تجدید و احیائے دین کی روشنی میں انتخابی نتائج کا جائزہ
ڈاکٹر سلیم خان
شاہنواز فاروقی جماعت اسلامی پاکستان کے وہ صاحب طرز صحافی ہیں کہ جوجماعت کے باہر بھی خوب پڑھے جاتے ہیں۔ انہوں نے اس بار انتخابی نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اب تو نہ صرف جماعت کے باہر والے بلکہ اندر والے بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی جماعت اسلامی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ ایک حقیقت کا بلاتکلف اعتراف کرنے کے بعد موصوف نے جماعت اسلامی کی ناکامی کا دلچسپ جواز پیش کیا۔ فاروقی صاحب نے فرمایا کہ اگر مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کو کسی انتخاب میں صرف ۴ یا ۶ نشستوں پر کامیابی حاصل ہو تو دوچار ماہ کے بعد اس کا وجود ناپید ہوجائے گا لیکن جماعت پے درپے شکست کے باوجود ۲ یا ۴ ماہ میں پھر سے کھڑی ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ جماعت میں اخلاص ہے۔ اس کی نیت صاف ہے اور اس کے پاس نظریہ ہے۔ اس نظریہ کے ساتھ ہر شکست منظور ہے اور اس کے بغیر ہر فتح ناقابلِ قبول ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اخلاص نیت کا ثبوت پیش کرنے کے لیے انتخاب میں حصہ لینا ضروری ہے اور کیا انتخابی ناکامی کے بعد نظریہ کی حقانیت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی لٹریچر کی روشنی میں انتخابی ناکامیوں کا معروضی جائزہ لیا جائے۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی انتخابی جھمیلے میں پڑتی ہے کیوں ہے؟ سموئیل ہٹنگٹن نے تو خیر ۱۹۹۲ میں تہذیبی کشمکش کا فلسفہ پیش کیا لیکن انسانی تہذیب کے مزاج میں بالہ دستی کے عناصر کا ذکر مولانا مودودی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’تجدید و احیائے دین ‘ میں اس طرح کردیا تھا ’’ رہبانی تہذیب کو مستثنیٰ کر کے ہر وہ تہذیب جو دنیا کی زندگی کے متعلق ایک جامع نظریہ اور کاروبارِ دنیا کو چلانے کے لیے ایک ہمہ گیر طریقہ رکھتی ہو، قطع نظر اس سے کہ وہ جاہلیت کی تہذیب ہو یا اسلام کی، طبعاً اس بات کی طالب ہوتی ہے کہ حاکمانہ اختیارات پر قبضہ کرے، زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لے اور زندگی کا نقشہ اپنے طرز پر بنائے۔ حکومت کے بغیر کسی ضابطہ و نظریہ کو پیش کرنا یا اس کا معتقد ہونا محض بے معنی ہے‘‘۔ یہ کوئی دنیا پرستی کی افتراء یا ضرورت نہیں ہے بلکہ مولانا مودودی کے مطابق ’’ دنیا میں انبیاء علیہم السلام کے مشن کا منتہائے مقصود یہ رہا ہے کہ حکومتِ الٰہیہ قائم کر کے اس پورے نظامِ زندگی کو نافذ کریں جو وہ خدا کی طرف سے لائے تھے‘‘۔ جماعت اسلامی اسی مقصد کے حصول کی خاطر انتخابی دنگل میں اتر تو جاتی ہے مگر اس کے لیے درکار دیگر تیاریوں کا جائزہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اسی بابت کوتاہی کے سبب ناکامیوں کا سلسلہ دراز ہو جاتا ہے۔
اس کتاب میں اسلام اور جاہلیت کے فرق کو اس طرح واضح کیا گیاہے کہ ’’یہ (اسلام) ایک مستقل نظامِ فلسفہ پیدا کرتا ہے جو جاہلیت کے فلسفوں سے بنیادی طور پر بالکل مختلف ہوتا ہے۔ کائنات اور خود وجودِ انسانی کے متعلق معلومات کے پورے ذخیرہ کو ایک دوسرے ڈھنگ پر مرتب کرتا ہے جس کی ترتیب جاہلی علوم کی ترتیب سے سراسر متباین ہوتی ہے‘‘۔ ان مفکرین کرام کو جنہیں مغربی افکار میں اسلامی عناصر یا اسلام میں ان سے مماثلت نظر آتی ہے انہیں چاہیے کہ اس اقتباس پر نظر ڈال لیں ’’اس کی ہر چیز میں اول سے آخر تک ایک خاص نقطۂ نظر، ایک خاص مقصد اور ایک خاص اخلاقی رویہ کار فرما ہوتا ہے جس کا براہِ راست تعلق خدائے واحد کی حاکمیتِ مطلقہ اور انسان کی محکومیت و مسئولیت، اور دنیا کے بجائے آخرت کی مقصودیت سے جڑا ہوا ہوتا ہے‘‘۔مغرب کی لادینی جمہوریت ان تینوں عناصر کا نہ صرف منکر بلکہ ان سے بیزار ہے اوربدقسمتی سے دستور پاکستان کے زبانی کلمہ پڑھ لینے کے باوجودپاکستان کا انتخابی نظام اور مہم پوری طرح مغربی جمہوریت کا پرتو ہے۔
مولانا مودودی ؒ نے’تجدید و احیائے دین‘میں خلافتِ راشدہ کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے لے کر شاہ ولی اللہؒ تک مختلف ادوار میں اٹھنے والی تحریکات پر تبصرہ کرنے کے بعد جماعت کے قیام کو کارِ تجدید کاتسلسل قرار دیا اور نصیحت فرمائی کہ وابستگانِ جماعت کو ماضی کے تجربات اوربزرگوں کی قربانیوں سے حوصلہ و ترغیب حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی لغزشوں سے بچنے کی سعی کرنی چاہیے۔ ابتدائی مراحل میں تو اپنی غلطیوں کا جائزہ لینا ممکن نہیں تھا لیکن ۷۷ سال بعد جماعت کی کامیابیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لینے کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ماضی کی یا دیگر معاصر تحریکات پر تنقید جس قدر سہل ہے خود اپنا بے لاگ جائزہ ایسا آسان نہیں ہے۔ اس میں جماعتی محبت اور اپنے رہنماوں کی عقیدت رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس لیے جماعت کے دستور میں موجود ‘معیارِ حق’ کی وضاحت پیش نظر رہنی چاہیے جس کے مطابق صرف اور صرف کتاب و سنت کی کسوٹی پر ہر نقطۂ نظر اور رویہّ کے برحق ہے یا برسرِحق ہونے کو جانچا یا پرکھا جائے گا۔ اس اصول کا اطلاق انبیاء علیہم السلام کے علاوہ ہر فرد بشمول شاہ ولی اللہ محدث دہلوی یا مولانا ابوالاعلیٰ مودودی پر ہوگا ۔
جماعت کے لٹریچر میں ’تجدید و احیائے دین‘(ت و ا د) کو دو معنیٰ میں دوسری کتب پر امتیاز حاصل ہے۔ اول تو اس میں تشکیل جماعت کا پس منظر بڑی خوبی سے واضح کیا گیا ہے دوسرے اس میں ماضی کی تجدیدی تحریکات کا بے لاگ جائزہ لینےاور خود احتسابی پر بہت زور دیا گیا۔ اس کتاب کے اندر جائزے کے لیے لازمی کسوٹی بھی موجودہے۔مولانا مودودی نے تجدد اور تجدید کا فرق واضح کرتے ہوئےکارِ تجدیدکی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ ’’جاہلیت سے مصالحت کی صورتیں نکالنے کا نام تجدید نہیں ہے اور نہ اسلام اور جاہلیت کا کوئی نیا مرکب بنانا تجدید ہے، بلکہ دراصل تجدید کا کام یہ ہے کہ اسلام کو جاہلیت کے تمام اجزاء سے چھانٹ کر الگ کیا جائے، اور کسی حد تک اس کو اپنی خالص صورت میں پھر سے فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔ اس لحاظ سے مجدد جاہلیت کے مقابلہ میں سخت غیر مصالحت پسند آدمی ہوتا ہے اور کسی بھی خفیف سے خفیف جز میں بھی جاہلیت کی موجودگی کا روادار نہیں ہوتا‘‘۔ جاہلیت کے ساتھ مداہنت کو ناقابلِ برداشت قرار دینے کے بعد مولانا نے تجدید کے ۹ شعبے بیان فرمائے لیکن ان میں بھی ۳ کو بنیادی اہمیت کا حامل بتایا جو حسبِ ذیل ہیں:
- اپنے ماحول کی صحیح تشخیص:
- یعنی حالات کا پورا جائزہ لے کر یہ سمجھنا کہ جاہلیت کہاں کہاں کس حد تک سرایت کر گئی ہے ؟( ت و اد)
- کیااس زاویہ سےقبل از انتخاب حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جاتا اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مغربی جاہلیت کی علمبردار سیاسی جماعتوں نےمعاشرے کو کس مضبوطی سے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے؟
- اس میں شک نہیں کہ پاکستان کے دستور نے زبان سے کلمہ پڑھ لیا ہے لیکن یہ وہاں کے حکمران طبقہ اور عوام کے گلے سے نیچے نہیں اترا۔ فکرو عمل کی سطح پر آج بھی زندگی کے ہر شعبے میں مغربی افکار و نظریات کا بول بالہ ہے۔
- (جاہلیت) کن کن راستوں سے آئی ہے۔(ت و ا د)
- کون کون سےبالواسطہ یا بلاواسطہ ذرائع و وسائل کو کام لاکر عوام کی ذہن سازی کی جارہی ہے؟
- اس کی جڑیں کہاں کہاں اور کتنی پھیلی ہوئی ہیں، اور(ت و ا د)
- جدید جاہلیت افکارو نظریات سے لے کر عادات و اطوار تک ہر شعبے میں اپنے پیرکہاں تک پھیلا رکھے ہیں ۔ عوام و خواص نادانستہ اس کو اپنے لیے باعثِ خیرو برکت سمجھتے ہیں اور اس کو اسلام سے بدلنے پر آمادہ ہیں یا نہیں؟
- اسلام اس وقت ٹھیک کس حالت میں ہے۔(ت و ا د)
- عقائد و عبادات کی حدتک تو اسلام یقیناًترقی کررہا ہے لیکن معاملات میں اس کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ معیشت و سیاست میں تو اسلامی تعلیمات کو بالکل قابلِ اعتناء نہیں سمجھا جاتا۔
- تحریک اسلامی عوام کی ناراضگی سے بچنے کے لیے سیکولر جمہوری افکار کو باطل قرار دے کراسے مسترد کرنے کے بجائے نادانستہ اپنے آپ کو اس حقیقی وفادار ثابت کرنے اور اسے بحال کرنے کا دم بھرتی ہے۔
- اصلاح کی تجویز:
- یعنی یہ تعیّن کرنا کہ اس وقت کہاں ضرب لگائی جائے کہ جاہلیت کی گرفت ٹوٹے اور اسلام کو پھر اجتماعی زندگی پر گرفت کا موقع ملے۔ (ت و ا د)
- انتخاب سے چند سوالات کا جائزہ لیا جائے کہ کیا اس صورتحال میں انتخابی مہم یا کامیابی سے اس نظام کو وہ ضرب لگے گی کہ وہ پاش پاش ہوجائے؟ اور اسلام کو پھر سے اجتماعی زندگی کو اپنی گرفت میں لینے کا موقع ملے؟
- ممکن ہے ان سوالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ انتخابی عمل کوایک خوش فہمی زیادہ اہمیت نہ دے اورسیاسی مہم کو لاحاصل جدوجہد قرار دے ڈالے۔
- خود اپنے حدود کا تعین:
- یعنی اپنے آپ کو تول کر صحیح اندازہ لگانا کہ میں کتنی قوت رکھتا ہوں اور کس راستہ سے اصلاح کرنے پر قادر ہوں۔(ت و ا د)
- انتخابی عمل بنیادی نہیں بلکہ سطحیتبدیلی کا متحمل ہے۔ اس محدودفائدے اورسطحی تبدیلی کے لیے بھی جو وسائل درکار ہیں ان پرجماعت کی کس حدتک دست رس ہے۔
- یہ سوال بھی اہم ہے کہ موجودہ صورتحال میں انتخابی عمل جس مداہنت کا تقاضہ کرتاہے۔ کیا اس مصالحت کی اجازت اسلام دیتا ہے؟
- یعنی اپنے آپ کو تول کر صحیح اندازہ لگانا کہ میں کتنی قوت رکھتا ہوں اور کس راستہ سے اصلاح کرنے پر قادر ہوں۔(ت و ا د)
- یعنی یہ تعیّن کرنا کہ اس وقت کہاں ضرب لگائی جائے کہ جاہلیت کی گرفت ٹوٹے اور اسلام کو پھر اجتماعی زندگی پر گرفت کا موقع ملے۔ (ت و ا د)
- یعنی حالات کا پورا جائزہ لے کر یہ سمجھنا کہ جاہلیت کہاں کہاں کس حد تک سرایت کر گئی ہے ؟( ت و اد)
تجدید و احیائے دین میں امام غزالی کے دور کا جو نقشہ کھینچا گیا وہ آج کل کے حالات سے بہت مماثل ہے۔ اس وقت یونانی فلسفہ کی یلغار تھی آج کل مغربی لادینیت کا غلغلہ ہے۔ امت کے خواص دو حصوں میں بنٹ گئے تھے۔ یونانی فلسفہ کے عقلیت کی حمایت کرنے والے اسلام سے نابلد تھے اور علوم دینیہ کے ماہرین یونانی نظریات سے ناواقف تھے اس لیے اس کا جواب دینے سے قاصر تھے۔ فی زمانہ بالکل یہی صورتحال ہے۔ امت کے خواص مغرب زدہ دانشوروں اور ایسے علماء میں منقسم ہیں جو ایک دوسرے کو نہ سمجھتے ہیں اورنہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ عوام اس زمانے میں فضول کاموں میں منہمک تھےاور آج بھی ہیں۔ ایسے میں امام غزالی ’’ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی نظامیہ بغداد کے ریکٹر مقرر ہوئے۔ نظام الملک طوسی، ملک شاہ سلجوقی اور "خلیفہ” بغداد کے درباروں میں اعتماد حاصل کیا۔ وقت کے سیاسیات میں یہاں تک دخیل ہوئے کہ سلجوقی فرمانروا اور عباسی "خلیفہ” کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوتے تھے ان کو سلجھانے کے لیے ان کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں‘‘۔
تحریک اسلامی سے وابستہ بہت سارے دانشور اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کی مصالحت کرنے کے لیے بے قرارہیں اور انتخابات میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے کی پر زور وکالت کرتے ہیں لیکن مولانا فرماتے ہیں ’’ دنیوی عروج کے اس نقطہ پر پہنچ جانے کے بعد ان (امام غزالی )کی زندگی میں انقلاب رونما ہوا۔ اپنے زمانہ کی علمی، اخلاقی، مذہبی، سیاسی اور تمدنی زندگی کو جتنی گہری نظر سے دیکھتے گئے اُسی قدر ان کے اندر بغاوت کا جذبہ ابھرتا چلا گیا۰۰۰ آخر کار اُن تمام اعزازات، فوائد و منافع اور مشاغل پر لات مار دی جن کے جنجال میں پھنسے ہوئے تھے۔ ۰۰۰۰ بادشاہوں کے تعلق اور ان کی وظیفہ خواری سے توبہ کی، جدال و تعصب سے پرہیز کرنے کا دائمی عہد کیا، ان تعلیمی ادارات میں کام کرنے سے انکار کر دیا جو سرکاری اثر میں ہوں اور طوس میں خود اپنا ایک آزاد ادارہ قائم کیا۔ اس ادارہ میں وہ چیدہ افراد کو اپنے خاص طرز پر تعلیم و تربیت دے کر تیار کرنا چاہتے تھے مگر غالباً ان کی یہ کوشش بڑا انقلاب انگیز کام نہ کر سکی کیونکہ پانچ چھ سال سے زیادہ ان کو اس طرزِ خاص پر کام کرنے کی اجل ہی نے مہلت نہ دی‘‘۔ دن رات سرکار دربار کے خواب دیکھنے والوں کو امام غزالی کے کردار سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔
امام غزالی نے ’’ فلسفۂ یونان کا نہایت گہرا مطالعہ کر کے اس پر تنقید کی اور اتنی زبردست تنقید کی کہ اس کا وہ رعب جو مسلمانوں پر چھا گیا تھا، کم ہو گیا اور لوگ جن نظریات کو حقائق سمجھ بیٹھے تھے، جن پر قرآن و حدیث کی تعلیمات کو منطبق کرنے کے سوا دین کے بچاؤ کی کوئی صورت انہیں نظر نہ آتی تھی، اُن کی اصلیت سے بڑی حد تک آگاہ ہو گئے۔ امام کی اس تنقید کا اثر مسلم ممالک ہی تک محدود نہ رہا بلکہ یورپ تک پہنچا اور وہاں بھی اس نے فلسفۂ یونان کے تسلط کو مٹانے اور جدید دورِ تنقید و تحقیق کا فتحِ باب کرنے میں حصہ لیا‘‘۔تحریک اسلامی کے ذریعہ جدید مغربی نظریات کے حوالے سے کماحقہُ یہ کام ہنوز ہونا باقی ہےلیکن اس سے قبل ہی ہم نے اپنی توانائی کو بے شمار عملی کاموں میں جھونک دیا ہے جس کی وجہ سے ایک جانب تو خاطر خواہ نتائج نہیں نکل رہے ہیں نیز ان اضافی مشغولیات کے سبب آئندہ کے لیے بھی اس کا امکان مفقود ہوگیا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے سامنے بھی جو مغرب کا علمی وفکری چیلنج تھا اورجس نے مسلمانوں کو انگریزوں کے آگے پسپا کردیا اس کا ذکر مولانا مودودی نے تفصیل سے کیا ہے لیکن ہم علمی میدان میں سرخروئی کو ضروری نہیں سمجھتے۔ جماعت اسلامی کو ٹھہر کر اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم نے انتخابی میدان میں اترنے سے قبل عوام کو اصلاحی انقلاب کے لیے کس حد تک آمادہ کرنے میں کامیا بی حاصل کی ہے؟ اگر نہیں تو جیسا کہ شہیدین کی تحریک سے متعلق لکھا ہے کہ ’ گویا سماجی تبدیلی سے پہلے، قبل از وقت سیاسی اقدام کردیاگیا‘ والے بیان کا اطلاق کیا ہم پر نہیں ہوگا ؟ کہیں ہم بھی تو سماجی تبدیلی سے پیشتر سیاسی اقدام کرگذرنے کی مرتکب تو نہیں ہوگئے۔ اس بات کا قوی امکان ہے ان سوالات کے درست جوابات جماعت کی آئندہ حکمت عملی پر اثر انداز ہوں۔ علمی میدان میں کام کے تعلق سے اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ یوروپ کے عیسائی راہب اپنی عوام کو دہریت کا شکار ہونے سے نہیں بچا سکے لیکن امام غزالی کی سعیٔ جمیل سے مسلمانوں کے عقائد محفوظ رہے۔
ماضی و حال کی تحریکاتِ تجدید سے مستفید ہونے کے لیے مولانا مودودیؒ کے ذریعہ تحریک شہیدین کا دیانت دارانہ جائزہ مشعلِ راہ ثابت ہوسکتا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں ’’اس آخری مجدّدانہ تحریک کی ناکامی کے اسباب پر بحث کرنا عموماً ان حضرات کے مذاق کے خلاف ہے جو بزرگوں کا ذکر عقیدت ہی کے ساتھ کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے مجھے اندیشہ ہے کہ جو کچھ میں اس عنوان کے تحت عرض کروں گا وہ میرے بہت سے بھائیوں کے لیے تکلیف کا موجب ہو گا‘‘۔ یہی بات متوسلین جماعت پر بھی صادق آتی ہے کہ جب ناکامیوں کا ذکر ہوتا ہے تو وہ اس حقیقت کو بھول کر چراغ پا ہوجاتے ہیں کہ انسانی تحریکات نسیان سے پاک نہیں ہوتیں۔ مولانا نے واضح کیا کہ ’’ اگر ہمارا مقصد اس تمام ذکر اذکار سے محض سابقین بالایمان کو خراجِ تحسین ہی پیش کرنا نہیں ہے بلکہ آئندہ تجدیدِ دین کے لیے ان کے کام سے سبق حاصل کرنا بھی ہو، تو ہمارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ تاریخ پر تنقیدی نگاہ ڈالیں اور ان بزرگوں کے کارناموں کا سراغ لگانے کے ساتھ اُن اسباب کا کھوج بھی لگائیں جن کی وجہ سے یہ اپنے مقصد کو پہنچنے میں ناکام ہوئے‘‘۔ وقت آگیا ہے جماعت اسلامی کی ناکامیوں کا بھی غیر جاندارانہ سراغ لگایا جائے۔سرزمین ہند پر اٹھنے والی پہلی اسلامی تحریک کی ناکامی کے پسِ پشت کارفرما وجوہات کی روشنی جماعت اسلامی پاکستان کی انتخابی ناکامی کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ مولانا مودودی نے ناکامی کی حسب ذیل وجوہات پیش کی ہیں :
’’انہوں (تحریک شہیدین کے قائدین) نے تصوف کے بارے میں مسلمانوں کی بیماری کا پورا اندازہ نہیں لگایا اور نادانستہ ان کو پھر وہی غذا دے دی جس سے مکمل پرہیز کرانے کی ضرورت تھی‘‘۔ عصر حاضر میں مغربی اصطلاحات کے استعمال سے وہی نقصان ہورہا ہے جو کسی زمانے میں تصوف کی پیروی سے ہوا تھا ۔ ہم نے یہ کیا کہ مغرب کی تمام عیاریوں اور مکاریوں سے واقفیت کے باوجود مغرب کی رائج اصطلاحات کا بے دریغ بلا احتیاط استعمال کیا حالانکہ انہیں مسترد کرکے ان کے متبادل اصطلاحات وضع کرنا اور رائج کرنا ناگزیر ہے۔ مغرب کی اصطلاحات اپنے خرافات کے ساتھ آتی ہیں اوران کے استعمال سے ایک ایسا خلط مبحث معرض وجود میں آتا ہے جس سے حق و باطل آپس میں گڈ مڈ ہو جاتا ہے۔نیز اسلام نظام باطل کا متبادل کے طور پر نہیں بلکہ محافظ و معاون کے طور سامنے آتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال جمہوریت کی بحالی نامی اصطلاح کا من و عن استعمال ہے۔
دوسری وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ ’’سید صاحب اور شاہ شہید نے جس علاقہ میں جا کر جہاد کیا اور جہاں اسلامی حکومت قائم کی، اس علاقہ کو اس انقلاب کے لیے پہلے اچھی طرح تیار نہیں کیا تھا، ان کا لشکر تو یقیناً بہترین اخلاقی و روحانی تربیت پائے ہوئے لوگوں پر مشتمل تھا، مگر یہ لوگ ہندوستان کے مختلف گوشوں سے جمع ہوئے تھے اور شمال مغربی ہندوستان میں ان کی حیثیت مہاجرین کی سی تھی۔ اس علاقہ میں سیاسی انقلاب برپا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ خود اس علاقہ ہی کی آبادی میں پہلے اخلاقی و ذہنی انقلاب برپا کر دیا جاتا، تاکہ مقامی لوگ اسلامی نظامِ حکومت کو سمجھنے اور اس کے انصار بننے کے قابل ہو جاتے‘‘۔جماعت اسلامی کو ٹھہر کر اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم نے انتخابی میدان میں اترنے سے قبل عوام کو اصلاحی انقلاب کے لیے آمادہ کیا؟ اگر نہیں تو سماجی تبدیلی سے پہلے، قبل از وقت سیاسی اقدام کیونکر مفید ہوسکتا ہے؟
ان ناکامیوں کی وجوہات سے علی الرغم مولانا نے تحریک شہیدین کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے کہ ’’ ایک چھوٹے سے علاقہ میں حکومت کرنے کا جو تھوڑا سا موقع ملا، انہوں نے ٹھیک اس طرز کی حکومت قائم کی جس کو خلافت علٰی منہاج النبوۃ کہا گیا ہے۔ وہی فقیرانہ امارت، وہی مساوات، وہی شوریٰ، وہی عدل، وہی انصاف، وہی حدودِ شرعیہ، وہی مال کو حق کے ساتھ لینا اور حق کے مطابق صرف کرنا، وہی مظلوم کی حمایت اگرچہ ضعیف ہو، اور ظالم کی مخالفت اگرچہ قوی ہو، وہی خدا سے ڈر کر حکومت کرنا اور اخلاقِ صالحہ کی بنیاد پر سیاست چلانا۔ غرض ہر پہلو میں انہوں نے اس حکمرانی کا نمونہ ایک مرتبہ پھر تازہ کر دیا جو صدیق و فاروق (رضی اللہ عنہم اجمعین) نے کی تھی‘‘۔ اس کے باوجود اگر وہ سعید روحیں طبعی وجوہات کی بناء پر ناکام ہوگئے تو ہم اس سے مستثنیٰ کیوں کر رہ سکتے ہیں؟
’تحریک شہیدین‘ کے قائدین کوجس طرح مخالف کی طاقت اور اس میں اضافہ کی وجوہات اور اس کے پیچھے کارفرما سماجی وتاریخی عوامل کا خاطر خواہ علم نہیں تھا اسی طرح ہمیں بھی انتخابی دنگل میں جن جماعتوں سے سابقہ پیش آتا ہے ان کی کامیابی کے پیچھے کارفرمانفسیاتی و معاشی عوامل کا کماحقہُ اندازہ نہیں ہوتا۔ اس امر میں کوتاہی جماعت کو حقیقت سے دور ایک خیالی دنیا میں مصروف کار رکھتی ہے اوراس خوش فہمی کو راہوں کی ٹھوکر بھی دور نہیں کرپاتی ہے۔پاکستان کے اندر ہر انتخاب کے بعد جماعت اسلامی کے حلقہ میں یہ شعر ضرور دوہرایا جاتا ہے کہ ’گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گھٹنوں کے بل چلنے والے بچے میدانِ جنگ میں نہیں گرتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جنگ کے لیے میدان میں نہیں اترتے۔ اسی لیے مرزا عظیم بیگ عظیم نے مذکورہ مصرع نہیں کہا۔ ان کاتو مصرع تھا ’شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق‘ ہے۔ نہ جانے کیوں اور کس نے اس کو بدل دیا، حیرت کی بات یہ ہے کہ نقلی مال اصلی سے زیادہ مشہور ہوگیا۔ ویسےاگر کبھی بچے کو گھڑ سواری کا شوق چرآئے اور وہ کسی کی مدد سے گھوڑے پر سوار ہوکر میدانِ جنگ میں کودپڑے تو دیگر شہ سواروں کےمقابلے اس کا منہ کے بل گرجاناباعثِ حیرت نہیں ہوگا۔ جماعت اسلامی پاکستان کو ہر انتخاب کے بعد اس شعر کوپڑھ کر دل بہلانے کے بجائے سوچنا چاہیے کہ آخر یہ دورِ طفولیت کب اور کیسے ختم ہوگا؟
بصیرت افروز.ایسا ہی تجزیہ ہندوستان کی جماعت کا بھی ہونا چاہیے.