بے گناہ قیدی
سہیل انجم
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ہندوستان میں دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو پھنسایا جاتا ہے اور انھیں ان کی بے گناہی کی سزا دی جاتی ہے۔ بعض اوقات پولیس اپنے اوپر عائد نااہلی کے داغ کو دھونے اور اپنی قابلیت جتانے کے لیے بے قصوروں کو پکڑتی ہے تو کبھی پولیس کا مخبر بننے سے انکار کرنے کی جرأت کرنے والے شخص کو مختلف بم دھماکوں اور دہشت گردانہ واقعات میں ماخوذ کر دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے الزام میں ملک کی مختلف جیلوں میں بند مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور ان پر فرضی طریقے سے مقدمات قائم کرنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ یہ سلسلہ کہاں رکے گا کہا نہیں جا سکتا۔ ایسے معاملات میں پولیس بہت ہوشیاری کے ساتھ کیس بناتی ہے۔ جس کے نتیجے میں بہت سے بے قصور مسلمانوں کو سزائیں بھی سنا دی جاتی ہیں ۔ تاہم بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ پولیس کسی شخص پر عائد اپنے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے اور پھر عدالت سے وہ شخص بری ہوا ہے۔ ایسے مسلمانوں کی تعداد بھی خاصی ہے جو عدالتوں سے باعزت بری کیے گئے ہیں ۔ لیکن اس مرحلے تک پہنچنے میں ان کے کئی سال ضائع ہو گئے اور ان پر دہشت گردی کا لیبل الگ چسپاں ہو گیا۔ ان کو اور ان کے اہل خانہ کو اس دوران جن اذیتوں سے دوچار ہونا پڑا اس کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ بے قصور مسلمانوں کو غلط طریقے سے پھنسانے والےپولیس والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے برعکس ان کی ترقی ہو جاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف سماجی اور معاشی اعتبار سے پامال ہونے والے متاثرین کو کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا۔
ایسے بے قصور قیدی جب باعزت بری ہونے اور جیل سے باہر آنے کے بعد اپنی روداد سناتے ہیں تو سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ ہم نے کچھ عرصہ قبل گجرات کے مفتی عبد القیوم کی روداد ان کی کتاب میں پڑھی تھی جو انتہائی لرزہ انگیز تھی۔ اس تعلق سے کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ اب ایک اور کتاب منظر عام پر آئی ہے جس میں 13 بے قصوروں کی روداد الم درج ہے۔ اس کتاب میں 2006 میں ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کے حوالے سے تفصیلات پیش کی گئی ہیں ۔ اسے انگریزی اخبار ملی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کے پبلشنگ ادارے فاروس میڈیا نے شائع کیا ہے۔ یہ محض ایک کتاب نہیں ہے بلکہ سرکاری دہشت گردی کی ایک ایسی دستاویز ہے جس کے ایک ایک لفظ سے بے گناہوں کا لہو ٹپک رہا ہے اور جس کا ایک ایک جملہ پولیس، انٹلی جنس ایجنسیوں اور تحقیقاتی اداروں کی مسلم دشمنی کو بے نقاب کر تا ہے۔ یہ کتاب پولیس کے ذریعے فرضی طریقے سے پھنسائے جانے والے ایک نوجوان عبد الواحد شیخ کی تحریر کردہ ہے۔ انھوں نے صرف اپنی داستان الم انگیز ہی نہیں لکھی ہے بلکہ اس میں ان سمیت 13 مسلمانوں کے خوچکاں حقائقبیان کیے گئے ہیں ۔ کتاب کے بیک ٹائٹل پر تحریر ہے ’’سرکاری دہشت گردی کو آشکار کرنے والی اس چشم کشا کتاب میں آپ کو دہشت گردی کے نام پر برسوں کھیلے جانے والے گندے کھیل کی تفصیلات، آتنک واد کے حوالے سے حکومت اور اس کی ایجنسیوں کا مکروہ چہرہ، پولیس، اے ٹی ایس اور انٹلی جنس ایجنسیوں کے طریقہ کار، ٹارچر، قانونی داؤ پیچ، عدالتوں کے راز جاننے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے کیسوں سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ ملے گا۔ اس کتاب کے ذریعے آپ کو بم بلاسٹ کیسوں اور پولیس اور میڈیا کے دعوؤں کی حقیقت بھی ملے گی‘‘۔
کتاب چھ ابواب پر محیط ہے۔ پہلے باب میں پولیس کے افسانے کو بے نقاب کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح پولیس کسی بے قصور کے خلاف کہانی گھڑتی اور اس پر مقدمے کی عمارت کی بنیاد رکھتی ہے۔ دوسرے باب میں ملزموں کے مبینہ اقبالیہ بیانات کی قلعی کھولی گئی ہے۔ تیسرے باب میں 13 ملزموں ، جن میں عبد الواحد شیخ بھی شامل ہیں ، کی داستان دردانگیز ہے۔ چوتھے باب میں انسانیت سوز پولیس ٹارچر کی تفصیلات دی گئی ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح اقبال جرم کرانے کے لیے نفسیاتی، جسمانی اور ذہنی اذیت سے دوچار کیا جاتا ہے۔ پانچویں باب میں انڈین مجاہدین کے سلسلے میں تین گواہوں کی تفصیلات ہیں اور چھٹے باب کا عنوان پولیس اسٹیٹ ہے۔ اس میں تین بم دھماکہ معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور آشیش کھیتان کے اسٹنگ آپریشن، اورنگ آباد اسلحہ ضبطی کیس اور اورنگ آباد میں ایک سابق فوجی کے گھر سے ہتھیار برآمد ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔
مصنف نے اپنے تجربات کی روشنی میں ایک چارج شیٹ کے حوالے سے لکھا ہے ’’اے ٹی ایس اور پولیس کی یہ چارج شیٹ اور اس میں بیان کردہ کہانی سفید جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ۔۔۔ کسی بھی کیس میں بے گناہوں کو گرفتار کرکے ہزاروں صفحات کی چارج شیٹ داخل کرنا اور لمبی چوڑی گواہوں کی لسٹ کورٹ میں داخل کرنا پولیس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔۔۔ پولیس نے گرفتار کرکے جس پر الزام لگا دیا وہ الزام اس وقت تک سچ مانا جاتا ہے جب تک کہ ملزم خود اس کے بارے میں اپنی بے گناہی کا ثبوت نہ مہیا کر دے۔۔۔ پولیس کے پاس ہر شہر میں سیکڑوں کیتعداد میں جھوٹے گواہ موجود ہوتے ہیں جن کو پہلے سے تیار کردہ گواہ Stock Wintness کہا جاتا ہے۔ جج حضرات لوگوں کا دل چیر کر نہیں دیکھتے کہ یہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔ دوسری طرف پولیس اس ملزم کو جھوٹے دلاسے دیتی ہے کہ تو خاموش رہ، تو نے کچھ نہیں کیا، یہ سب خانہ پری ہے، بیچارہ غفلت میں پڑا رہتا ہے اور گواہیوں کی بنیاد پر جج صاحب اس شخص کو ملزم سے مجرم قرار دے دیتے ہیں ۔۔۔ ‘‘۔
انھوں نے اس کتاب میں صرف متعصب پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کو ہی بے نقاب نہیں کیا ہے بلکہ عدالتی کارروائیوں اور جج حضرات کے فیصلوں کی روشنی میں ظلم و زیادتی کے واقعات بھی بیان کیے ہیں ۔ انھوں نے ایک جگہ ٹارچر کے حوالے سے لکھا ہے ’’ہم نے ان کے بیانات سے (کورٹ میں ملزمین ایک سے تیرہ کا حلفیہ بیان) ٹارچر کا حصہ حذف کر دیا اور آگے ٹارچر کے باب کے تحت تمام ٹارچر کو تفصیل سے لکھا ہے۔۔۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ جب ملزم کٹہرے میں کھڑے ہو کر یہ باتیں بیان کر رہے تھے تو جج صاحب کہہ رہے تھے ’’مجھے گیارہ ناوللکھنے پڑیں گے‘‘۔ یعنی انھیں یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کچھ ملزم کے ساتھ ہوا ہے‘‘۔ ٹارچر کی تفصیلات بیان کرنے کے دوران پولیس کے مختلف حربوں پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔ کس طرح ملزموں کو اقبالیہ بیانات پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’29اکتوبر 2006 کو انسپکٹر دیشمکھ، ٹونپی اور کندھارکر نے مجھے ٹارچر کیا۔ دیشمکھ بار بار کہہ رہا تھا کہ وہ مجھے ایک اعلی افسر کے سامنے پیش کرے گا جہاں مجھے چند کاغذات پر دستخط کرنے ہوں گے اور اگر میں نے انکار کیا تو وہ لوگ مجھے اور میری فیملی کے لوگوں کو مالیگاؤں کیس میں ڈال دیں گے۔۔۔ (اس پر بھی جب انھوں نے دستخط کرنے سے انکار کیا تو دیشمکھ نے کہا) اب تیری پوری فیملی یہاں ہوگی اور ہم سب کے سامنے تیری ماں اور تیری بہن کے ساتھ زنا کریں گے‘‘۔ اس کے علاوہ بھی پولیس والوں کے پاس بہت سے حربے ہوتے ہیں جن کی کتاب میں تفصیل ہے۔
عبد الواحد شیخ نے اس کتاب میں یہ مشورہ دیا ہے کہ اگر کوئی بے گناہ شخص پکڑا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ پولیس والوں کی جھانسے میں نہ آئے اور ان کے کہنے پر کسی بھی کاغذ پر دستخط نہ کرے۔ کیونکہ اگر اس نے کر دیا تو پھر اسے ہر حال میں سزا ہو جائے گی۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ پولیس والوں کی کارستانیوں سے عدالتیں بھی واقف ہوتی ہیں لیکن وہ محض کاغذی ثبوتوں کی روشنی میں فیصلے کرتی ہیں ۔ جیل میں کئی سال گزارنے والے عبد الواحد شیخ نے کمال جرأت مندی کے ساتھ یہ کتاب تصنیف کی ہے اور اسے شائع کرکے فاروس میڈیا نے بھی اپنی حق شناسی کا ثبوت دیا ہے۔ (فاروس میڈیا اس تعلق سے کئی کتابیں شائع کر چکا ہے۔) اس کے لیے یہ دونوں مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ اس کتاب کوتمام مسلمانوں کو پڑھنا چاہیے تاکہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ سازش کے تحت جو خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے اس سے وہ واقف ہو سکیں اور اپنے بچاؤ کی تدابیر کر سکیں ۔
نام کتاب: بے گناہ قیدی, نام مصنف: عبد الواحد شیخ، صفحات: 460، قیمت: 300 روپے
ناشر: فاروس میڈیا اینڈ پبلشنگ پرائیویٹ لمٹیڈ، D-84ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی۔110025
تبصرے بند ہیں۔