حلالہ: عورت کے حق حفاظت کا ایک ذریعہ

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

اللہ تعالیٰ نے انسان کوجن صفات سے نوازاہے، ان میں سے ایک غصہ بھی ہے، غصہ نعمت بھی ہے اورزحمت بھی، اگریہ حق کے لئے ہوتونعمت اورقابل قدرہے؛ لیکن اگر یہ ناحق ہوتوپھرزحمت اورناقابل قبول ہے،انسان چوں کہ جلدبازپیداکیاگیاہے؛ اس لئے عمومی طورپراپنے غصہ کی صفت کا استعمال ناحق کربیٹھتاہے، پھرندامت کے آنسوبہاتاہے؛ لیکن ’’اب کیاہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘، ایسے موقع پرضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ کوئی اس کی ڈھارس بندھائے، اگرڈھارس بندھانے والاکوئی نہیں ملتاتوانسان مزیدغلطیوں کاارتکاب کرتاہے، پھرغلطیوں کے دلدل میں ایساپھنستاہے کہ سوائے اللہ کے کوئی وہاں سے نہیں نکال سکتا۔

’’حلالہ‘‘ بھی انسان کی ایسی ہی غلطیوں کے بعدمزیدغلطیوں کے ارتکاب سے بچانے کاایک بڑااوراہم ذریعہ ہے، جب انسان غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کوایسی طلاق دے دیتاہے، جس کے بعدرجوع کی گنجائش باقی نہیں رہتی(طلاق مغلظہ)، پھراسے پچھتاواہوتاہے توچوں کہ اللہ تعالیٰ سترماؤوں سے زیادہ مہربان ہے؛ اس لئے بندہ پررحم کرتے ہوئے اس نے ایک طریقہ بتایا، جسے ’’حلالہ‘‘ کہاجاتاہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ طلاق مغلظہ()کے بعد بیوی اپنے شوہرکے لئے حرام ہوجاتی ہے،اس کے ساتھ کسی قسم کاتعلق نہیں رکھ سکتا، اب اگرشوہراس حرمت کوختم کرناچاہتاہے تواس کے لئے طریقہ یہ بتایاگیاکہ اس عورت کودوسرے مردسے شادی کرنی ہوگی، پھرشادی کے بعدشوہرثانی اس کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرے، پھراسے طلاق دیدے توعدت گزارنے کے بعدوہ عورت اپنے پہلے شوہرکے لئے نئے نکاح کے ذریعہ حلال ہوجائے گی، قرآن مجید میں ہے: ’’پھر اگر مرد نے تیسری بار طلاق دے ڈالی تو اب یہ عورت اس کے لئے حلال نہ رہی، ہاں اس کے بعد دوسرے مرد سے اس عورت نے نکاح کر لیا ہو اور وہ بھی اس کو طلاق دے ڈالے تو اب ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر مل جائیں اگر دو نوں خیال رکھیں کہ وہ اللہ کے ضابطہ کے مطابق تعلقات ٹھیک ٹھاک رکھیں گے یہ سب اللہ کے قاعدے ہیں بیان فر ما تا ہے جاننے والوں کے لئے‘‘(البقرۃ: ۲۳۰)۔

حلالہ شریعت کی طرف سے ’’اجازت‘‘ اورپہلی بیوی کی گھرواپسی کی ایک شکل ہے، یہ کوئی لازمی حکم نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ محلل(حلالہ کرنے والے) اورمحلل لہ(جس کے لئے عورت کاحلالہ کیاجائے) پرلعنت کی گئی ہے، اللہ کے رسول ﷺکاارشادہے کہ: ’’محلل(حلالہ کرنے والے) اورمحلل لہ(جس کے لئے حلالہ کیاجائے) پراللہ تعالیٰ کی لعنت ہے‘‘(ابوداود، باب فی التحلیل، حدیث نمبر:۲۰۷۸)؛لیکن واویلاایسامچایاجارہاہے، جیسے یہ ایک لازمی حکم ہو، اورحلالہ کے بغیرکسی مسلم عورت کی عزت محفوظ نہ ہو۔
پھراس کی حکمتوں پربھی ہمیں غورکرناچاہئے؛ تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ یہ حکم مبنی برانصاف ہے اوراس کے ذریعہ عورتوں کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے۔

علامہ ابن عاشورؒ اس کی حکمتوں پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : اس عظیم قانون کی حکمت یہ ہے کہ اس میں بیویوں کے حقوق کی پامالی اورگھروں میں انھیں کھلواڑ بنالینے پرشوہروں کوزجراورتوبیخ کی گئی ہے؛ چنانچہ پہلی طلاق کونادانی، دوسری کوتجربہ اورتیسری کوجدائے گی قراردیاگیاہے۔۔۔ پھرتیسری طلاق کے ساتھ دوحکم متعلق کئے ہیں : ایک یہ کہ شوہرسے مراجعت کاحق چھین لیاگیا، دوسرے یہ کہ بیوی سے بغیردوسرے مردسے نکاح کے پہلے شوہرکے پاس واپسی کے حق سے محروم کردیاگیا، پھردوسرے شوہرسے نکاح کی شرط اس لئے لگائی؛ تاکہ شوہروں کواس بات سے روکاجائے کہ وہ تین طلاق دینے میں جلدبازی سے کام نہ لے(التحریروالتنویر:۲؍۴۱۵)، ورنہ بیوی سے محروم کردئے جاؤگے، بہرحال ! حلالہ کے ذریعہ عورتوں کے حقوق پامال کرنے والے شوہرکوتکلیف میں مبتلا کیا جاتاہے اوراس کی غیرت کوللکاراجاتاہے کہ تمہاری بیوی، جس کے ساتھ تم نے کئی مدت گزاری ہے، تمہاری غلطی کے نتیجہ میں اب دوسرے کے بسترکی زینت بننے جارہی ہے۔

حلالہ کوئی بچوں کاکھیل نہیں۔ بل کہ یہ ایک دشوارکن عمل ہے، کسی بھی باغیرت شخص کے رونگٹے اس کے تصورسے ہی کھڑے ہوجائیں گے، اورظاہر ہے کہ جب اس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے توپھرکوئی بھی باغیرت شخص طلاق مغلظہ دینے کی سوچ بھی نہیں سکتا، یہ دراصل شوہرکے حق میں تازیانۂ عبرت ہے، جواس کی قبیح حرکت کے مقابلہ میں اسے دی گئی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔