حفیظ نعمانی
جھگڑا دو آدمیوں میں ہو، دو خاندانوں میں ہو یا دو فرقوں میں اس کی ذمہ دار پولیس نہیں ہے۔ پولیس کا کام اس وقت شروع ہوتا ہے جب مرنے والا مرچکا ہو، زخمی ہوچکا ہو اور گھر یا دُکان جل گئے ہوں ۔ اور اس کے بعد حکومت کا عمل شروع ہوتا ہے کہ وہ پولیس کو اس کی مرضی کے کام کرنے دے رہی ہے یا اپنی پالیسی اور اپنے ووٹ اور دوسرے کے ووٹ کی بنیاد پر اسے دبا رہی ہے؟
سہارن پور کی ساری داستان ابتدا سے ٹی وی چینل دکھا رہے ہیں ۔ اور یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ وہ بھی اپنی سیاست کررہے ہیں ۔ سہارن پور میں پارلیمنٹ کا ممبر تو 2014 ء کی آندھی کا جیتا ہوا ہے۔ اسمبلی کے ممبر وہاں ایس پی اور کانگریس کے ہیں ۔ اس جھگڑے میں سب سے پہلے پارلیمنٹ کے ممبر نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ اسے نہ جانے کس کس نے تقریر کرتے ہوئے اور مجمع کو ورغلاتے ہوئے دکھایا۔ وہ آتش بیانی کررہے تھے اور ان کے ماننے والے نعرے لگا رہے اور تالیاں بجا رہے تھے۔ اس وقت ایس پی شہر میں نہیں گائوں میں تھے۔ یہ پارلیمنٹ کے ممبر کی تقریر کا ہی اثر تھا کہ غنڈوں کامجمع ان کے بنگلہ پر چڑھ دوڑا جہاں صرف ایس پی کی بیوی اور دو بچے تھے کئی گھنٹے وہاں سب توڑ پھوڑ کرتے رہے۔ ایم پی مہاشے کا نشانہ ایس پی تھا جس نے کسی غیرقانونی جلوس کو نکالنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
ایس پی نے وہ کیا تھا جو قانون کہتا تھا لیکن یہ حکومت کی جانبداری تھی کہ اس نے ایس پی کا تبادلہ کردیا۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد جو ایس پی آیا وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ قانون کیا ہے؟ وہ یہ دیکھے گا کہ حکومت کیا چاہتی ہے نتیجہ اس کا وہ ہوا کہ اب تک سہارن پور پٹری پر نہیں آیا۔ حکومت بی جے پی کی ہے اور اب بی جے پی کا ہر ورکر یہ سمجھ رہا ہے کہ اسے کچھ بھی کرنے کا حق ہے۔ یہ تو جگہ جگہ ہوا ہے اور ہم نے بھی کیا ہے کہ اگر پولیس نے کسی کو شبہ میں یا کسی کی دشمنی میں پکڑلیا تو اسے تھانہ سے لے آئے لیکن یہ نہیں ہوا ہے کہ ایک ملزم نامزد ہے پولیس اس کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہے اس کی گرفتاری پر یا اس کی خبر دینے پر بارہ ہزار کا انعام ہے اور اسے پولیس پکڑکر لے آتی ہے تو بھیڑ تھانہ پر چڑھائی کردیتی ہے اور پولیس یہ دیکھ کر سب بی جے پی کے لوگ ہیں ڈرجاتی ہے اور اسے رِہا کردیتی ہے۔ تو ظاہر ہے انصاف کا خون ہوتا ہے۔ اگر ہر جگہ بھیڑ ہی کی مانی جائے گی تو ملک اور صوبہ جنگل راج نہیں تو اور کیا ہوگا؟
اُترپردیش میں بھی اب بھیڑ کی حکومت ہوتی نظر آرہی ہے۔ جھارکھنڈ سے برابر خبریں آرہی ہیں کہ وہاں پوری طرح بھیڑ کی حکومت ہے۔ اتفاق سے ایک واقعہ بچہ چوری کا ہوگیا تھا اب بھیڑ کا جب جی چاہتا ہے وہ کسی گاڑی کو روک لیتے ہیں اور اسی میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو اتارکر بچہ چور کے شور میں مار مارکر ہلاک کردیتے ہیں ۔ پولیس صرف تماشہ دیکھتی ہے وہ لاٹھی اور گولی اس لئے نہیں چلاتی کہ بھیڑ بھگوا بریگیڈ کی ہے جو بے روزگار ہیں اور غنڈہ گردی کے علاوہ ان کی کوئی مصروفیت نہیں ہے۔
گذشتہ سال ہریانہ کے ایک پرائیویٹ اسکول میں عید کے موقع پر مسلمان ٹیچر نے عید کی خوشی سے متعلق بچوں سے نظمیں پڑھوائی تھیں اس میں عید، رمضان کا تحفہ، اللہ تعالیٰ کا اپنے روزہ دار بندوں کو انعام جیسے اشعار تھے۔ ہندو بچیوں نے وہ شعر اپنے گھروں میں گنگنائے۔ کسی نے کہا کہ یہ تو مسلمانوں کی باتیں ہیں بچوں نے بتایا کہ ہماری ٹیچر نے پڑھایا تھا۔ بات آر ایس ایس کے ایک بڑے کے علم میں آئی۔ انہوں نے اسکول کے مسلمان مالک اور ٹیچر کو اپنے دربار میں طلب کیا اور الزام لگایا کہ تم نے ہندو بچوں کو نماز پڑھوائی ہے۔ ٹیچر نے اس نظم کے شعر سنائے اور کہا کہ ہر تہوار پر اس تہوار کے بارے میں ہم بچوں کو اسی طرح واقف کراتے ہیں ۔ لیکن دربار میں ایک ہی رٹ تھی کہ سب بچوں کا دھرم نشٹ ہوگیا تم نے اللہ، روزہ، نماز ان سے کہلوایا یہی نماز ہے۔ اور اس ٹیچر کو نکلوایا اور اسکولوں کے مالک کو حکم ہوا اسکول کھلنے سے پہلے پانچ لاکھ روپے ہمارے فنڈ میں جمع کرائو ان سب بچوں کا دھرم نئے سرے سے پڑھایا جائے گا۔ اسکول کے مالک اٹھ کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد جو لوگ بیٹھے تھے انہوں نے معلوم کیا کہ اگر انہوں نے روپئے نہ دیئے تو آپ کیا کرلیں گے؟ یہ کوئی قانون تو ہے نہیں ۔ انہیں جواب ملا کہ بھیڑ وصول کرلے گی کیونکہ بھیڑ سب سے بڑا قانون ہوتا ہے۔
وزیراعلیٰ یوگی یہ کہتے کہتے تھکے جارہے ہیں کہ کوئی قانون ہاتھ میں نہ لے لیکن جب پنڈت گووند ولبھ پنت پہلے وزیر اعلیٰ اور لال بہادر شاستری پہلے ہوم منسٹر گائے کے کٹنے پر یہ کہیں کہ بلوہ ہوجائے گا تو… اور یہ نہ کہیں کہ کہیں گائے کٹے تو فوراً پولیس کو خبر کرو تاکہ وہ قانونی کارروائی کرے۔ تو آج 70 برس کے بعد اگر ہر فیصلہ بھیڑ کرے گی تو کون روک سکتا ہے؟
سہارن پور میں بھی سب کچھ بھیڑ نے کیا پولیس کو اطلاع ملی کہ نامزد ملزموں میں سے ایک اجے اپنے گھر پر ہے۔ تو چھاپہ مارکر اس کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس کارروائی سے ناراض اجے کے گھر والے سیکڑوں لوگوں کے ساتھ تھانہ بیہٹ پہونچ گئے جہاں انہوں نے تھانہ کا گھیرائو کرتے ہوئے اجے کو بے گناہ ثابت کیا اور کہا کہ اسے جھوٹا پھنسایا گیا ہے اسٹیشن آفیسر جتندر کالرا نے بھیڑ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر بھیڑ اجے کو چھوڑنے کی ضد پر اَڑ گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اجے کو اپنے ساتھ ہی لے کر جائیں گے۔ مظاہرین یعنی بھیڑ کے بڑھتے دبائو کے بعد اعلیٰ افسروں کو اطلاع دی گئی ایس ڈی ایم نے جام لگانے والوں سے بات کی۔ انہوں نے صورت حال سے ایس پی کو واقف کرایا۔ ایس پی نے کہا کہ بھیڑ کو یقین دلادو کہ ہم جانچ کراکے اگر اجے بے قصور ہے تو اسے چھوڑ دیں گے۔ بھیڑ نہیں مانی تو انہوں نے کہا کہ کچھ ذمہ دار لوگ شہر آجائیں ہم ان کے بھروسہ دلانے پر اجے کو چھوڑ دیا جائے گا۔ اس جواب پر ایک درجن گاڑیاں شہر روانہ ہوگئیں اور وہاں ایس پی نے اجے کو جانچ ہونے تک چھوڑنے کا فیصلہ کرکے اسے بھیڑ کے سپرد کردیا۔
ہم نہیں سمجھ سکے کہ یہ کون سا انصاف ہوا کہ پہلے کہا کہ ہم جیل میں رکھ کر جانچ کرالیں اس کے بعد چھوڑ دیں گے۔ اور اس کے بعد ایس پی نے ہی فیصلہ کردیا کہ جانچ ہونے تک اجے آزاد رہے گا۔ ماشاء اللہ کیا انصاف ہے؟ ایس پی نے اندازہ کرلیا کہ یہ بھیڑ نہیں ہے یہ حکومت ہے۔
اس پوری کہانی سے یہ معلوم ہوگیا کہ بھیڑ اگر بی جے پی کے کارکنان کی ہے تو تھانہ کا انچارج کیا ایس ڈی ایم اور ایس ایس پی کی بھی ہمت نہیں ہے کہ وہ اس کے خلاف کچھ کرسکے۔ تو وزیر اعلیٰ یوگی بتائیں کہ حکومت ان کی، ان کی پولیس کی ان کے افسروں کی ہے یا بھیڑ کی اور بھیڑ کی حکومت کو ہی جنگل راج اور غنڈہ راج کہا جاتا ہے اور یہی نعرہ تھا جو بی جے پی کو لایا ہے۔ اور یہی اسے واپس لے جائے گا کیونکہ کوئی شریف آدمی جنگل راج میں نہیں رہنا چاہتا۔ یہ بھیڑ غنڈوں کی نہیں ہے یہ وہ بے روزگار ہیں جو پہلے بھی تھے اور اب یوگی سرکار نے لاکھوں کو بے روزگار کردیا ہے انہوں نے صرف مسلمانوں کو بے روزگار نہیں کیا لاکھوں ہندو بھی بالو بجری اور مورنگ کے ٹھیکیداروں پر ڈنڈا بجانے اور ایماندار ٹھیکیدار تلاش کرنے کے چکر میں لاکھوں مزدور مستری بڑھئی لوہار اور ان ضروری چیزوں کا بیوپار کرنے والے اور ٹرک مالکان اور ڈرائیور سب بیکار ہیں وہ غنڈہ گردی نہ کریں تو کیا کریں ؟ حکومت کبھی پولیس کی بھرتی کا لالچ دے رہی ہے کبھی بوڑھے ڈاکٹروں کو نوکری کا لیکن بے روزگاری منچلے غنڈے لچے لفنگے اور اٹھائی گیرے پیدا کررہی ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔