ذبیح اللہ ذبیح اور بصیرت تنقید
ایس ایم حسینی
کتاب: بصیرت تنقید
مصنف: ذبیح اللہ ذبیح
تعداد: پانچ سو (500)
صفحات: ایک سو ساٹھ (160)
سنہ اشاعت: 2021ء
قیمت: تین سو روپئے (300)
ناشر: printology lnc
ملنے کا پتہ: کوچہ چیلان دریا گنج، نئی دہلی
زندگی میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے بار بار کی ملاقات اور مل بیٹھنے سے بھی اجنبیت کی دیوار مسمار نہیں ہوتی ہے بلکہ اپنی جگہ پہلی سی صورت میں ایستادہ رہتی ہے، لیکن ذبیح اللہ ذبیح ان چنندہ افراد میں سے ہیں جن سے پہلی دفعہ ہی ملاقات کیوں نہ ہوئی ہو، گفتگو کر کے محسوس ہوتا ہے کہ ہم انہیں برسوں سے جانتے ہیں، اور پرانی رسم و راہ ہے، جن کی خوش مزاجی، زندہ دلی اور شائستہ انداز کلام ہر ایک کو اپنا بنانے کا ہنر رکھتا ہے، آپ کا تعلق کشی نگر اترپردیش سے ہے، اور فی الوقت دہلی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، ذبیح اللہ ذبیح عصر حاضر کے ان نمایاں نوجوانوں میں سے ہیں جو اپنے تخلیقی، تنقیدی و تحقیقی سفر کے لئے کوشاں ہیں، اور علمی ادبی و تنقیدی مضامین ملک کے مختلف رسالوں، اخباروں اور ماہناموں میں شائع ہوتے رہتے ہیں، آپ نے افسانے، غزلیں، نظمیں بھی لکھیں، اور تبصرے، تجزیاتی و تنقیدی مضامین سے بھی اپنی لیاقت کو ثابت کیا ہے، جس کا بیّن ثبوت ان کی شائع ہونے والی کتاب "بصیرت تنقید” ہے۔
مصنف نے زیر نظر کتاب کا انتساب اپنے مشفق و کرم فرما اساتذہ بطور خاص ڈاکٹر مرتضی علی اطہر، ڈاکٹر متھن کمار اور بڑے بھائی کی طرح عزیز ڈاکٹر عامر سہیل کے نام کیا ہے، ذبیح اللہ ذبیح نے پیش لفظ میں کتاب کے متن سے درگزر کرتے ہوئے اسے قارئین کے لئے چھوڑا ہے اور قلم دوستی کی وجوہات، کورے کاغذ سے تعارف، اور گھر کا ماحول بیان کرنے کے علاوہ اپنی عادات واطوار اور بچپن سے وابستہ یادوں کا ذکر کرتے ہوئے والدہ کے ادبی ذوق و تربیت کے مظاہر سے پردہ اٹھایا ہے، زیر نظر رشحات قلمی کے سراہے جانے اور ان کے شائع ہونے پر اساتذہ کرام، احباب و محسنین کا شکریہ بھی ادا کیا ہے، پیش لفظ میں مصنف نے بے باکی کے ساتھ اپنی زندگی کی ایک جھلک دکھائی ہے جس کو پڑھ کر قاری کا دل کبھی پسیج جاتا ہے تو کبھی چشم نم مسکرا اٹھتی ہے، اور صاحب کتاب کے بارے میں کسی بھی قسم کی رائے قائم کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
"بصیرت تنقید” مختلف وقتوں میں اور مختلف ضروتوں کے تحت لکھے گئے ذبیح اللہ ذبیح کے چودہ مضامین کا مجموعہ ہے، جس میں رنگا رنگ پھول بکھرے ہوئے ہیں، زبان وبیان کی سادگی وپرکاری دیکھنے کی چیز ہے، وہ اپنی بات کس آسانی اور سنجیدگی سے کہہ جاتے ہیں بس دیکھتے ہی بنتا ہے، آپ کے یہاں الجھاؤ نہیں ہے بلکہ بات سلیس اور عام فہم زبان میں کرتے ہیں، مصنف کو شائستہ وسنجیدہ گفتگو پر قدرت حاصل ہے، زبان صاف اور شستہ ہے، الفاظ اور جملوں کا ربط جیسے پانی کا بہاؤ ہو جو بنا رکے بنا اٹکے اطمینان سے بہتا چلا جارہا ہے، ذبیح اللہ ذبیح کے اسلوب کی انفرادیت قاری کو گرویدہ کرلیتی ہے اور مطالعہ کے دوران دلچسپی بنی رہتی ہے، جس میں معصومیت کی جھلک ہے اور جارحیت کا عکس بھی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی حالات حاضرہ پر نظر ہے اور مطالعہ میں بھی وسعت ہے۔
کتاب میں شامل ان کا پہلا مضمون "رضا لائبریری کی علمی و ادبی خدمات” کے عنوان سے ہے جس میں مشہور زمانہ رضا لائبریری کے قیام پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کی علمی وادبی خدمات کے مختلف ادوار کا جائزہ لیا گیا ہے، وہاں سے شائع ہونے والے وقیع رسائل وجرائد اور کتابوں کا ذکر کیا ہے اور لائبریری کی اہم مطبوعہ کتب کی نشاندہی بھی کی ہے، پھر موجودہ سرگرمیوں سے قاری کو روشناس کراتے ہوئے بہت سی ایسی باتیں پیش کی ہیں جو کسی علم دوست کے لئے قیمتی سرمایہ ثابت ہوسکتی ہیں، بانی لائبریری نواب فیض علی خان کی زندگی ان کی ادب شناسی، سخن وری اور شعری و موسیقی کی ان ادبی محفلوں پر بھی گفتگو کی ہے جس نے رامپور کو جھومنے پر مجبور کردیا تھا، علاوہ ازیں نواب رضا علی خان کے دو اہم کارنامے اعلی تعلیم پر خاص توجہ اور لائبریری کو عوامی کتب خانہ میں تبدیل کرنے کا مختصرا بیان ہے۔
دوسرا مضمون”مباحث نظریاتی: ترجمہ” کے نام سے ہے جس میں متعدد ذیلی عناوین کے تحت زبان اور ترجمہ نگاری کے فن پر مفصل گفتگو کرتے ہوئے اس کی باریکیوں کو اجاگر کیا ہے، اور اصطلاحات اور محاورے کے درمیان کا فرق واضح کر کے اصطلاح سازی کے مسائل پر تفصیلی کلام ہے، پھر تراجم و اصطلاحات کے ضمن میں مختلف اداروں کی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے، مصنف نے اپنے خاص اسلوب میں انگریزی اصطلاحات کا چھان پھٹک کر اردو سے موازنہ کیا ہے، اصطلاحات سازی، اس کے مختلف مدارج اور مفرد و مرکب اصطلاحوں کے اصولوں پر یہ ایک وقیع مضمون ہے، البتہ اگر مصنف نے مثالوں سے وضاحت بھی کردی ہوتی تو مضمون کے حسن میں مزید اضافہ ہوجاتا۔
"سر سید بحیثیت وطن پرست” یہ مقالہ سر سید کی ادبی زندگی، خدمات اور کارناموں پر سرسری بات کرتے ہوئے تعلیمی بیداری اور سر سید کے مضامین میں ہندو مسلم اتحاد کے تجزیاتی مطالعہ پر مبنی ہے، "انتظار حسین کے افسانوں میں مختلف اساطیر” ایک طویل مضمون ہے جس میں "کایا کلپ” "کشتی” "کچھوا” جیسے افسانوں کا خلاصہ بیان کرنے کے ساتھ ان کے اقتباسات کا تجزیہ پیش کرنے کے علاوہ انتظار حسین کے افسانوں میں توہمات، ہندو تہذیب اور بودھ عقیدہ کے اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے، یہ ایک خوبصورت تجزیاتی مضمون ہے، پانچواں مقالہ حفیظ نعمانی کے خاکوں کا مجموعہ "بجھے دیوں کی قطار” میں شامل جگر مرادآبادی، مقبول احمد لاری، چودھری سبط محمد نقوی، عمر انصاری، جمیل مہدی، ولی آسی، ڈاکٹر سعادت علی صدیقی جیسی شخصیات پر لکھے گئے خاکوں کا جائزہ اس خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ قاری کتاب کے لئے مچل اٹھے، "مشرف عالم ذوقی ایک بے باک افسانہ نگار” کی سرخی سے مضمون نگار نے ذوقی کے افسانوی مجموعہ "نفرت کے دنوں میں” شامل دو افسانوں پر گفتگو کی ہے، اور ذوقی کی زندگی پر ایک سرسری نظر بھی ڈالی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں مصنف نے شموئل احمد کا ناول "چمراسر” جو کہ دلت سماج اور ان پر ہونے والی زیادتیوں کی داستان دلخراش پر مبنی ہے کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے، جسے پڑھ کر دلچسپی بڑھتی ہے اور ناول پڑھنے کی خواہش تیز تر ہوجاتی ہے، "فقط بیان تک: کا تنقیدی وتجزیاتی مطالعہ” تحریر عنوان سے ہی ظاہر ہے، پھر بھی بتاتے چلیں کہ اس افسانوی مجموعہ کے منتخب افسانوں پر صاحب کتاب نے اپنی تنقیدی بصیرت سے قاری کو متاثر کیا ہے اور آسان زبان واسلوب میں کمال مہارت سے اپنی بات رکھی ہے، دسویں تحریر "ڈاکٹر نعیم انیس اور یادوں کے جگنو” ہے، جس میں محترم نعیم انیس سے مصنف نے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر اور طلبہ کے تئیں ان کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے نعیم انیس کی کتابوں کا سرسری جائزہ لینے کے بعد ان کی رپورتاژ نگاری اور اس کی لغوی واصطلاحی تعریف بیان کرنے کے بعد نعیم انیس کے رپورتاژ "یادوں کے جگنوں” پر طویل اور جامع گفتگو کی ہے، ساتویں مقالہ میں صادقہ نواب سحر کی غزلوں کا مجموعہ "باوجود” کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ان کی غزلوں میں پائے جانے والی معانی و مفاہیم سے روشناس کرایا ہے، "سیمنتنی اپدیش” ہندی زبان میں خواتین کے مسائل پر لکھی گئی ایک خوبصورت کتاب ہے جو تانیثی ادب میں یقینا عمدہ اضافہ کی حیثیت رکھتی ہے، جس کا اردو ترجمہ "نورالاسلام” نے کیا ہے، مصنف نے اس کتاب کا بہت ہی باریک بینی سے تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے، پھر "علیم اسمعیل ‘رنجش’ کے آئینہ میں” ہے، عنوان پڑھ کر ہی مضمون بھانپا جاسکتا ہے، اس کے بعد "صفورہ زرگر ایک انقلابی خاتون” میں مشہور افسانہ نگار زاہدہ حنا کا افسانہ "تتلیاں ڈھونڈنے والی” کی مرکزی کردار "نرجس” سے "صفورہ زرگر” کا تقابل کرتے ہوئے مصنف نے موجودہ حالات کی ستم ظریفی پر چوٹ کی ہے اور اپنے جذبات بھی تحریر میں سلیقے سے پِرونے کے ساتھ عورتوں پر ہونے والے مظالم پر قلمی احتجاج پیش کیا ہے، آخری مضمون تاثراتی نوعیت کا ہے جو "دنیا کی بے ثباتی اور عرفان خان” کے عنوان سے ہے، جس میں صاحب کتاب نے اپنے تاثرات لفظوں میں لپیٹ کر بہت ہی مناسب طریقہ سے پیش کئے ہیں اور عرفان خان کی آخری تحریر قارئین کے حوالے کرکے اجازت لے لی ہے۔
کتاب کی معنوی صورت پر تو گفتگو ہوگئی ہے، اب ذرا ظاہری حسن، عمدہ طباعت اور خوبصورت سرورق کی بات بھی کرلی جائے، جس کی کشش قاری کے دل میں ہلچل پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے۔ کتاب پر نظر پڑتے ہی محسوس ہوتا ہے جیسے سفید شفاف آسمان پر کہر چھائی ہوئی ہے اور مغرب کی جانب جھکتے سورج کی سرخی سے "بصیرت تنقید” لکھا ہوا ہے، جو اپنے اندر لفظوں کا ایک جہاں سموئے ہوئے ہے، سرورق پر قلم دوات کی تصویر یہ ظاہر کرتی ہے کہ کورے کاغذ پر اپنے جذبات، احساسات اور تاریخی حقائق ومعلومات کو سیاہی سے ثبت کرنے کا عمل ابد سے ہوتا آیا ہے اور ازل تک جاری رہے گا۔
تبصرے بند ہیں۔