ارتداد، جنسی تشدد اور سوشل میڈیا
مسعود جاوید
اس خاردار موضوع پر پچهلے کئی مہینوں سے لکهنا چاہ رہا تها مگر فیمنزم اور لبرلزم کے ممکنہ یلغار کے مد نظر احتراز کرتا رہا۔ لیکن پانی اب سر سے اونچا ہوتا جا رہا ہے اور اس کے سنگین نتائج ارتداد کی شکل میں بهی سامنے آرہے ہیں اس لئے لا خوف لومة ﻻئم، اس کے حقیقی اسباب کی نشاندہی کرنی ضروری ہے۔
جنسی تعلقات قائم کرنے کی آزادی سے جو قانون سامنے آیا ہے اس کی ایک توجیہ یہ کی جا سکتی ہے کہ عدالت اور مقننہ کا منشاء شاید یہ ہو کہ ساری پابندیاں صرف عورتوں کے لئے کیوں ہوں۔ آخر کیوں بیوی کے علاوہ دوسری عورتوں سے مردوں کے
جنسی تعلقات کو قانون اور معاشرہ عیب نہیں سمجهتا ہے یا سنگین اخلاقی جرم نہیں سمجهتا ہے جبکہ کسی عورت کے شوہر کے علاوہ دوسرے سے تعلقات کو جرم عظیم سمجهتا ہے۔ اسی تضاد کو اس نئے قانون کے ذریعہ ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس نئے قانون سے پروش پردهان ذہنیت کا خاتمہ ہوگا۔ دین اسلام نے اس ذہنیت سے براءت کا اعلان ابتداء اسلام میں ہی کردیا تها اس کے اصول و قوانین مرد و عورت کے لئے یکساں ہیں۔ اللہ سبحانه وتعالى نے اس طرح کے قانونی اور اخلاقی جرائم سے دونوں کو روکا ہے۔ ماقبل اسلام یعنی دور جاہلیت میں جسم فروش عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات کو قابلِ ملامت سمجھا جاتا تھا مگر رکهیل، kept، معشوق، معشوقہ گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ سے جنسی تعلقات کو عیب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اللہ نے قرآن کی مندرجہ ذیل آیتیں نازل کر کے مرد اور عورت دونوں کے لئے شادی کے بندھن سے باہر جنس (sex) کو حرام قرار دیا : عورتوں کے لئے آیت ” محصنات غير مسافحات و لا متخذ اخذان”۔ ۔۔۔۔ مردوں کے لیے آیت ” محصنين غير مسافحين و لا متخذي اخذان "۔ مسافح وہ مرد جو کسی بهی ویشیا کے ساتھ جسمانی جنسی تعلق قائم کرے اور مسافحة وہ عورت جو کسی بھی مرد سے اپنی آبرو بیچے۔ متخذ اخذان وہ مرد جو کسی عورت کو (جنس کے لئے) معشوقہ دوست گرل فرینڈ بنائے اور متخذی اخذان وہ عورت جو کسی مرد کو معشوق دوست بوائے فرینڈ بنائے۔ یہ وضاحت اس بات کی ہے کہ مردوں کو چهوٹ نہیں دی گئی ہے کہ وہ ادهر ادهر منہ مارتے پهریں اور اپنی بیگمات اور بہن بیٹیوں کے لئے اتنی سختی کریں کہ ان کے لیے شادی کا پیغام لے کر آنے والوں سے کہیں کہ ان کے پاؤں تک کسی نے نہیں دیکها ہے اتنے پردے میں رہتی ہیں کہ چاند اور سورج کی نظر بهی ان پر نہیں پڑی ہے۔ دوسری وضاحت یہ ہے کہ صرف لڑکیوں کو بوائے فرینڈ شپ سے نہیں روکا گیا ہے لڑکوں کو بھی گرل فرینڈ شپ سے روکا گیا ہے۔ تیسری وضاحت یہ ہے کہ نہ صرف برسرعام جسم فروشی کرنے والوں اور جسم خریدنے والوں کو مخاطب کیا گیا ہے بلکہ چھپ کر تعلقات بنانے والوں اور بنانے والیوں کو بهی مخاطب کیا گیا ہے۔ اور اس فعل کو گناہ عظیم کہا گیا ہے۔
جسم فروشی ویسے تو دنیا کا سب سے قدیم پیشہ مانا جاتا ہے اس لئے دنیا کی نظر میں اس کے منفی اثرات اتنے سنگین نہیں ہیں اور بیشتر ممالک میں اس کام کے لئے باضابطہ لائسنس دیئے جاتے ہیں اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنسی تشدد اور ریپ کے محرکات میں اس پیشہ کو شامل نہیں کیا جاسکتا۔
جنسی بے راہ روی ریپ اور کمسن بچے بچیوں کی عصمت دری اور اس کے بعد بسا اوقات قتل کے اسباب و محرکات کئی ہیں۔ مختلف شہروں میں teenagers سے گفتگو اور ان کی حرکات و سکنات کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اصل محرک اسمارٹ فونز اور انٹر نیٹ سروس فری یا معمولی قیمت پر مہیا ہونا ہے۔
وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق 2016 میں۔، 106958 ایک لاکھ چهہ ہزار نو سو اٹهاون بچوں کے جنسی ہوس کا شکار بنانے کا کیس درج ہوا۔ 2015 میں 94172 اور 2014 میں 89423 کیس درج ہوئے تهے۔یہ وہی دور ہے جس میں فری نیٹ کا بوم boom آیا۔ ۔۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں ہر پندرہ منٹ پر ایک بچی جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ریپ اور بالخصوص کمسن بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں اس سرعت کے ساتھ اضافہ کی اصل وجہ اخلاق سوز مناظر اور جنسی تصاویر پورن ویڈیو کلپ اور ہیجان انگیز مکالمات ہیں۔ جنسی خواہش ہر حیوان، خواہ social animal انسان ہو یا چوپائے، درند و پرند، سب کی جبلت میں ہے۔ یہ ایک فطری تقاضا ہے اس لئے جنسی خواہش اس سے آسودگی اور تسکین کے لئے اللہ نے جنس مخالف opposite sex کو پیدا کیا ہے۔ جانوروں کی طرح بے راہ روی کے بر عکس اس تسکین کے حصول کے لئے نکاح شادی عقد کا نظام مرتب کیا ہے۔ اس کو دبانا ایک غیر فطری عمل ہوگا اسی لئے دین اسلام میں عزلت، زہد اور اس طرح کی گوشہ نشینی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ نکاح کا مقصد صرف افزائش نسل نہیں ہے۔ جنسی تسکین کا حصول بهی ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی کے لئے اس کے لئے ” سکینة اور طمأنينة کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اس مقدس بندهن کو نصف ایمان کہا گیا ہے۔ چونکہ یہ ایک فطری تقاضا ہے اس لئے ہر مہذب سماج میں اس کا تقدس برقرار ہے۔ دین اسلام : قران میں محصنین اور محصنات اور حافظین فروجہن سے مراد شرمگاہوں کی حفاظت ہے کہ شوہر کی شرمگاہ بیوی کے لئے اور بیوی کی شرمگاہ شوہر کے لئے امانت ہے۔ اس کی حفاظت لازمی ہے۔
هندو سماج میں ایک ناری برہماچاری پر زور ہے کہ اپنی بیوی کے علاوہ دوسری کے ساتھ تعلقات قائم نہ کیا جائے۔ عیسائی مرد و عورت جب عقد کے وقت عہد لیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ دکھ میں سکھ میں ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے اور یہ کہ شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے خیانت نہیں کرے گا یعنی شوہر بیوی کے علاوہ کسی اور کے ساتھ جنسی تعلقات قائم نہیں کرے گا اسی طرح بیوی شوہر کے علاوہ کسی اور کے ساتھ پینگیں نہیں بڑهائے گی۔
جن مذاہب میں عزلت اور زہد کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے ان کے پیشواؤں کی حرکات جنسی تصرفات اور زیادتیاں پچهلے دنوں چرچوں مندروں اور آشرموں کے حوالے سے اخبارات کی شہ سرخیاں رہی ہیں۔ دراصل یہ فطری تقاضوں کو کچلنے کا نتیجہ ہیں۔ آج سے قبل جب میں پانچ اور سات سال کی بچیوں کے ساتھ جنسی درندگی کی خبر پڑهتا تها تو میں ان خبروں کو مبالغہ آرائی پر محمول کرتا تها۔ مگر میں نے اپنے حالیہ تحقیق میں پایا کہ جنسی ہوس اور اس پیاس کو مٹانے کا جنون جب سر پر سوار ہوتا ہے تو پهر نہ حسن، نہ عشق، نہ ذات، نہ برادری، نہ اپنی، نہ پرائی اور نہ عمر بچی بوڑھی کوئی معنی رکھتی ہے۔ ان اباحیت والی فلموں اور کلپ کو دیکھنے والوں اور والیوں میں ایسی ہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اس مواد منویہ کو ریلیز کرکے لذت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کم عمر لڑکوں کو دیکها کہ سنسان جگہوں پر بیٹھ کر اپنے اپنے موبائلز پر اس طرح کی کلپس دیکهتے ہیں فحش کہانیاں سنتے ہیں اور ان میں سے چند اتنے جنونی ہوجاتے ہیں کہ محلہ کی کسی بچی یا بچہ کو بائیک میں بیٹها کر کسی ویران جگہ پر اس کے ساتھ وہ سب کرتے ہیں جس کا طریقہ انہیں موبائلز میں دیکهایا گیا۔۔ ۔ اس سے فارغ ہونے کے بعد جب ان کی عقل ٹھکانے لگتی ہے تو انہیں یہ خوف ستانے لگتا ہے کہ کہیں وہ لوگوں کو بتا نہ دے اب اس کے سامنے اس شکار کو ٹهکانہ لگانا واحد راستہ نظر آتا ہے۔۔
ایسا لگتا ہے کہ ان دنوں ہمارا ملک ایک عجیب و غریب مخمصے میں ہے – فرد کی آزادی اور اخلاقیات کے مابین کشمکش۔ اس کا یہ تضاد ہر کس و ناکس کی زبان پر ہے۔ مثال کے طور پر تین طلاق کسی معقول وجہ کی بناء پر ہو یا بغیر کسی وجہ کے دونوں صورتوں میں جرم قابل سزا ہے ! مگر لیو ان ریلیشن شپ قانونا جائز ہے اور جب مرضی ہو ایک دوسرے سے بغیر کسی معقول وجہ کے چهوڑ کر چلی جائے چلا جائے یہ تصرف قابل مواخذہ نہیں ہے۔ در اصل ہمارا ملک بهی ان دنوں مغربی تہذیب (عیسائی مذہب نہیں) کے نقش قدم پر ہے۔ فرد کی آزادی اور اخلاقی ذمہ داری میں توازن قائم رکهنا مشکل ہو رہا ہے۔ فرد کی غیر محدود آزادی کو منظم کرنے کے لیے تہذیب و تمدن کے قوانین مرتب کئے گئے تاکہ جنگل کا قانون، جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے سے بنی نوع آدم کو نکالا جائے۔ اسی کے تحت ہر فرد کے حقوق اور ہر فرد کی ذمہ داریاں طے کی گئیں۔ ایک شخص کا حق اس جگہ ختم ہوتا یے جہاں سے دوسرے کا حق شروع ہوتا ہے اور یہاں اس کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے۔ تو کیا یہ مناسب ہے کہ عورت اپنی آزادی کے تحت دوسرے کسی شخص سے جنسی تعلقات قائم کرے۔؟ شادی ایک مرد اور ایک عورت کے مابین معاہدہ Contract ہے۔ شوہر کے تئیں اس کی ذمہ داری کی بات کون کرے گا ؟ نکاح ہو، سات پهیرے ہوں یا نوپیٹل ہو اس وقت زوجین کے درمیان یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ شوہر یا بیوی cheat نہیں کریں گے خیانت نہیں کریں گے اس عہد و پیمان کی خلاف ورزی breach of contract کی شنوائی کون کرے گا۔ قانون پاس ہوگیا اس لئے عدالت میں چارہ جوئی بے سود ہوگی۔ اس لئے اب اپنے کنبے کی کی حفاظت کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ کیسی تعلیم کیسی تربیت اور کیسا ماحول اپنے بچوں کو دینا ہے یہ فیصلہ کرنا ہوگا۔ قانون کی شان و شوکت دبدبہ majesty اس معاملے میں ختم ہوگیا اب یہ اخلاقی باتیں ذاتی ذمہ داری کے زمرے میں ہیں۔
تعلیم بہر صورت ضروری ہے لیکن اس کے لئے مین اسٹریم اور مخلوط تعلیم۔ co-educational کس درجہ تک ہو اور یہ طے کرنا اور مہیا کرانا ہماری اور آپ کی ذمہ داری ہے۔ جن مقامات پر جگہ کیمپس کی قلت ہے وہاں سرکاری اسکولوں میں شفٹ کا نظام ہے مارننگ شفٹ لڑکیوں کے لئے اور ایوننگ شفٹ لڑکوں کے لیے۔ ہر علاقے میں اس نظام کو نافذ کرانے کی کوشش کی جا سکتی ہے گرچہ میں بہت پر امید نہیں ہوں کہ اختلاط کے مدنظر حکومت ہماری بات مان لے۔ اس لئے آج سر سید علیہ الرحمۃ کے 201 ویں برسی کے موقع پر علیگ برادری کی ناکامی یاد آرہی ہے کہ کاش یہ لوگ بهی دارالعلوم دیوبند اور دیگر دینی مدارس کے جال کی طرح سرسید ماڈل اسکول (بوائز) اور (گرلز) قائم کرتے تو آج مسلم معاشرے میں اخلاقی گراوٹ کے یہ دن نہ دیکهنے پڑتے۔کاش یہ لوگ سرسید کو بت اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ایک مندر نہ بناتے۔
تربیت :
دینی تعلیم اور اخلاقی تربیت ہر والدین کی ذمہ داری ہے۔ فرد سے معاشرہ بنتا ہے یا بگڑتا ہے۔ نصاب تعلیم : سی بی اس ای اور دیگر بورڈ اس کی اجازت دیتے ہیں کہ ایک سبجیکٹ moral education اخلاقیات کے نام سے ہر اسکول میں پڑهایا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے بہت سارے مسلم پبلک اسکول اپنے نصاب میں دینیات بحیثیت سبجیکٹ نہیں پڑهاتے ہیں۔
ماحول :
دین اور اخلاق سے بہرہ ور ماحول بنانے کی کوشش سے مراد یہ نہیں ہے کہ مسلمان مین اسٹریم سے کٹ کر رہے۔ ghetto living یعنی مسلمان غیر مسلموں سے الگ رہیں یہ ناممکن ہے۔ ان کے درمیان رہتے ہوئے ہی اپنا دینی و اخلاقی تشخص باقی رکهنا گرچہ بہت بڑا چیلنج ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر تربیت جب اچهی ہوگی تو مرد اور لڑکے عورتوں کا احترام کرے گا خواتین گهر میں بازار میں آفس میں اسکول و کالج میں اجنبی مرد سے اسلامی تعلیمات کے مطابق سپاٹ لہجے میں بات کرے گی نا کہ نسوانی ادا کے ساتھ ہنس ہنس کر یا مسکرا کر۔ لباس کا انتخاب اسلامی آداب کو مد نظر رکھتے ہوئے کرےگی۔ ویسے تو decent dress code محتشم لباس ہر مذہب میں پسندیدہ ہے مگر پچهلے دو تین دہائیوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغربی تہذیب کے دل دادوں نے بعض فلم و سیریل کے ذریعے عریانیت، اخلاق سوزی اور ناجائز تعلقات کی تعلیم دینے کے مشن پر ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ادب فنون لطیفہ خواہ کہانی ہو ناول افسانہ ڈرامہ سیریل فلم یا پینٹنگ یہ سب سماج کے آئینے ہیں۔ معاشرے میں جو کچھ ہوتا ہے ان میں اسی کی عکاسی ہوتی ہے مگر آئینہ کچھ زیادہ دیکهایا جانے لگا۔ شاذ و نادر واقعات کی ایسی منظر کشی کی جانے لگی کہ ناظرین اس سے جواز کا تاثر لیں۔ مثال کے طور پر جوائنٹ فیملی سسٹم میں آپس میں ناجائز تعلقات کو گهر کے بڑوں کی طرف سے نظر انداز کرنا لائٹلی لینا نارمل سمجهنا عیب نہیں سمجهنا۔ ۔شروعات میں اسے ایم ٹی وی کلچر اوربعض سیریل کی دین سمجها جاتا تها۔ پہلے سینما ہال ہر چهوٹے بڑے شہر میں ہوتے تهے فلموں کا مواد پر سنسر شپ کی تلوار لٹکتی ہوتی تهی مگر اب ہر جیب میں نہ صرف سینما ہے بلکہ بلا روک ٹوک پورن بهی ہے۔ ان اخلاق سوز مواد سے سب سے زیادہ قدامت پسند مڈل کلاس اور لوور کلاس کے لڑکے اور لڑکیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ جن گھروں میں حیا اتنی غالب تهی کہ برا اور پینٹیز Bra & Panties دهوکر سوکھنے کے لئے ڈالنے میں اتنا احتیاط ہو کہ کسی مرد خواہ گهر کے لڑکے کیوں نہ ہوں ان کی نظر نہ پڑے وہاں اچانک جنسی مواد اتنی آسانی سے میسر ہوجائے تو ایک دم سے ابال آنا لازمی ہے۔ سوویت یونین میں صدر گورباچیف نے اپنے ملک کو سالہا سال سے جاری آہنی پنجے والی حکمرانی سے آزاد کرنے کے لیے پیروسٹرویکا اور گلاسنوسٹ یعنی آزاد صحافت اور حکومتی معاملات میں شفافیت نافذ کیا مگر چونکہ بتدریج نہیں کیا تو ملک تیرہ ٹکڑوں میں بکهر گیا۔
ارتداد:
موجودہ ارتداد کے واقعات تجزیہ کرنے سے اس نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے کہ یہ معاملہ عقیدہ سے جڑا ہوا نہیں ہے یعنی لوگ اس وجہ سے مرتد نہیں ہو رہے ہیں کہ دین اسلام میں کوئی نقص ہے( نعوذبااللہ) اور دوسرا مذہب بہتر ہے۔ ارتداد کے محرکات بهی مذکورہ بالا اسمارٹ فونز اور فری نیٹ دینی و اخلاقی تربیت سے محرومی معاشرہ میں اکثریت کی طرح آزادانہ زندگی گزارنے کی شدید خواہش عریانیت اور فحاشی کو نارمل سمجھنے کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ اس کے علاوہ بسا اوقات جہیز کی لعنت کی وجہ سے بعض لڑکیوں کا وقت پر شادی نہ ہونا بهی ہے۔
اب جبکہ عدالت حکومت اور ہم وطنوں کی اکثریت کا رجحان ہماری اخلاقی قدروں کے منافی ہو تو لازماً ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے دینی تشخص اور اخلاقی اقدار کی حفاظت کا بیڑہ اٹھائیں۔ اس کی شروعات کہاں سے ہو اس کے لیے اللہ نے ہمیں ایک نظام دیا ہے ” يا ايها الذين أمنوا قوا أنفسكم و اهليكم نارا۔(قران) اللہ کا حکم واضح ہے۔ شروعات اپنے آپ سے کریں پهر اپنے گهر والوں (اس کے بعد پڑوس پهر محلہ اس کے بعد شہر اس کے بعد ضلع پهر صوبہ پهر ملک پهر چہار دانگ عالم)۔۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔