بنگلہ دیش کا سفر: مشاہدات و تاثرات
وارث مظہری
سینٹرفارپیس اینڈ جسٹس،براک یونیورسٹی،ڈھاکہ،اورجارج ٹاؤن یونی ورسٹی،واشنگٹن،امریکہ کے باہمی اشتراک سے منعقدہ( 9-5 مارچ،2022) ایک ورکشاپ میں شرکت کے لیے گزشتہ دنوں بنگلہ دیش جانےاوراوروہاں چند دن گزارنے کا موقع ملا۔گزشتہ دوسالوں کے دوران آن لائن سیمیناروں اور کانفرنسوں میں گھربیٹھےشرکت کے دراز ہوتے ہوتے ہوئے سلسلے سے طبیعت جیسے مرجھا کررہ گئی تھی۔ایسے میں یہ گرمی اورگھٹن کے ماحول میں موسم کی پہلی بارش کی خوش گوارپھوارکی مانند تھا۔ دل میں کھٹک سی تھی کہ شاید ویزا نہ ملےلیکن حیرت انگیز طورپرایک ہفتےکےاندرویزا مل گیا اورمیں نےاللہ کا شکرادا کیا۔البتہ سفرمیں کچھ دشواریاں پیش آئیں جومتوقع تھیں لیکن کوئی ناخوش گوارواقعہ پیش نہیں آیا۔سلہٹ کےایک پرفضا مقام ’’ناظم گڑھ ‘‘پر پانچ دنوں تک چلنے والی اس ورک شاپ کا موضوع تھا:
Advancing the Conversation between Science, Theology, and History in Islam
موضوع سے متعلق مختلف عنوانات پرمتعدد نشستیں ہوئیں۔ پروگرام کی خوبی یہ تھی کہ ہرنشست میں پریزینٹیشن کےبعد کھلی فضا میں، کھلے دل ودماغ کے ساتھ بحث ومباحثے ہوئے۔ ہمارے میزبان پروفیسرسامیہ حق (پروفیسرڈپارٹمنٹ آف اکانومکس اینڈ سوشل جسٹس، براک یونی ورسٹی،) اوررضوان حبیب الرحمان (ریسرچ اینڈ ایڈمنسٹریشن اسسٹنٹ،سینٹرفار پیس اینڈ جسٹس) نےاس پنج روزہ ورک شاپ کو نہایت خوبی سےمرتب کیا تھا۔
دہلی سے ڈھاکہ کے لیے میری روانگی 5 مارچ 2022 کی صبح میں ہوئی اورڈھاکہ سے کنکٹنگ فلائٹ کے ذریعے میں بخیروخوبی’’سلہٹ‘‘ پہنچ گیا۔ یہاں ہمارا قیام ’’ناظم گڑھ گارڈن ریزارٹ‘‘ میں تھا۔ نہایت پرفضا مقام پرقائم اس رزارٹ میں ایک معیاری ہوٹل کی تمام ترسہولیات موجود تھیں۔ اگلے دن 6 مارچ کو میرا سیشن تھا جس کا عنوان تھا: Islam, Science, and Historyجس میں مجھے اسلام اورسائنس کے درمیان تصادم وتفاہم کے موضوع پرگفتگو کرنی تھی۔ اس کے لیے ڈیڑھ گھنٹے کا وقت مختص کیا گیا تھا۔ میں نےکوئی 45 منٹس تک موضوع کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی۔ گفتگو کے بنیادی نکات یہ ہیں:
اسلام اور سائنس کے درمیان تصادم وتفاہم کی جو بحث موجودہ دورمیں سامنےآئی ہے وہ اسلامی علمی وفکری روایت کے تشکیلی دور سےعقل ونقل کے درمیان تعارض و تطبیق کے مباحث کا حصہ رہی ہے۔ مسلم فلاسفہ اورمتکلمین کی جماعت نےاس محاذ پر پیش قدمی کرتے ہوئےاس مشکل کو حل کرنےکی کوشش کی جس کے نتیجے میں مختلف رجحانات وجود پذیر ہوئے۔ مسلم فلاسفہ کی نظرمیں عقل کوجب کہ متکلمین کی نظر میں نقل کواصولی اہمیت حاصل تھی۔ متکلمین میں غزالی نے’’قانون التاویل‘‘ میں اس کے اصول مرتب کرنے کی کوشش کی، لیکن ابن رشد کا اس پراعتراض ہے کہ وہ خود اپنےاصولوں کی پیروی نہیں کرتے۔ پہلےغزالی اوربعد میں ابن تیمیہ کی کوششوں نےان فلسفیانہ نظریات وکلیات کی بنیادیں ڈھادیں جن پرقدیم علم کلام کی بنیادیں استوار تھیں۔ اس کے بعد عقل ونقل کےتعارض کا یہ قضیہ بھی ہماری اسلامی فکری روایت میں پس منظر میں چلا گیا۔معقول ومنقول کی کش مکش میں غزالی(قانون التاویل) کے مقابلے میں ابن تیمیہ (درء تعارض العقل والنقل وغیرہ) کوزیادہ اہمیت حاصل رہی۔ غزالی نےعقل کواس حوالے سے جواہمیت دی تھی۔ ابن تیمیہ نے وہ ختم کردی۔ فقہ کی طرح کلام میں وہ اپنے مکتب فکرکی حدود سے باہر نہیں آسکے۔
جدید دور میں سائنس اور مذہب کے درمیان تعارض وتصادم کی بحث کے حوالے سے مختلف رجحانات سامنے آئے ہیں۔ جن میں ایک رجحان یہ ہے کہ سائنسی بیانیہ مکمل طور پرقابل رد ہے۔ اس بنا پرگردش زمین، اس کے کروی ہونے جیسے بیانات قابل اعتبار نہیں ہیں کیوں کہ وہ نصوص کے ظاہری مفہوم سےمتصادم ہیں۔ لیکن اس نقطہ نظر کے حاملین اب بہت کم پائےجاتے ہیں۔ دوسرا رجحان یہ ہے کہ سائنسی بیانیے کومذہبی(قرآنی) بیانیے سے تمام تر تفصیلات کے ساتھ ثابت کیا جاسکتا ہے۔ جوہری طنطاوی اسی فکر کے نمائندے تھے۔لیکن اس تعلق سے سب سے اہم اورقابل غورموقفعلامہ انورشاہ کشمیری کا ہے۔ان کے مطابق کائناتی مظاہرکے حوالے سے قرآن اصل اورواقعی حقیقت کی بجائے رائج عوامی تصورات کوبنیاد بناکراپنی گفتگو آگے بڑھاتا ہے کیوں کہ اس کا مقصد سائنسی حقائق کی تفہیم نہیں بلکہ مخاطب کوہدایت کی تلقین ہے۔ مذہب اورسائنس کے درمیان موجودہ کش مکش کی فضا کی تشکیل میں ایک طرف سائنٹزم( scientism ) اوردوسری طرف ’مذہبی توہم پرستی‘( religious dogmatism ) نےاہم رول ادا کیا ہے۔ دونوں کا دائرہ کار مختلف ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک دوسرے کے دائرے میں مداخلت کی کوشش کی جائے۔ موضوع کے حوالے سے میں نےمتعدد مسلم اورمغربیاسکالرس کی کوششوں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا۔
ورکشاپ میں مختلف ممالک کےجو اصحاب علم شریک تھے ان میں سے ایک اہم نام ڈاکٹر عتیق رحمان کا ہے جو کلائمٹ سائنٹسٹ کی حیثیت سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ انہیں ان کی خدمات کی بنا پر 2007 میں باشتراک نوبل پیس پرائز سےنوازا گیا۔اوراقوام متحدہ کی طرف سے2008 میں انہیں’چیمپئن آف دے ارتھ 2008’ انعام سےسرفراز کیا گیا۔ان کے ساتھ متعدد نشستیں رہیں۔ ان کی شخصیت کا سب سے اہم پہلوان کی تواضع اورسادگی تھی۔ ورکشاپ کے پہلےدوسیشنزمیں ان کی گفتگو رکھی گئی تھی لیکن افسوس کہ تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے میں ان سےاستفادہ نہیں کرسکا۔ ڈاکٹر کیتھرین مارشل( جارج ٹاؤن یونیورسٹی، امریکہ)، پروفیسر ابراہیم موسی (یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم، امریکہ)،پروفیسرسامیہ حق،براک یونیورسٹی، ڈھاکا اور دیگر اصحاب علم و دانش سے استفادہ کا موقع ملا۔
اپنے چار روزہ مختصر قیام بنگلہ دیش کےدوران میں بنگلہ دیش کو زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھ اورسمجھ نہیں سکا۔ پروگرام کی مصروفیات کے ساتھ یہ ممکن بھی نہیں تھا۔ ورکشاپ کے آخری دو دنوں میں سلہٹ کے جن چند مقامات پر جانےاورانہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا،ان میں شہرت اورزائرین کی کشش کی لحاظ سے سب سے اہم’ حضرت شاہ جلال کی درگاہ’ ہے جن کے نام سے ڈھاکہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کوموسوم کیا گیا ہے۔یہاں کے عوامان سے گہری عقیدت اورروحانی وابستگی رکھتے ہیں۔ان کی وطنی اصلیت کے تعلق سے مختلف اورمتضاد روایات پائی جاتی ہیں۔ مشہور یہ ہےکہ ان کا تعلق یمن سے تھا اوروہ مکہ سے اپنے شیخ کے حکم پرعہد سلطنت میں حضرت نظام الدین اولیاء کے زمانے میں ہندوستان وارد ہوئے تھے۔انہوں نےسلہٹ کواپنا مستقر بنایا۔ ان کی دعوت سے متاثر ہوکربڑی تعداد میں لوگ مسلمان ہوگئے۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں ان سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ حضرت شاہ جلال کا مزار بہت سادہ ہے۔ رنگ و روغن سے خالی۔ البتہ لوگوں کا کافی ہجوم رہتا ہے۔خواتین کی حاضری سخت ممنوع ہے۔ میرے ساتھی نے بتایا کہ وزیراعظم شیخ حسینہ بھی اس میں قدم نہیں رکھ سکتیں۔ دوسری چیز چائےکے باغات تھے جن کو قریب سے دیکھنے کا پہلی بارموقع ملا۔سلہٹ میں ایسیتیسری کوئی چیزنظرنہیں آئی جوقابل دید وقابل ذکر ہو۔
بنگلادیش دنیا کی چند نہایت تیزرفتاری کےساتھ نمو پذیراکانومی میں سےایک ہے۔ دنیا میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کرنے والے ممالک میں سے وہ چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔2011 کے بعد غربت کی شرح نصف ہو گئی ہے وغیرہ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی خوشحالی کا مجموعی اثر وہاں کے سماج اورافراد پر کم ہی نظرآتا ہے۔ صفائی ستھرائی کا معیار نہایت کمزور ہے۔ سڑکیں، بازار، پارک اور اس نوع کی دوسری چیزیں اوسط کی سطح سے نیچے نظر آتی ہیں۔آبادی کی کثرت کی وجہ سے بازاروں میں بھیڑ امڈی پڑتی ہےاور شانہ سےشانہ چھلتا نظرآتا ہے۔ ڈھاکا ایرپورٹ کی حالت اس قدرخستہ اوربدنظمی کا شکار ہے کہ اسےدیکھ اور برت کر بنگلادیش کی خوشحالی کا تصورچکنا چورہوکررہ جاتا ہے۔ بنگلادیش ایئرپورٹ کسی ’تمہید’ کےبغیرشروع ہو جاتا ہے۔ مسافر کو پیسے کے عوض ایئر پورٹ کے اندر داخل کرنے والے ایجنٹ مجھے پہلی بارکسی ایئرپورٹ پریہاں نظر آئے لیکن میں نے ان کی خدمات حاصل نہیں کیں۔ بغیرکسی قطاراورڈسپلن کے لوگ اسی طرح ایئرپورٹ کی عمارت میں گھسنے کے لیے دھکم پیل کر رہے تھے جیسے دہلی ریلوے اسٹیشن پر تہواروں کے موقع پرمسافروں کی کثرت سےدیکھنےمیں آتا ہے۔ ڈھاکہ سیٹی کو مجھے زیادہ اچھی طرح دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن سلہٹ کے علاوہ ڈھاکہ میں اپنےایک روزہ قیام میں میں نے جو کچھ دیکھا اس کا تاثر کچھ خوشگوارنہ تھا۔ میرا تاثر یہ ہے کہ ملک میں اقتصادی خوشحالی کوتو ضرورآئی ہے لیکن موروثی ثقافت سے گہری وابستگی کی وجہ سے بنگلہ دیش کےعوام پر جدیدیت یا جدید شہری زندگی کےاثرات ابھی کم مرتب ہوئےہیں۔ باقی دو وجوہات میں سے ایک ملک کے رقبے کے لحاظ سےآبادی کی کثرت اوردوسری ملک کے انفراسٹرکچر پرحکومت کی طرف سےکم خرچ کرنے کی پالیسی ہے جو بظاہر ایک سوچے سمجھےمنصوبے کاحصہ ہوسکتاہےتاکہ موجودہ مرحلے میں ملک کی بنیادوں: تعلیم، تجارت اورمعاشی خوش حالی کی بنیادوں کومضبوط کیا جا سکے-
زبان کی بنیاد پرتشکیل پانے والی اس جمہوریت میں اب بھی زبان کے تعلق سےشدید عصبیت محسوس ہوتی ہے۔ اردوعربی توخیرسے کہیں نظرنہیں آتی۔ سرکاری دفاتر کےعلاوہ نجی دکانوں یا عمارات پرانگریزی بھی کم ہی لکھی نظرآتی ہے۔ بہت سے لوگ ہندی سمجھ لیتے ہیں لیکن بول نہیں پاتے۔ اردوسے بہرحال لگاؤ ہے۔ مدارس کے فارغین اردو کی کتابوں سے استفادہ کرلیتے ہیں۔ ایک صاحب افسوس کے ساتھ بتانے لگے کہ اردو کا شعری اورافسانوی ادب جس قدر متمول ہے اس کے مقابلے میں بنگلہ ادب بہت کمزورہے۔ ہندوستان کےاہم علما اورمصنفین کی کتابیں اردوسے ترجمہ ہوچکی ہیں اور یہ عمل جاری ہے۔ایک ادارہ مولانا وحید الدین خاں کی کتابیں ترجمہ کرواکرشائع کرتا ہے۔علمائے دیوبند کی کتابیں بہت مقبول ہیں۔ مولانا تھانوی کی کتابوں نے وہاں کی دینی فضا پرگہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
بازاروں میں ازدحام کے علاوہ جوچیز نگاہوں کواپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہ حیا اورشائستگی کی قدر ہےجوماحول پرغالب نظرآتی ہے۔ نہ ہی مجازی یعنی کاغذی پیرہن (پوسٹرزوغیرہ) میں ہمیں بے حیائی کے مظاہر نظر آئے اور نہ ہی حقیقی پیرہن میں۔ جوان لڑکیاں بھی عموما شائستہ لباس زیب تن کرتی ہیں اورحیا کے تقاضوں کا خیال رکھتی ہیں۔ ہوسکتا ہےڈھاکہ کی صورت حال اس کے مقابلے میں کچھ مختلف ہو۔
دینی مدارس
بنگلہ دیش کے مدارس کے بارے میں ہم نے بہت کچھ دیوبند میں اپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی سن رکھا تھا۔ ہمارے کئی قریبی ساتھی بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے تھے۔اب صورتحال بدل چکی ہے۔ویزا کی مشکلات کی وجہ سےاب بمشکل ہی وہاں کے طلبہ دیوبند کا رخ کرتے ہیں ۔ورنہ نوے(90) کی دہائی تک خاص طور پرفضیلت کے لئےوہاں کےطلبہ دیوبند کو ہی ترجیح دیتے تھے۔ بنگلہ دیش کےمدارس کی اکثریت جن میں ملک کے نمائندہ مدارس شامل ہیں؛ دیوبندی مکتب فکرسےتعلق رکھتی ہے۔’’سلہٹ‘‘ میں مولانا حسین احمد مدنی سے ارادت وعقیدت رکھنے والوں کی بڑی تعداد ہے۔ یہاں کے مدرسہ مدینۃ العلم دارالسلام کی زیارت اور وہاں گفتگو کا پروگرام طے تھا۔ لیکن بعض ناگہانی مصروفیات کی وجہ سے حاضری نہیں ہوسکی۔ اسی مدرسےمیں پاکستان کے نامور عالم مولانا زاہد الراشدی صاحب کومولانا حسین احمد مدنی کا تشکیل کردہ نصاب حاصل ہوا تھا جو’نصاب مدنی’ سے معروف ہے اورمولانا محترم نے اپنے ادارے سےاسے شائع بھی کردیا ہے۔ اس نصاب کی خوبی یہ ہے کہ وہ قدیم نافع اورجدید صالح دونوں کی بہم آمیزی پرمشتمل ہےجس سے ہمارے ہندوستانی مدارس محروم ہیں۔ یہاں دو طرح کے مدارس پائے جاتے ہیں: قومی مدارس اورعالیہ مدارس۔ قومی مدارس ہندوستان کی طرز کے پرائیویٹ اورعوامی چندوں سے چلنے والے مدارس ہیں ۔جب کہ عالیہ مدارس کو حکومت امداد فراہم کرتی ہے۔ان مدارس کےبعض فضلاء سےملاقات ہوئی جن میں خاص طورپرمولانا جنیدرفیع شامل ہیں،جوجامعہ مدنیہ باری تھارا،ڈھاکہ سے فارغ ہیں انہوں نےتفصیل سےمدارس کےحالات سے آگاہ کیا۔ تقریباً تمام ہی قومی مدارس دیوبندی مکتب فکرسےتعلق رکھتےہیں۔ بریلوی اوراہل حدیث مکتب فکرسے تعلق رکھنے والےافراد زیادہ ترعالیہ مدارس سے وابستہ ہیں۔عالیہ مدارس پر حکومت بےتحاشا خرچ کرتی ہے تاکہ ان کے فضلاء کومین اسٹریم میں لایا جا سکے۔ ان کےفاضلین کی اکثریت کوسرکاری ملازمت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں قومی مدارس کے ذمہ داران کسی بھی صورت میں حکومت سےامداد لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کی وجہ وہی اندیشہ ہےجو ہندوستان کےنجی مدارس کےحلقوں میں بھی پایا جاتا ہےکہ اس سےان کی خودمختاری حکومتی زد میںآجائے گیاورحکومت کو ان کے معاملات میں مداخلت کا جوازحاصل ہوجائےگا۔ نیت کےصالح ہونےمیں توکوئی شبہ نہیں ہے لیکن اس کےنقصانات کو بھی نظراندازنہیں کیاجا سکتا۔ عالیہ مدارس کے فضلاء کو ملک یا ملک سے باہراعلی تعلیم کے حصول اور زندگی کو بہتراورخوشحال بنانے کے جوامکانات میسرہیں وہ قومی مدارس کے فضلاء کونہیں ہیں۔ آنے والےدنوں میں اس کا قوی امکان ہےکہ قومی مدارس کےذہین ومحنتی طلبہ بھی لامحالہ عالیہ مدارس کا رخ کرنے لگیں۔ بظاہرنہ توخود کو پوری طرح حکومت کےسپرد کردینےمیں بھلائی ہےاورنہ ہیاس طرح دوریاورکشمکش میں جوحکومت اورعالیہ مدارس کے ذمہ داروں کےدرمیان پائی جاتی ہے۔ یہ بات بھی دیوبندی مدرسے کے فاضل جنید رفیع سے معلوم ہوئی کہ بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی کے دارالعلوم دیوبند کےانتظام وانصرام کےحوالےسےطے کردہ آٹھ اصولوں(اصول ہشتگانہ) میں شامل اس اصل پردیوبندی مکتب فکر کے مدارس کے ذمہ دارسختی کے ساتھ عمل پیرا ہیں کہ حکومت مدرسے کے حق میں حکومت کی طرف سے مالی تعاون کوقبول نہ کیا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ نہایت قیمتی اصول ہے جوحضرت نانوتوی کی دور اندیشی اور بصیرت مندی پردلالت کرتا ہے مدرسہ دیوبند کے فروغ واستحکام اورعوام کے ساتھ وابستگی میں اس نے اہم رول ادا کیا لیکن یہ یا اس طرح کے اصول کی معنویت ہرزمان ومکان کے لیے یکساں نہیں ہوتی۔
ویسے وہاں مدارس کے حلقوں میں وہ جمود پایا نہیں جاتا جو خاص طورپر ہندوستان کےحلقوں میں پایا جاتا ہے۔درس نظامی کے ابتدائی چارسالوں میں تمام ضروری عصری مضامین پڑھائےجاتے ہیں۔ بعض مدارس جن میں بنگلہ دیش کا سب سے بڑا ہارٹ ہزاری کا مدرسہ ’دارالعلوم معین الاسلام‘شامل ہے؛اس میں صنعت وحرفت کی تعلیم بھی شامل ہے۔ پہلےعربیسیکھنے کے لیے اردو پڑھائی جاتی تھی پھر فارسی اوراس کے ذریعہ عربی۔ اب یہ واسطے ختم کر دیئے گئے ہیں۔ ہندوستان میں اب بھی یہ صورتحال بہت سے مدارس میں برقرار ہے۔عربی کی پہلی گرامر’نحو میر’ فارسی میں پڑھائی جاتی ہے۔ مولانا ابو طاہر مصباح نے درس نظامی میںاس طرح کی تبدیلیاں کیں اورانہیں قبول کیا گیا اوراس کےبہتر اور امید افزا نتائج سامنےآئے۔
مدارس کی تعلیم کےشعبےمیں کچھ نئے تجربے بھی کیےجاتےرہےہیں جیسےڈھاکہ کے ایک مدرسے کی تدریسی زبان انگریزی ہے۔ ڈھاکہ میں ہی ’مدرسۃ القرآن‘ کے نام سے تیسری صنف کیلئے حال میں ہی ایک مدرسے کا قیام عمل میں آیا ہے۔ قومی اورعالیہ دونوں مدارس کا اپنا وفاق ہے جوامتحانات اور دیگر امور سے متعلق معاملات کو طے کرتا ہے۔ ڈھاکہ کامدرسہ ’دارالرشاد‘صرف ان طلبہ کوداخلہ دیتا ہے جو پہلے گریجیوئیشن کرچکے ہوں۔ بنگلہ دیش میں لڑکیوں کا سب سے پہلا مدرسہ 1972میں قائم کیا گیا جس کے بانی مولانا عبد الملک حلیم ہیں جودیوبندی مکتب فکرسے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں اس کی تحریک حجازمیں قیام کے دوران ملی۔ وہ مولانا تھانوی سے بھی متاثرتھے۔
اسلامی جماعتیں
اسلامی جماعتوں سے متعلق میں تفصیلی معلومات حاصل نہیں کرسکا البتہ معلوم ہوا کہ جماعت اسلامی کے خلاف شدید داروگیر کا ماحول پایا جاتا ہے۔ مولانا مودودی کی کتابیں ملک میں ممنوع ہیں۔ مولانا مودودی کی بعض کتابوں پرتوبعض عرب ممالک میں بھی پابندی ہے لیکن معلوم ہوا کہ یہاں ان کی تمام ہی کتابوں پرسخت پابندی ہے۔ سیاسی نظریات سےتعلق رکھنے والی کتابوں پرپابندی کی کوئی وجہ توسمجھ میں بھی آتی ہے لیکن تمام ترکتابوں پرمکمل پابندی کی وجہ ذہن سمجھنے سے قاصرہے۔ جماعت کےحلقوں سےوابستہ لوگ اپنی شناخت چھپاتےہیں۔ پروگرام میں ایک یونی ورسٹی پروفیسرسےملاقات ہوئی جو ماضی میں جماعت اسلامی کے رکن رہ چکے تھے۔ میں نےاس تعلق ان سے گفتگوکرنا چاہی لیکن وہ حکومت پر ہندوستان نوازی کا طعنہ دیتے ہوئےاس موضوع پر گفتگو کےلیےآمادہ نہیں ہوئے۔ مولانا جنید نے بتایا کہ علماء کی تنظیم’’حفاظت اسلام‘‘ ملک کواسلامی اقدار کے سانچے میں ڈھالنے کے لیےپرعزم اور کوشاں ہے۔ اس کے مختلف مطالبات میں سےایک مطالبہ پاکستان کےطرزپرقانون توہین رسالت کی تشکیل وتنفیذ ہےتاکہ اسلام اورپیغمبراسلام کا مذاق اڑانے والوں کو کیفرکردارتک پہنچایا جا سکے۔ حالیہ دنوں میں اس نے ملک میں قائم قومی قائدین وشخصیات کے مجسموں اوراسٹیچوز کےخلاف احتجاجی تحریک چلائی اوربابائےقوم شیخ مجیب الرحمن کےاسٹیچوکوبھی توڑپھوڑ ڈالا۔ اس قسم کےاقدامات کی بنیاد پرتحریک کے بہت سے کارکنان کو حکومت نے جیل میں بند کررکھا ہے۔مجسمہ کے خلاف اجتماع اورمظاہرے کی خبر کم ازکم میرے لیےتوبالکل چونکانےوالی تھی۔اس سےقبل میں اس کا تصورصرف افغانستان جیسے بعض مسلم ممالک کےبارے میں ہی کرسکتا تھا۔
اسلامی جماعتوں کی طرف سے ملک کے اسلامائزیشن کی کوششیں محمود اورنتیجہ خیز ہوسکتی ہیں اگروہ جذباتیت سے اوپراٹھ کرہوش مندانہ انداز میں کی جائیں۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہماری برصغیرہندکی دینی جماعتیں اوران سےوابستہ قدیم روایتی نصاب تعلیم کے پروردہ افراد اوررہنماکا سیاسی وسماجی شعورپختہ نہیں ہے۔ ان کا ذہن اس پیچیدگی کے صحیح ادراک اوراس کا حل ڈھونڈنے سے قاصر ہے کہ موجودہ عہد میں اسلام کے سیاسی وسماجی اصول ونظریات کی تطبیق کا عملی فریم ورک کیا ہوگا؟ان اصول ونظریات میں سے کون ابدی اورناقال تغیر ہیں اورکن اصول ونظریات کی ان کی روح کو برقرار رکھتے ہوئےتشکیل نوکی جاسکتی ہے؟۔ ہم نےان اسلامی جماعتوں کے بارے میں جوکچھ سنا اس سے اس خدشے کوتقویت حاصل ہوئی کہ آنے والے دنوں میں ان کے اور حکومت کے درمیان کش مکش میں مزید اضافہ ہوگا اورپیدا شدہ خلیج اوربڑھے گی۔ حالیہ کچھ سالوں کے دوران بعض مذہبی تنظیموں کی جانب سے الحادی اوراسلام دشمن رجحان رکھنے والوں کوٹارگیٹ کیا گیا اوریہ خبریں عالمی شہ سرخیوں میں آئیں۔یہ اوراس نوع کے واقعات سے متعلقہ اسلامی ممالک میں اسلام کا دائرہ مزید تنگ ہوتا ہے۔عرب اورسینٹرل ایشیا کے مخلتف مسلم ملکوں کا تجربہ یہی بتاتا ہے۔اس سےانہیں سبق لینا چاہیے۔انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جس طرح نمازروزہ کی فرضیت کے لیے فرد کی بلوغت ضروری ہے اسی طرح نفاذ شریعت کے لیےریاست کا ’بالغ’ ہونا بھی شرط کے درجے میں ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں ایسی کوئی بھی کوشش صرف فساد پرمنتج ہوگی چاہے وہ کتنے ہی اخلاص کے ساتھ انجام دی گئی ہو۔
ہندومسلم تعلقات
میری خواہش تھی کہ بنگلہ دیش کے ہندووں سے ہماری ملاقات ہوتاکہ ہندومسلم تعلقات کے حوالے سے کچھ تفصیل سے معلوم ہوسکے۔ میں نے رضوان حبیب الرحمن اوردیگر افراد سے اس تعلق سے استفسار کیا توانہوں نے بتایا کہ دونوں مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اوردونوں کے درمیان خوش گوارتعلقات پائےجاتے ہیں۔ لیکن براک یونی ورسٹی سے وابستہ ایک نوجوان ہندوتعلیم یافتہ شخص سریش کمار( نام تبدیل کردیا گیا ہے) نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے۔ پہلے توتعلقات یقینا بہتر تھے لیکن ادھرحالیہ سالوں میں ہندوستان کی سیاسی صورت حال میں جوتبدیلیاں آئی ہیں اورجن کی زد ہندوستانی مسلمانوں پرپڑرہی ہے،اس کے منفی اثرات یہاں کی سیاسی فضا پرمرتب ہونے لگے ہیں۔سریش نے بعض واقعات کے حوالے سے اس پرروشنی ڈالی کہ کس طرح غلط افواہیں پھیلاکر ہندو کمیونٹی کوٹارگیٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔ سریش کے لہجے میں کافی دکھ اورتلخی تھی۔وہ ایک نہایت سنجیدہ اورفہیم نوجوان ہیں۔ انہوں نے شہرکی سیرکرائی ۔جب تک ساتھ رہے نہایت خوش خلقی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ان کی انگلش بہت اچھی تھی اس لیے کمیونیکیشن میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوئی۔مذہبی شناخت رکھنے والے بعض شرکائے پروگرام نے بتایا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کےخلاف برپا ہونے والےواقعات سےخصوصا مسلم نوجوانوں کے ایک طبقے میں اضطراب پایاجاتا ہے جس سے مستقبل میں ملک میں ہندومسلم تعلقاتکے شدید طورپرمتاثر ہونےکا اندیشہ ہے۔اس طرح کی خبریں بھی گردش کرتی رہی ہیں کہ حکومت بنگلہ دیش۔جوہندوستان سے خوش گوارتعلقات رکھتی ہے۔چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کےقیام کے لیےکوشاں ہیں۔ اس سے بھی بظاہر ہندوستان مخالف فضا کوتقویت حاصل ہورہی ہے۔
بہرحال ہندوستانی حکومت کی دانش مندی کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے قدیم اوروفادار حلیف سے اپنے دوستانہ تعلقات کوبحال رکھنے کی کوشش کرے۔ بصورت دیگرافغانستان میں طالبان کی واپسی اور بنگلہ دیش اورپاکستان کی چین سے قربتسے ہندوستان کے حق میں علاقائی سیاسی توازن کے بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ ملک کے بعض دینی حلقے ہندوستان کے ساتھ ملک کے تعلقات کواچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتے۔ تاہم اسی کے ساتھ پاکستان سے جوذہنی دوری اوررقابت پائی جاتی رہی ہے،اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ بلکہ بظاہر اس میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔
بنگلہ دیش کا جلدی میں طے پانے والا یہ سفر میرے لئے بہت ادھورا رہا۔ میری خواہش اس کے علاوہ دوسرے اہم شہروں چٹاگانگ ، ہاٹ ہزاری وغیرہ اور ان میں قائم اسلامی اداروں کو دیکھنے اور اہم شخصیات اور تحریکات سے ملنے اور واقفیت حاصل کرنے کی تھی لیکن افسوس چار روزہ سفر میں اس کا موقع نہیں مل سکا۔ تاہم 2011 میں پاکستان اوراب اس کے دس سالوں کے بعد بنگلادیش کے سفرسے ایک خوشی اور اطمینان کا احساس ضرور ہوا کہ ہم نے اپنے ’اکھنڈ بھارت’ کو دیکھ لیا ہے۔
تبصرے بند ہیں۔