حجاب،حلال اور اذان پر واویلا: سرکاری پشت پناہی میں جاری

جاوید جمال الدین

اتر پردیش سمیت پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے دوران کرناٹک میں سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں طالبات کے حجاب استعمال کرنے کے معاملے کو جان بوجھ کر طول دیاگیا،عدالت نے بھی واضح فیصلہ نہیں دیااور اقلیتی فرقے کو مایوسی ہاتھ لگی تھی،حجاب تنازع کے بعدجیسے ریاست کرناٹک  میں فر قہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور کئی تنازعات پٹارے سے نکل آئے ،ان شرپسندوں نے ایسے معاملات کو ابھاراجو صدیوں سے رائج رہےہیں اور کبھی ان کے بارے میں تصور بھی نہیں کیاجاسکا،حلال کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا،لیکن اسے اب  بنادیا گیا ہے،البتہ اذان تو کئی عشرے سے شرپسندوں کو کھٹکتی رہی ہے،حال تک کوئی زیادہ مخالفت بھی نہیں تھی کہ امسال  ماہ رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی پہلے ممبئی میں جنوبی ممبئی کے پوش علاقہ ملبارہل کے بی جے پی کے ایم ایل اے منگل پربھات لودھانے سنگھ پریوار کی حامی تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ پولیس کمشنر سنجے پانڈے کوایک میمورنڈم دے کر لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی مخالفت کرتے ہوئے مساجد سے لاؤڈ اسپیکرہٹائے جانے کا مطالبہ کردیا۔اس کے بعد سوپ توسوپ مہاراشٹر نونرمان سینا کے صدر راج ٹھاکرے کے ساتھ ہی” چھلنی” انورادھا پوڑوال نے بھی اذان پر زہر اگل دیا۔

پھریہ ہوا کہ کرناٹک میں اٹھنے والی آواز کے بعد، جہاں وزارتِ اعلیٰ جیسے اہم  عہدہ پر فائز بومئی جی بالکل ان فرقہ پرستوں کی "بولی بول” رہے ہیں،انہیں اپنے عہدہ کے وقار کی بھی پرواہ نہیں ہے۔

حجاب ،حلال اور اذان معاملہ کوجان بوجھ کر طول دیاگیا،اور فی الحال پورے ملک میں مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر کامسئلہ زور پکڑے ہوۓ ہے ،شر پسند عناصر لاؤڈا سپیکر بند کرنے کے علاؤہ کسی بھی بات پر رضامند نہیں ہیں۔یوپی،ایم پی ،ہریانہ،گجرات وغیرہ فرقہ پرستی کی صفوں میں سب سے آگے رہے ہیں،لیکن کرناٹک اس دوڑ میں سب سے آگے نکل چکا ہے،کیونکہ ایک کے بعد ایک تنازع کھڑا کیا جارہا ہے اورایسا محسوس ہوتاہے کہ انتظامیہ وپولیس کی پشت پناہی نظر آرہی ہے۔

 ایم این ایس کے سربراہ راج ٹھا کرے  نے جس اندازمیں اشتعال انگیزبیان دیاہے اور کئی مقامات پر مسجدوں کے سامنے ہنومان چالیسہ بھی کیا گیا،اس کے باوجود مہاراشٹر میں پولیس خاموش تماشائی بنی رہی ہے،تصور کیا جائے کہ اگر  یہی بیان کسی مسلمان نے دیاہوتا تو اپنے بیان کے پاداش میں  جیل کی ہواکھانی پڑتی۔  راج کے متنازع بیان کے بعد بلکہ حکومت نے اس معاملہ میں بھی تیزی دکھائی اور مساجد کو نوٹس دے دیا گیا ہے کہ وہ 60 ڈیسیبل میں ہی لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کریں اور اقلیتی فرقے کے معاملے میں پولیس بھی مبینہ طورپرپھرتی دکھاتی ہے۔

عین ماہ رمضان سے قبل لاؤڈ اسپیکر پر واویلا ایک سوچی سمجھی سازش ہی ہے ،اور بقول شیوسینا رہنماء سنجے راوت بول ضرور راج ٹھاکرے کے ہیں،لیکن اس کی اسکرپٹ بی جے پی نے ہی لکھی ہے۔اس دوڑ میں اقلیتی فرقے کے بیچ سے بھی چندتنظیمیں میدان میں آگئی ہیں اوریہ مطالبہ کرنے کے بجائے کہ حکومت گنیش چترتھی اور نوراتری جیسے تہوارپر لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر خصوصی چھوٹ دیتی ہے،اس طرح مسلمانوں کے مقدس ماہ میں بھی رعایت دی جائے اور حکومت کو اس کااختیار بھی حاصل ہے۔اس کے بجائے حکومت دبے سہمے انداز میں کام کرتی ہے۔مذکورہ مسلم تنظیموں کے عہدیداران مسلمانوں کو نصحیت دیتے نہیں تھکتے ہیں ،البتہ ان میں چند ایک نیک نیت بھی ہیں،ان میں ایک انڈین مسلمس فور پروگریس اینڈ ریفارم(آئی ایم پی اے آر ) امپار نے مسلمانوں سے بڑی نیک نیتی سے گزارش کی ہے مساجد میں لاوڈ اسپیکر کے استعمال کے سلسلے میں احتیاط برتیں اور جائز آواز کی حد تک ہی لاوڈ اسپیکر کا استعمال کریں تاکہ غیر ضروری تنازع سے بچا جاسکے ، مساجد سے اذان دینے کے لیے استعمال کیے جانے والے لاؤڈ سپیکر کی آوازکی  مقدار جائز حد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ کرناٹک کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں میں مساجد کے انتظامیہ کوچاہئیے کہ   وہ ہائی کورٹ کی طرف سے ہائی ڈیسیبل کی سطح کی وجہ سے ہونے والی صوتی آلودگی سے متعلق کرناٹک ہائی کورٹ کی ہدایات پر عمل کریں۔مزید یہ کہ ہر مسلمان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں اپنی ذمہ داری کو سمجھے۔ مسلمانوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ رمضان کے مقدس مہینے کے ساتھ ساتھ دوسرے مہینوں میں بھی ان کے اعمال سے ان کے ہم وطنوں کو مشکلات یا تکلیف نہ ہو۔ یہ ہدایات بھی اسلامی اصولوں کا حصہ ہیں جیسا کہ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں سے واضح کیا گیا ہے۔

ممبئی میں بھی اذان کے لیے لاوڈاسپیکر کے استعمال پر کئی تنظیمیں سرگرم ہیں،ان کا کہنا ہے کہ لاؤڈ اسپیکرکے بے دریغ استعمال پرلوگوں  کواعتراض ہے،اذان پر  نہیں ہے۔لیکن  دوران اذان لاؤڈاسپیکر کی آواز صوتی آلودگی کے اصولوں سےطے کی جائے۔ مسلم تنظیموں کے نمائندوں کی ایک میٹنگ میں مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر کے بے جا اور غیرضروری استعمال پر پابندی پر زور دیاگیا ہے،یہ ایک حد تک درست ہوسکتا ہے کہ  اذان پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ہمیں کسی کو تکلیف پہنچانے کا کوئی حق نہیں ہے،مذہب بھی اس  کی اجازت نہیں دیتا ہے مسلمانوں کو صوتی آلودگی کے اصولوں پر پابندی سے عمل کرنا چاہئے اور خوداحتسابی بھی لازمی ہے ہمیں ایک اچھے شہری کے ناطے قانون کی پابندی کرنا ضروری ہے یہ فیصلہ  مسلم تنظیموں کی ایک میٹنگ میں لیا گیا۔

 ہمیں بھی خود احتسابی کرتے ہوئے حالات کاجائزہ لینا چاہیئے،کوشش یہی ہوناچاہئیے کہ  مسجدوں سے زائد لاؤڈاسپیکرکا استعمال نہ کیا جائے مسجدوں میں صرف ایک لاؤڈاسپیکر جو اجازت یافتہ ہو اسے ہی لگایا جائے طے شدہ ڈسیبل کے مطابق ہی اذان دی جائے علما کرام سےباہمی افہام و تفہیم سے اذان کے مسئلہ کو حل کیاجائے،آس مسجدوں کے سبب اذان کی آواز میں ٹکراؤ پیداہوتا ہے اس لئے مسجدوں کو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے اس سلسلے میں مسلم نمائندہ وفد مساجد کے ذمہ داران اور علما کرام سے ملاقات کر کے اس سمت میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرے تاکہ فرقہ پرستوں کو اشتعال انگیزی کا موقع فراہم نہ ہو۔  رمضان میں مسجدوں کے لاؤڈاسپیکرسے اذان آواز دھیمی رکھی جائے اور صوتی آلودگی کے اصولوں کی پابندی بھی ہو۔

عام خیال یہ ہے کہ اذان کا کوئی تنازع نہیں ہے اور نہ ہی اس پر کسی کو کوئی اعتراض ہے یہ مسئلہ لاؤڈاسپیکر کا ہے اور اس مسئلہ پر باہمی افہام و تفہیم ضروری ہے تمام مکاتب فکر کا یہ مسئلہ ہے کیونکہ اذان کے اوقات میں تمام مسالک کا متفرق ہوتا ہے اس لئے ہمیں اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔  دراصل یہ مذہبی معاملہ ہے اور مذہبی بصیرت کا حامل ہے۔ سپریم کورٹ کے حکمنامہ کو صوتی آلودگی کے اصولوں کی پابندی لازمی ہے مسلمانوں کو اپنامحاسبہ کرنا ضروری ہے، لاؤڈ اسپیکر کابے دریغ استعمال نہ کیاجائے۔

میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کوصوتی آلودگی کے خلاف  خود اٹھ کھڑا ہونا چاہئے ایک اچھے شہری کی شناخت یہی ہے،مسجدوں میں  بے دریغ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال عام ہے۔ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔  مسلمانوں میں خود احتسابی کےسبب  بیداری پیدا  ہونا چاہئے اس لئے اگر ہم اپنا محاسبہ کریں تو قبل از وقت ہو گا اس سے پہلے کہ کسی کو موقع ملے اور سرکار کوئی قدم اٹھائے، اس لئے اس ضمن میں کوشش کرنی چاہئے۔ عام طور پر یہ ذہن نشین کرناہوگا کہ "ملک کے اکثریتی فرقے کواعتماد”میں لینا ہوگا۔اس کے بغیر کوئی چارا نہیں ہے،کیونکہ انتظامیہ اور پولیس و انتظامیہ توغیراعلانیہ طورپرسرگرم ہوچکے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔