اردو کا ارتقا اور اردو، ہندی کا رشتہ
ڈاکٹر احمد علی جوہر
اردو ہمارے ملک کی ایک ترقی یافتہ زبان ہے۔ یہ زبان کسی ایک ریاست یا کسی ایک علاقہ تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کے اثرات اور اس کے بولنے والے ہمارے ملک کی تقریباََ تمام ریاستوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہندوستان میں آج بھی اس زبان کو ’لنگوا فرینکا‘ یعنی ’رابطے کی زبان‘ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس زبان نے ہمارے ملک میں چند تاریخی، سیاسی، سماجی اور تہذیبی عوامل کی بنیاد پر مختصر عرصے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان اپنی ایک مضبوط روایت اور روشن تاریخ رکھتی ہے جس سے واقف ہوئے بغیر ہم اس زبان کی اہمیت اور قدروقیمت کو نہیں سمجھ سکتے۔
اردو تقریبا آٹھ سو سال پرانی زبان ہے۔ اس کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟ اس سلسلے میں مختلف ادبا اور محققین کے مختلف نظریات ہیں۔ سید سلیمان ندوی کے مطابق اُردو کی جائے پیدائش سندھ ہے۔ حافظ محمود خاں شیرانی کا خیال ہے کہ اُردو سرزمین پنجاب میں پیدا ہوئی اور وہاں سے ہجرت کرکے دہلی پہنچی۔ وہ اپنی کتاب ’’پنجاب میں اُردو‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’اُردو دہلی کی قدیم زبان نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دہلی جاتی ہے اور چوں کہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کرکے جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھ لے کر گئے ہوں گے۔‘‘1
اردو کے آغاز کے سلسلے میں اسی طرح کے خیال کا اظہار شیرعلی سرخوش، ڈاکٹر سُنیتی کمار چٹرجی، ڈاکٹر محی الدین قادری زوراور ٹی۔گراہم بیلی نے بھی کیا ہے۔
محمد حسین آزاد برج بھاشا کو اُردو کا ماخذ قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اُردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص ہندوستانی زبان ہے۔‘‘2
اُردو کے برج سے ماخوذ ہونے کے نظریے کو سب سے پہلے ہندآریائی لسانیات کے ایک بڑے ماہر روڈولف ہیورنلے نے پیش کیا تھا۔ ہیورنلے اور محمد حسین آزاد کے علاوہ میر امّن، سرسیّداحمد خاں، امام بخش صہبائی اور سیّد شمس اللہ قادری نے بھی برج کو اردو کا ماخذ بتایا ہے۔
اردو کے آغاز کے سلسلے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ یہ دکن میں پیدا ہوئی۔ نصیرالدین ہاشمی اسی خیال کے ہم نوا نظر آتے ہیں۔ اُردو کے آغاز کے سلسلے میں ان مختلف نظریات کے درمیان سب سے مستند و معتبر نظریہ پروفیسر مسعود حسین خاں کا تحقیقی نظریہ ہے۔ ان کے مطابق اُردو زبان بارہویں صدی کے اواخر میں دہلی و نواح دہلی میں پیداہوئی اور دہلی اور نواحِ دہلی کی بولیاں اُردو کا ’اصل منبع اور سرچشمہ‘ ہیں اور ’حضرت دہلی‘ اس کا صحیح ’مولد و منشا‘۔ مسعود حسین خاں کا یہ نظریہ جدید تحقیق کی رو سے سائنٹفک بھی ہے اور سب سے زیادہ مقبول بھی۔
اُردو کا شمار جدید ہند آریائی زبانوں میں ہوتا ہے۔ شمالی ہندوستان میں ہند آریائی زبانوں پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ1500 (ق م) میں آریوں کی ہندوستان آمد سے اس کے آغاز کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ آریوں کے ہندوستان میں آنے کے سبب سب سے پہلے جس زبان کی نشوونما عمل میں آئی اسے ’سنسکرت‘ کہاجاتاہے۔ اس کی قدیم شکل ’ویدک سنسکرت‘ کے نام سے جانی گئی جس کے قدیم ترین نمونے ’رِگ وید‘ میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی شستہ و شائستہ اور منضبط زبان تھی۔ اس کے بعد کی شکل ’کلاسیکی سنسکرت‘ کہلائی جو ادبی لحاظ سے بیحد متمول زبان تھی۔ سنسکرت زبان ادبی لحاظ سے بھلے ہی ثروت مند رہی ہو مگر یہ عام لوگوں کی زبان نہ بن سکی۔ یہ خاص طبقے کی زبان تھی اور اسے عام بولیوں سے پاک و صاف کرنے کے لیے قواعد کے اصولوں میں جکڑ کر جامد بنادیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ زبان محدود ہوتی گئی اور 500 ق م تک پہنچتے پہنچتے اس نے دم توڑ دیا۔ اس کی جگہ عوام نے فطری زبان اختیار کی جسے ’پراکرت‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ’پراکرت‘ یعنی فطری زبان بھی مختلف طرح کی تھیں۔ ان مختلف پراکرتوں کی کوکھ سے 500 سنہ عیسوی کے لگ بھگ اپ بھرنشوں یعنی بگڑی ہوئی زبانوں کا جنم ہوا جو 1000 تک پھلتی پھولتی رہی۔ اس کے بعد اس کے ارتقا کی رفتار رک گئی اور مختلف اپ بھرنشوں سے مختلف جدید ہند آریائی زبانیں پیداہوئیں۔ اردو کی پیدائش کا زمانہ بھی یہی ہے۔ اُردو کی اصل شورسینی اپ بھرنش کو مانا جاتا ہے جو شورسینی پراکرت سے پیدا ہوئی۔ شورسینی اپ بھرنش 1000 سنہِ عیسوی تک پہنچتے پہنچتے ختم ہونے لگتی ہے اور اس کے بطن سے دہلی و نواحِ دہلی میں متعدد بولیاں پیداہو تی ہیں۔ جیسے ہریانی، کھڑی بولی، برج بھاشا اور میواتی۔ نواحِ دہلی کی ان ہی بولیوں کے الفاظ کے خمیر سے اُردو کا ہیولیٰ تیار ہوا ہے، خصوصاََ کھڑی بولی کو اُردو کی بنیاد مانا گیا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق کھڑی بولی ہی کی معیاری اور ترقی یافتہ شکل اُردو ہے۔ یعنی اُردو کا ارتقا کھڑی بولی سے ہی ہوا۔ یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ اُردو کا نام اُردو بعد میں پڑا۔ ابتدا میں اسے ’ہندی‘، ’ہندوی‘، ’ریختہ‘، ’دہلوی‘، ’دکنی‘ اور ’گجری‘ کے نام سے پکارا گیا۔
اردو کے آغاز و ارتقا کو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور ان کی سکونت پذیری سے جوڑ کر دیکھنا صحیح نہیں ہے۔ اگر اُردو اور مسلمانوں کا اتنا ہی قریبی رشتہ ہوتا کہ جہاں جہاں مسلمان جاتے، وہاں اردو جنم لیتی تو آج ان ممالک کی زبان بھی اردو ہی ہوتی جہاں مسلمان فاتح کی حیثیت سے گئے اور جہاں ان کی اکثریت ہے۔ ہند آریائی لسانیات کے ماہر ڈاکٹر سُنیتی کمار چٹرجی کا خیال ہے کہ اگر مسلمان شمالی ہندوستان میں نہ وارد ہوتے تب بھی جدید ہندآریائی زبانوں کی پیدائش عمل میں آتی، لیکن ان کے ادبی آغاز و ارتقا میں ضرور تاخیر ہوجاتی۔ 3
ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی کے مطابق مسلمانوں کی آمد کے بغیر بھی اردو کا آغاز ہوتا۔ ہاں اس کی شکل تھوڑی دوسری ہوتی۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں کی آمد خصوصاً 1193 میں ان کی فتحِ دہلی نے اردو زبان کی تعمیر و تشکیل میں ایک خاص رول ادا کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے زیراثر اور مقامی لوگوں سے ان کے میل جول کی وجہ سے اردو میں مقامی اور دوسری بولیوں کے الفاظ کے ساتھ ساتھ عربی و فارسی کے الفاظ کثرت سے داخل ہوئے۔
اُردو کے آغاز کا سلسلہ بارہویں صدی کے اواخر سے ہوا۔ اس کے ابتدائی نمونے نامدیو، کبیر، گرونانک کی شاعری، بدھ سدھوں، ناتھوں اور گورکھ پنتھی جوگیوں سے منسوب مذہبی تخلیقات میں ملتے ہیں۔ مسلمانوں میں مسعودسعدسلمان پہلے شاعر ہیں جنھوں نے عربی، فارسی کے علاوہ ’ہندوی‘ یعنی اردو میں بھی شاعری کی ہے۔ قدیم اردو کے سب سے پہلے اور اہم مصنف فارسی کے مشہور شاعر امیر خسرو تسلیم کیے گئے ہیں جنھوں نے ’ہندوی‘ میں بھی شاعری کی ہے۔ ’ہندوی‘ میں ان سے منسوب کہہ مکرنیاں، گیت اور دوہے اردو کے اہم ابتدائی نمونے ہیں۔ امیرخسرو سے منسوب یہ ریختہ ہر خاص و عام کی زبان پر ہے۔
زحالِ مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
قدیم اردو کے ضمن میں امیر خسرو کے کلام کے علاوہ صوفیائے کرام کے اقوال و ملفوظات اور کلام بھی خاصے اہم ہیں۔ شیخ فریدالدین گنج شکر، شیخ حمیدالدین ناگوری، شیخ بہاء الدین باجن، شیخ عبدالقدوس گنگوہی، شیخ شرف الدین بو علی قلندر، شیخ شرف الدین یحیٰ منیری ہمارے ان بزرگوں میں ہیں جن کے نام اردو کی ابتدائی نشوونما کے سلسلے میں ہمیشہ لیے جاتے رہیں گے۔ قدیم اردو کی نشوونما اور اس کے ارتقا کے ضمن میں محمد افضل کی مثنوی ’بکٹ کہانی‘ بڑی اہمیت کی حامل ہے جسے مسعود حسین خاں نے اردو شاعری کا پہلا مستند نمونہ قرار دیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی شمالی ہند میں قدیم اردو کے نمونے شعر و شاعری کی شکل میں ملتے ہیں۔ قدیم اردو کے نمونے مغل بادشاہوں بابر، اکبر، جہانگیر، شاہجہاں اور غیرمسلم شعرا برہمن وغیرہ کے شعری کلام میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اردو شمالی ہندوستان دہلی و نواح دہلی کے علاقوں میں ضرور پیداہوئی مگر بعض وجوہات کی بنیاد پر اس کی ترقی، شمال سے پہلے دکن میں بہمنی سلطنت کے زیراثر ہوئی۔ اردو کی سب سے پہلی ادبی تصنیف مثنوی ’کدم راؤ پدم راؤ‘ ازفخردیں نظامی اسی دور میں لکھی گئی۔ اس عہد میں صوفیائے کرام جیسے شیخ عین الدین گنج العلم، خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، مخدوم شاہ حسینی، شاہ میراں جی شمس العشاق، سید شاہ اشرف بیابانی اور سید عبداللہ حسینی کے درسِ اخلاق اور تبلیغ دین کی وجہ سے بھی دکن میں اردو کے فروغ میں کافی مدد ملی۔ دھیرے دھیرے جب بہمنی سلطنت کمزور ہوکر ختم ہوگئی اور دکن کے مختلف علاقوں میں ’بریدشاہی‘، ’عمادشاہی‘، ’نظام شاہی‘، ’عادل شاہی‘ اور ’قطب شاہی‘ کے نام سے پانچ خودمختار سلطنتیں قائم ہوئیں تو ان میں عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتوں کے زیراثر اردو کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ عادل شاہی سلطنت کا ایک بادشاہ ابراہیم عادل شاہ ثانی اردو کا ایک قادرالکلام شاعر گذرا ہے۔ ان کے گیتوں کا مجموعہ ’نورس‘ آج بھی ایک قابل قدر ادبی و علمی یادگار سمجھا جاتا ہے۔ عادل شاہی دور کے اہم شعراء میں نصرتی، ہاشمی، رستمی، علی عادل شاہ ثانی اور سید میراں ہاشمی وغیرہ ہیں۔ ان کے علاوہ عبدل، ملک خوشنود، حسن شوقی، صنعتی اور مقیمی بھی اسی دور کے شعراء ہیں۔ دکنی اردو کے فروغ میں ان سب کا اہم رول رہا ہے۔ دکن میں اردو کے فروغ میں گول کنڈہ کی قطب شاہی سلطنت نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سلطنت کا پانچواں مشہور بادشاہ محمد قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب کلیات شاعر ہے جس نے کثیر تعداد میں غزلیں، نظمیں، گیت، قصیدے، مرثیے اور مثنویاں کہی ہیں۔ محمد قلی قطب شاہ کے بعد تین اور بادشاہ محمد قطب شاہ، عبداللہ قطب شاہ اور ابوالحسن تانا شاہ اچھے شاعر تھے۔ قطب شاہی دور کے مشہور شعرا میں وجہی، ابن نشاطی اور غوّاصی قابل ذکر ہیں۔ ملاوجہی شاعر کے ساتھ بلندپایہ نثرنگار بھی ہیں۔ ان کی کتاب ’سب رس‘ اردو میں ادبی نثر کا پہلا نمونہ قرار دی گئی ہے۔ قطب شاہی سلطنت کے دوسرے شاعروں اور ادیبوں میں فیروز، محمود، ملاخیالی، جنیدی، میراں یعقوب، سید بلاقی وغیرہ بھی کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد دکن کی خود مختار سلطنتوں کا انضمام مغلیہ سلطنت میں ہوگیا مگر شعروادب کی محفلیں قائم رہیں اور کئی باکمال شعراء سامنے آئے جن میں ولی، سراج، بحری، وجدی، ذوقی، فراقی، عاجز، امین، طالب وغیرہ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ یہی وہ دور ہے جب 1700 میں شمالی ہندوستان میں ولی کی آمد سے اردو کی ادبی تاریخ پر گہرا نقش مرتب ہوا۔ اردو کی ابتدا شمالی ہندوستان میں تو ہوئی مگر حکومت کی زبان فارسی ہونے کی وجہ سے یہاں اسے خاطرخواہ ترقی حاصل نہیں ہوئی۔ یہاں ابتدائی دور میں اردو کو ریختہ یعنی گری پڑی زبان کہا گیا جس کی طرف شعراء ادباء نے بہت زیادہ توجہ نہیں دی مگر ولی جب شمالی ہندوستان آئے اور سعداللہ گلشن سے ملاقات اور مشورے کے بعد انھوں نے جب فارسی مضامین کو ریختہ میں کہنا شروع کیا تو ریختہ یعنی اردو کی طرف شعراء و ادباء نے للچائی نظروں سے دیکھا۔ پھر کیا تھا دیکھتے دیکھتے شمالی ہندکے شعرا اس گری پڑی زبان کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے اپنے شعری اظہار کا ذریعہ بنایا۔ کچھ شعرانے تفنن طبع کے لیے اردو میں شعر کہنا شروع کیا۔ جیسے جعفرزٹلی، میر عبدالجلیل زٹل وغیرہ۔ کچھ شعرا نے منھ کا مزہ بدلنے کے لیے اردو میں سخن طرازیاں کیں۔ جیسے سراج الدین علی خاں آرزو، قزلباش خاں امید، اسدیارخاں انشا، مرزاعبدالقادر بیدل، اشرف علی خاں پیام، مرزا معزز فطرت موسوی وغیرہ۔ شمالی ہند میں جن لوگوں نے اردو شاعری کا باقاعدہ آغاز کیا، ان میں شرف الدین مضمون، شاہ مبارک آبرو، غلام مصطفےٰ خاں یک رنگ وغیرہ ہیں۔ ان کے علاوہ شیخ ظہورالدین قائم، شاکرناجی، شاہ حاتم، فائز دہلوی، انعام اللہ خاں یقین وغیرہ کا نام بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس عہد یعنی اٹھارویں صدی میں اردو شاعری نے خوب ترقی کی۔ مرزامظہر جان جاناں اور خواجہ میردرد دہلوی جیسے شعراء اسی عہد میں پیداہوئے۔ اردو کے عظیم شاعر خدائے سخن میرتقی میر اور مرزامحمد رفیع سودا جیسے بے پناہ قادرالکلام شاعر اسی دور میں سامنے آئے جنھوں نے اردو شعروادب کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ اردو کے مشہور عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کا بھی یہی زمانہ ہے جنھوں نے اردو شاعری کو عوام میں مقبول بنایا اور ترقی دی۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد کو اردو شاعری کا عہد زریں کہاجاتا ہے۔ اٹھارہویں صدی میں دہلی میں اردو شعروادب کو بے پناہ ترقی تو حاصل ہوئی مگر نادر شاہی اور دیگر حملوں کی وجہ سے دہلی اور اس کی ادبی فضااُجڑ گئی۔ اب لکھنؤ میں شعرو ادب کی محفل قائم ہوئی۔ لکھنؤ میں جن شعرا نے شاعری کو ترقی دی، ان میں انشا، جرأت، رنگین، مصحفی، خواجہ حیدرعلی آتش اور شیخ امام بخش ناسخ وغیرہ کا نام بے پناہ اہمیت کا حامل ہے۔ دہلی میں میروسودا کے بعد ایک طویل عرصہ تک شعروسخن کی محفل ضرور مدھم رہی مگر پھر وہاں دوبارہ شعروسخن کی محفل سجی سنوری۔ اب اسے سنوارنے والوں میں اردو کے عظیم شاعر مرزاغالب، ذوق اور مومن تھے جنھوں نے انیسویں صدی کے نصف اول میں دہلی میں شعروادب کے ارتقا میں اہم کردار اداکیا۔ اس عہد کے دوسرے شاعروں میں بہادرشاہ ظفر، صدرالدین آزردہ، نواب مصطفےٰ خاں شیفتہ، داغ دہلوی اور حکیم ثناء اللہ فراقؔ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس عہد یعنی انیسویں صدی کے نصف اول میں لکھنؤ میں ایک طرف میر انیس اور میرزا دبیر نے اردو مرثیے کو اپنی قادرالکلامی سے انتہائی بلندیوں پر پہنچا دیا تو دوسری طرف پنڈت دیاشنکر نسیم اورمرزاشوق لکھنوی نے اپنی مہارت سے اردومثنوی کو فنی عروج بخشا۔ اسی عہد میں میر حسن دہلوی نے بھی ’سحرالبیان‘ کے نام سے معرکتہ الآرا مثنوی لکھی۔
شمالی ہند میں اب دھیرے دھیرے اردونثر نے بھی ترقی کرنا شروع کیا۔ اس کے ابتدائی نمونے شاہ عبدالقادر کے ترجمۂ قرآن، صوفیاکرام کے ملفوظات و اقوال وغیرہ ہیں۔ ادبی نثر کا آغاز اٹھارہویں صدی میں فضل علی فضلی کی ’کربل کتھا‘ اور ’نوطرز مرصع‘ سے ہوتا ہے۔ شمالی ہند میں اردو نثر کی ترقی میں انیسویں صدی کے نصف اول میں فورٹ ولیم کالج نے بڑا اہم کردار اداکیا۔ اردو کی مشہور داستان ’باغ و بہار‘ میرامن نے اسی کالج میں لکھی۔ میر امن کے علاوہ اس کالج میں جن اردو مصنّفین نے اردو نثر کو فروغ دینے میں حصہ لیا، ان میں حیدربخش حیدری، میر شیرعلی افسوس، مرزاعلی لطف، میر بہادر علی حسینی، نہال چندلاہوری، مظہرعلی خاں ولا، مرزاکاظم علی جوان، للولال جی، بینی نرائن جہاں اورخلیل علی خاں اشک وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ان ادباء نے فورٹ ولیم کالج میں اردوداستانوں کے ترجمے سلیس اور آسان اردو میں کیے۔ اس عہد میں کالج سے باہر بھی کئی مشہوراردوداستانیں لکھی گئیں۔ جیسے رجب علی بیگ سرور کی ’فسانۂ عجائب‘ اور انشاء اللہ خاں انشا کی ’رانی کیتکی کی کہانی‘۔ اردو کی ان مختلف داستانوں کے ذریعے اردونثر کے مختلف نمونے سامنے آئے جس سے اردو نثر کے ارتقا میں خاصی مدد ملی۔ ان داستانوں کے بعد اردونثر کو فروغ دینے میں جن تحریروں نے سب سے زیادہ اہم کردار اداکیا، وہ ’خطوط غالب‘ ہے جس میں جدیدنثر کے انداز و اسالیب، معیار و وقار، چاشنی و دلکشی سب کچھ موجود ہے۔ یہیں سے اردونثر اور شاعری دونوں ایک نئے دور میں داخل ہوتی ہے اور انقلاب 1857 کی وجہ سے اس میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہونی شروع ہوتی ہیں۔ 1857 کے سماجی وسیاسی انقلاب نے لوگوں کے سوچنے سمجھنے کا انداز بدل دیا اور اردو ادب پر اس کا گہرا اثر پڑا۔ اردو ادب نے اب مغربی ادب کا اثر قبول کرنا شروع کیا۔ خواجہ الطاف حسین حالی اورمحمد حسین آزاد کی کوششوں سے شعری دنیا میں یہ انقلاب آیا کہ اب جدید موضوعات پر نظمیں کہی جانے لگیں اور روایتی شاعری کا چلن کم ہونے لگا۔ اب نظمیں اورغزلیں جدید انداز اور نئے نئے موضوعات جیسے حب الوطنی، قوم کے لیے ایثاروقربانی، حال کی دردناکی اورانقلابی جذبوں وغیرہ پر کہی جانے لگیں۔ اس عہد کے اہم نظم نگاروں میں اسمٰعیل میرٹھی،مولانا حالی اورعظمت اللہ خاں وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یہی وہ عہد ہے جب سرسید کی علی گڑھ تحریک کی بنیاد ڈالی گئی۔ اردو ادب خصوصاً اردو نثر پر اس تحریک نے ہمہ گیر اثرڈالا۔ اس تحریک کے زیر اثر اردو میں روشن خیالی، وسعت نظری اور عقلیت پسندی کی روش عام ہوئی۔ اب تک اردونثر صرف داستان تک محدود تھی۔
علی گڑھ تحریک کے زیراثر اردو میں جدیدنثری اصناف جیسے ناول، افسانہ، سوانح، خاکہ، انشائیہ وغیرہ کا آغاز ہوااور ڈپٹی نذیر احمد، عبدالحلیم شرر، پنڈت رتن ناتھ سرشار اور مرزا ہادی رسوا وغیرہ نے اردو ناول کے میدان میں حیرت انگیز خدمات انجام دیں۔ اردو تنقید کا آغاز بھی حالی کی تصنیف ’مقدمۂشعروشاعری‘ کے ذریعے اسی دور میں ہوا۔ اسی عہد میں شبلی جیسے جید عالم نے تنقید، سیرت وسوانح اور مضامین و مقالات کے ذریعے اردو ادب کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اسی دور میں ’اودھ پنچ‘ نے اردونثر خصوصاََ طنزوظرافت کو عروج بخشا۔ اکبرالہ آبادی جیسے اہم شاعر نے اسی دور میں ظریفانہ شاعری کو بلندی پر پہنچایا اور اخترشیرانی نے رومانی شاعری کو ایک معیاری لب و لہجہ عطاکیا۔ اسی عہد میں مہدی افادی، نیازفتح پوری وغیرہ نے رومانی انداز میں نثر لکھی اور اسے ایک نئے لب و لہجہ سے روشناس کرایا۔
سرسید تحریک کے ساتھ ہی اردو شعرو ادب بیسویں صدی میں داخل ہوتا ہے۔ بیسویں صدی میں جہاں علامہ اقبال، چکبست، جوش ملیح آبادی، حسرت موہانی، عزیز لکھنوی، ثاقب لکھنوی، آرزو لکھنوی، سیماب اکبرآبادی، فانی بدایونی، اصغرگونڈوی، جگرمرادآبادی، فراق گورکھپوری اور یگانہ چنگیزی جیسے شاعروں نے اردوغزل کو ترقی دی، وہیں سجاد حیدریلدرم،نیاز فتح پوری جیسے رومانی افسانہ نگاروں اور پریم چند، علی عباس حسینی، اعظم کریوی جیسے حقیقت پسندافسانہ نگاروں نے افسانے لکھے اور اس کے ارتقا میں حصہ لیا۔ بیسویں صدی میں اردوادب میں کئی تحریکات و رجحانات نمودار ہوئے جن میں سب سے اہم تحریک ’ترقی پسند تحریک‘ ہے۔ اس تحریک کے زیراثر سب سے زیادہ اردو افسانہ کا ارتقا ہوا۔ یہی وجہ ہے ترقی پسند تحریک کے دور کو اردوافسانہ کا زریں دور کہاجاتا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی وغیرہ اس دور کے وہ قدآور افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اردو افسانہ کو فن کی بلندیوں پر پہنچایا۔ ان کے علاوہ خواجہ احمد عباس، حیات اللہ انصاری وغیرہ کا شمار بھی اس دور کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اردوافسانہ اور ناول کو ویسے تو پریم چند نے ہی بلندی پر پہنچا دیاتھا مگر اردو ناول کا اصل ارتقا ترقی پسند تحریک کے زیراثر ہوا۔ اس دور کے اہم ناول نگاروں میں عصمت چغتائی، خواجہ احمد عباس، حیات اللہ انصاری اور بیدی وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔ اس عہد میں اردونظم کو حیرت انگیز ترقی ہوئی۔ فیض احمد فیض، سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، احمد ندیم قاسمی، غلام ربانی تاباں، اسرارالحق مجاز، جگن ناتھ آزاد، روش صدیقی، معین احسن جذبی، وغیرہ نے بلند پایہ نظمیں کہیں اور اس کے ارتقا میں دل کھول کر حصہ لیا۔ ان شعراء نے خوبصورت غزلیں بھی کہیں اور اسے اس کے کھوئے وقار کو واپس دلایا۔ اس عہد میں غزل کو سب سے زیادہ معیار ووقار مجروح سطان پوری نے عطا کیا۔ ترقی پسند تحریک کے زیراثر افسانہ، ناول، نظم اور غزل کے علاوہ ڈرامہ، انشائیہ، سیرت و سوانح، رپورتاژ وغیرہ کا بھی نمایاں ارتقا ہوا۔
اردو میں حلقہ ارباب ذوق کی تحریک اور جدیدیت کے رجحان کے زیراثر بھی اردو شعروادب کا خوب فروغ ہوا۔ میراجی، ن۔م۔راشدحلقہ ارباب ذوق کے اہم شعراء میں ہیں جنھوں نے اردو نظم کے میدان میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ ترقی پسند تحریک کے بعد اردو میں چند ایسے بھی ادباء نمودار ہوئے جنھیں عالمی ادباء کے زمرہ میں رکھا جاسکتا ہے جیسے قرۃ العین حیدر، انتظار حسین وغیرہ جنھوں نے فکشن یعنی اردو افسانہ و ناول کو فنی عروج بخشا۔ ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی کہ تقسیم ہند کا واقعہ پیش آیا۔ اس سے کچھ دنوں کے لیے ہندوستان میں اردو زبان و ادب پر برا وقت آیا مگر پھر جلد ہی اردو کے لیے بہتر فضا نمودار ہوئی۔ اس کے بعد اردو میں جدیدیت کے رجحان کو تقویت ملی۔ بلاشبہ اس رجحان کے زیراثر زبان و بیان، ہیئت و اسلوب کی سطح پر ادب میں اچھے تجربے بھی ہوئے مگر زیادہ تر ناکام تجربے ہوئے جس سے اردو افسانہ، ناول کو بڑا نقصان پہنچا۔ اس دور میں شاعری کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ جدیدیت کا رجحان اردو کے لیے بہت زیادہ سازگار ثابت نہیں ہوا اس لیے جلد ہی اس رجحان کا خاتمہ ہوا۔ ویسے کہنے کو تو اردو میں مابعد جدیدیت کا رجحان بھی سامنے آیا مگر ان سے قطع نظر 1980 کے بعد اردو افسانہ اور ناول کے لیے بہتر فضا سازگار ہوئی۔ 1980 کے بعد اردو کی تمام ادبی اصناف اور اردوزبان و ادب کے میدان میں خوب ترقی ہوئی خصوصا افسانہ اور ناول کے میدان میں۔ بیسویں صدی کے بعد اردو اکیسویں صدی میں داخل ہوئی اور آج اردو نہ صرف ہند و پاک میں بلکہ بیرون ممالک میں بھی ترقی کررہی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ادبی اور فنی اعتبار سے اردو میں تھوڑا زوال آیا ہے مگر عوامی بول چال کی سطح پر اردو خوب ترقی کررہی ہے۔ اس کا سہرا خصوصا فلمی دنیا اور مختلف علاقوں میں ہونے والے مشاعروں پر جاتا ہے۔ آج بھی اردوزبان عوام کے دل کی دھڑکن بنی ہوئی ہے اور ترقی کررہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو زبان میں بے پناہ چاشنی، شیرینی، دلکشی، نغمگی، انسانیت و رواداری کا جذبہ اور جاذبیت ہے۔ اردو کے ترقی کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت ہی لچکدار زبان ہے۔ دوسری زبانوں کے الفاظ کو قبول کرکے اسے اپنے مطابق ڈھالنے کی جو صلاحیت اردو میں ہے، اس کی مثال دوسری زبانوں میں ناپید ہے۔ اردو کے ترقی کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ عوام کے مزاج کے موافق ہے اور ہندوستان کی تہذیبی، ثقافتی، سماجی، سیاسی اور معاملاتی زندگی سے اس کا گہرا رشتہ ہے۔
اردو اور ہندی کا رشتہ
اردو زبان کو لے کر ایک سوال برابر کیا جاتا رہا ہے کہ ہندی سے اس کا کیا رشتہ ہے۔ اس ضمن میں عرض کرتا چلوں کہ اردو ملک ہندوستان کی جدیدہندآریائی زبان ہے۔ اردو اور ہندی دونوں کا ماخذ ایک ہے یعنی کھڑی بولی۔ یہ دونوں زبانیں سگی بہن کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک عام اندازے کے مطابق اردو میں ستر (70) فیصدی الفاظ ہندی ہیں۔ صرف بیس یا تیس فی صدی الفاظ اردو میں عربی اور فارسی کے ہیں۔ اردو نے عربی اور فارسی کے بیشترالفاظ کو اپنے مطابق ڈھالا ہے یعنی اس کی تارید کی ہے اسے ہندی کے مطابق ڈھال کر استعمال کیاہے۔ اردو اور ہندی کی لفظیات، صرفیات اور نحویات میں جتنا اشتراک پایا جاتا ہے، دنیا کی کسی دو زبانوں میں ایسا اشتراک نظر نہیں آتا۔ آپ کوئی جملہ اردو اور ہندی میں بولیے، لفظوں کا فرق ہوسکتا ہے مگر جملے میں لفظوں کی ترتیب بالکل ایک جیسی ہوتی ہے۔ اردو کی تقریبا چالیس آوازیں ہیں۔ ان میں سے صرف چھ آوازیں ایسی ہیں جو فارسی و عربی سے لی گئی ہیں، باقی سب کی سب اردو اور ہندی میں مشترک ہیں۔ خصوصاََ ہکار (Aspirated) آوازیں پھ، بھ، تھ، دھ، چھ، کھ، گھ اپنے سادہ روپ میں پورے سٹ کی حیثیت سے اردو اور ہندی میں موجود ہیں۔ اسی طرح معکوسی (Retroflex)آوازیں ٹ،ڈ،ڑ اور ان کی ہکاری شکل ٹھ، ڈھ، ڑھ بھی اردو اور ہندی میں مشترک ہیں۔ یہ چودہ آوازیں اردو کا رشتہ پراکرتوں سے جوڑتی ہیں کیوں کہ یہ آوازیں نہ عربی میں ہیں نہ فارسی میں۔ اس طرح گنتی کی چند آوازوں کو چھوڑ کر اور ہندی کے مصمتوں (Consonants) کا ڈھانچہ تقریباََ ایک جیسا ہے۔ مصوتوں (Vowels)میں تو اردو، ہندی میں یکسانیت اس سے بھی زیادہ ہے یعنی صوتی ہم آہنگی تقریباََ سو فی صدی ہے۔ اردو فعل کا ساراسرمایہ ہندی سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ محاوروں، کہاوتوں، تلمیحوں، ضرب الامثال اور فقروں میں بھی دونوں زبانوں میں گہرا اشتراک پایا جاتا ہے۔ دونوں زبانوں میں جو گہرا لسانی اشتراک ہے، اس کو دیکھتے ہوئے اردو کے معروف محقق و ناقد پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’جتنا گہرا رشتہ اردو اور ہندی میں ہے شاید دنیا کی کسی دوزبانوں میں نہیں۔ دونوں کی بنیاد اور ڈول اور کینڈا بالکل ایک ہیں۔ یہاں تک کہ کئی بار دونوں زبانوں کو ایک سمجھ لیا جاتا ہے۔ دونوں ایک ہی سرچشمے سے پیدا ہوئیں جس کے بعد دونوں کا ارتقا الگ الگ سمتوں میں ہوا اور دو اہم لسانی اور ادبی روایتیں وجود میں آگئیں۔ اگرچہ ہندی اپنا فیضان سنسکرت سے اور اردو پراکرتوں کے علاوہ عربی اور فارسی سے حاصل کرتی ہے جس کی وجہ سے لفظیات میں خاصا فرق ہے، تاہم نسبتی اعتبار سے سگی بہنیں ہونے کی وجہ سے دونوں میں گہرا لسانی اشتراک پایا جاتا ہے۔‘‘4
اردو زبان و ادب کے اس جائزہ سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اردو زبان و ادب کی متمول اور توانا روایت اور روشن تاریخ ہے، اردو نے آٹھ سو سال کے عرصے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے اور آج بھی کررہی ہے اور ہندوستان کی تہذیبی، سماجی، سیاسی سے اس کا گہرا لگاؤ اور ہندی سے اس کا اٹوٹ اور گہرا رشتہ ہے۔
حواشی
تبصرے بند ہیں۔