مولانا سید آصف ملی ندوی
ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، ملت اسلامیہ کا ہر فرد اور خصوصاً ارباب قلب و نظر مسلمان سراپا شوق و انتظار بنے ہوئے ہیں کہ کب چاند نظر آئے اور وہ رمضان المبارک کی پر نور ساعتوں میں اپنے رب کے ساتھ سرگوشیوں ، راز ونیاز اور اس سے ملاقاتوں کا لطف اٹھاسکیں ، جبکہ بعض افراد ہمارے مسلم معاشرے میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی نظر میں رمضان و غیر رمضان دونوں یکساں ہوتے ہیں ، نہ رمضان کی آمد پر خوشی ومسرت کا اظہار اور نہ اس کی مبارک ساعتوں میں پوشیدہ خالقِ کائنات کی بے شمار رحمتوں اور انوار و برکات کو اپنے دامانِ خانہ خراب میں سمیٹنے کا عزم و حوصلہ، نہ تجدیدِ اطاعت نہ ذوقِ عبادت، نہ روزوں کا اہتمام نہ تراویح کا قیام، لیکن افطاری کے دسترخوان پر مکمل معصومیت اور کامل پارسائی کا مکھوٹہ پہنے دو زانوں ہوکر اور پورے آداب کی رعایت کے ساتھ اپنا حصہ وصول کرنے بیٹھ جاتے ہیں ، ایسے رمضانی بھائیوں کے سینوں میں رمضان کے اختتام اور اس کی روانگی پرنہ رنج و حسرت کی کسک اٹھتی ہے اور نہ کوئی درد جگر میں ہوتا ہے ۔
رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جو رب کائنات کی طرف سے ہم جیسے ہوا و حرص اور عصیاں کے دلدل میں پھنسے حرماں نصیبوں کے لئے رحمتوں و مغفرتوں کی نویدِ جاں فزا اور دیگر ڈھیر ساری برکات و انعامات کی سوغاتِ روح افزا لے کر آتا ہے، یہ مہینہ ایک ایسی فصلِ بہار ہے جس میں خالق کائنات کی خاص عنایات اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہیں ، یہ وہ ماہِ مقدس ہے جس میں اللہ رب العزت کا کلام معجز بیان قرآن کریم نازل ہوا ، اللہ تعالی فرماتے ہیں (شَہَرُ رَمَضَاَنَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرآنُ ہُدَیً لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنَاتٍ مِنَ الْہُدَیٰ وَالْفُرْقَانِ۔البقرۃ 185۔ ترجمہ : ــماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ہے ، وہ لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں (کھلے ہوئے)دلائل ہیں ہدایت اور (حق و باطل میں ) امتیاز کے )۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں نفلی عبادتوں کا ثواب فرض کے برابر کردیا جاتا ہے اور فرض کا ثواب دیگر ایام کے ستر فرضوں کے برابر کردیا جاتا ہے ، ایسے بے شمار بدنصیبوں کو پروانۂ مغفرت عطا کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی نادانی سے اپنے آپ کو دوزخ کا مستحق بنالیا ہیں ، یہ وہ ماہ مقدس ہے جس میں جنت کو آراستہ و پیراستہ کرکے اس کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازں کو بند کردیا جاتا ہے ، شیاطین مردود کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے۔ یہ وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں خالق کائنات روزہ دار بندے کو دو فرحتیں عطا فرماتا ہے ایک افطار کے وقت اور دوسری فرحت اپنے خالق و مالک کے حضور میں حاضر ہوتے وقت عطا کی جائیگی ۔ یہ وہ مقدس مہینہ ہے جس میں رکھا گیا روزہ روزہ دار کیلئے جہنم کے عذاب سے ڈھال بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر اس کی آمد سے پیشتر ہی پورے عالم اسلام میں خوشیوں اور مسرتوں کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے ، پوری ملت اسلامیہ سراپا انتظار بن کر اس کے استقبال کی تیاریوں میں لگ جاتی ہے ، بلکہ جگہ جگہ اس کے استقبال کی مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں ۔ ہلالِ رمضان اگر آسانی سے نظر آجائے تو مرحبا صد مرحبا ، اور اگر وہ ادائیں دکھانے لگ جائے یا آنکھ مچولی کھیلنے لگ جائے تو پوری قوم دوربینیں لئے اس کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتی ہے ۔ کاش اس مرتبہ کچھ ایسا ہو کہ آمد رمضان کی یہ ساری خوشیاں ، امنگیں ، جذبات، اور اس کے استقبال کی تمام تر مجلسیں ہمیشہ کی طرح صرف ظاہری نہ ہو ، بلکہ ہم مسلمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے جاں نثار صحابہ کرام اور اپنے اسلاف کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے رمضان المبارک کا معنوی و روحانی استقبال کرنے والے بن جائیں تاکہ اس کے ذریعے ہم اپنے روحانی ارتقاء کا کچھ سامان حاصل کرسکے اور رمضان المبارک اور اس کی عبادتوں کی اصل غرض تقوی و خشیت الہی سے اپنے دلوں کو معمور کرسکیں ۔
ظاہر سی بات ہے کہ ہم رمضان المبارک کا استقبال و اہتمام نبی آخر الزماں ﷺ اور صحابہ کرام و اسلاف عظام کے طریقوں پر اسی وقت کرسکتے ہیں جب ہم رمضان سے متعلق ان کے اہتمام اور معمولات سے واقف ہو کہ وہ کس قدر ذوق و شوق سے اس ما ہ مبارک کا استقبال کیا کرتے تھے ، وہ کس طرح روزے رکھا کرتے تھے اور کس طرح راتوں کا قیام کیا کرتے تھے، اس ماہ مبارک میں ان کے دلوں کی کیفیت کیا ہوا کرتی تھی۔ جب ہم گردن پلٹا کر اس عہد زریں پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ خود رسالت مآب ﷺ ہلال رجب کی نمود ہی سے رمضان کے لئے سراپا شوق و انتظار بن جایا کرتے تھے اور حصول رمضان کی خاطر اپنے رب سے حیات مستعار کی دعائیں مانگا کرتے تھے جو کچھ اس اسطرح ہے (اللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ۔ ترجمہ ؛ ائے اللہ ہمیں رجب و شعبان میں برکت عطا فرمادیجئے اور ہمیں رمضان تک پہنچادیجئے ) اور آپ ﷺ رمضان کے سرور و کیف سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کی خاطر تقریباً شعبان کا پورا مہینہ روزوں کا اہتمام فرمایا کرتے تھے، لیکن قربان جائیے آپ کی ذات اقدس پر کہ آپ اپنی امت کیلئے اس قدر شفیق اور رؤف و رحیم تھے کہ اس پر مشقت کے خیال سے نصف شعبان کے بعد معمول کے روزوں کے علاوہ نفلی روزوں سے منع فرمادیا کہ مبادا ان روزوں سے وہ ضعف و نقاہت کا شکار ہوجائیں اور رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں سے کما حقہ مستفید نہ ہوں سکیں ۔ اورصحابہ کرام و اسلاف عظام میں بعض برگزیدہ بندے ایسے تھے جو رمضان کے اشتیاق میں اس کی آمد کے چھ ماہ قبل ہی سے یہ دعا کرنے لگ جاتے تھے کہ مولائے کریم ہمیں رمضان المبارک کے بابرکت ایام اور پرنور ساعتیں نصیب فرما ، اور رمضان رخصت ہوجانے کے بعد چھ ماہ تک رمضان المبارک میں کئے گئے اعمال کی قبولیت کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ اور جب شعبان کے آخری ایام ہوتے تو صحابہ کرام رمضان کی آمد کیلئے اس قدر پرجوش اور ذوق وشوق سے معمور ہوتے کہ وہ چاند دیکھنے کیلئے کھلے میدانوں اور پہاڑوں کی طرف نکل پڑتے اور جب چاند نظر آجاتا تو خوشی و مسرت کے جذبات سے لبریز ہو کر یہ دعا پڑھا کرتے تھے اَللّٰہُمَّ اَہِلَّہُ عَلَیْنَا بِالْأمْنِ وَالإیْمَانِ وَالسَّلامَۃِ والإسْلامِ ، رَبِّی وَ رَبُّکَ اللّٰہ ، ہِلالُ خَیْرٍ وَ رُشْدٍ۔ خدایا اس چاند کو ہمارے لئے امن و امان اور سلامتی و اسلام کی حالت میں طلوع فرما، ائے چاند میرا اور تیرا رب اللہ ہے ، (خدایا) یہ چاند خیر و بھلائی ہی کا ہو۔
یہ صحابہ کرام اور اسلاف عظام کا رمضان المبارک کی آمد سے قبل ان کے اہتمام اور ذوق و شوق کامختصر ساتذکرہ تھا جس سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کے جو مقدس ہستیاں اس ماہ مقدس کی آمد سے قبل ہی اس قدر پرجوش اور سراپا شوق وانتظار بن جایا کرتے ہوں رمضان المبارک کو پالینے کے بعد ان کے جذب وشوق اور سوزِ دروں کا کیا عالم رہتا ہوگا ، یہ وہ مقدس ترین ہستیاں تھیں کہ انہیں سخت ترین گرمی اور شدید حرارت کے دنوں میں آنے والے لمبے لمبے روزے زیادہ محبوب ہوا کرتے تھے کیونکہ انہوں نے رسالت مآب ﷺ سے یہ سن رکھا تھا کہ اَلصَّیَامُ جُنَّۃٌ وَ حِصْنٌ حَصِیْنٌ مِنَ النَّار روزے ڈھال ہیں اور جہنم کے عذاب سے بچاؤ کے لئے مضبوط ترین قلعے ہیں ۔ انہیں سخت گرمی اور شدید حرارت کے لمبے لمبے روزے کس قدر عزیز تھے اور وہ ان کی کیسی خواہش کیا کرتے تھے اس کا اندازہ ہم حضرت عامر بن قیس ؓ کے اس واقعے سے لگا سکتے ہیں کہ جب وہ حضرت سیدنا امیر معاویہ ؓ کے دور خلافت میں بصرے سے شام تشریف لائے تو سیدناامیر معاویہ ؓ نے ان سے فرمایا کہ میری یہ خواہش ہے کہ میں آپ کی کچھ خدمت کروں ، لہذا آپ کی کوئی خواہش یا حاجت ہو تو بتائیں ، یہ بات سیدنا معاویہؓ نے متعدد بار کہی لیکن حضرت عامر بن قیسؓ ہر مرتبہ یہی کہتے رہے کہ میری کوئی خواہش یا حاجت نہیں ہے، تاہم جب اصرار بہت زیادہ ہوتا رہا تو فرمایا کہ میری یہ خواہش ہے کہ اگر ممکن ہو تو آپ مجھے بصرہ کی گرمی اور اس کی تپش لوٹادو، شاید اس سے مجھے سخت روزہ مل جائے ، تمہارے شہر میں تو روزہ بہت ہی ہلکا ہے ۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنے مرض الوفاۃ میں اس بات کی خواہش اور حسرت کا اظہارکیا اور فرمایا: افسوس ! (اس موت کی وجہ سے) سخت گرمیوں کے روزوں میں لگنے والی پیاس ختم ہوجائے گی ۔ اور آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم پنکھوں ،Air Conditioner اور Cooler کی سہولیات ہوتے ہوئے بھی روزوں کے گرمیوں میں آنے ہی کے تصور سے نڈھال ہوئے جارہے ہیں جبکہ صحابہ کرام گرمیوں کے سخت روزوں کی خواہش کیا کرتے تھے ۔
اس ماہ مبارک کو کتاب مقدس قرآن مجید سے بہت ہی گہرا تعلق اور خاص ربط ہے کہ اسی مبارک مہینے میں خالق کائنات نے قرآن کریم کو نازل فرمایا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اور اسلاف عظام کے باریمیں یہ منقول ہے کہ ان کا اس مہینے میں قرآن سے شغف بے انتہا بڑھ جایا کرتا تھا، وہ اس مہینے میں ہمہ وقت تلاوت کے ذریعے اپنے سینوں کو نورقرآن سے منور فرمایا کرتے تھے اور اپنے دلوں کو ایمان کی تازگی سے معمور فرمایا کرتے تھے، اکثر صحابہ کرام تین دن میں قرآن کریم کو ختم فرمالیا کرتے تھے اور بعض سات دنوں میں مکمل کیا کرتے تھے۔ حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ کے متعلق یہ بات منقول ہے کہ جب ماہ مبارک رمضان کا آغاز ہوتا تو آپ فتویٰ دینا بالکل بند فرمادیتے اور ہمہ وقت ذکر الہی اور تلاوتِ قرآن مجید میں مشغول ہوجاتے ۔ اسی طرح امام دارالہجرۃ حضرت امام مالک ؒ جنہیں حدیث مبارک سے بے انتہا قلبی تعلق و شغف تھا ، آپ نے مستقل پچاس سالوں تک درس حدیث دیا ہے جس میں مدینہ و بیرون مدینہ سے ہزاروں طلباء شریک ہوا کرتے تھے تاہم ان سب کے باوجود جب رمضان المبارک کا آغاز ہوتا تو آپ درس حدیث اور دیگر تمام علمی مجالس کا سلسلہ منقطع فرمادیتے اور ہمہ وقت تلاوت قرآن کریم میں مشغول ہوجایا کرتے تھے اور یہ فرمایا کرتے تھے (ہَذَا شَہْرُ الْقُرآن لا کَلامَ فِیْہِ إلاّ مَعَ الْقُرآن) یہ قرآن کا مہینہ ہے اور اس میں قرآن کے علاوہ کوئی اور گفت وشنید نہیں ہوگی ۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندہلوی ؒ نے اپنی کتاب ’’ اکابر کا رمضان‘‘ میں حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری قدس اللہ سرہ کے متعلق یہ بات تحریر فرمائی ہے کہ حضرت کو تلاوت کلام اللہ سے عشق تھا، آپ حافظ قرآن تھے اور شب کا قریب قریب سارا وقت تلاوت میں صرف ہوتا تھا۔ رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں شاید آپ گھنٹہ بھر سے زیادہ نہ سوتے ہوں ۔ اور مکاتبت بھی پورے مہینے بند رہتی تھی کہ کوئی خط کسی کا بھی (إلا ماشاء اللہ) عید سے قبل دیکھا یا سنا نہ جاتا تھا۔
رسالت مآب ﷺ کو خالق کائنات نے جود و سخا کا ایک بہتا دریا بنایا تھا جو پوری جولانی کے ساتھ مستقل بہتا ہی رہتا تھا تاہم جب یہ ماہ مقدس شروع ہوتا تو رسالت مآب ﷺ جود وسخا کا ایک بحر ذخّار بن جایا کرتے تھے اور اس مہینے میں عام دنوں سے کہیں زیادہ صدقہ وخیرات فرمایا کرتے تھے ۔حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسالت مآب ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے لیکن رمضان کے مبارک مہینہ میں جب جبرائیل آپ کے پاس تشریف لاتے اور آپ کے سامنے قرآن کریم کو دہراتے تو آپ ان دنوں تیز آندھی سے بھی زیادہ سخاوت فرمایا کرتے تھے۔ جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ روزوں کے متعدد مقاصد میں سے یہ بھی ایک اہم مقصد ہے کہ ہمیں محتاجوں و مسکینوں کی مفلسی و درماندگی اور غریبوں و فاقہ مستوں کی غربت و بھوک کا احساس ہو۔
یہ نبی آخرالزماں ﷺ ، صحابہ کرام اور اسلاف عظام کے رمضان کی ایک مختصر سی جھلک تھی ، ہمیں چاہئے کہ ہم بھی ماہ مقدس کے ان قیمتی لمحات اور مبارک ساعتوں کو اسی طرح گذارنے کی کوشش کریں ، اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن کریم ، ذکر الہی، دعا و اذکار میں مشغول رکھا کریں ۔ رات بھر جاگتے رہنا اور دن بھر سوجانا، یا دن کے اوقات میں وقت گذاری کے لئے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا کثرت سے استعمال یا رومانی و غیر اخلاقی رسائل و جرائد اور ناولس و افسانوں کا مطالعہ کرنادراصل اپنے آپ کو رمضان المبارک کے انوارات و برکات سے محروم کرنا ہے ، خالق کائنات نے ہمیں یہ ماہ مبارک یوں ہی سوکر یا فضول و بے سود کاموں کی نذر کرنے کے لئے نہیں دیا ہے بلکہ یہ مہینہ اس لئے دیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے ہمارے پزمردہ و پراگندہ دل و دماغ کا تزکیہ ہو اور ہماری روحانیت کی آبیاری ہو اور ہم اپنے خالق و مالک سے ڈرنے والے بن جائیں ۔
خدایا آرزو کردے یہ پوری
یہی بس التجا ہے تجھ سے میری
تبصرے بند ہیں۔