ہندوؤں کو ساتھ لے کر ہی اس نفرت کے خلاف محاذ آرائی کریں۔ اس نفرت انگیز مہم میں بر سر اقتدار پارٹی کے ممبران اور اس کے حواری جس طرح شامل ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ دراصل سیاسی اور سما جی چال ہے جس کے ذریعہ ان کا مقصد سیاسی طور پر مضبوط اقتدار کا حصول اور پھر اس کے بعد اپنی مرضی کے سماج کی تشکیل ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہندو،مسلم مخالف مذہبی جذبات میں اس قدر بہہ جائیں کہ باقی سارے مسائل انہیں مذہب کے سامنے بہت چھوٹے نظر آنے لگیں۔ مسلم مخالف منافرت کے معاملات میں بی جے پی کے ممبران جس طرح ملزمین کی حمایت میں اتر آتے ہیں اس سے ان کا مقصد دراصل ہندوؤں کو یہ باور کروانا ہو تا ہے کہ وہی ان کے مذہب کے رکھوالے ہیں اور مذہب کی بنیاد پر ان کی ہر غیر قانونی کارروائی میں ان کے ساتھ ہیں۔ بی جے پی کی اس روش کی وجہ سے ہندوؤں کی اکثریت میں مسلمانوں کے تئیں قانون کا ڈر بالکل ختم ہو چکا ہے لیکن اس طرح کے معاملات کا ایک دوسرا مقصد بھی ہے وہ یہ کہ اس نفرت انگیز مہم کی وجہ سے ہراساں و پریشان ہو کر مسلمان مشتعل ہو جائیں، جذباتی بیان بازی کریں، سڑکوں پر نکلیں اور غیر قانونی حرکات کے مرتکب ہو جائیں تاکہ ایک تو لاٹھی چارج، پولس کی گولیوں اور پھر سخت قانونی کارروائی کے ذریعہ ان کی حوصلہ شکنی کی جائے انہیں پست کیا جائے اور دوسرے ہندو مسلمانوں کی منافرت و مخالفت میں مزید پکے ہوکر بی جے پی کا مضبوط ترین ووٹ بنک بنے رہیں۔
اس طرح کے معاملات میں احتجاج ضروری ہے تاکہ حکومت کو معلوم ہو کہ ہم سوئے ہوئے نہیں ہیں لیکن اس بات کا بھی خاص خیال رکھا جانا چاہئے کہ ہمارا احتجاج حکومت اور نفرت کی مہم چلانے والوں کا ہی مقصد پورا نہ کرنے لگ جائے، جانے انجانے میں ہم مکظلوم ہی خود ظالموں کے آلائے کار نہ بن جائیں، اس ضمن میں بغیر کسی اشتعال انگیزی اور جذباتی نعروں کے خاموش احتجاج اور اس کے ساتھ ایم ایل اے ایم پی وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم سے لے کر صدر محترم کو احتجاجی خطوط جو سیاسی اور سماجی سوجھ بوجھ رکھنے والے دانشوروں کی ٹیم کے ذریعہ تیار کئے گئے ہوں ایک اچھا متبادل ہو سکتا ہے۔ ایسے میں میڈیا اور سوشل میڈیا میں جذباتی بیان بازی، بھڑکاؤ بھاشن غیر اخلاقی پوسٹس ہمارے لئے انتہائی نقصاندہ ہوں گی اس سے ہمارا کام بننا تو بہت دور الٹے بگڑ جائے گا۔ ملک کے قانونی ادارے یا تو ازخود متعصب ہیں یا پھر حکومت نے انہیں مسلمانوں کے معاملہ میں تعصب برتنے کے احکامات دے رکھے ہیں، انہیں ہندوؤں کی اشتعال انگیزیاں اور بھڑکاؤ بھاشن سنائی نہیں دیتے، انہیں ہندوؤں کی غیر قانونی حرکات دکھائی نہیں دیتیں بلکہ الٹ وہ اس طرح کی حرکتوں کو جواز مہیا کرنے کے لئے مظلوم مسلمانوں پر ہی کارروائی کرتے ہیں لیکن مسلمانوں سے کہیں اس کا عشر عشیر بھی سرزد ہو جائے تو پھر تو پوری قانون ویوستھا میں بوال آ جاتا ہے اور وہ بغیر کسی شکایت کے اپنے طور پر حرکت میں آ جاتی ہے اور مرتکبین پر قانونی شکنجہ کس لیتی ہے۔ دہرادون کے مفتی رئیس قاسمی صاحب کا کیس ہمارے سامنے ہے کہ ماب لنچنگ کے خلاف احتجاج کے دوران مفتی صاحب تھوڑا جذباتی ہوئے رواروی میں تھوڑا زیادہ کہہ گئے بس اسی پر ان کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا اور وہ بھی کسی کی شکایت کی بنیاد پر نہیں بلکہ کوتوال نے خود شکایت کنندہ بن کر مقدمہ درج کیا ہے، یعنی اب ہمیں ماب لنچنگ اور تبریز انصاری کے معاملے سے پہلے مفتی صاحب کی حمایت اور ان کے لئے تگ و دو کرنے کا معاملہ درپیش ہو گیا، مسلمان اگر اس طرح کے معاملات میں شکایت بھی درج کروائیں تو کارروائی میں ٹال مٹول کیا جاتا ہے۔
ملک میں کئی ایسے لوگ ہیں جن کا ماضی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازیوں سے بھرا پڑا ہے لیکن آج تک ان پر کوئی کارروائی تو دور مقدمہ بھی نہیں درج کیا گیا اور ہم نے بھی ان لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کی۔ گو کہ حکومت اور موجودہ قانونی نظام ہمارے معاملہ میں عدلیہ کا بھی پاس نہیں رکھتا، پچھلے دنوں معزز سپریم کورٹ نے گائے کو لے کر ہونے والی ماب لنچنگ کے معاملات پر سنجیدہ کارروائی اور ٹھوس اقدامات کی اور اس کے لئے الگ قانون بنانے کی ہدایت کی تھی اور یہ حکم بھی دیا تھا کہ ہر ضلع میں نوڈل افیسر متعین کئے جائیں اوران معاملات میں ملوث لوگوں پر نفرت پھیلانے کی تعزیرات بھی لگائی جائیں نیز ان پولس افسران کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے جو اس طرح کے واقعات روکنے کے لئے ناکافی کار کردگی دکھاتے ہیں یا پھر مجرمین پر کارروائی نہیں کرتے۔ لیکن حکومتوں نے اس حکم کی کتنی بجاآوری کی کیا کیا اس کی کوئی خبر نہیں، اس کے باوجود قانونی چارہ جوئی ہمارے لئے ایک اہم اور پر امید راستہ ہے کہ کم از کم عدلیہ قانون کی عمل داری میں غیر جانبدار رہی ہیں، دہشت گردی کے مقدمات اور بلقیس بانو کیس میں ہمیں اس کا تجربہ بھی ہے۔ ہماری کچھ تنظیمیں خاص طور سے جمیعۃ العلماء اس ضمن میں کافی کام کر رہی ہے اب ضروری ہے کہ ہماری تمام تنظیمیں ایک ساتھ مل کر اپنی پوری قوت اس جانب لگائیں اور ہم عام و خاص سب مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسی تنظیموں کی حمایت اور مالی اعانت کو اپنے اوپر فرض کرلیں۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔