بادشاہ سلامت! رحم کریں اس قوم پر۔۔۔۔
پاناما لیکس کے تہلکہ خیز انکشافات سے دنیا بھر میں ہلچل مچی ہوئی ہے اور بڑی تیزی سے عالمی سیاست کا نقشہ تبدیل ہو رہا ہے آئس لینڈ اوریوکرئن کے وزراء اعظم سیاسی و اخلاقی دباؤ کا سامنا نہ کر پائے اور اپنے منصب چھوڑنے پر مجبور ہو گئے جب کہ بر طانوی وزیراعظم کو اپنے مکمل اثاثہ جات اور ٹیکس گوشوارے منظر عام پر لانا پڑے۔ کیا وزیراعظم میاں نوازشریف استعفیٰ دے کر مستعفی شدہ عالمی راہنماوں کی فہرست میں شامل ہو ں گے یا اپنے غیر سنجیدہ اور خوشامدی وزراء کی چکنی چپٹی باتوں میں آکر سابق روایات کے عین مطابق اس وقت تک اقتدارسے چمٹے رہیں گے جب تک انہیں طاقت کے زور پر اقتدار سے الگ نہ کردیا گیا کیونکہ اس وقت اتنے اہم معاملے پر بھی وزیراطلاعات پرویز رشید انتہائی غیرذمہ دارانہ گفتگو کر رہے ہیں۔ پاناما لیکس کے ہوشربا انکشافات پر قومی راہنماوں کی طرف سے تحقیقات کے مطالبہ پر پرویزرشید اور دیگر وزراء کا ردعمل دیکھ کر ان کی غیر سنجیدگی پرماتم کرنے کو دل کرتا ہے کہ پاکستان کی قسمت میں کیا لکھا ہے ؟ کیسے کیسے ’’رنگیلوں‘‘ کو وزراء کے کلیدی عہدوں پربٹھا دیا جاتا ہے؟ جن کو ہر بات میں سازش نظر آتی ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کامعاملہ ہو یا ماڈل ٹاؤن میں دن دہاڑے ہونے والے قتلِ عام کی تحقیقات کا مطالبہ ہو ۔ انہیں صرف جمہوریت کے خلاف سازش نظرآتی ہے۔ پاناما لیکس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ ان چند وزراء کی سوئی اسی جگہ اٹکی ہوئی ہے کہ یہ سب جمہوریت کے خلاف سازش ہے مگر میرا سوال یہ ہے کہ کون سی جمہوریت؟ کیسی جمہوریت؟ وہ جمہوریت جس میں ایک میٹرریڈر چند سالوں میں اپوزیشن لیڈر تک کا سفر طے کر لے؟ وہ جمہوریت جس میں محمود اچکزئی کا پورا خاندان حکومتی عہدوں اور پرکشش مراعات سے لطف اندوز ہو رہا ہو؟ وہ جمہوریت جس میں مولانا فضل الرحمان سدا بہار چیرمین کشمیر کمیٹی کی کرسی پر مزے سے جھولتے ہیں؟ وہ جمہوریت جس میں الطاف حسین بیرونی ممالک سے مالی، ا خلاقی اور دفا عی مدد مانگ کربھی محب وطن کہلائے؟ وہ جمہوریت جس میں نیب زدہ سیاست دان وزراء اعظم، وزرا ء اعلیٰ اور وزرا ء قلیدی ریاستی عہدوں پر فائزہو جاتے ہیں؟ وہ جمہوریت جس میں کروڑوں کی کرپشن کو برا نہ سمجھا جائے؟ وہ جمہوریت جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بے روز گاری سے تنگ آ کر جرائم کی دنیا میں داخل ہو کر مجرم کہلاتے ہیں جب کہ پیسے اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر آپ کے سیاستدان بھائی جعلی ڈگری کے سہارے رکن اسمبلی بن کر مراعات کے مزے لوٹتے ہیں؟ ایسی جمہوریت جس میں ہر طرف رشوت کا بازار گرم ہو؟ قتل و غارت روزکامعمول بن چکا ہو؟ لا قانونیت کا رقص جاری ہو؟ چادراور چار دیواری کا تحفظ خواب بن گیا ہو؟ ایسی جمہوریت جس میں پانچ سو روپے چوری کرنے والا پابندسلاسل اور کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث اقتدار کے جھولے جھولنے میں مصروف ہو؟ ایسی جمہوریت جس میں میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اقرباء پروری کے فروغ پر فخر محسوس کیا جارہا ہو؟ وہ جمہوریت جس میں وطن عزیزکے شہری بنیادی سہولتوں سے محروم ہوں اور ارکان اسمبلی ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ اور مراعات کی مد میں وصول کر رہے ہوں؟ ایسی جمہوریت جس میں عوام مہنگائی، بے روزگاری اور تنگدستی کی چکی میں پس رہی ہو؟ ایسی جمہوریت جس میں عوامی نمایندے منتخب ہونے کے بعد اگلے انتخابات تک چہرہ دکھانے میں ہتک محسوس کرتے ہوں؟ ایسی جمہوریت جس میں کمیشن مافیا، قبضہ مافیا اور بھتہ مافیاکا راج ہو؟ ایسی جمہوریت جس میں سیاست دان اور حکومتی ارکان قومی وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں؟ اگر اسی کا نام جمہوریت ہے توخدا کے لیے ہمیں ایسی جمہوریت نہیں چا ہیے۔ خدا ایسی جمہوریت سے محفوظ رکھے جس جمہوریت میں جمہوریت کی بھیانک چھتری تلے غنڈے، بد معاش، چور، رہزن اور لٹیرے پرورش پائیں اور عوام کا خون پئیں۔ ہمیں ایسی جمہوریت سے دور رکھیں جو قبضہ گروپوں کے لیے تقویت کا باعث بنے۔ ہم پناہ مانگتے ہیں ایسی جمہوریت سے جس میں سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، پرویز رشید ، خواجہ آصف،عابد شیرعلی، زعیم قادری ،دانیال عزیزجیسے کھلنڈرے ،عقل سے پیدل اور زمینی حقائق سے نا آشنا وزراء بن جائیں۔ ہمیں ایسی جمہوریت سے محروم ہی رہنے دیں جس میں جب آپ کی بدعنوانیوں سے پردہ چاک ہونے لگے تو جمہویت کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ آپ اس جمہوریت کی بات کرتے ہیں جس میں آپ جیسا حکمران ٹولہ جمہوریت کے نام پر بیس کروڑ عوام کو دن رات لوٹنے میں مصروف ہے اور پھر اسی لوٹ مار پر اکتفا نہیں کر رہے ہیں بلکہ لوٹی ہوئی دولت کو بیرون ملک منتقل کرنے پر آپ کو ذرا بھرشرمندگی کا احساس نہیں ہوتا۔ وزیراعظم جناب میاں نواز شریف اور وفاقی وزرا ء نے پاناما لیکس کو جمہوریت کے خلاف سازش قراردیتے ہوے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ یہ سب پاکستان کی خو شحالی اور ترقی کے ان مخالفین کی ملک کے خلاف گہری سازش ہے جو موجودہ حکومت کی طرف سے وطن عزیز میں لائی خوش حالی اور ترقی کے مخالف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کون سی خوشحالی اور ترقی آگئی ہے؟ ذراعوام کو بھی بتایا جائے۔ کیا ملک میں بے روزگاری ختم ہو گئی ہے؟ کیا مہنگائی دم توڑگئی ہے؟ کیا دہشت گردی اپنی موت آپ مر گئی ہے؟ کیا اقربا پروری اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے؟ کیا رشوت کا گرم بازار ٹھنڈا ہو گیا ہے؟ کیا امن و امان کی صورت حال بہتر ہو گئی ہے؟ کیا لوڈشیڈنگ کا جن بوتل میں بند ہو چکا ہے؟ کیا انصاف اور میرٹ کا قتل عام کرنے والوں کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے؟ کیا امدادی پیکج کے نام پر کسانوں کو دی گئی خیرات سے ان کی ٹوٹی ہوئی کمر سیدھی ہو گئی ہے؟ کیا سرمایہ داروں نے غریب کا معاشی قتلِ عام بند کر دیا ہے؟ کیا وزیروں، مشیروں، ارکان اسمبلی اور حکومتی چہیتوں کے’’ اللو ں تللوں ‘‘ پر قومی وسائل کا بے دریغ استعمال روک دیا گیا ہے؟ کیا تھانہ کلچر تبدیل ہو گیا ہے؟ کیا پولیس کی آمرانہ سوچ میں کوئی کمی آ گئی ہے؟ کیا ترقیاتی کاموں میں’’ کمیشن مافیا ‘‘ابدی نیند سو گیا ہے؟ کیا بھتہ خور قانونی شکنجے میں آگئے ہیں؟ کیا سٹریٹ کرائم کی شرح صفر ہو گئی ہے؟ کیا عوامی نمائندو ں اور غریب عوام کے درمیان رابطے کے فقدان کا پہاڑ زمین بوس ہو گیا ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو کسی ایک چیز کی نشاندہی کر دیں جو تبدیل ہوئی ہے اور اگر جواب نفی میں ہے تو خدا کے لیے عوام کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ بند کر دیں کیونکہ خو شحالی آئی ہے یقیناً آئی ہے مگر جو خوشالی آئی ہے عوام کے لیے نہیں وہ رسہ گیروں ،سرمایہ داروں ،ذخیرہ اندوزوں، ڈاکوؤں، چوروں، بدمعاشوں، راہزنوں، قانون شکنوں اور لٹیروں کے لیے آئی ہے جس سے وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ امن و امان کی صورت حال یہ ہے کہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں معمار ان قوم کو پرسکون اور محفوظ ماحول کی فراہمی ممکن نہیں ہو پا رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر مصنوعی ٹیکسوں کے ذریعے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ زنی کا ارتکاب کرتے ہوئے لوٹ مار کا قانونی بازار گرم کر رکھا ہے۔ مہنگائی اور بے روز گاری اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں نائب قاصد کی ملازمت کے حصول کے لیے جو درخواستیں جمع ہوئی ہیں ان میں بی ۔اے اور ایم اے پاس امیدواروں کی بھاری تعداد ہے۔ بجلی کے بل ادا کرنے کی بجائے لوگ خود کشی کرنے کر ترجیح دے رہے ہیں۔ پی ائی اے کے ملازمین نے ہفتوں دفاتر کی تالا بندی کیے رکھی جب کہ اساتذہ جیسا مقدس اور قابل احترام طبقہ سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہے۔ غربت کی چکی میں پسی ہوئی عوام کے لیے جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنا دشوار ہو چکا ہے۔ لاقانونیت انتہا کو پہنچ چکی ہے رشوت کے بغیر کسی مسلئے کا حل دیوانے کے خواب کے مترادف ہے۔ عوام کی آنکھیں ترقیاتی کاموں کو دیکھنے کے لیے ترس رہی ہیں مگر عوامی نمائندے یوں غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ معلوم نہیں کہ آپ خود فریبی کا شکار ہیں یا ڈرامہ بازی کر کے عوام کو بے و قوف بنا رہے ہیں حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا، اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کا ذمہ دا ر عمر ہو گا،مگر یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ کہیں قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں ماوارے عدالت قتل عام ہو رہا ہے تو کہیں آپ کی بے حسی اور لا پرواہی کی وجہ سے شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑہ رہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ گھر سے نکلنے کے بعد کسی کو یقین نہیں ہوتا کہ وہ خیریت سے گھر پہنچ پائے گا یا نہیں ان حالات میں آپ کس خوشحالی کی بات کرتے ہیں؟ کس خوشحالی کا ذکر کرتے ہیں؟ کہاں ہے وہ خوشحالی؟ کہاں ہے وہ ترقی جس کا آپ راگ الاپتے ہیں؟ خدا را بند کریں یہ فریب زدہ بیانات اور غلط بیانیاں۔ اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے یا عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی بجائے ملک و ملت اور وطن عزیز کی خوشحالی و ترقی کے لیے یکسوئی و ایمانداری سے کام کریں اور پاناما لیکس کی آزادانہ و غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونے دیں۔ ورنہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔