اسلم جمشیدپوری: اردو افسانے کی ایک منفرد آواز
راحت علی صدیقی قاسمی
اسلم جمشید پوری اردو افسانے کی ایک منفرد آواز ہے، جس نے سماج و معاشرے کے مختلف رنگوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے، زندگی کے مسائل و مصائب سماج و معاشرے کی صورت حال کو اپنے افسانوں میں مرکزی مقام دیا ہے، دیہی اورشہری سماج کی خصوصیات خوبیوں اور خامیوں کو اپنے افسانوں واضح طور بیان کیا ہے، حالانکہ ان کے اکثر افسانے دیہی منظرنامہ پر روشنی ڈالتے ہیں، لیکن انہوں نے شہروں کی تہذیب و ثقافت کو بھی اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے اور اس کو بیان کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو ان کے مشاہدے اور بیان کی صلاحیت کو عیاں کرتا ہے، اسلم جمشید پوری نے ایسے کردار تخلیق کئے، جو لازوال ہیں، وقت کا گذران ان کی قدر و منزلت میں مزید اضافہ کرے گا، مثال کے طور پر لینڈرا لمبا آدمی، شبراتی، ظفرو، ببلی، سیما یہ ایسے کردار ہیں، جن کی آب و تاب افسانوی افق پر کہکشاں کی حیثیت رکھتی ہے، اور اردو افسانہ کے وقار میں اضافہ کا باعث ہے، افسانہ، اور افسانے کی تنقید میں اسلم جمشید پوری کی تخلیقات سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں، جن پر ناقدین فن بحث و تحقیق کے ذریعے ان کی قدر ومنزلت متعین کررہے ہیں، اسی سلسلے کی ایک کڑی ڈاکٹر صالحہ رشید کی کتاب اسلم جمشید پوری اردو افسانے کی ایک منفرد آواز ہے، جس کو عرشیہ پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے، کتاب کی طباعت عمدہ ہے، جو عرشیہ پبلی کیشنز کی پہچان ہے۔
کتاب 175 صفحات پر مشتمل ہے، کتاب کی ابتدا پیش لفظ سے ہوئی ہے، جس کو ڈاکٹر صالحہ رشید نے رقم قرطاس کیا ہے، کتاب میں اسلم جمشید پوری کے افسانوی ادب سے متعلق گفتگو کی گئی ہے، ان کا افسانہ لینڈرا اور اسی عنوان پر قدیم زمانے میں تحریر شدہ فارسی کا مشہور افسانہ بچہ مردم ہے، منٹو کے عہد کے فارسی افسانہ نگاروں پر ایک مضمون شامل ہے، اسلم جمشید پوری کا مشہور افسانہ نادان، اور اس کے مختلف پہلوؤں اور فنی کمالات پر گفتگو کی گئی ہے، فارسی کے منی مال کا تعارف کرایا گیا، جو افسانچہ کا مثل ہے اور آخر میں فکشن تنقید پر اسلم جمشید پوری کی مشہور ومعروف کتاب ’’اردو فکشن کے پانچ رنگ‘‘ پر ایک عمومی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر صالحہ رشید الہ آباد یونیورسٹی میں شعبۂ فارسی کی صدر ہیں، وہ فارسی زبان وادب کے ساتھ ساتھ اردو زبان وادب پر بھی گہری بصیرت رکھتی ہیں، ان کا مطالعہ، علمی پختگی، اور فنی چابک دستی و تجزیہ نگاری کی صلاحیت اُن حضرات پر پوری طرح عیاں ہے، جنہوں نے ان کو مختلف سیمیناروں میں مقالہ پیش کرتے ہوئے سنا ہے اور مختلف اخبارات و رسائل میں ان کی تحریریں پڑھی ہیں نہ ان کی مذکورہ بالا کتاب میرے دعوے کو مزید تقویت بخشتی ہے، کتاب کی ابتدا پیش لفظ سے ہوئی ہے، جس میں انہوں نے اُن محرکات کا تذکرہ کیا ہے، جن کے باعث یہ کتاب وجود پذیر ہوئی، کس طرح انہیں اسلم جمشیدپوری کے افسانوں کو پڑھنے اور ان پر لکھنے کا شوق ہوا اور اسلم جمشید پوری کے فنی کمالات سے متاثر ہوئیں، اس پر انہوں نے بہت ہی واضح انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ اسلم جمشیدپوری کے فن پر بھی اختصار کے ساتھ گفتگو کی ہے۔
اس مضمون کی تکمیل کے بعد انہوں نے شعبۂ اردو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں پانچ روزہ افسانوی ورکشاپ کی یادوں کاتذکرہ کیا ہے جو سیمینار تین زبانوں پر مشتمل تھا، اس میں پروگراموں کی کثرت نظم و نسق کی عمدگی، تینوں زبانوں کے نامور ادباء کا مل جل کر بیٹھنا اور ادب کے مختلف پہلوؤں پر غور و خوض کرنا، اسلم جمشیدپوری کی مہمان نوازی، اور ان کا اتنے بڑے پروگرام کو سلیقے سے انجام دینا، اور مہمانوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا، اور ان کی ضیافت میں ذرہ برابر بھی کمی نہ آنے دینا، اِن تمام یادوں اور تاثر کو بخوبی بیان کیا گیا ہے، اسلم جمشید پوری کی اِن تمام صلاحیتوں نے جہاں مصنفہ کے قلب کو چھوا ہے، وہیں انہوں نے اِن کیفیات کو اس طرز سے بیان کیا ہے، کہ قاری محض قاری نہیں رہ جاتا بلکہ وہ ایسا محسوس کرنے لگتا ہے، جیسے وہ صالحہ رشید صاحبہ کے ساتھ اس پروگرام میں شریک ہیں، اور ان تمام کیفیات کو جو اس مضمون میں موجود ہیں، اپنی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے، اور اپنے قلب پر محسوس کر رہا ہے، اور مصنفہ کی طرح وہ بھی اسلم جمشیدپوری کی ضیافت سے لطف اندوز اور ان کی شخصیت کا اسیر ہوتا جارہا ہے، یہ ڈاکٹر صالحہ رشید صاحبہ کے قلم کی قوت ہے، جس نے شنیدہ کو دیدہ کے مثل بنادیا ہے۔
اس مضمون میں ان کی زبان بڑی دلکش جاذب قلب اور غیر روایتی محسوس ہوتی ہے، اس کے بعد انہوں نے اسلم جمشیدپوری کے افسانوی ادب پر سیر حاصل بحث کی ہے، اُن کے افسانوں کے مرکزی کرداروں پر گفتگو کی، ان کی اہمیت و وقعت کو عیاں کیا ہے، ان کے مرکزی عناوین متعین کئے ہیں، ان کے افسانوں میں بیانیہ کی صورت حال کو دلائل کے ساتھ پیش کیا، ان کے افسانوں کی انفرادیت پر بڑی چابک دستی کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، موضوعات کا انتخاب کرنے میں ان کے حوصلے اور ہمت کی داد دی، جس میں ان کی تخلیقی قوت تنقیدی بصیرت، تجزیاتی شان پوری طرح جلوہ گر ہے، میں اس دعوے کو مدلل کرنے کے لئے ایک مختصر سی عبارت پیش کرتا ہوں :
’’عمدہ نویسی کے لئے بیانیہ پر گرفت انتہائی ضروری ہے اور عمدہ بیانیہ کے لئے زبان و اسلوب پر مہارت درکار ہے۔ ڈاکٹر اسلم کو کہانی کی بنت پر مہارت حاصل ہے وہ کہانی میں واقعہ، منظر، کردار، مکالمے، یہ سب اتنی چستی و درستی سے پیوست کرتے ہیں کہ قاری پورے انہماک کے ساتھ افسانے کی قراء ت کرتا ہے اور آخر تک اس کا تجسس برقرار رہتا ہے۔ کئی بار تو وہ کردار و واقعات کے دھارے میں خود بھی بہہ جاتا ہے اور افسانے کے ختم ہوجانے پر بھی اس کا تأثر دیر تک اس کے ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے۔ اس عمل میں اسلم کے بیانیہ کا کمال شامل ہے۔ ’شبراتی‘، جو ہندی میں ’دکھ نکلوا‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے اس میں مذکورہ فنی خصائص ابھرکر سامنے آتے ہیں ‘‘(اسلم جمشیدپوری:اردو افسانے کی ایک منفرد آواز)
اس اقتباس سے صالحہ رشید صاحبہ کی تنقیدی صلاحیتوں کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور کتاب اور صاحب کتاب کی وقعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اس کے بعد کتاب میں ’’لینڈرا‘‘ پر ایک تجزیہ پیش کیا گیا ہے، چونکہ اس افسانے کے نام کی اجنبیت ہر شخص کو اس جانب متوجہ کرتی ہے، اور لینڈرا کی حقیقت سے آشنائی کا خیال قلب میں پیدا کرتی ہے، چنانچہ مصنفہ بھی اس خیال سے دوچار ہوئیں، اور لینڈرا کی معرفت کے ذریعے ان پر عیاں ہوگیا کہ کائنات میں عورت ہی مظلوم نہی بلکہ مرد بھی ظلم و جور کی چکی میں پس رہا ہے، اور محبت و الفت سے دور طعنہ زنی کا مصرف بنا ہوا ہے، اور اس کے احساسات و جذبات بھی مجروح کئے جارہے ہیں، ’’لینڈرا یعنی چہ‘‘ میں جہاں اس افسانے کے موضوع کی انفرادیت بیان کی گئی ہے، وہیں افسانے کے فنی کمالات اور مکالمے کی خوبیاں اور مرکزی کردار لینڈرا کی خصوصیات ذکر کی گئی ہیں، اس کا مطالعہ افسانہ لینڈرا کی قدر کا تعیین کرتا ہے۔
کتاب کا تیسرا مضمون لینڈرا اور بچہ مردم : اصلاحی اور موضوعاتی نقطئہ نظرہے۔اس مضمون کے تحت ’’بچہ مردم‘‘ کے تخلیق کار ایرانی فکشن نگار جلال محمد کی زندگی کا مختصر خاکہ پیش کیا گیا ہے، ان کے ادبی سفر کو بھی اختصار کے ساتھ موضوع گفتگو بنایا گیا ہے، اسی طرح اسلم جمشیدپوری کی زندگی اور ان کی ادبی خدمات کو بھی پیش کیا گیا ہے، اور ساتھ ہی بچہ مردم اور لینڈرا کا تقابلی مطالعہ بھی کیا گیا ہے، جس میں دونوں افسانوں کے موضوع اور سماجی مسائل کے اعتبار سے ان کی یکسانیت کا تذکرہ کیا گیا، اور دونوں افسانوں کی خصوصیات اور ان کے سماجی ربط اور ان کی افادیت کو عیاں گیا ہے، وہ کیا مسائل ہیں جن پر یہ افسانے گرفت کرتے ہیں، اس ضمن میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر صالحہ رشید صاحبہ رقم طراز ہیں :
’’بچہ مردم کی داستان ایک عورت یعنی بچے کی ماں بیان کرتی ہے۔ جلال نے زیادہ ترقصے اپنے کردار کی زبانی کہلوائے ہیں۔ یہاں ایک نکتہ اور نکل کر سامنے آتا ہے کہ ایک ماں جس نے کسی بڑی مجبوری کے تحت اپنے جگر کے ٹکڑے کو بھیڑ میں چھوڑ دیا، وہ دوبارہ اسی واقعے کو اپنی زبان سے دہراتی ہے۔ کتنا درد ہوا ہوگا اسے اس قصے کو دوبارہ بیان کرنے میں۔ جلال بچہ مردم کے ذریعہ ایک عورت کا دکھ، درد اور سفاک مرد اثاث معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ لینڈرا کا خا صہ یہ ہے کہ اسی مرد اثاث معاشرے میں ایک مرد کا استحصال ہونے کی روداد بیان کی جارہی ہے۔ دونوں بچوں کا قصور یہ ہے کہ وہ باپ کی شفقت سے محروم ہیں۔ ایک باپ کی زندگی نے وفا نہیں کی تو دوسرے کے باپ نے زندگی کی قدر نہیں کی۔ دونوں ہی صورتوں میں خسارہ بچوں کا ہوا۔ ‘‘(اسلم جمشیدپوری:اردو افسانے کی ایک منفرد آواز)
اس طرح سے کتاب میں دونوں افسانوں کی خصوصیات و انفرادیت کو عیاں کیا گیا ہے، حالانکہ بچہ مردم ایک ماں کے درد کی داستان ہے، اور لینڈرا ایک ماں کے ساتھ آئے ہوئے بچہ کی داستان ہے، دونوں ایک طرز سے شروع ہوئے، اور دونوں میں تقریباً یکساں مسائل ہیں، حالانکہ دونوں کا پلاٹ ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہے، اسے بخوبی مضمون میں پیش کیا گیا ہے۔
اس کے بعد لینڈرا اور بچہ مردم دونوں افسانوں کو اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں پیش کیاگیا ہے، جو کتاب کی وقعت میں مزید اضافہ کا باعث ہے، اور مصنفہ کی دونوں زبانوں پر گرفت کو عیاں کرنے والا ہے۔ اس کے بعد منٹو کے عہد میں فارسی زبان میں جو افسانہ نگار افسانے تخلیق کر رہے تھے، ان کے افسانوی سفر پر انتہائی اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے، جس سے قارئین کو فارسی زبان وادب کے مطالعے کی طرف رغبت ہوگی، اس مضمون میں ان افسانہ نگاروں کے موضوعات کی جانب بھی اشارے کئے گئے ہیں، اس سے فارسی زبان و ادب کے فکشن کی صورت حال پر مطلع ہوا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد اسلم جمشید پوری کے افسانہ’’نادان‘‘ کو پیش کیا گیا ہے، جو اپنے موضوع کی وجہ سے انفرادیت کا حامل ہے، اور اسلم جمشیدپوری کی فنی انفرادیت کو سمجھنے میں معاون ہے، افسانہ کے بعد عورت کے لطیف جذبات کا فن کارانہ بیان :نادان کے عنوان سے افسانہ نادان کی فنی موضوعاتی خوبیاں اور اس کی ندرت کو پیش کیا گیا، اس کے پلاٹ اور کرداروں کے اختصاص پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور حیض کے دوران عورت جس صورت حال سے گذرتی ہے، اس کے فن کارانہ بیان پر اسلم جمشیدپوری کی پذیرائی کی گئی ہے، اور ان کی فنی ندرت کو بھی اس افسانے کے ضمن میں ثابت کیا گیا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس موضوع کو بہادری اور خوبصورتی کے ساتھ اسلم جمشید پوری کے انفرادیت کو ظاہر کیا گیا ہے، فارسی فکشن کی صنف منی مال کا تعارف اس طورپر کرایا گیا ہے کہ اس کی خوبیاں عیاں ہوگئی ہیں، اور چند منی ما ل بطور مثال پیش کئے جو اردو افسانچہ کی مثال پیش کئے گئے ہیں، جس سے فارسی زبان وادب کا معیار تخلیق پتا چلتا ہے، اور کتاب کی وقعت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
کتاب کا آخری مضمون اسلم جمشید پوری کی فکشن تنقید سے متعلق کتاب ’’اردو فکشن کے پانچ رنگ‘‘ پر ایک عمومی جائزہ ہے، جس میں مذکورہ کتاب کا معروضی اور تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے، کتاب کے عناوین اور ان کا تعارف کرایا گیا ہے، ان کی خصوصیات و خوبیوں کو واضح کیا گیا ہے، مزید یہ کہ مصنفہ نے کتاب کے تمام گوشوں پر پوری دقت کے ساتھ مطالعہ کیا ہے، اور اس کے اہم نکتوں پر روشنی ڈالی ہے۔ مجھے امید ہے کہ’’اسلم جمشیدپوری اردو افسانے کی ایک منفرد آواز‘‘ اسلم شناسی میں اہم کردار ادا کرے گی اور عہد حاضر کی توجہ اسلم جمشیدپوری کی جانب مبذول کرے گی، ان کی شخصیت اور فنی کمالات کو بھی عیاں کرے گی، کتاب بہت عمدہ اور معلومات افزا مضامین سے بھرپور ہے۔ ڈاکٹر صالحہ رشید کو مبارکباد۔
تبصرے بند ہیں۔