المسائل المہمۃ فیما ابتلت بہ العامۃ!
سلیمان سعود رشیدی
انسانی زندگی رواں دواں ہے، اسے کسی مقام پر قرار نہیں ، جس کی وجہ سے آئے دن اسے نت نئے مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے، پیش آمدہ بعض مسائل کا حل تو براہِ راست قرآن وحدیث سے بآسانی ہو جاتا ہے، لیکن مسائل کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کا حل ظاہرِ نصوص میں نہیں ملتا تو ہر دور کے علماء ربانی وارثین انبیاء ہونے کی وجہ سے اپنی اجتہادی بصیرت سے ان کے احکام معلوم کئے اور لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ الحمد للہ آج بھی ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو شریعت کو اپنی معاشرت، تجارت اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں ذریعہ نجات سمجھ کر زندگی گذارنا چاہتے ہیں ، ان کے سامنے دسیوں مسائل ایسے کھڑے ہوتے ہیں جن کے بارے میں وہ علماء اسلام اور اصحاب افتاء کی طرف رہنمائی کے محتاج ہوتے ہیں کہ یہ جائز ہے یا نا جائز؟
اسی فریضہ کی انجام دہی کے لئے جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا نے 1429 ہجری میں دار الافتاء قائم کیا؛ تاکہ امت کے موجودہ حوادث ومسائل کا شرعی حل مل جائے، اس شعبہ کے طلباء کی دیگر تعلیمی وتربیتی مصروفیتوں کے ساتھ ساتھ پورے سال ایک مصروفیت یہ بھی رہتی ہے کہ جن مسائل میں لوگوں کا ابتلاء عام ہے ان کی پوری صورت قلم بند کرے اور آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ، عبارات فقہیہ اور قواعد شرعیہ کی روشنی میں حکم شرعی متعین کیا جائے پھر اسے نماز ظہر سے پہلے جامعہ کی ’’میمنی مسجد‘‘ میں سنایا جائے۔ یہ معمول دار الافتاء کے قیام سے آج تک ہے جس کی وجہ سے اس طرح کے مسائل کی ایک غیر معمولی تعداد ہو گئی تھی، اس لئے ذمہ دارانِ جامعہ کو ان مسائل کے جمع کرنے کا خیال ہوا، اس طرح ہر سال کے اختتام پر مستقل کتاب کی اشاعت عمل میں آئی ہے۔ اب تک اس کی تعداد سات جلدوں کو پہنچ چکی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ مسائل کی کتاب نہیں ؛ بلکہ فتاوی کی ہے، کیونکہ اساتذہ اور طلباء میں سے کسی کو جب کسی مسئلہ سے سابقہ پڑتا ہے خواہ وہ جامعہ سے متعلق ہو یا بیرون جامعہ سے، بہر حال دار الافتاء کو اس کی جانب متوجہ کر دیا جاتا ہے اور وہ احکام شرعیہ کی تخریج وتطبیق کا کام انجام دیتا ہے جو عوام وخواص کے لئے یکساں مفید ہے۔
ابواب ومسائل کی تعداد: مذکورہ کتاب میں چونکہ ان مسائل پر بحث کی گئی ہے جو سال بھر پیش آتے رہتے ہیں ، اس لئے اس کی ہر جلد ایک فتاوی کی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے،جلد اول میں 33 ابواب کے تحت 203 مسائل پیش کئے گئے ہیں ، جلد ثانی میں 33 ابواب کے تحت 226 مسائل، جلد سوم میں 24 ابواب کے تحت 235 مسائل، جلد چہارم میں 30 ابواب کے تحت 231 مسائل، جلد پنجم میں 36 ابواب کے تحت 225 مسائل، جلد ششم میں 31 ابواب کے تحت 224 مسائل اور جلد ہفتم میں 37 ابواب کے تحت 230 مسائل مرتب کئے گئے ہیں ۔
تعارف مرتب: مولانا جعفر ملی صاحب صدر مفتی جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر وسیع المطالعہ اور کثیر التصانیف عالم دین ہیں، فقہ وفتاوی سے خاص شغف ہے، اپنے حلقہ اثر میں صائب الرائے مانے جاتے ہیں ، جدید موضوعات پر ان کے کئی مقالے اور کتابیں ہیں، تکمیل افتاء آپ نے امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار سے کی، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی خاص شفقت میں رہ کر فقہ وفتاوی میں خاص بصیرت حاصل کی، عمر کی 47 بہاریں دیکھ چکے ہیں، جامعہ معہد ملت مالیگائوں کے فاضل ہیں اور 1990 سے تا حال جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا میں تدریس اور شعبہ افتاء سے وابستہ ہیں ۔
خصوصیات: المسائل المہمۃ کے اس مجموعہ کی تیاری چونکہ مفتی جعفر صاحب ملی مد ظلہ العالی نے اپنی نگرانی میں طلبائے افتاء سے کرایا ہے، اس لئے وہ کئی خصوصیات کا حامل ہے، (1) دلائل کا التزام (2) جدید مسائل کو پوری سلیقہ مندی اور تحقیق وتدقیق کے ساتھ حل کرنا (3) باطل نظریات کی تردید (4) اختصار وجامعیت (5) اسلوب میں قانون شریعت کی پاسداری اور دعوت وحکمت کے پہلو کو نمایاں کرنا، ذیل میں انہیں خصوصیات کو مثالوں سے واضح کیا جاتا ہے:
دلائل کا التزام: المسائل المہمۃ کے ساتوں جلدوں میں مسئلہ سے متعلق فقہی عبارات کے ساتھ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کے بھی ذکر کیا گیا ہے، مثلا قسط پر اشیاء خریدنے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں : آج کل یہ اسکیم نکلی ہے کہ کوئی چیز مثلاً گاڑی، کولر، فریج وغیرہ نقد لینے کی صورت میں 5 ہزار اور قسط وار لینے کی صورت میں 6 ہزار روپئے میں ملتی ہے تو نقد اور ادھار میں یہ فرق شرعاً منع نہیں ہے، لیکن وقت متعین پر قسط نہ ادا کرنے کی صورت میں قیمت میں مزید اضافہ کیا جاتا ہے، یا وصول کردہ رقم سوخت ہو جاتی ہے اور خریدی ہوئی چیز بھی ضبط کر لی جاتی ہے، تو اس طرح کا معاملہ سود ہے اور جوا کو شامل ہے اور یہ دونوں نص قطعی سے حرام وممنوع ہے، لا تاکلوا الربا اضعافاً مضاعفۃ۔ (آل عمران: 130) حضرت جابرؓ کی ایک روایت ہے: ’’لعن رسول اللہ ﷺ اکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال ھم سواء‘‘۔ (مسلم شریف: 27/1) علامہ ابن عابدین شامیؒ متوفی 1252ھ تحریر فرماتے ہیں :’’لان القمار من القمر الذی یزداد تارۃ وینقص اخری وسمی القمار قمارا لان کل واحد من المقامرین ممن یجوز ان یذھب مالہ الی صاحبہ ویجوز ان یستفید ماہ صاحبہ وھو حرام بالنص‘‘۔ (شامی: 577/9 بحوالہ المسائل المہمۃ: 117/1)
نیز جس تقریب میں منکرات بھی ہوں اس میں اہل علم اور مقتدا حضرات کی شرکت کے متعلق ایک استفتاء کے جواب میں لکھتے ہیں : جس شادی میں سہرا باندھنا، آتش بازی، فوٹو گرافی اور دیگر رسومات وخرافات ہوں تو ایسی شادی میں شرکت کرنا، خاص کر ان حضرات علماء کے لئے جو مقتدا ہوں اور پہلے سے اس کا علم بھی ہو تو درست نہیں ہے اور اگر پہلے سے اس کا علم نہیں تھا اور حاضر ہو گیا تو ان خرافات سے روک دیں اور اگر روکنے کی قدرت نہیں تو واپس چلے آئیں اور شرکت نہ کریں ۔’’ فلا تقعد بعد الزکری مع القوم الظالمین‘‘۔ (الانعام: 680) حضرت عبد اللہ سے روایت ہے: ’’انھا ستکون ھنات وھنات فیحسب امری اذا رأی منکرا لا یستطیع لہ تغییراً یعلم اللہ من قلبہ انہ لہ کارہ‘‘۔ (مصنف بن شیبہ: 504/7) علامہ حصکفی علیہ الرحمہ متوفی 1088ھ تحریر فرماتے ہیں : ’’دعی الی ولیمۃ وثمۃ لعب او غناء ۔۔۔۔۔ فلو علی المائدۃ لا ینبغی ان یقعد بل یخرج معرضا‘‘۔ (الدر مع الشامی: 501/9، بحوالہ المسائل المہمۃ: 116/4)
اسی طرح ویزا حاصل کرنے میں جو بعض مرتبہ دھوکا دیا جاتا ہے، اس کے متعلق ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : بعض حضرات ویزا اور پاسپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں ، بعض مرتبہ وہ کسی خاص شخص کے ویزے یا پاسپورٹ پر دوسرے کا فوٹو چسپاں کر کے اسے بیرون ملک بھیجتے ہیں ، اور اس سے خطیر رقم وصول کرتے ہیں ، ان کا یہ عمل شرعاً جھوٹ اور دھوکا دہی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے اور انہیں اس سے بچنا ضروری ہے۔ ’’یا ایھا الذین آمنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل ۔۔۔ الخ‘‘۔ (النساء: 29) حضرت عبد اللہ کی ایک روایت ہے: ’’ان الصدق یھدی الی البر وان البر یھدی الی الجنۃ وان الکذب یھدی الی الفجور ۔۔۔ الخ‘‘۔ (مسلم شریف: 325/2) ’’اتفق الفقھاء علی ان الغش حرام سواء کان بالقول ام بالفعل ۔۔۔ الخ‘‘۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ: 219/31، بحوالہ المسائل المہمۃ: 196/4)
جدید مسائل کا حل: مذکورہ کتاب میں جدید مسائل کی خاصی تعداد ہے، اس کے ایک دو نمونے آپ بھی ملاحظہ فرمائیے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آئے دن سائیبر کیفے کھولنے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے، اس کی کمائی حلال ہے یا حرام؟ اس کا حکم اس طرح بیان کیا گیا ہے: آج کل انٹرنیٹ کا استعمال عام ہو چکا ہے اور لوگ اسی عموم سے فائدہ اٹھا کر جگہ جگہ سائبر کیفے کھول رہے ہیں ۔ سائیبر کیفے میں متعدد کمپیوٹر ہوتے ہیں ، جن میں نیٹ کنکشن موجود ہوتا ہے، لوگ یہاں آکر وقت محدود تک متعین اجرت کے عوض ان کی خدمات کرایہ پر حاصل کرتے ہیں ، کچھ لوگ اس وقتِ محدود میں نیٹ کا استعمال نا جائز کاموں کے لئے بھی کرتے ہیں ، مثلاً: گانا سننے کے لئے یا فلم دیکھنے کے لئے یا ایسے اخبار پڑھنے کے لئے جو ان کے عقائد وایمان اور تہذیب واخلاق کے لئے سخت مضر ہیں ، ان کے ساتھ اجارہ کا یہ معاملہ تعاون علی الاثم ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے اور اس معاملے سے حاصل کردہ آمدنی بھی خبیث وناپاک ہے ۔۔۔ البتہ بعض لوگ نیٹ کا استعمال جائز کاموں کے لئے بھی کرتے ہیں ۔۔۔ تو اس طرح کے لوگوں سے اجارہ کا یہ معاملہ شرعاً جائز درست ہے اور اس سے حاصل کردہ آمدنی بھی حلال ہے۔
پھر قرآنی آیات واحادیث نبویہ اور فقہی عبارات سے اپنے موقف کو مدلل کیا ہے۔ (المسائل المہمۃ: 236/3)
اسی طرح اسٹار ٹی وی کا کنکشن دینے اور اسے ذریعہ معاش بنانے کے تعلق سے لکھتے ہیں : آج کل اسٹار ٹی وی کا چلن عام ہو چکا ہے بعض لوگ اسٹار کنکشن کا نزنس کر رہے ہیں اور پندرہ بیس ہزار روپئے ماہانہ کما رہے ہیں ۔ اسی طرح بعض لوگ کلر ٹی وی، وی سی آر اور فلمی کیسیٹس کرایہ پر دے کر اچھی خاصی کمائی کر رہے ہیں ، جبکہ یہ دونوں کاروبار اور ان کی آمدنی شرعاً جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ لوگوں کو برائی کی طرف دعوت دینے اور بے شرمی کی تبلیغ واشاعت کرنے کے مترادف ہے، جو سخت گناہ ہے۔ شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کو حلال اور غیر مشتبہ ذریعہ آمدنی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، اس لئے اس سے پرہیز ضروری ہے۔ (المسائل المہمۃ: 632/6)
باطل نظریات کی تردید: مذکورہ کتاب میں باطل نظریات کی بھی بڑی حکمت کے ساتھ تردید کی گئی ہے، مثلاً: غیر اللہ کے لئے نذر ماننا کیسا ہے؟ اس کا حکم بیان کرتے ہوئے یوں تحریر کیا ہے: غیر اللہ کے لئے نذر ماننا بالاجماع باطل وحرام ہے اور اس نذر کے مال کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کا مالک معلوم ہے تو یہ مال اسے لوٹا دیا جائے ورنہ مصالح مسلمین اور فقراء پر صرف کیا جائے۔ (المسائل المہمۃ: 145/4)
اسی طرح بعض علاقوں میں بیوہ عورتیں چوڑیاں توڑتی ہیں ان کا یہ عمل کیسا ہے؟ اس کا حکم یوں بیان کیا ہے: بعض علاقوں میں یہ رسم ہے کہ جب کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہو جاتا ہے تو عورتیں اس کے ہاتھوں کی چوڑیاں توڑ دیتی ہیں ، اگر یہ چوڑیاں توڑنا کسی غلط عقیدے کی بنیاد پر ہے تو یہ ممنوع ہے۔ (المسائل المہمۃ: 57/5)
بعض توہمات جو غیروں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مسلم معاشرہ میں در آئی ہیں ان کی بھی تردید کی گئی ہے، مثلاً ایک جگہ تحریر ہے: برادرانِ وطن اور مشرکانہ ماحول سے متاثر ہونے کی وجہ آج کل بہت سے مسلم گھرانوں میں بھی توہمات نے جڑ پکڑ رکھی ہے کہ کھڑے ہو کر کنگھی کی جائے تو تہمت لگے گی، چھپکلی گھر میں آئے تو ایمان کمزور ہوگا، دودھ ابل جائے تو نقصان ہوگا۔۔۔ جامن کا درخت گھر میں ہو تو غربت آئے گی وغیرہ وغیرہ شرعاً ان کی کوئی اصل نہیں ، کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور عقیدہ ہمارا یہ ہے کہ نافع اور ضار صرف اللہ کی ذات ہے۔(المسائل المہمۃ: 30/5)
اختصار وجامعیت: بے جا تفصیل وتطویل فتاوی نویسی میں ایک عیب شمار کیا جاتا ہے۔ کامیاب مفتی وہی ہے جو مسائل کا جواب مختصر اور جامع عبارت میں دے دے، یہی وجہ ہے کہ مذکورہ مجموعہ میں بڑے بڑے مسئلہ کو آسان، سہل اور جامع عبارت میں حل کیا گیا ہے، مثلاً نماز جنازہ کے بعد میت کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا کیسا ہے؟ اس کا جواب یوں دیا گیا ہے: فقہ کی کتابوں میں اس کو منع کیا گیا ہے، کیونکہ نماز جنازہ خود دعا ہے۔ (المسائل المہمۃ: 115/3)
بعض لوگ دعا کے لئے سجدہ کا التزام کرتے ہیں ، اس کا حکم اس طرح بیان کیا گیا ہے: اس کا التزام بدعت ہے اور نماز کے بعد متصلا چونکہ سجدہ تلاوت بھی مکروہ تحریمی ہے، اس لئے نماز کے بعد متصلا سجدہ میں جا کر دعا مانگنا مکروہ ہوگا۔ (المسائل المہمۃ: 130/5)
شادی سے پہلے منگیتر کو چھپ کر دیکھنا جائز تو ہے مگر بعض لوگوں نے اس امر جائز سے نا جائز فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔۔۔ بعض لوگ تو لڑکا اور لڑکی کو کسی جگہ ساتھ رہنے اور زندگی کا کچھ حصہ مل کر گذارنے کے لئے تجربہ کے طور پر بھیج دیتے ہیں ، شرعا یہ ناجائز وحرام ہے کیونکہ نکاح سے پہلے دونوں اجنبی ہیں ۔ (المسائل المہمۃ: 112/4)
خلاصہ: المسائل المہمۃ کی اب تک شائع شدہ 7 جلدیں ہیں جس میں کل 224 ابواب اور 1574 مسائل ہیں ، جس میں پیش آمدہ مسائل کا حل قرآن وحدیث کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے، جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک کامل ومکمل مذہب ہے، جس میں رہتی دنیا تک کے لئے آنے والے سارے مسائل کا حل موجود ہے، کوئی ایسا مسئلہ نہ اب تک پیش آیا ہے نہ مستقبل میں انشاء اللہ پیش آئے گا کہ دائرہ شرعی میں رہتے ہوئے اس کا حل کرنا ممکن نہ ہو۔ قدرتی طور پر اللہ تعالی نے اس دین میں ایسی لچک رکھی ہے کہ ہر دور کے پیدا شدہ مسائل کا حل اس میں موجود ہے، البتہ اس کے لئے غواصی کرنے والے چاہیں جو اپنی اخاذ طبیعت سے موتی نکال سکے۔ وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ اجمعین
تبصرے بند ہیں۔