مقبول احمد سلفی
دین اسلام اسی وقت مکمل ہوچکا تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم باحیات تھے، اسلام کی تکمیل کے بعد اس میں ایک بات بھی اپنی جانب سے داخل کرنا نئے امور میں سے ہے جن کے متعلق نبی نے فرمایا کہ یہ بدعت ہے اور ہر قسم کی بدعت موجب جہنم ہے۔ جب آپ کے بعد دین میں کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا، نئی بات پیدا کرنااور کسی قسم کی نئی فکر گھڑنا سراسر گمراہی ہے تو پھر ہدایت یافتہ خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام اس معاملے میں کس قدر محتاط ہوں گے ؟۔ ان کے متعلق جو کچھ اختلافات دیکھنے کو ملتے ہیں وہ نصوص کی فہم میں اختلاف اور اجتہاد کا نتیجہ ہے۔ آئیے ایک مشہور حدیث کا صحیح معنی ومفہوم جانتے ہیں جس کو سمجھنے میں بہت سے لوگوں نے یا تو خطا کی ہے یا جان بوجھ کر عوام میں غلط فہمی پیدا کی جارہی ہے۔
حدیث اور اس کا ترجمہ:
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، ثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، ثَنَا خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ : صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّهَا مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَأَوْصِنَا، قَالَ : ” أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ أُمِّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ "۔
ترجمہ: عرباض بن ساریہ سے روایت ہے، انھوں نے یہ بیان کیا کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ایک نہایت موثر خطبہ دیا جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور دل کانپ اٹھے۔ مجمع میں سے کچھ اصحاب نے عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول :یہ تو ایک وداعی خطبہ معلوم ہوتا ہے تو ہمیں کچھ وصیت کیجیے۔ آپ نے فرمایا: میں تمھیں اللہ سے ڈرتے رہنے اور اپنے صاحب امر کی بات ماننے اور اس کی اطاعت کرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ تمھارا صاحب امر کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے، وہ اب اور تب میں بڑا فرق محسوس کریں گے تو تم میری سنت کی اور ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کی سنت کی پیروی کرنا، اس کو مضبوطی سے تھامنا اور دانت سے پکڑنا اور دین میں جو نئی باتیں گھسائی جائیں، ان سے خبردار رہنا، کیونکہ ہر ایسی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
تخریج : سنن الترمذي: 2676، سنن أبي داود:4607، صحيح ابن حبان:5، ابن ماجہ :43،44،مسند احمد :16692، 16694، مشکوٰۃ المصابیح 165، مستدرک علی الصحیحین:334، سنن دارمی وغیرہ
حکم : جب حدیث بخاری ومسلم کے علاوہ کی کتاب سے ہو تو اس کا حکم جاننا ضروری ہوتاہے کیونکہ صحیحین کے علاوہ تمام کتب حدیث میں صحیح کے ساتھ ضعیف احادیث بھی ہیں۔ عرباض بن ساریہ کی مذکورہ حدیث کی سند میں کوئی علت نہیں ہے اس لئے یہ حدیث صحیح ہے۔ اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح ترمذی، صحیح ابوداؤد،صحیح ابن ماجہ، سلسلہ صحیحہ وغیرہ میں، شیخ الاسلام نے مجموع الفتاوی میں، ابن الملقن نے البدرالمنیرمیں،ابن حبان نے اپنی صحیح میں،حافظ ابن حجرنے موافقۃ الخبرالخبرمیں،ابن عبدالبرنے جامع بیان العلم میں، شعیب ارناووط نےابوداود، مسند احمد،صحیح ابن حبان اور ریاض الصالحین وغیرہ کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے۔ بعض محدثین نے اسے حسن بھی کہا ہے بہرحال یہ حدیث قابل حجت ہے۔
حدیث کی شرح :اس میں تین الفاظ وضاحت طلب ہیں، پہلے ان کی وضاحت کردیتا ہوں تاکہ حدیث کا صحیح مفہوم سامنے آسکے۔
(1)سنت: سنت کا لغوی معنی’راستہ‘یا ’طریقہ‘ہے۔
محدثین کے نزدیک سنت اور حدیث قریباً مترادف ہیں۔ سنت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال،افعال،تقریرات اورپیدائشی و اکتسابی اوصاف کا نام ہے۔ جبکہ ان چاروں چیزوں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت حدیث کہلاتی ہے۔ گویا سنت صرف محمد ﷺکےطریقہ حیات کانام ہے۔
(2)بدعت : لغوی طور پر بدعت کا معنیٰ ہےکسی چیز کا ایسے طریقے سے ایجاد کرنا جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہوجبکہ اصطلاحاً بدعت کہتے ہیں شریعت میں کوئی نئی چیز گھڑ لینا جس کی قرآن و سنت میں کوئی دلیل نہ ہو۔
سنت کا حکم اسی حدیث میں ہے۔ ۔۔۔علیکم بسنتی یعنی نبی کی سنت کو ہر حال میں لازم پکڑنا ہےخواہ اختلاف کا زمانہ ہو یا امن وسکون کا۔
بدعت کا بھی حکم اسی حدیث سے مل جاتا ہے :وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ یعنی دین میں نئی بات ایجاد کرنا بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانےوالی ہے۔
(3)خلافت : اس حدیث میں خلفائے راشدین سے مراد حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم ہیں جن کا زمانہ خلافت تیس سالوں کو محیط ہے جیساکہ صحیح حدیث میں مذکور ہےنبی ﷺکافرمان ہے: خلافةُ النبوةِ ثلاثونَ سنةً، ثم يؤتي اللهُ الملكَ، أو ملكَه، من يشاءُ(صحيح أبي داود:4646) حسن صحيح
ترجمہ: نبوت والی خلافت تیس سال رہے گی پھر جسے اللہ چاہے گا(اپنی ) حکومت دے گا۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح ابوداؤد میں حسن صحیح قرار دیا ہے۔ راوی حدیث سفینہ ابوعبدالرحمن مولی رسول اللہ ﷺتیس سال کی خلافت اس طرح بیان کرتےہیں۔ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کےدوسال،عمرفاروق رضی اللہ عنہ کےدس سال،عثمان رضی اللہ عنہ کےبارہ سال اورعلی رضی اللہ عنہ کےچھ سال ہیں۔
حدیث کا مفہوم :
اللہ کا تقوی اختیار کرنے کے ساتھ اس حدیث میں اختلاف وانتشار اور گمراہی سے بچنے کا علاج بتلایاگیا ہے وہ یہ ہے ہرحال میں حاکم کی اطاعت کی جائے اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کو مضبوطی سے تھاما جائے، اسی طرح اللہ کی زمین پر اس کے دین کو قائم کرنے والے خلفاء راشدین یعنی خلفاء اربعہ حضرت ابوبکر،حضرت عمر،حضرت علی اور حضرت عثمان کی سنت کو تھاماجائے کیونکہ یہ لوگ سنت رسول اللہ ﷺ پر ہی چلنے والے تھے اور دین میں نئی باتوں کو ایجاد سے بچیں کیونکہ ہرنئی چیز بدعت یعنی گمراہی ہے اورہر گمراہی کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
سنت رسول اللہ اور سنت خلفاء:
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اللہ ﷺ کی الگ سنت ہے اور خلفاء اربعہ کی الگ سنت ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں ایک ہی سنت کا نام ہے جو سنت نبی ﷺ کی ہے وہی سنت خلفاء کی بھی ہے انہوں سے دین میں اپنے تئیں کوئی سنت ایجاد نہیں کی جو بعض امور خلفاءکی طرف سے نئے قسم کے ملتے ہیں وہ ان کے اجتہادات ہیں۔ خلفاء اربعہ کا بہت اونچامقام ہے، اللہ تعالی نے ان چاروں کو عشرہ مبشرہ میں سے بنایاہے مگر پھربھی انسان ہیں، بحیثیت انسان خلیفہ سے یا کسی بھی صحابی سے غلطی کا امکان ہے۔ ان بعض غلطیوں کی وجہ سے ان کے مقام ورتبہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا جیساکہ نبی ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا: ما ضرَّ عثمانَ ما عَمِلَ بعدَ اليومِ مرَّتينِ(صحيح الترمذي:3701-حسن)
ترجمہ: آج کے بعد جو بھی عثمان کرے ان کو کوئی نقصان لاحق نہیں ہوگا۔ دومرتبہ فرمایا۔
اسے شیخ البانی نے صحیح ترمذی میں حسن کہاہے۔
خلفاء کی سنت لازم پکڑنے سے متعلق محدثین اور اہل علم کے نظریات:
(1) علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے کہا: خلفاء کی اسی سنت کی اتباع کی جائے گی جو رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ (السلسلة الضعيفة 1/51-53)
(2)علامہ صنعانی رحمہ اللہ نے کہا کہ خلفاء راشدین کی سنت سے مراد وہی طریقہ ہے جو نبی کریم ﷺ کے طریقہ سے موافقت رکھتا ہودشمنوں سے جہاد کرنے اورشعائراسلام کو تقویت پہنچانے کے لئے۔ یہ حدیث ہرخلیفہ راشد کے لئے عام ہے اسے شیخین کے ساتھ خاص نہیں کیاجائے گااور قواعد شرعیہ سے یہ بات معلوم ہے کہ کوئی بھی ایسا خلیفہ راشد نہیں ہے جو نبی ﷺ کے طریقہ سے ہٹ کر شریعت جاری کرے۔ (سبل السلام 1/493)
(3) ابن حزم رحمہ اللہ نے الاحکام فی اصول الاحکام میں لکھا ہے کہ اس حدیث میں تین باتوں کا احتمال ہے۔
٭ خلفاء جن باتوں میں اختلاف کریں ساری باتیں سنت سمجھ کرلے لی جائیں اور یہ امر محال ہےکیونکہ کچھ موافق باتیں ہیں تو کچھ ان کے برعکس۔
٭یا یہ کہ ان مخالف باتوں میں جسے چاہیں اختیار کریں تو یہ ان کی سنت کی اتباع کے منافی ہے۔
٭ اب ایک ہی راستہ بچا وہ یہ کہ جن میں صحابہ کا اجماع ہے انہیں لے لیا جائے اور خلفاء کا اجماع صحابہ کے اجماع سے الگ چیز نہیں ہے۔
(4) امام شوکانی رحمہ اللہ نے الفتح الربانی میں کہا ہے کہ سنت ہی طریقہ ہے کہاگیا کہ میرا طریقہ اور خلفاء راشدین کا طریقہ لازم پکڑو۔ان خلفاء کا طریقہ وہی تھاجو نبی ﷺ کا ہے وہ لوگ طریقہ نبوی کے بیحد حریص تھے اور ہرچیز میں سنت پر عمل کرتے، چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی سنت کی مخالفت سے ہرحال میں بچتے تو بڑے معاملات کا کیا حال ہوگا؟ اور جب ان کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے دلیل نہیں ملتی توبحث وتحقیق، مشورہ اور تدبر کے بعد جو رائے ظاہر ہوتی اس پر عمل کرتے توسنت کی عدم موجودگی میں یہ رائے بھی حجت ہے جیساکہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہے۔ {معاذ بن جبل والی یہ حدیث ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں ہے۔}
ان چند اقوال علماء سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ خلفاء کا طریقہ وہی ہے جو نبی ﷺ کا طریقہ ہے البتہ خلفاء راشدین کی وہ باتیں جن کی سنت سے دلیل نہیں یا جو قرآن وحدیث کے دیگر نصوص سے ٹکراتی ہوں اسے چھوڑدیا جائے گا لیکن جن پر صحابہ کرام کا اجماع ہے وہ ہمارے لئے دلیل وحجت ہے، اسی طرح صحابہ کے وہ اقوال بھی ہمارے لئے حجت ہیں جو نصوص شرعیہ سے متصادم نہ ہوں۔
خلفاء کی سنت نبی ﷺہی کی سنت ہے؟
صحابہ کرام یا خلفاء راشدین کا طریقہ وہی ہے جو نبی ﷺ کا ہے، صحابہ زندگی کے تمام معاملات کا حل کتاب وسنت میں تلاش کرتے۔ کسی خلیفہ راشدنے الگ سے کوئی طریقہ ایجاد نہیں کیاہے بلکہ وہ تو ہم سےکئی گنا زیادہ کتاب وسنت پر عمل کرنے کے حریص تھے۔ اس حدیث میں موجودسنتی اور سنۃ الخلفاء کے الفاظ سے بعض لوگوں کو یہ دھوکہ ہوگیا یا بعض لوگ جان بوجھ کر دھوکہ کھارہے ہیں کہ دونوں الگ الگ سنتیں ہیں بلکہ سنۃ الخلفاء سے تقلید کی دلیل لی جاتی ہے جبکہ یہ مطلب بالکل غلط ہے۔
اس حدیث کو قرآن کی ایک آیت سے سمجھیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے :
أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (البقرة:133)
ترجمہ: کیا تم اس وقت حاضر تھے جب یعقوب علیہ السلام کی موت کا وقت قریب آیا۔ جب اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے۔ تو انہوں نے کہا ہم آپکے الہ , اور آپکے آباء ابراہیم , اسماعیل اور اسحاق کے الہ کی عبادت کریں گے , جو کہ ایک ہی ا لہ ہے اور ہم اسکے لیے فرمانبردار ہونے والے ہیں۔
یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے باپ کو جواب دیا کہ ہم آپ کے معبود اور آپ کے آباء ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے، تو کیا یعقوب علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، اسماعیل علیہ اور اسحاق علیہ السلام کے معبود الگ الگ تھے ؟ نہیں ہرگز نہیں ان سب کا معبود ایک تھا۔ ٹھیک اسی طرح سے خلفاء کی وہی سنت ہے جو نبی ﷺ نے پیش کی ہے۔
ہوبہو یہی بات سورہ فاتحہ میں کہی گئی ہے” اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ” پہلے صراط مستقیم کہا گیاپھر اسی صراط کو انعمت علیھم سے جوڑا گیا یعنی وہ لوگ جن پر اللہ کی نعمت نازل ہوئی۔
ایک دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے :
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (النساء : 115)
ترجمہ: اور جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے تو ہم اسے وہیں پھیر دیتے ہیں جہاں وہ خود پھرتا ہے اور پھر اسے جہنم میں پہنچائیں گے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔
اس آیت میں رسول کے طریقہ کو مومنوں کا طریقہ کہا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلفائے راشدین کا طریقہ رسول کا ہی طریقہ ہے کیونکہ تمام مومنوں کو وحی الہی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔
اس بات کو حدیث عرباض بن ساریہ سے بھی بآسانی سمجھ سکتے ہیں جس میں مذکور ہے کہ دین میں نئی بات پیدا کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ بھلا خلفائے راشدین اپنی طرف سے دین میں نئی بات کیسے گھڑیں گے جبکہ انہیں معلوم ہے کہ مومنوں کو وحی الہی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیروی کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول چھوڑا تھا۔ فرمان الہی ہے:
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ (الاعراف:3)
ترجمہ:تم لوگ اس کی اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو۔
فرمان نبوی ہے :
ترَكْتُ فيكم أَمرينِ، لَن تضلُّوا ما تمسَّكتُمْ بِهِما : كتابَ اللَّهِ وسنَّةَ رسولِهِ{أخرجه مالك في الموطأ:2/899)
ترجمہ: میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہاہوں، تم ہرگز گمراہ نہیں ہوسکتے جب تک ان دونوں کو تھامے رہوگے، وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے مشکوۃ کی تخریج میں حسن قرار دیا ہے۔ {تخريج مشكاة المصابيح:۱۸۴}
خلفائے راشدین ہدایت یافتہ تھے، وہ دین کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے تھے اور اپنے من سے ذرہ برابر بھی نہیں بولتے تھے۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ ابتدائے خلافت میں بعض لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کیا تو حضرت ابوبکر نے فرمایا:
واللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَن فَرَّقَ بيْنَ الصَّلَاةِ والزَّكَاةِ، فإنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ المَالِ، واللَّهِ لو مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إلى رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ علَى مَنْعِهِ{صحيح البخاري:۷۲۸۴}
ترجمہ:واللہ! میں تو اس شخص سے جنگ کروں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، واللہ! اگر وہ مجھے ایک رسی بھی دینے سے رکیں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے ان کے انکار پر بھی جنگ کروں گا۔
ارتداد کے وقت اگر اپنی سنت جاری کرتے تو حضرت عمر کی طرح نرم گوشہ اختیار کرتے مگر انہوں نے رسول اللہ کی سنت جاری کی۔
اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ قول سونے سے لکھے جانے کے قابل ہے جس میں حجر اسود کو بوسہ دیتےوقت فرمایا گیا ہے:
«أَمَ وَاللهِ، لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ»(صحيح مسلم:1270)
ترجمہ:ہاں، اللہ کی قسم!میں اچھی طرح جانتاہوں کہ تو ایک پتھر ہے، اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تمھیں بوسہ دیتے تھے تو میں تمھیں(کبھی) بوسہ نہ دیتا۔
خلفاء راشدین اور سنت رسول کے درمیان اختلاف کا حکم
بلاشبہ خلفائے راشدین کے بعض اجتہادات سنت رسول کے مخالف نظر آتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انہیں مجتہد مانتے ہیں، ہمارے لئے شارع صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ گویا معصوم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اورخلفاء مجتہدہیں جو معصوم نہیں ہیں۔ ان سے خطا کا امکان ہوتا ہے اسی امکان کے سبب بعض معاملات میں اختلاف نظر آتا ہے۔ دین کے معاملے میں جہاں اختلاف نظر آئے وہاں اختلاف کو اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کی طرف لوٹانا چاہئے۔ اللہ نے ہمیں ایساہی کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (النساء:59)
ترجمہ:اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالٰی کی اور فرمانبرداری کرو رسول ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالٰی کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے صاف صاف فرمادیا کہ اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو، کتاب وسنت کو نافذ کرنے والے حکام کی بھی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اختلاف کے وقت حاکم وخلیفہ کی بات چھوڑ دی جائے گی، اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کی جائے گی۔
اجتہادی اقوال کی شرعی حیثیت:
اوپر ذکر کیا گیا کہ حدیث کہتے ہیں ہر وہ قول، فعل، تقریر یا صفت جو نبی ﷺکی طرف منسوب ہو۔ اگر نسبت صحیح ہوئی تو حدیث صحیح ہوتی ہے ورنہ ضعیف ہوتی ہے۔
اس تعریف میں تقریر کا لفظ آیا ہے اس سے مراد صحابہ کا قول یا فعل جس کا علم نبی ﷺ کو ہوا ہو اور آپ ﷺ نےاس قول یا فعل پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ خاموشی اختیار کی۔ گویا ایسا کوئی عمل صحابی یا قول صحابی جس پر رسول اللہ ﷺ نے خاموشی اختیار کی ہو وہ حدیث ہی کہلاتی ہے اگر اس تقریری حدیث کی سند صحیح ہو تو دین میں حجت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے صرف اپنی اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ ان دونوں کے ماسوا دین میں کسی کی بات قابل حجت نہیں ہے تاہم محض وہ اجتہادی مسائل جن میں شریعت خاموش ہواور صحابی کا قول یا فعل صحیح سند سے ثابت ہورہا ہو تو اسے اختیار کیا جائے گا بشرطیکہ شریعت کے کسی نص سے نہ ٹکراتا ہو، ان کا اجتہاد بعد والوں کے اجتہاد سے بہتر ہے بلکہ صحابہ کے وہ اقوال جن میں اجتہاد کا دخل نہ ہو تو وہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔
اجتہاد کا دائرہ تو وسیع ہے، اس کا دروازہ قیامت تک کھلا ہوا ہے، جدید قسم کے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے اور علمائے امت ان میں اجتہاد کرتے رہیں گے جن کا اجتہاد دلائل سے قوی ہوگا اختیار کرنے میں کوئی تردد نہیں ہے۔ ائمہ اربعہ کے اجتہاد کا بھی یہی حکم ہے۔ ان کے جو اجتہاد کتاب وسنت کے خلاف ہیں انہیں رد کردیں دراصل ان مسائل میں ائمہ کا بھی یہی موقف ہے اور جو مسائل کتاب وسنت سے نہیں ٹکراتے ان میں جس امام کا فتوی دلائل سے قوی معلوم ہو اختیار کرلیا جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم صرف ایک امام کے ہی اجتہاد لیں گے، نہیں۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ تقلید جائز نہیں ہے۔ سارے ائمہ ہمارے اپنے ہیں، ان سب کو اللہ نے دین میں بصیرت وفقاہت عطا فرمائی، استفادہ علم میں کسی ایک کی تخصیص اوردوسرے ائمہ سے صرف نظر کرنا سراسر زیادتی اور دوسرے ائمہ کی فقاہت وبصیرت اور حکمت ودانائی سے چشم پوشی کرناہے۔ تمام ائمہ کا احترام، ان کے اجتہادات سے استفادہ بلکہ ان کے علاوہ قیامت تک جو فقیہ ومجتہد پیدا ہوتے رہیں گےتمام سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اللہ تعالی جسے چاہتا ہے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔
تبصرے بند ہیں۔