جلیا ں والا باغ پولیس مظالم کا زخم پھرتازہ ہوگیا

اشرف علی بستوی
گزشتہ ہفتے پولیس کی زیادتی اور بربریت کی انتہائی دل سوز خبر ریاست آسام کے تنسکیا سے موصول ہوئی ہے ۔ اس واقعے نے ایک بار پھر 13 اپریل 1919 کے جلیا ں والا باغ میں ہوئے پولیس زیادتی کے زخم کو تازہ کر دیا ، آسام کے تنسکیا سانحے کی تاریخ بھی اتفاق سے 13 اپریل ہی تھی پولیس نے بھیڑ کو قابو میں کرنے کے لئے گولی چلادی جس سے هائی ٹینشن تار ٹوٹ کر گرنے سے ہوئے حادثے میں گیارہ افراد لقمہ اجل بن گئے ۔ یہ واقعہ پولیس زیادتی کی تازہ مثال ہے. پولیس کا کہنا ہے کہ ہجوم نے تھانے پر حملہ کر دیاتھا اس لئے اسے روکنے کے لئے پولیس میں گولی چلانی پڑی جو تار سے ٹکرائی اور وہ ٹوٹ کر نیچے گر گیا جس کی زد میں آنے سے لوگوں کی موت ہو گئی.
واقعہ یہ ہے کہ آسام کے تنسکیا علاقے میں کچھ نامعلوم افراد نے تین افراد کو اغوا کر لیا تھا، اگلے دن ان میں سے دو لوگوں کی لاش برآمد ہوئی. اس معاملے کی چھان بین میں پولیس نے کچھ لوگوں کو گرفتار کر لیا تھا. مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ پولیس گرفتار لوگوں کو ان کے حوالے کر دے. اس کے چلتے پولیس اور مقامی لوگوں کے درمیان ٹکراو بڑھتا گیا. یہ ایسا معاملہ نہیں تھا، جس پر مقامی لوگوں کے ساتھ ٹھیک سے بات چیت کی گئی ہوتی تو انہیں سمجھاپا نا مشکل تھا. مگر پولیس کو شاید اس بات کی تربیت نہیں ہے کہ نازک مسئلوں کو حل کرنے کے لئے کس طرح کی حساسیت اور مقامی لوگوں کے ساتھ انسانی رویے کی ضرورت ہوتی ہے. پولیس ہمیشہ خوف کا ماحول بنا کر قانون کے ساتھ عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے. یہی تنسكيا کی صورت میں بھی ہوا.جبکہ اصولی طور پر پولیس کو لاٹھی چارج یا پھر گولی چلانے کا فیصلہ تب لینا چاہئے، جب صورت حال بے قابو ہو جائے. اس طرح کے حالات میں بھیڑ پر قابو پانے کے لئے پانی کی بوچھار، آنسو گیس، ربڑ کی گولی چلانے وغیرہ کا انتظام کیا گیا ہے. لیکن حیرت کی بات ہے کہ آسام پولیس نے ہوا میں گولی داغنے کا فیصلہ کیا. جب بھی ہوا میں گولی داغنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ گولی لگنے سے کوئی نقصان تو نہیں ہوگا. چونکہ پولیس کو اپنی وردی کارعب جمانے کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ وہ حکمت و دانائی سے کام لینا ضروری نہیں سمجھتی.
آسام کے بعض قبائلی علاقوں کے لوگوں کا انتظامیہ کے ساتھ عدم تعاون کا رویہ کوئی نیا نہیں ہے یہ حکومت اور مقامی لوگوں میں عدم اعتماد کی وجہ سے دراز ہوتا جا رہا ہے. اسی کے پیش نظر وہاں طویل عرصے سے پولیس کے کام کاج کے طور طریقے میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیے جانے کی بات ہوتی رہی ہے ، مگر اس سمت میں کوئی قابل ذکر تبدیلی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے . پولیس نے اگر مقامی لوگوں کو اعتماد میں لے کر بات چیت کی پہل کی ہوتی، تو شاید اسے گولی چلانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی. یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، جب پولیس کے غیر ذمہ دارانہ عمل سے سے لوگوں کی جان گئی ہے۔ متعدد موقعوں پر پولیس کے لاٹھی چلانے، بے قابو ہجوم پر گولی چلانے کی وجہ سے لوگوں کی موت ہو چکی ہے. اس لئے پولیس اصلاحات سے متعلق سفارشات میں سب سے پہلے پولیس کے کام کاج کے طریقوں کو بہتر بنانے کی باتیں ہوتی رہی ہے لیکن اس سمت میں کوئی مثبت نتیجہ نہیں آ سکا ہے ۔
اس واقعے کا ایک دوسرا پہلو بھی انتہائی تشویش ناک ہے ، یہ رجحان گزشتہ ڈیڑھ برس میں سامنے آیا ہے ، آئے دن دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی بھی واقعے کے بعد لوگ تھانے کا گھیراو کرلیتے ہیں اور ملزم کو اپنے حوالے کر نے کا مطالبہ شروع کر دیتے ہیں ، یعنی قانونی کا رروائی کے بغیراپنے ہاتھوں سزا دینے کی بات کرنے لگتے ہیں ، ماضی قریب میں کئی ایسے معاملات سامنے آئے مارچ 2015 میں دیما پور میں عصمت دری کے ملزم فرید خان کو پر تشدد بھیڑ نے جیل سے نکال کر مارڈالا تھا ، دادری میں محمد اخلاق کا قتل بھی اسی کڑی کا حصہ گزشتہ دنوں ہمانچل پردیش ،جھارکھنڈ ،کانپور سمیت ملک کے دیگر مقامات پر پر تشدد بھیڑ نے قانون و انتظام کی تمام حدیں پار کردیں ،جانوروں کی تجارت سے وابستہ افراد کو پیٹ پیٹ کر مارڈالا ،کانپور میں ایک دلت کو اسی طرح قتل کر دیا گیا ،تشویش ناک پہلو یہ ہے کی یہ سبھی معاملے دلتوں آدیباسیوں،اور مسلم اقلیتوں سے متعلق ہیں ، سوال یہ ہے کہ یہ پر تشدد بھیڑ گزشتہ 22 ماہ میں ہی اس قدر بے قابوکیوں ہو گئی ،قانون کا خوف کچھ لوگوں کے دلوں سے کیوں نکلا جا رہا ہے ؟ کیا یہ بڑے پیمانے پر قانون شکنی کے لیے تربیت کا سامان تو نہیں ہے ؟ پے درپے ہونے والے قانون شکنی کے واقعات نے سنجیدہ شہریوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے ۔ اس طرح کے واقعات میں ہونے والی جانچ کے نتائج میں تاخیراور سیاسی پشت پناہی سے شرپسندوں کے حوصلے بلند ہوتے جارہے ہیں ۔ اس کے لیے بڑی حد تک ہمارا سست عدالتی نطام بھی ذمہ دار ہے ۔ اسے ایک تازہ مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے ۔ گزشتہ دنوں اٹلی کی ایک عدالت نے ہندوستان کے ساتھ دفاعی سازو سامان سے متعلق سودے بازی میں رشوت ستانی اور گھپلے کے مجرم قرار دیے گئے اپنے دو اہل کاروں کو ساڑھے چار برس کی سزا سنائی ہے ۔ اٹلی سے آنے والی اس خبر میں ہندوستان کے لیے ایک بڑا سبق یہ ہے کہ کس طرح اٹلی نے اس مقدمے سے متعلق چھان بین اورعدالتی کا روائی کا مرحلہ تیزی سے مکمل کر لیا ؟ آخر اٹلی میں تفتیش کا عمل اور عدالتی کا ر روائی میں تیزی کا سبب کیا ہے ؟ اٹلی میں بیورو کریسی کے خلاف ثبوتوں کی بنیاد پر کار روائی کرنے کے لیے وہاں کے حکمراں طبقے میں اتنی مظبوط قوت ارادی کہاں سے آتی ہے ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔