توبتہ النصوح
نادیہ عنبر لودھی
توبتہ النصوح ڈپٹی نذیر احمد کا شہرہ آفاق اصلاحی ناول ہےنذیر احمد ایک مذہبی پس منظر رکھتے تھے لہذا انکے تمام ناول مقصدیت کے تحت لکھے گئےان کا اسلوب ہر ناول میں ایک جیسا ہےان کی ہر ہر سطر سےوعظ کا عنصر چھلکتا ہے۔ اکثر مقامات پر لمبی تقریریں ناول میں بور ریت پیدا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن چونکہ ان کا مقصد اصلا حی ہے لہذا یہ خامی قابل قبول ہے۔ یہ ناول موجودہ نوجوان نسل کو اسلام پہ عمل کادرسدیتا ہے جو کہ لائق۔ تحسین ہے۔ یہ ناول ایم اے۔اردو کے نصاُب کا حصہ ہے
ایم اردو کے طالب علم ہونے کے باعث ہم نے بھی اپنے زمانہ۔طالب علمی میں اس کو باریک بینی سے پڑ ھا لیکن مرے اس مضمون کا ڈپٹی نذیر احمد کے ناول سے کوئی تعلق نہین ہے اور نہ ہی یہ مضمون ڈپٹی نذیر کےناول کی پیروڈی ہے نہ ناول پر تنقید مقصد ہے بلکہ یہ مضمون اسلامی تعلیمات توبہ اور استغفار سے متعلق ہے نام کی یکسانیت کی وجہ سے یہ تمہید باندھی گئی۔
توبتہ النصوح سے مراد حتمی توبہ ہے ایسی توبہ جس کے بعد گناہ کی طرف واپس لوٹنا ناممکن ہو۔ انسان خطا کا پُتلا ہے۔ اپنے ماضی پر نظر دوڑائیے۔ ہم بے شمار گناہ کر کے بھول چکے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو یاد ہیںجن پر کبھی کبھی اشک۔ ندامت بہا لیتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو وقت کی خاک میں مل کر خاک ہوۓ۔ جن کے نام و نشاں بھی مٹ گئے لیکن وہ کراماً کاتبین کے رجسٹر میں درج ہیں یہ گناہ ہمارے ساتھ اعمال کی گھٹری میںبندھ کر قبر میں جائیں گے۔ ان گناہوں پر زبانی تو ہم استغفار کر لیتے ہیں لیکن عملی طور پر ان سے تائب نہیں ہوتے۔ یہ مثال دور ِ حاضر کے حاجیوں پر خوب صادق آتی ہے۔ بیت اللہ کی حاضری قسمت والوں کا نصیببنتی ہے۔ گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کے معافی مانگنے کے بعد کاش کہ ان گناہوں سے اجتناب بھی لازم ہو۔ اگر یہ حاجی خود کو تبدیل کر کے اپنی اصلاح کر لیں تو شاید ہمارا آدھا معاشرہ سدھر جاۓ لیکن پھر وہی لذت ِ گناہ۔
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبعیت ادھر نہیں آتی
(غالب)
یہ زندگی جس کا آج ہم حصہ ہیں عنقریب اس کی ڈور ہمارے ہا تھوں سے چھوٹنے والی ہے۔ زندگی جو بے بندگی ہو۔ شرمندگی بن جایا کرتی ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہو نے والے ہر مسلمان کا پہلا فرض نماز ہے۔
موذن دن میں پانچ دفعہ اللہ کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور ہم میں سے اکثریت سنی ان سنی کر دیتی ہے۔ جو قدم اٹھاتے ہیں ان میں سے خشوع وخضوع اور نماز کا فیض بھی ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا۔ ایسا کیوں ہے؟ہماری عبادات ہمیں وہ نور کیوں نہیں دے پاتی۔ جو ملنا چاہئیے۔
نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے تو پھر ہم رک کیوں نہیں پا تے۔ کیونکہ کمی ہماری نماز میں ہے۔
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرات والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اقبال
کہیں حرام کا لقمہ پیٹ میں ہے تو کہیں دھیان دنیا میں۔ کہیں نظر بے حیا ہے تو کہیں حقوق العباد سے غفلت ہے۔ میر ا مال میرا نہیں مرے رب کا دیا ہے۔ اسکے بندوں کا اس میں حق ہے مگر میں تو اسے اپنا مال سمجھتا ہوں۔ اسکو اپنے اوپر خرچ کر تا ہوں۔ کسی کی ضرورتسے مری برانڈنگ زیادہ اہم ہے۔ جس ملک میں لوگ بھوک سے مجبور ہو کے خو کشی کریں۔ لڑکیاں پیٹ کی آگ بجھا نے کے لیے عزتیں نیلام کریں۔وہاں میں ہزاروں روپے ایک وقت کی ہو ٹلنگ پہ خرچ کرتا ہوں۔ اورپھر مجھے دعوی ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ اپنےرسول کا امتی ہوں -سب سے بہترین صدقہ بھوکے کو روٹی کھلانا ہے۔
جہنم میں جب مجرموں سے پو چھا جاۓ گا کہ تمہیں کیا چیز جہنم میں لائی ؟
تو
وہ کہیں گے
ہم نماز نہیں پڑ ھتے تھے
ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے
ہم شغل کرتے تھے شغل کر نے والوں کے ساتھ
اور ہم آخرت کو جھٹلاتے تھے ! (سورہ مدثر )
شغل کر نا یعنی وقت کا ضیاع۔ بے کار کاموں میں رات دن کرنا۔ ایسا کام جس میں دین و دنیا کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ اس میں لگے رہنا۔ یہ سمجھنا زندگی میری ہے جو چاہے کروں۔ نہیں۔
یہ زندگی میرے پاس میرے رب کی امانت ہے۔ میں اپنی مرضی کا مالک نہیں ہوں۔ مجھے ہر قدم پہ اس کا حکم بجا لانا ہے۔ نہ تو میری مرضی ہے نہ میرا اختیار۔
میں بندہ ہوں۔ بندگی میرا شعار ہو نا چاہئے۔
یہ اس وقت ہو گا جب میری آخرت پر نظر ہو گی۔ آخرت پر یقین مجھے برے رستے سے روکے گا۔
اور یہ ہی مری اخروی نجات کا باعث بنے گا۔
یہ زندگی اس زندگی کی کامیابی بن جاۓ گی۔
تبصرے بند ہیں۔