ڈاکٹر سلیم خان
ایم جے اکبر میڈیا کے آدمی ہیں۔ دوسال سے وزیر بنے ہوئے ہیں لیکن خبروں میں ابھی آئے ہیں۔ مثل مشہور ہے ’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟‘‘۔ بی جے پی کو پہلے تو انہیں لوک سبھا انتخاب لڑانے کا خیال نہیں آیا ہوگا مگر اب وہ لوگ ان خطوط پر ضرور سوچ رہے ہوں گے۔ فرض کیجیے ایم جے اکبر کی جگہ کوئی پرتھوی راج چوہان کانگریس سرکار میں وزیر مملکت برائے داخلہ ہوتا، اس نے کسی روپا رمانی کے بجائے رضیہ سلطانہ کے ساتھ زیادتی کی ہوتی اور رضیہ کے بعد پانچ مسلم خواتین صحافیوں نےرضیہ کی تائید کی ہوتی تو حزب اختلاف کی سشما سوراج اور روی شنکر پرشاد کیا کرتے؟ وہی جو آج کل کانگریس کے ترجمان کررہے ہیں۔ امبیکا سونی کی مانند سشما سوراج اکبر کا استعفیٰ مانگ رہی ہوتیں اور جے پال ریڈی کی طرح روی شنکر پرشاد نے آسمان سر پر اٹھارکھاہوتا لیکن فی الحال آکاش چپ ہے اور بی جے پی بھی خاموش ہے۔ ایسے میں ان کی حالتِ زار پر یہ شعر یاد آتا ہے؎
خامشی بزدل نہ کرڈالے تمہیں، جب ضرورت ہو زباں کھولا کرو
جی حضوری اور غلامی چھوڑ کر، قوم کے حق میں بھی کچھ بولا کرو
ہندو خواتین کے تحفظ میں برسرِ جنگ ہندو واہنی کے سربراہ یوگی ادیتیہ ناتھ کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ لو جہاد کے مجاہد اپنے بلوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ اینٹی رومیو بریگیڈ کے سارے رنگروٹ ہندو لڑکیوں کو ڈرانے دھمکانے میں مصروف ہیں لیکن کو ئی ایم جے اکبر کی جانب آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا کیونکہ وہ اپنا آدمی ہے۔ اس کا مسلمان ہونا ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندو خواتین کے ساتھ اس کی زیادتی بھی کسی اہمیت کی حامل نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی سرکار کا وزیر ہے۔ ایم جے اکبر فی الحال نائیجیریا کے دورے پر ہیں۔ یکے بعد دیگرے ان کے خلاف انکشافات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک بے نامی شکایت سے شروع ہونے والا سلسلہ نصف درجن تک پہنچ چکا ہے اور بعید نہیں کہ درجنوں دکھیاری ابلہ ناریاں روتے دھوتے سامنے آئیں لیکن اس بات کا امکان کم ہے کہ ہندوتوا کے یہ ترشول دھاری رکشک ان کے آنسو پوچھیں۔ اکبر کے خلاف اٹھنے والی آوازیں اس کی شعر(ترمیم شدہ) کی مانند ہیں ؎
خامشی توڑ کے سر لے لی ہے کیسی وحشت
ایسا لگتا ہے کہ اکبر کو پکارے جائیں
ایم جے اکبر کی حرکات ہندوتوا یا سنگھ کے سنسکار نہیں ہیں۔ جس شخص پر اسلام کی تربیت اثر انداز نہ ہوسکی وہ بھلا دیگر ادیان کے اثرات کیونکر قبول کر سکتا ہے۔ ایم جے اکبر نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ اس کے دادا کا نام پریاگ تھا جو کولکاتہ کے شمال میں واقع چندن نگر میں رہتے تھے۔ پریاگ کے والدین فسادات کے دوران ہلاک کردیئے گئے اس لیے ان کی پرورش ایک مسلم خاندان میں ہوئی۔ آگے چل پریاگ نے اسلام قبول کیا اور رحمت اللہ بن گئے۔ ایم جے اکبر نے کولکاتہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹائمز آف انڈیا میں اپنے ساتھ زیر ملازمت ملیکا جوزف سے شادی کی اور اپنے بیٹے پریاگ کو دادا کے نام سے منسوب کردیا۔ ان کی بیٹی ماکولیکا ممکن ہے اپنی نانی کے نام سے منسوب ہو۔ ان تفصیلات سے اندازہ لگایا جاتا ہے ایم جے اکبر اپنے آبا و اجداد کی طرح دین و ایمان کی قدر دانی نہیں کرسکے اور بے دینی کا شکار ہوگئے۔ ایسے لوگ اس خوش فہمی میں عمر گنوادیتے ہیں کہ ؎
یہی ! جو اب مجھے ” کافر” قرار دیتے ہیں
نہیں رہوں گا تو درویش بھی کہیں گے مجھے
ایم جے اکبر کی غیر معمولی صحافیانہ صلاحیت کا اعتراف ان کی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین بھی کرتی ہیں لیکن ان کے اخلاق و کردار کو سنوارنے کے لیے وہ ذکاوت وذہانت کافی نہیں تھی۔ صحافت میں اپنے قلم کا لوہا منوانے کے بعد انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور کشن گنج بہار سے ۱۹۸۹ میں کانگریس کے ٹکٹ پر انتخاب جیتا۔ راجیوگاندھی کی موت کے بعد سونیا گاندھی سے ان کی نہیں بنی اور وہ بی جے پی کے علاوہ سونیا کے شدید مخالف ہو گئے۔ ۲۰۱۴ کے اندر انہوں نے مودی جی کی غلامی کا قلاوہ اپنے گلے میں ڈال لیا تو پارٹی نے ان کو اپنا قومی ترجمان نامزد کردیا۔ بی جے پی نے ان کارکردگی سے خوش ہوکر انہیں ۲۰۱۵ جھارکھنڈ سے ایوان بالا کا رکن بنوا دیا اور ۲۰۱۶ کے اندر وزیرمملکت برائے خارجہ امور کا حلف دلا دیا۔ اس طرح ایم جے اکبر مودی سرکار میں ایک نہایت اہم عہدے پر فائز ہوگئے۔ ایم جے اکبر نے فسطائیت کو شیشے میں اتارنے کا یا ان کی بوتل میں براجمان ہونے کا کارنامہ کیسے انجام دیا اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو یہ شعر دیکھیں ؎
دیوانہ بن کے رام کیا ہم نے یار کو
آخر فریبِ عشق تھا، کافر پہ چل گیا
امت کے اندر بہت سارے لوگوں کو اس بات کا دکھ ہے کہ مسلمانوں کے پاس باصلاحیت صحافی اور ان کا میڈیا نہیں ہے۔ ایم جے اکبر اس دعویٰ کو غلط ثابت کرتے ہیں۔ ان کا شمار ہندوستان کے بہترین صحافیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ایشین ایج نامی اخبار شروع کیا جو بیک وقت دہلی اور لندن سے شائع ہوتا تھا۔ دکن ہیرالڈ کے بھی وہ شراکت دار تھے۔ ہگت روزہ سنڈے گارجین کے ہنوز مالک ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں ایوان سیاست میں مسلمانوں کی کمی غم ستاتا رہتا ہے۔ ان کو یہ غلط فہمی ہے کہ اگر زیادہ سے زیادہ مسلمان ایوان پارلیمان میں موجود ہوں گے اور انہیں وزارتوں سے نوازہ جائے گا تو مسلمانوں کو سیاسی تقویت حاصل ہوجائے گی۔ اس لیے وہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کی نمائندگی بڑھانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ایم جے اکبر کے عروج و زوال سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ بی جے پی تو خیر اکبر کےکالے کرتوت کا دفاع کررہی ہے مگر حقیقت یہی ہے ؎
تیرگی میں کارنامے جن کے روشن ہیں بہت
روشنی میں ان سے بڑھ کے پارسا کوئی نہیں
ایم جے اکبر نے نہایت نامساعد حالات کے اندر سیاست میں اپنی جگہ بنائی لیکن کیا اس سے مسلمانوں یا اسلام کا کوئی فائدہ ہوا؟ وہ تو خیر ایم جے اکبر بی جے پی کے وزیر ہیں اگر خدا نخواستہ ان کا تعلق کانگریس سے ہوتا تو اندازہ کیجیے کہ اس راز کے افشاء ہوجانے سے کس طرح مسلمانوں کو اور دین اسلام کو بدنام کیا جاتا؟ اس لیے صرف مسلمانوں کا ایوان سیاست پر فائز ہوجانا اہم نہیں ہے بلکہ ان کا باکردار ہونا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ باکردار و بااخلاق سیاستدانوں کے ساتھ ایک ایسا سیاسی نظام بھی درکار ہے جو ان اوصاف کو پروان چڑھائے ورنہ اس سیکولر جمہوری نظامِ سیاست نے ایم جے اکبر جیسے بے دین دانشور تو کجا سنگھ کے سنسکاری یوگی جی اور مودی جی کوبھی سر سے پیر تک بے راہ روی اور بدعنوانی کا شکار کردیا ہے۔ انتخابات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں بی جے پی کبھی رافیل تو کبھی اکبر جیسے نت نئے تنازعات کا شکار ہوتی جارہی اس کی حالت زارپر یہ شعر سادق آتا ہے؎
گھر ٹپکتاہے اور اس پہ گھر میں "وہ” مہمان ہیں
پانی پانی ہو رہی ہے آبرو برسات میں
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔