الطاف حسین جنجوعہ
رواں برس14فروری کوپلوامہ میں خود کش کار دھماکہ جس میں سی آر پی ایف کے 49کے قریب اہلکار جاں بحق ہوگئے، کے بعد سے نہ صرف بھارت پاک کے درمیان تناؤ بنا ہوا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی دوجوہری طاقتوں کے مابین کشیدگی کی وجہ سے تشویش پائی جارہی ہے کیونکہ اگر خدانخواستہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو یہ دونوں ممالک تو صفہ ہستی سے مٹیں گے ہی، دنیا کی 90فیصد آبادی کو بھی اس کی بھاری قیمت چکانے کا حدشہ ہے۔ اسی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقتیں دونوں ممالک کے درمیان درپردہ اورظاہری طور پرحالات کو معمول پرلانے کی کوششوں میں جُٹی ہیں۔ بھارت پاک کشیدگی کی وجہ سے فوری اور راست نقصان سرحدوں پر رہنے والے لوگوں کو بھگتنا پڑرہاہے کیونکہ جب کبھی بھی دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو بین الاقوامی سرحد خاص طور سے حدمتارکہ چاہئے وہ لکھن پور سے لیکر پونچھ تک ہو یا پھر وادی کشمیر میں کرناہ، اوڑی دونوں طرفوں سے بندوقوں کی گن گرج شروع ہوجاتی ہے۔ قریب پچھلے ایک ماہ سے حدمتارکہ پر اُبال جاری ہے۔ بیچ بیچ میں عارضی طور ایک یاد ودن یاپھر چند گھنٹوں کی خاموشی چھاتی ہے لیکن پھر چھوٹے اور بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ، شلنگ کا عمل شروع ہوجاتاہے۔
صوبہ جموں کے سرحدی اضلاع پونچھ اور راجوری جس سے عرف عام میں ’خطہ پیر پنجال‘کہاجاتاہے، میں حالت انتہائی تشویش ناک ہے جہاں ابھی تک آدھا درجن کے قریب لوگ جاں بحق اور درجن بھرزخمی ہوئے ہیں۔ سینکڑوں مکانات، دکانیں ودیگر نجی وسرکاری ڈھانچوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ مال مویشی جوکہ ایل او سی کے نزدیک رہنے والے لوگوں کے ذریعہ معاش کا اہم حصہ ماناجاتاہے، کا بھی بھاری نقصان ہوا ہے۔ درجنوں مویشی زخمی اور کچھ مارے گئے ہیں۔ کھیتی باڑی، محنت مزدوری اور تعمیر وترقی کا عمل بری طرح متاثر ہے۔ کہیں سرکاری اسکول ویران ہیں تو کہیں پریہ عارضی کیمپوں میں تبدیل کئے گئے ہیں جہاں لوگ عارضی بسیرا کئے ہوئے ہیں، یہ وقت سالانہ امتحانات کا ہے، لیکن جانی ومالی عدم تحفظ کا شکار بچوں کی پڑھائی بُری طرح متاثرہوکر رہ گئی ہے۔ کسی کے گھر میں صرف خواتین ہیں، کہیں صرف بزرگ ہیں، کوئی کسی موذی بیماری کا شکار ہے، کوئی معذور ہے، تو کوئی کسی اور مشکل کا شکار مگرفائرنگ اور شلنگ سب کچھ بھلا دیتی ہے۔ شلنگ اور فائرنگ کے دوران کس طرح جان بچانے کے لئے لوگ جدوجہد کرتے ہیں، اِس کو لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔ یہاں کے لوگ جذباتی طور مال مویشی سے بھی جُڑے ہیں، کئی تو اپنے مال مویشیوں کو اکیلے چھوڑ کر گھرچھوڑ کر محفوظ مقامات پر جانا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ سرحد کے نزدیکی علاقوں میں غیر یقینی اس قدر ہے کہ کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ اگلے پل کیا ہوجائے، صبح مزدور، ملازم یا طالبعلم گھر سے نکلتے ہیں، تو اُمید نہیں ہوتی کہ محفوظ گھرواپسی ہوگی یا نہیں۔
’امن کی اہمیت، افادیت کیا ہے، یہ سرحدوں کے نزدیک رہنے والے لوگوں سے بہتر کوئی نہیں بتاسکتا۔ وہ تو جنگ کے نام سے بھی کانپ اُٹھتے ہیں، جنگ لفظ کو شہروں اور محفوظ مقامات پر رہنے والے لوگ جتنے آسانی سے بولتے ہیں، وہ لفظ کتنا خطرناک ہے، اس کا اندازہ چند روز سرحدی علاقوں میں گذارکربخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ صرف تناؤ کی وجہ سے اگر سرحدوں پر ایسی صورتحال ہوجاتی ہے توپھر جب باقاعدہ جنگ ہوگی، تو ا ُس وقت کتنی تباہی وبربادی ہوگی اس کو اعدادوشمار میں پیش نہیں کیاجاسکتا۔ پچھلے ایک ماہ سے بھارت پاک کشیدگی کے دوران انڈیا کے نجی ٹیلی ویژن چینلوں نے جو جارحانہ طرز عمل اختیار کیا ہے، وہ انتہائی مایوس کن ہے۔ افسوس ہے کہ قومی یکجہتی، قومی سلامتی کے معاملات پر، جب حد درجہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے، پربھی انڈیا کے ٹیلی ویژن چینلوں نے ’’ٹی آر پی ‘‘بڑھانے کے لئے استعمال کیا اور اس عمل میں تمام حدیں بھی پار کر دیں۔ سخت سیکورٹی حصار اور محفوظ مقامات پر قائم ٹیلی ویژن اسٹوڈیو کے اندر بیٹھ کر اُکسانا اور جنگ کی کی باتیں کرنا تو آسان ہے مگر عملی طور یہ کتنا خطرناک ہے، اِس کا اندازہ بھی لگانا مشکل ہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں کے جارحانہ عمل اور جنگ کیلئے اُکسانے کی باتوں سے لوگ اِتنے خوفزدہ ہوگئے کہ انہوں نے ٹیلی ویژن چینل ہی دیکھنا بہترسمجھا۔ کئی افراد نے سوشل میڈیا پھر بھی اپنی ناراضگی کابرملااظہار بھی کیا۔ سرحدی خطہ سے تعلق رکھنے والے سابقہ لیجسلیچر نے یہ تک لکھا کہ ’’مجھے گلی کے 20کتوں سے ڈر نہیں لگتا، جتنا ٹیلی ویژن سے لگتا ہے‘‘۔ ایک صارف کا یہ کہنا تھاکہ’’ایک ماہ تک بھارت میں ٹیلی ویژن چینلوں کی نشریات پر پابندی عائد کی جائے تو خودبخود امن قائم ہوجائے گا‘‘۔ اب کی بار اگر جنگ ہوتی ہے تو وہ روایتی نہیں ہوگی، یہ اب تک کی سب سے بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ملک جاپان کے شہرہیروشیما اور ناگاساکی میں اُس وقت استعمال کئے ایٹم بم کا اثر اب بھی واضح دیکھاجارہاہے، جہاں آج بھی انسان معذورپیدا ہوتے ہیں۔ سال1939کی مہنگی ترین گاڑی بھی آج کی سستی ترین گاڑی کے مقابلہ کچھ نہ ہے، تو پھر اس وقت کے اٹیم بم اور آج کے بمبوں میں بھی کتنا فرق ہوگا، اس لئے جنگ کا تصور بھی کرنا بھیانک ہے۔ میڈیاکو رول یہ ہونا چاہئے کہ ایسی نازک صورتحال میں صبروتحمل سے مثبت طرز عمل اپنا کر حالات کو معمول پر لانے میں اپنا بھرپور تعاون دینا چاہئے نہ کہ ’جنگی بیانیہ‘اپنا کر ملکی کی رائے عامہ کو ایسا ہموار کیاجائے کہ حکومت غلط قد م اُٹھانے پر مجبور ہوجائے۔
سرحدوں پر بندوقوں کی گن گرج ہر مرتبہ کئی لوگوں کو داغ مفارقت دے جاتی ہے۔ کئی گھر اُجاڑ جاتی ہے، کوئی عورت خاوند سے محروم ہوتی ہے تو کوئی بہن بھائی کاسہارا کھودیتی ہے تو کسی ماں کا لال چلاجاتاہے۔ پونچھ کے سلوتری جھلاس علاقہ میں بھی ایک ہی کنبہ کے تین افراد جس میں ماں اور اس کے دو بچے شامل تھے، کی موت واقع ہوگئی۔ یہ بچے شام بستر پرسورہے تھے جب ان کے گھر میں مارٹرشیل گِرا اورانہیں ابدی نیند سلادیا۔ تصاویر انتہائی خوفناک منظر پیش کر رہی تھیں۔ ہربار راجوری پونچھ میں جب بھی سرحدوں پر تناؤ ہوتا ہے تو ایسی دلدوز ہلاکتیں ہوتی ہیں، جس پرکئی طرح کے سوالات، تحفظات اور حدشات بھی اُٹھتے ہیں، مگرکوئی چاہ کر بھی بیان نہیں کرسکتا کہ، آخر ادھر ہی یہ تباہی کیوں ہوتی ہے۔
منقسم جموں وکشمیرکے دونوں اطراف سرحدوں کے نزدیک رہائش پذیر چھوٹے بچے جن کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہئے، جومیدانوں میں کھیل کود میں مصرف ہونے چاہئے وہ گھروں، عارضی کیمپوں اور کئی مقامات پر بنکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں، اُن کے ہاتھوں میں کھلونوں کے بجائے، مارٹرشیلوں، گولیوں کے ٹکڑے اور کھوکھے ہیں جن سے وہ کھیلتے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ ایسے ماحول میں پلنے بڑھنے والے بچوں کانفسیاتی عالم کیا ہوگا۔ جنگ میں کسی کی بھی جیت نہیں ہوتی، بلکہ انسانیت ہارتی ہے۔ عصرحاضر خاص طور سے بھارت پاک کے درمیان جنگ سے کسی کی جیت کا تصور کرنا بھی احمقانہ سوچ ہے، یہ صرف تباہی ہی تباہی لائے گی۔
بنکروں کی تعمیراور محفوظ مقامات پرپناہ گاہیں، اگر چہ کوئی حل نہیں، دیرپاقیام امن ہی ان حالات سے نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ ہندوپاک کے درمیان بات چیت سے ہی ممکن ہے لیکن جانی نقصان کو بچانے کے لئے عارضی انتظامات بہت ناگزیر ہیں۔ انفرادی اور کیمونٹی بنکروں کی تعمیر ہو، بلٹ پروف ایمبولینس اور موبائل ایمبولینس کی بات ہوضروری ہیں، لیکن پونچھ راجوری میں انتظامیہ ان سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے میں ابھی تک ناکام ثابت ہورہی ہے۔ بنکروں کی تعمیر کا معاملہ پچھلے کئی برس سے تعطل کا شکار ہے۔ انتظامی سطح پر چھوٹی چھوٹی اڑچنوں کی وجہ سے ان کی تعمیر ممکن نہیں ہوپارہی۔ پونچھ اور راجوری اضلاع کے اندر ضلع اسپتال، سب ضلع اسپتال، کیمونٹی ہیلتھ سینٹرز، سب ہیلتھ سینٹرز، پرائمری ہیلتھ سینٹرز اور ایلوپیتھک ڈسپنسروں میں ادویات، عملہ اور مشینری کی دستیابی اولین ترجیحی ہونی چاہئے لیکن ایسا نہیں۔ سب ضلع اسپتال مینڈھر میں بیشترڈاکٹروں کی آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ منکوٹ اور بالاکوٹ جوکہ فائرنگ اور شلنگ کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، میں قائم طبی مراکزبرائے نام ہیں، نہ وہاں پر عملہ، ادویات اور نہ مشینری دستیاب ہے۔ بُلٹ پروف ایمبولینس اور موبائل ایمبولینس دستیاب نہیں۔ فائرنگ اور شلنگ کے دوران جوزخمی ہوجاتے ہیں، انہیں فوری فسٹ ایڈ دینے یا اسپتال پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں۔ حالیہ دنوں اس حوالہ سے لوگوں کی شکایات موصول ہوئیں کہ انتظامیہ کے فون نمبرات ہی بند رہتے ہیں، فائرنگ شلنگ کے دوران مکمل طور رابطہ منطقع ہوجاتاہے اور لوگوں کا حالات کے رحم وکرم پرچھوڑ دیاجاتاہے۔ جب فائرنگ کا عمل تھوڑ رکتا ہے، اُس کے بعد کہیں باعمل مجبوری انتظامیہ کے افسران وہاں پہنچے۔ بُلٹ پروف ایمبولینس اور موبائل ایمبولینس اور بُلٹ پروف گاڑیوں کی عدم دستیابی سے ظاہر ہے کوئی ملازم بھی اپنی جان جوکھم میں نہیں ڈالے گا۔ خطہ کی سیاسی قیادت کو بھی چاہئے کہ کم سے کم وہ سرحدی علاقہ جات میں رہائش پذیر لوگوں کے جانی تحفظ کے لئے مذکورہ سہولیات کی دستیابی تو یقینی بنوائیں۔ اس معاملہ پر سیاست سے بالاترہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ’جنگ کی خوشی پالنا بھی امیروں کا شوق ہے۔ اس کا نقصان غریبوں سے پوچھاجن کی ہمیشہ دعاہوتی ہے کہ جنگ بندی ہو اور ان کا ذریعہ معاش پر فرق نہ پڑے۔
٭٭٭
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔