احسان شناسی : ایک اعلی انسانی صفت
عبدالرشیدطلحہ نعمانی
معروف اسلامی مورخ علامہ عبد الرحمٰن ابن خلدون اپنی کتاب ’’تاریخ ابن خلدون‘‘کے مقدمے میں ارقام فرماتے ہیں کہ‘‘اجتماع’’انسانی ضرورت ہے یعنی آدمی کا اپنے ابناء جنس کے ساتھ مل جل کر رہناایسالابدی امر ہے جس سے راہ فراراختیار نہیں کی جاسکتی۔ مدنیت انسانی فطرت میں شامل ہے اور ہرانسان اپنی ضروریات زندگی کے لیے دیگر انسانوں کے تعاون کا محتاج اور معاشرتی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جب یہ حقیقت ہے کہ بنی آدم کسی نہ اعتبار سے ایک دوسرے کے محسن و معاون ہیں تو اس احسان کا تقاضا ہے کہ اپنے محسن کے ساتھ وفاداری اور احسان شناسی کا معاملہ کیاجائے، اس کے تعاون کا اچھا بدلہ دیاجائے، اگر بدلے میں کوئی مادی چیز دینے کی استطاعت نہ ہو تو خلوص دل کے ساتھ دعائے خیر دی جائے اور اپنے قول و عمل سے ہرگز اس طرح ظاہر نہ کیاجائے جس سے احسان فراموشی کی بو آتی ہو۔
احسان شناسی کی ضد احسان فراموشی ہے، جو ان دنوں جنس ارزاں کی طرح عام ہوتی جارہی ہے۔ آج کے انسان کا معاملہ نہ صرف محسن انسانوں کے ساتھ؛بل کہ خودمنعم حقیقی کے ساتھ اس درجہ احسان فراموشی کا ہے کہ وہ اس کی عطا کردہ زندگی جیسی عظیم نعمت اور مزید لاتعداد نعمتوں اور رحمتوں کے باوجود بھی کفران نعمت اور ناشکری جیسی انتہا سے باز نہیں آتااور نتیجتاً قانون قدرت کے مطابق عذاب الہی کا مستحق قرار پاتاہے۔ احسان فراموشی کی صفت جس انسان میں پائی جاتی ہے، وہ دنیا اپنی جانب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی بیش بہا نعمتوں کے دروازے بند کرلیتا ہے اور روز قیامت عتاب خداوندی کا سزاوار ٹہرتا ہے۔
احسان شناسی؛کتاب و سنت کی روشنی میں :
ہم پراحسان خواہ والدین کاہویاکسی بھی دوسرے انسان کا، شریعتِ مطہرہ نے ہمیں حکم دیاہے کہ ہم احسان شناسی کا ثبوت دیں۔ صاحبِ استطاعت ہونے کے بعدہمارا فریضہ ہے کہ اپنے والدین اور اساتذہ کا خیال رکھیں، ان کی ضروریات پوری کریں، ان کوہر قسم کی راحت و آسائش پہنچانے کی فکر کریں، جیساکہ وہ ہمارے بچپن میں ہماری فکر کرتے تھے۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے:’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بے شک اللہ کو تمھارے اعمال کی خبر ہے‘‘۔ (البقرہ:237) دوسری جگہ اپنی نعمتوں کویاددلاتے ہوئے فرماتاہے:’’اگر تم اس کا شکر ادا کروگے، تووہ تم سے راضی ہوگا‘‘۔ (الزمر:7)
حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکۂ بلقیس کے واقعے کے ضمن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی زبانی ارشاد ہوا:’’وہ (جن)جس کے پاس کتاب کا علم تھا، اس نے کہاکہ میں (ملکۂ بلقیس کے تخت کو)آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا، توجب حضرت سلیمان نے اس عرش کو اپنے پاس دیکھا تو کہا یہ میرے رب کا احسا ن اور فضل ہے، جومجھے آزمانا چاہتاہے کہ میں اس کی نعمت کا شکر اداکرتا ہوں یا کفرانِ نعمت کرتاہوں، اور جس نے شکریہ اداکیا، اس نے اپنے لیے کیا اور جس نے کفرانِ نعمت کیا، توبلاشبہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اورکرم فرما ہے‘‘۔ (النمل:40)
اسی طرح سورۂ رحمان میں مقربین کی جنت و نعمت کے اوصاف بیان کرنے کے بعد آخر میں مخاطبیں کو متوجہ کر کے نہایت بلیغ بات ارشاد فرمائی:ھل جزاء الاحسان الا الاحسان۔ (الرحمن:60)تمہیں اس بات پر تعجب کیوں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو یہ ساری نعمتیں دینے والا ہے! آخر نیکی اور پاک بازی کا بدلہ کیا ہونا چاہیے؟ انعام و اکرام ہی ہونا چاہیے یا کچھ اور؟ ظاہرہے کہ جس بندہ نے بندہ ہو کر بندگی کے حقوق کو بہ حسن و خوبی پورا کیا، کیا رب ذوالجلال والاکرام پروردگار عالم ہو کر اپنی شان بندہ نوازی میں کوئی کمی رہنے دے گا؟نہیں، ہرگز نہیں !! اللہ تعالیٰ تو ہر ایک انسان کو اس کے احسان کا اچھابدلہ دینے والا ہے وہ تو کسی کی نیکی کو رائیگاں نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کا اجر دینے میں کبھی بخل سے کام لے گا۔ یہ بات چونکہ انسانی فطرت میں راسخ ہے، کوئی عاقل، سلامتیٔ عقل و ہوش کے ساتھ اس کا انکار نہیں کرسکتا، اس وجہ سے بات ایسے اسلوب میں بیان فرمائی، جو ایک واضح حقیقت ہے یعنی احسان کا بدلہ بجز احسان کے کچھ نہیں ہوسکتا۔ لفظ احسان نیکی کے معنی میں بھی آتا ہے اور نیک صلہ کے معنی میں بھی، اس آیت میں یہ نہایت خوبصورتی کے ساتھ دونوں ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
احادیث مبارکہ میں بھی نبی پاک ﷺنے قدم قدم پر احسان شناسی کی تعلیم دی ہے اور محسن کی قدرشناسی کو ضروری بتلایا ہے، اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں !
حضرت ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:جوشخص انسانوں کا شکر نہیں اداکرتا، وہ اللہ کابھی شکرادانہیں کر سکتا۔ (جامع ترمذی) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کی ناشکری کے حوالے سے ارشادفرمایا:مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔ کہا گیا یا رسول اللہ! کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو۔ پھر تمہاری طرف سے کبھی کوئی ان کے خیال میں ناگواری کی بات ہو جائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔ ایک اور حدیث میں اپنی امت کوانسانی ہم دردی اور حسن سلوک کی تلقین کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص تم سے اللہ کے واسطے سے پناہ مانگے، اسے پناہ دے دو، جو اللہ کے واسطے سے مانگے، اسے دے دو، جو تم سے فریادکرے، اس کی مدد کرو، جوتمہارے ساتھ کوئی بھلائی کرے، اسے اس کا بدلہ دو اور اگر تمہارے پاس اسے بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ ہو، تواس کے لیے اتنی دعائیں کروکہ تمھیں لگنے لگے کہ تم نے اس کے احسان کا بدلہ چکادیاہے‘‘۔ (سنن ابوداؤد)
محسن انسانیت ﷺکی احسان شناسی:
نبی پاک ﷺنے اپنی زبانِ حق شناس سے احسان شناسی کا نہ صرف درس دیا؛بل کہ اپنے عمل اور کردارکے ذریعہ بھی اس کی اہمیت کوموقع بہ موقع اجاگر کیا۔ اس حوالے سے چند مثالیں پیش خدمت ہیں :
1:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ شخص تقاضا کرنے آیا توآپ نے (اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے) فرمایا کہ ادا کردو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا؛لیکن نہیں ملا۔ البتہ اس سے زیادہ عمر کا (مل سکا) آپ نے فرمایا کہ یہی انہیں دے دو۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ آپ نے مجھے پورا پورا حق دے دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی پورا بدلہ دے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض وغیرہ کو پوری طرح ادا کردیتے ہیں۔ (بخاری شریف)
2:حضور پاکؐ جب طائف سے زخمی حالت میں واپس پلٹے تو آپ مکہ سے باہر رک گئے کہ قریش جو پہلے ہی دشمن تھے، نہ جانے ان کا کیا رد عمل ہوگا۔ جب مکہ میں اطلاع پہنچی تو سرداران مکہ میں سے ایک مشرک سردار مطعم بن عدی نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ وہ ہتھیار بند ہوجائیں اور جا کر محمد(ﷺ) کو اپنی امان میں لے کر گھر پہنچائیں۔ جب وہ آپؐ کے پاس آئے تو آپؐ نے ان کے باپ کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ میرے لئے اللہ ہی کی امان کافی ہے۔ نبی پاکؐ نے اس سردار کی یہ نیکی زندگی بھر یاد رکھی۔ جنگِ بدر کے قیدیوں کے بارے میں آپؐ نے فرمایا: ’’اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے ان قیدیوں کی رہائی کی بات کرتا تو میں ان سب کوبلا معاوضہ رہا کر دیتا۔ اسی طرح آپؐ نے فتح مکہ کے بعد ایک موقع پر جبیر بن مطعمؓ کو اونٹوں سے بھری ہوئی ایک پوری وادی بخش دی۔ (بخاری شریف/اسد الغابۃ)
3:خلیفہ ٔ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یارغار اور یارمزار ہیں، آپ علیہ السلام ان کے احسانات کا بارہا تذکرہ فرماتے اور یوں کہتے:کسی کا بھی ہمارے اوپر کوئی ایسا احسان نہیں جس کا ہم نے بدلہ چکا نہ دیا ہو، سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے۔ بے شک اُن کے ہمارے اوپر احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ رب العزت قیامت کے دن چُکائے گا۔ (ترمذی شریف)
فساد و بگاڑ کا اصل سبب:
اس وقت مجموعی طور پر دنیا میں جو فساد اور اختلاف برپا ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں ؛جن میں ایک وجہ احسان شناسی کا فقدان ہے۔ اگر احسان شناسی طبیعت ثانیہ بن جائے تو پھر نہ خانگی زندگی میں کوئی اختلاف ہو نہ ادارہ جاتی سطح پر کوئی فساد؛ بل کہ خاوند اپنی بیوی کا احسان شناس ہو اور بیوی اپنے خاوند کی، حاکم اپنے محکوم کا منت شناس ہو اور محکوم اپنے حاکم کا۔ اس طرح امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر ہو اور کبھی ناچاقی کی نوبت ہی نہ آئے؛مگر افسوس کہ آج مسلم سماج میں احسان شناسی کی جگہ احسان فراموشی نے لے لی اور ہرسمت اختلافات کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ شاید اسی لیے اہل عرب کے ہاں مثل مشہورہے اِتَّقِ شَرَّ مَنْ اَحْسَنْتَ اِلَیْہِ یعنی جس پر تم نے احسان کیا ہو اس کے شر سے بچتے رہو، خداجانے کس زمانے میں کہنے والوں نے یہ بات کہی ہو اور کس پس منظر میں کہی ہو؛مگر آج کل توہرجگہ یہی صورت حال ہے، حضرت تھانوی ؒ کے بہ قول:اس زمانہ میں دوستی اور محبت اکثر اغراض کے لیے ہوتی ہے جب تک غرض پوری ہوتی رہی دوست ہیں اور جس دن اغراض میں کمی آئی اس دن سے دشمن ہیں، چنانچہ تجربہ شاہد ہے کہ جن لوگوں پر پورا اعتماد تھا کہ یہ دوستی سے کبھی نہ بدلیں گے، وہ بھی اپنے اغراض میں کسی وقت نقصان دیکھ کر بالکل بدل گئے، اور ایسے بدلے کہ دشمن سے بھی بدتر دشمن بن گئے۔ (التبلیغ وعظ تقلیل الطعام)
اخیر میں احسان شناسی کے تئیں حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی علیہ الرحمۃ کی تحریر سے ایک اہم اقتباس پیش کرتے ہوئے اپنے بات ختم کرتے ہیں، حضرت مولانا ارقام فرماتے ہیں : اسوۂ نبوی سے ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے کہ محسن کے احسان کا شکر اداکرنا، صاحبِ فضل کا اعتراف کرنا اور احسان کا بدلہ احسان کے ذریعے دینا مسلمانوں کا وطیرہ ہونا چاہیے اور سب سے زیادہ ہمیں جن لوگوں کے احسانات کی قدر کرنی چاہیے، وہ ہمارے ماں باپ ہیں، کیوں کہ ہم چاہے جس قدربھی ان کے حقوق اداکردیں، پورے طور پراس سے عہدہ برآنہیں ہوسکتے، اسی طرح ہمیں اپنے اساتذہ اورہماری پرورش و پرداخت میں حصہ لینے والوں کی بھی قدر کرنی چاہیے اور ان کے احسانات کا اعتراف کرنا چاہیے، اسی طرح شوہروبیوی کوبھی ایک دوسرے کا احسان شناس رہنا چاہیے اور اگر اتفاقاً طلاق اور باہم قطعِ تعلق کی نوبت آجائے، توبھی ایک دوسرے کا قدردان رہنا چاہیے۔ اسی طرح زندگی کے کسی بھی موڑپرکسی بھی شخص کے ذریعے ہمیں کسی قسم کی مددیاہم دردی حاصل ہوتوہمیں وہ یادرکھنا چاہیے۔ آج کل لوگ اپنے خداکی نعمتوں اوراس کے احسانات کو یاد نہیں رکھتے توبندوں کے احسانات کہاں یادرکھیں گے؟!چناں چہ احسان فراموشی کی وباہر سطح پر ہمارے معاشرے میں عام ہے اوراس کی وجہ سے بھی بہت سی معاشرتی خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔ سب سے پہلے توہمیں اپنے اوپر ہرلمحہ نازل ہونے والی اللہ کی نعمتوں کااستحضارہوناچاہیے، اس کے حقوق اور احکام بجالانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کے بعدجس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں وہاں جوہمارے محسنین اور کرم فرماہیں، ان کے تئیں احسان شناسی کاثبوت دیں، احسان کرنے والے کااحسان جتلاناایک مذموم عمل ہے، لیکن جس پر احسان کیاگیاہے اس کی ذمہ داری ہے کہ ضرورت پڑنے پر اپنے محسن کاقرضہ اتارنے کی کوشش کرے اوراگر استطاعت نہ ہوتوکم ازکم اس کے لیے دعائیں کرے۔ (ماہ نامہ الفاروق، ربیع الثانی 1438ھ)
تبصرے بند ہیں۔