دار المصنّفین کے لیل و نہار

محترمہ حمیدہ بانو (اورنیڈا، کیلیفورنیا، امریکہ )نے اپنے ٹرسٹ ”اِمداد“ کے ذریعے ”معارف“  کی اِشاعت و ترویج کے لیے یک مُشت رقم کا ایک دائمی وقف (Endowment) قائم کیا ہے۔ اِس سلسلے میں ”اِمداد“ اور دارالمصنّفین کے درمیان معاہدے کی رُو سے یہ رقم دائمی وقف کے طور سے اِنْویسٹ(Invest) ہوگی جس کا سالانہ منافع ”معارف“ کے اخراجات کے لیے استعمال ہوگا۔ عطیہ دہندہ نے رقم دار المصنّفین کو بھیج دی ہے اور اُس کو ایک مناسب فنڈ میں اِنْویسٹ کیا جا رہا ہے۔ اس سے ”معارف“ اِنشاء اللہ ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔

عطیہ دہندہ حمیدہ بانو کو اردو زبان و ادب سےایک قلبی لگاؤ ہے۔ اُنہوں نے راجستھان یونیورسٹی سے  فلسفہ میں ایم۔ اے  اور جامعہ اردوعلی گڑھ سےادیب  کامل کی سند حاصل کی ہے۔ وہ امریکہ میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے اور بھارت میں انڈین اِنسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی گاندھی نگر، گجرات میں تدریسی خدمات انجام دے چکی ہیں۔ امریکہ میں اردو زبان کی رضاکارانہ خدمت اور ترویج میں بھی وہ پیش پیش رہی ہیں اور بین الاقوامی کانفرسوں اور سمینارز میں اپنے علمی مقالے پیش کرچکی ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ تقریباً ایک دہائی قبل جب آئی۔ آئی۔ ٹی۔  گاندھی نگر، گجرات کا قیام عمل میں آیاتو اُسی زمانے سے اُنہوں نے وہاں اردو زبان و ادب کی تدریس کے ایک مبارک سلسلے کا آغاز کیا۔ بالآخر فروری ۲۰۱۹ء میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے انڈین اِنسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی گاندھی نگر  میں ایک چیئر قائم  کی، جس میں اردو زبان و ادب کی تدریس کا سلسلہ ان شاءاللہ ہمیشہ کے لیے  جاری رہے گا۔ اس کے علاوہ انہوں نےحال ہی میں مولانا ابو الکلام آزاد کی تفسیر سورۂ فاتحہ کا ایک نیا عام فہم ایڈیشن  مبشّر احسن ندوی کی شراکت کے ساتھ  شائع کیا ہے  (ناشر: ایم آر پبلیکیشنز  دہلی)۔

دارالمصنفین کو فرینڈ شپ ایوارڈ :

   مولانا آزاد انٹر کالج، انجان شہیداعظم گڑھ   کے بانی مرزااحسان اللہ بیگ  مرحوم کے یوم پیدائش پر کالج انتظامیہ  کی جانب سے سنہ ۲۰۰۵ سےہر سال  ملک کی ممتاز اور اہم شخصیات اور اداروں کو ” فرینڈشپ ایوارڈ ” دیاجاتا ہے۔ اس سال اس نے ملک کے مایہ ناز ادارہ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کو  اس کی علمی،تحقیقی، ادبی،ملی اور قومی سرگرمیوں میں نمایاں خدمات کے اعتراف میں اس اعزاز سے سرفراز کیا۔ ایوارڈ کی تقریب سے پہلے  طلبہ وطالبات نے متعدد ثقافتی پروگرام پیش کیے ۔ اس کے بعد یہ ایوارڈ دارالمصنفین کے ڈائریکٹر اور صدر مجلس عاملہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں نے ۱۸؍ فروری  ۲۰۲۲ءبروز جمعہ کالج کے مینیجر مرزاعارف بیگ اور اجے  کمار سنگھ  صدر بابو رام کمار سنگھ فاؤنڈیشن کے ہاتھوں  سے حاصل کیا ۔ اس موقع پر کالج انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے کہا کہ مرزااحسان اللہ بیگ اور کنور سنگھ کے نام سے منسوب اس ایوارڈ کو لیتے  ہوئے ہمیں بہت خوشی ہو رہی ہے۔ اس سے علامہ شبلی اور ان کے ادارہ سے آپ کی عقیدت و محبت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ فرینڈ شپ ایوارڈ ہندو مسلم بھائی چارہ  اور ملکی اور قومی یکجہتی کی عظیم مثال ہے۔ اس قسم کے ایوارڈ کی آج کے وقت میں بہت ضرورت ہے ۔ دارالمصنفین میں عربی، اردو، فارسی، انگریزی اورہندی کی  ایک لاکھ سے زیادہ کتابیں، آٹھ سو سے زیادہ  نادر مخطوطات اور پونے تین  سو کے قریب اس کی اپنی مطبوعات ہیں۔ انہوں نے ادارے سے استفادہ، تعاون اور اس کی مزید ترقی کے لیےمشورے اور تجویزیں دینے کی حاضرین سے درخواست کی ۔ طلبہ سے کہا کہ تعلیم نہایت ایمان داری اور محنت سے حاصل کریں، اس لیے کہ تعلیم کے بغیر اس آگے بڑھتی دنیا کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔

پروگرام کیصدارت  چلڈرن کالج  اعظم گڑھ کے بانی  بجرنگ ترپاٹھی اور نظامت وائس آف اعظم گڑھ کمیو نٹی   ریڈیو اسٹیشن سے وابستہ سیما  بھارتی نے کی۔ اس موقع پر مولانا عمیر الصدیق ندوی نے بھی خطاب کیا ۔ آخر میں مولانا آزاد انٹر کالج  کی انتظامیہ کے صدر مرزا قمرالحسن بیگ نے شکریہ ادا کیا ۔ پروگرام کے خاتمےکے بعد ڈاکٹر ظفرالاسلام  نےمیڈیا کے افراد  سے ملک وملت کے حالات پر بات کی ۔ کالج کے کیمپس میں  وائس آف اعظم گڑھ کمیونٹی ریڈیو اسٹیشن بھی ہے جو  اعظم  گڑھ کے لیے بڑی بات ہے۔

دارالمصنفین میں یاد گار خطبہ:

   دارالمصنفین کی علمی سرگرمیوں کاایک روشن باب یادگاری اور توسیعی خطبات کا اہتمام ہے ۔ اس سے پہلے علامہ شبلی نعمانی کے افکار و نظریات پر ڈاکٹر نذیر احمد، پروفیسر خلیق احمد نظامی، پروفیسر عبدالمغنی، پروفیسر ریاض الرحمن خاں شروانی، پروفیسر شمس الرحمن فاروقی،وغیرہ یادگاری خطبات دے چکے ہیں۔ اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹرفخرلاسلام صاحب جوائنٹ سکریٹری دارالمصنّفین کی دعوت پر ۲۰؍فروری    بروز اتوار بعد نماز مغرب ڈاکٹر علاؤ الدین خاں صدر شعبہ تاریخ شبلی  نیشنل کالج، اعظم گڑھ نے  ’’تاریخ ہند کے تناظر میں علامہ شبلی کی مؤرخانہ بصیرت‘‘ کے موضوع پر ایک پرمغز خطبہ دیا اورتاریخ ہند سے متعلق  علامہ شبلی کی تحریروں کاجائزہ بڑے سادہ اور معتدل اسلوب میں پیش کیا  ۔ انھوں نے کہا کہ مغربی اور بعض ہندوستانی موٴرخین نے مسلمانوں بالخصوص اورنگ زیب عالمگیر سے متعلق جو غلط فہمیاں پھیلا رکھی تھیں ان کا  علامہ شبلی نے جس طریقے سے علمی اور مدلل جواب دیا ہے اس نے اورنگ زیب کا مطالعہ کرنے والوں کو نئی سمت عطا کی ہے۔ صدر جلسہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں  نےاپنے خطاب میں کہا کہ ڈاکٹر علاؤالدین  کا مقالہ بڑی جامعیت کا حامل اور قابل قدر ہے ۔ ضرورت ہے کہ ملک کے مفاد میں تاریخی  شبہات  کو درست کیا جائے اور دلوں کو جوڑنے والی حقیقتوں کو سامنے لایا جائے ۔ یہ یادگاری خطبہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کے کانفرنس ہال میں دیا گیا ۔ پروگرام کی صدارت ناظم دارالمصنفین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور نظامت کے فرائض  مولانا عمیر الصدیق ندوی نے انجام دیے۔ تلاوت حافظ عبدالرحمن قمر عباسی نے کی۔ اس موقع پر دارالمصنفین کے  رفقا وملازمین کے علاوہ شبلی کالج کے اساتذہ اور معززین شہرموجود تھے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔