اسکول میں فحش نگاری
محمد شعیب رضا نظامی فیضی
دنیا میں مغربی تہذیب و ثقافت نے اپنی غلاظت و نحوست کا جو کھیل کھیلا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، عریانیت و فحاشیت سے پوری دنیا میں آگ لگانے والی مغربی کلچر کے ٹھیکے داروں نے آج اکسویں صدی میں میں بھی عورت دور جاہلیت کے نرغے میں ڈھکیل رکھا ہے۔ اس "مغربی کلچر” نے جسے "تہذیب” لکھنے سے قلم شرماتا ہے عورت کو 1400 سال پہلے کی طرح جوتیوں کی دھول اور ہوس کی پیاس بجھانے والے کھلونے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھ رکھا ہے ہاں یہ الگ بات ہے اس بار حربے نئے ہیں عورتوں کو ہراساں کرنے کے وہ پرانے طور و طریقے نہیں اپنائے جارہے ہیں جہاں عورت کو ستر پوشی کی اجازت نہ ہو، جہاں ایک عورت پانچ-دس مردوں کے ساتھ تعلقات بنانے پر مجبور ہو، جہاں عورت مخصوص ایام میں گھٹن بھری زندگی جینے پر مجبور ہو، ہاں مگر مقاصد آج بھی وہی ہیں بدلا ہے تو صرف کھیل کا انداز! آج سماج بالخصوص عورتوں کے دماغ کو معذور کر دیا گیا ہے کہ وہ پانچ-دس نہیں اس سے بھی زائد مردوں کے ساتھ تعلقات کھلے عام قائم کرتی ہے اور بڑے فخر سے اسے اپنی آزادی سمجھتی ہے جبکہ یہ سماج تو اس سے لطف اندوز ہوتا ہے بس۔ سترپوشی کا حال تو ازحد برا ہوچکا ہے لباس کے چھوٹے ہونے کا جو سلسلہ چلا ہے کہ سلوار-قمیص سے بلاؤز و اسکرٹ، پھر پھٹی ہوئی ڈیزائنر ڈریس سے لے کر بکنی اوتار تک ہر جگہ بس ایک ہی چیز دکھتی ہے عریانیت اور اس سے بھی اوپر جاکر اس کلچر نے عورت کو بالکل ننگا کردیا جس کی ایک مثال امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ کا عورتوں کی شرمگاہ پر ہاتھ رکھ کر احتجاج کرنا۔ یہ کیسا احتجاج ہے جس میں اتنی غلیظ حرکت کی جاتی رہی اور پوری دنیا تماشہ دیکھتی رہی۔
عورتوں کو آزادی کا لالی پاپ دیتے ہوئے عریانیت کے عروج پر پہنچا کر اپنے ہوس کی آگ بجھانے والے اس کلچر کے اثرات اب مشرقی تہذیب و تمدن پر بھی غالب آچکے ہیں آج مشرق کی عورتیں بھی عریانیت و فحاشیت کو اپنی آزادی تصور کرتی ہیں اور مخالفت کرکے ان کی عزت کو تار تار ہونے سے بچانے والے کو وہ اپنی آزادی کا دشمن بلکہ قاتل اور دقیانوس سمجھتی ہیں اور پھر ورغلانے کے لیے اتنی تنظیمیں بن چکی ہیں مخالفت کرنے والے کی زندگی اجیرن بن جائے۔
کون نہیں جانتا کہ ان ساری کارستانیوں کے پس پردہ مغرب کو اپنی تجارت کو بڑھاوا دینا ہے فقط، ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ جتنی تیزی سے عریانیت و فحاشیت بڑھ رہی ہے اتنی ہی تیزی سے ان کا کاروبار بڑھتا جارہا ہے جن میں بیوٹی میٹریل کی قیمتوں کا حال پیٹرول اور ڈیزل سے بھی بڑھ ر ہے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ فلموں کی دنیا میں اب نئے طریقے کے فلم رائج ہیں جن کا بیان بھی ہمارے لیے باعث عار ہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اسی کلچر نے طوائفوں کے بےہودہ ویڈیوز بناکر سماج میں پھیلایا جسے "پورن ویڈیوز” کہتے ہیں۔ اس قسم کے ویڈیوز پوری دنیا بالخصوص نسل نو کے لیے کس قدر ہلاکے آمیز ہیں اس کا اندازہ معمولی سا عقل مند انسان بھی لگا سکتا ہے۔ اور اس قسم کی ویڈیوز کی لت نسل نو کو کچھ اس طرح لگی کہ آج امریکہ کے سب سے مقبول گیم فٹبال کی مقبولیت بھی اس کے آگے دم توڑ چکی ہے(امریکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق)۔ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی ہوس کے پجاریوں کی آگ نہیں بجھ رہی ہے جبھی تو ہوس کے ان پجاریوں نے اب تعلیم گاہوں میں بھی اس بے ہودگی کے کورسیز چلانے کا اعلان کیا ہے۔ جی ہاں! آپ نے صحیح پڑھا میڈیا رپورٹ کے مطابق "ویسٹ منسٹر” نامی امریکی یونیورسٹی نے باضابطہ پورن کورس چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب استاذ و شاگرد دونوں ساتھ میں یہ گندے ویڈیوز دیکھیں گے۔ اور آن کی دلیل پھر سے وہی آزادی اور بلند خیالی کے ڈھکوسلے ہیں کہ ہم اس عمل کے ذریعہ رنگ و نسل کا امتیاز مٹائیں گے۔
اللہ کی پناہ! شاید شیطان کو بھی اس طرح کے گھٹیا حیلے کبھی نہ سوجھے ہوں جس طرح کی گھٹیا بہانے ان بلندخیالی اور آزادی کے نام نہاد ٹھیکے داروں کو سوجھتے ہوں۔اور رہی بات شرم و حیا کی تو انھیں پیدا ہوتے ہی بے شرم بنادیا جاتا ہے پھر انھیں شرم کیوں کر آئے گی؟
ان سب کے درمیان امریکی یونیورسٹی کے اس حرکت کی مذمت ہرچہار جانب سے ہوئی مگر ہمیں سخت تشویش ہے کہ ماضی کی طرح دیگر قومیں بالآخر اس شنیع حرکت کو بھی قبول نہ کرلیں جیسے کہ پہلے عریانیت کے خلاف سبھی تھے مگر آج مذہب اسلام اور مزید گنے چنے طبقے کے علاوہ ہر قوم و سماج عریانیت کی دلدادہ ہوچکی ہے۔ اللہ رب العزت مغرب کے ان ڈھکوسلوں سے پوری دنیا بالخصوص قوم مسلم کو بچائے اور انھیں عقل سلیم کی دولت عطا فرمائے۔
شذرہ: ممکن ہے کہ ہماری طرح دوسرے تہذیب پسند لوگوں کو یہ تحریر نامناسب لگے مگر حقیقت سے آگاہی ضروری ہے۔
تبصرے بند ہیں۔