رمضان المبارک کی عظمت کا اعتراف امریکہ میں
ڈاکٹر سیّد احمد قادری
امریکہ میں اس سال کے رمضان المبارک میں دو ایسے واقعات سامنے آئے، جس نے پوری دنیا کو چونکا دیا اور متعصب، فرقہ پرستوں اور فاسشٹوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ ان دو واقعات میں پہلا واقعہ یہ ہے کہ یوں تو رمضان المبارک میں امریکہ کے تقریباََ ہر شہر میں دعوت افطار کا اہتمام بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی بہت سارے شہروں میں دعوت افطار کا اہتمام کیا گیا۔ لیکن ہیوسٹن شہر کے میئر سلوسٹر ٹرنر نے ہیوسٹن میں ایک شاندار دعوت افطار اور ڈنر کا اہتمام کیا، جس میں شہر کے عمائدین کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں مختلف ممالک سفارت کار، منتخب نمائندے وغیرہ موجود تھے۔ اس دعوت افطار اور ڈنر میں مسلمانوں کے کردار و عمل سے متاثر ہوکر میئر نے ایسی بات کہہ دی کہ وہ عالمی خبر بن گئی۔ مسٹر سلوسٹر ٹرنر نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی معاشرے میں مسلمانوں کے کلیدی کردار کو دیکھتے ہوئے ’ وہ وقت دور نہیں جب ایک مسلمان امریکہ کا صد بنے گا۔ انھوں نے اس کے ساتھ ہی ساتھ امریکی مسلمانوں کے کردار کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ امریکہ کا کوئی بھی شہر مسلمانوں کی نمائندگی کے بغیر عظیم شہر نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ سلوسٹر ٹرنر کا یہ بیان عالمی خبر بن کر دنیا کے لوگوں کی توجہ مبذول کرا لی ہے۔ چونکہ مجھے کئی ماہ امریکہ میں رہنے اور وہاں کے مسلمانوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے، اس بنا پر میں کہہ سکتا ہوں کہ امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں نے اپنے کردار و عمل سے یہ تاثر ضرور دیا ہے کہ آ ج سلوسٹر ٹرنر ہی نہیں بہت دنیا کے بہت سارے دوسرے مذاہب کے لوگ امریکی مسلمانوں کے کردار و عمل کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں۔ اس عنوان پر پھر کبھی میں تفصیل سے بات کرونگا۔ اب میں اپنے موضوع پر آتا ہوں۔ امریکہ میں اس سال کے رمضان میں دوسری اہم خبر یہ رہی کہ اس سال امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ امریکہ کے سب سے مصروف ترین اور مہنگے علاقہ ٹائمز اسکوائر کی سڑک پر باجماعت نماز تراویح کا اہتمام ہوا اور کسی کو اعتراض نہیں ہوا بلکہ اس علاقے سے گزرنے والے دوسرے مذاہب کے لوگ احترام میں نماز کی صفوں جا کھڑے ہوئے۔ اس نماز تراویح کے اہتمام کرنے والے منتظمین نے اس سلسلے میں وہاں کے میڈیا کو بتایا کہ اس تراویح کے اہتمام کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کے بارے جو غلط فہمی ہے اسے دور کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام ایک امن پسند مذہب کا نام ہے۔
امریکہ میں مذہبی آزادی ہر شہری کو حاصل ہے۔ اس لئے یہاں دوسرے کئی مذاہب کے ساتھ ساتھ اسلام مذہب بھی اپنی پوری
خصوصیات کے ساتھ نہ صرف موجود ہے، بلکہ متاثر کرنے میں بھی بے حد کامیاب ہے۔ جس کی خبریں اکثر میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔
امریکہ میں مذہبی آزادی کایہ عالم ہے کہ یہاں ہر مذاہب کے لوگوں کی تعداد کے تناسب سے ان کی عبادت گاہیں بھی موجود ہیں اور چونکہ امریکہ میں مختلف ممالک سے آکر بسنے والے مسلمانوں کی تعداد کافی ہے، اس لئے یہاں کے تقریباََ تمام شہر میں بے حد خوبصورت اور وسیع و عریض مساجد ہیں، ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں اس وقت 1900سے زائد مساجد اور اسلامک سنٹر قائم ہیں، جہاں لوگ آزادانہ طور پر عبادات، دینی تعلیمات، تحفظ ثقافت اور اپنے مذہبی رسومات اورپرب و تہوار میں مشغول رہتے ہیں۔ امریکہ کی یہ مذہبی آزادی اوررواداری ہی ہے کہ یہاں کے بعض شہروں میں جہاں کے چرچ بعض وجوہات کی بنأ پر ویران ہو جاتے ہیں۔ ایسے چرچ کو یہاں کے مسلمانوں نے خرید کر مسجد میں تبدیل کر لیا اور اپنے مذہبی عبادات میں یہاں مشغول رہتے ہیں۔ مذہبی اور ثقافتی کشادہ دلی کا ہی یہ فیض ہے کہ یہاں کے دفاتر اور تجارت گاہوں ( والمارٹ، کروگر، مال وغیرہ ) میں مسلمان مرد و خواتین اپنے پورے تشخص کے ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ مرد اپنی شرعی داڑھی اور روائیتی لباس اور عورتیں حجاب اور نقاب میں بھی یہاں خوب نظر آتی ہیں۔ مختلف مساجد میں مختلف ممالک کے مردوں کے ساتھ ساتھ مسلم خواتین کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہوتی ہے، خواتین کے لئے عبادات کے لئے الگ سے خصوصی انتظام رہتا ہے۔ مساجد میں چھوٹے بچوں اور بچیوں کی دینی تعلیم کے لئے الگ سے مدارس بھی قائم ہیں او ر درس و تدریس کے لئے باضابطہ مدرس بحال ہیں، جہاں روزانہ عصر اور مغرب کے درمیان اور اتوار کو صبح سے ظہر تک دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان مساجد میں سے کئی مساجد ایسی ہیں، جہاں مُردوں کو غسل اور تجہیز و تفکین کا انتظام رہتا ہے ۔
یہاں سے شائع ہونے والے اردو اخبارات میں اکثر و بیشتر اسلامیات سے متعلق مختلف موضوعات پر مضامین آتے رہتے ہیں اور یہاں کے کئی ریڈیو پر اسٹیشنوں سے اسلامیات پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ میں نے امریکہ کے کئی شہروں کا دورہ کیا اوربہت سارے گھروں میں رہنے، لوگوں سے ملنے جلنے کے ساتھ ساتھ مختلف تقریبات میں بھی شامل ہونے کا موقع ملا۔ ہر جگہ میں نے بہت شدّت سے اس بات کو محسوس کیا کہ امریکہ میں ہر مسلمان نہ صرف اپنے گھر، بلکہ گھر کے باہر بھی اپنے مذہب کا نہ صرف عقیدت و احترام کرتا ہے، بلکہ عملی مظاہرہ بھی کرتا ہے۔ حلال اور حرام کا بھی انھیں خوب خیال رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں باضابطہ بڑے بڑے فوڈ مارٹ ایسے ہیں، جہاں حلال اور ذبیحہ کا بطور خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یہاں کے ہوٹلوں میں بہت سارے ہوٹل ایسے ہیں، جہاں بڑے بڑے ہورڈنگ حلال اور ذبیحہ کے لگے ہوتے ہیں، اس لئے یہاں کے مسلمان ان فورڈ مارٹوں اور ہوٹلوں میں بلا جھجھک جاتے ہیں اوراسلامی پابندیوں کا خیال کرتے ہیں، گرچہ عام دُکانوں اور مارٹ کے مقابلے ذبیحہ گوشت تھوڑے مہنگے ہوتے ہیں، پھر بھی یہاں کے مسلمان اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں کے کئی ایسے فورڈ مارٹ ہیں، جو ر مضان ا لمبارک کے سایہ فگن ہوتے ہی اپنی دریا دلی کا مظاہرہ اور احترام کرتے ہوئے کئی اشیاء کی قیمتوں میں کافی کمی کر دیتے ہیں، جو کہ یقینا قابل تعریف عمل ہے۔ جبکہ انڈیا اور پاکستان وغیرہ میں رمضان کے موقع پر مہنگے ہو جاتے ہیں۔
امریکہ میں ماہ رمضان المبارک کا استقبال بڑے پر تپاک انداز میں کیا جاتا ہے، مرد، عورتیں، بچے سبھی بڑے خشوع وخضوع کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں، یہاں کی مساجد کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں۔ روزہ داروں کی روزہ کشائی کا ثواب حاصل کرنے کے لئے بڑے بڑے ہوٹل مالکان اور دیگر مخیر حضرات کی جانب سے روزانہ ہر مسجد میں افطار اور کھانے کا بہترین انتظام ہوتا ہے۔ افطار میں کھجوراور شربت کے ساتھ ساتھ پھل، پھلکی، پکوڑی، جیلابی اور چنا وغیرہ ہوتا ہے۔ افطار کے بعد مرد، عورتیں، بچے سبھی مغرب کی نمازادا کرتے ہیں اور نماز ختم ہوتے ہی کھانا چن دیا جاتا ہے، اور کھانا بھی بے حد پر تکلف، یعنی بریانی، نان، مرغ، مٹن وغیرہ کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی میٹھا بھی ضرور ہوتا ہے۔ میں یہ بات واضح کر دوں کہ یہ افطار و کھانا فطرہ یا زکوٰۃ کی رقم سے نہیں ہوتا۔ چونکہ یہاں کی بیشتر عورتیں جاب کرتی ہیں، اس لئے وہ خود اور ان کے شوہر و بچے بھی نہ صرف افطار و کھانا کے لئے بلکہ نماز و تراویح کے لئے بھی مسجد آ جاتے ہیں۔ یہاں لوگوں کی رہائش دور دور پر واقع ہے اور آبادی دور تک پھیلی ہوئی ہے،اس لئے لوگوں کا ملنا جلنا بھی ہو جاتا ہے۔ ایسے تمام لوگ افطار اور کھانے کے اہتمام میں شریک ہوتے ہیں۔ مساجد میں یوں تو پورے رمضان بھر ایک خاص طرح کا ماحول رہتا ہے، لیکن عصر سے عشاء تک کا ماحول بڑا ہی روح پرور ہوتا ہے۔ یہاں کی مساجد میں رمضان ا مبارک کے آخری عشرہ میں بیس بیس لوگ اعتکاف میں بھی بیٹھتے ہیں، جنھیں ساری سہولیات مسجد کی کمیٹی کی جانب سے دی جاتی ہیں۔ مساجد کے امام کی تنخواہ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بہت سارے لوگ امامت کو ترجیح دیتے ہیں۔ جمعہ کو خاص اہتمام ہوتا ہے۔ اس دن امام یا پھر کوئی بڑا عالم دین خطبہ دیتا ہے۔ ایسے لوگوں میں زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں، جن کے افکار و خیالات جدید تقاضوں سے مذّین ہوتے ہیں۔ مساجد میں لوگ دل کھول کر چندہ دیتے ہیں، اس لئے مساجد کے انتظامات میں کسی طرح کی مالی دشواری نہیں ہوتی ہے۔ یوں تو جہاں پر ملی جلی آبادی یعنی مختلف مسلکوں کے لوگ رہتے ہیں، وہاں پر کسی خاص مسلک کی پیروی نہیں ہوتی ہے۔ لیکن جہاں پر کسی خاص مسلک کی آبادی کا تناسب زیادہ ہوتا ہے، وہاں پر ان کی خاص مسجدیں ہوتی ہیں۔ مثلاََ میں نے نیؤ یارک میں البانیوں کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی، جہاں کا منمبر کافی اُنچائی پر تھا، اور امام نے البانی زبان میں تشریح و تقریر کی۔ اسی طرح ہیوسٹن میں بہت عالیشان اور بہت شاندار بوہرہ کی مسجد بھی دیکھی۔
امریکہ کے تقریباََ ہر شہر میں رمضان کی چاند رات کا میلہ کا زبردست اہتمام دیکھا جاتا ہے۔ وسیع و عریض ہوٹلوں کے ہال میں طرح طرح کی دکانیں سجائی جاتی ہیں، خاص طور پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس چاند رات میلہ کا خوب لطف اٹھاتے ہیں، طرح طرح کے لباس، سجنے سنورنے کے سامان اور بھی بہت ساری چیزیں یہاں بکتی ہیں، نوجوان لڑکے، لڑکیوں، بچوں اور عورتوں کو اس چاند رات کا بہت شدت سے انتظار رہتا ہے، اس رات یہ لوگ بہت جم کر خریداری کرتے ہیں اور رات گئے تک چہل پہل رہتی ہے۔
عید الفطر کی نماز، یوں تو مساجد میں بھی ہوتی ہیں لیکن لوگ (مرد و خواتین ) عید الفطر کی نماز کے لئے بڑے مجمع میں نماز کی ادائیگی کو ترجیح دیتے ہیں، جہاں بیک وقت پچیس سے تیس ہزا ر سے زائد لوگ عید کی نماز ادا کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ نما زکے لئے کوئی بھی گراؤنڈ یا ہال یہاں مفت میں نہیں ملتا ہے بلکہ ہزاروں ڈالر دے کر کچھ گھنٹوں کے لئے کرایہ پر لیا جاتا ہے۔ نماز کے بعد اسی جگہ لوگ مرد، عورتیں سبھی اپنے احباب سے ملتے ہیں، دوردور رہائش کی بنأ پر لوگ اسی جگہ مل لیتے ہیں، کمیٹی کی جانب سے مفت میں ڈونٹ (مٹھائی) وغیرہ کا بھی انتظام رہتا ہے، اس لئے لوگ ان مٹھایوں کا بھی لطف لیتے ہیں، بعض خواتین اپنے لوگوں کے لئے اپنے گھر سے میٹھے پکوان لے جاتی ہیں اور اسی جگہ سب مل جل کر ایک ساتھ بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں، یہ منظر آپسی محبت اور میل ملاپ کی بھرپور عکّاسی کرتا ہے۔
رمضان اور عید کے سلسلے میں ایک طرف جہاں بڑی تعداد میں لوگ Islamic Society of North America
نامی تنظیم، جس کا مرکز انڈیانا ہے، کے فیصلوں کو، جو سائنسی نظام پر مبنی ہوتا ہے، مانتے ہیں، وہیں دوسری طرف کچھ لوگ ICNA کے ماننے والے چاند دیکھنے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ امریکہ کے مسلمان جس اتحاد، اتفاق، یکجہتی، اخوت، خود داری، شائستگی اور اسلامی شعار کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے ہیں، وہ یقینی طور پر قابل تعریف ہے اور ان کی بعض تنظیمیں، مخّیر خواتین و حضرات کے بھر پور تعاون سے،اپنے اپنے ممالک کے غریبوں، ناداروں، مجبوروں اور بے کسوں کے لئے مالی امداد کرتے ہیں۔ یہ سب ایسا انسانی اور دینی عمل ہے، جس کی ستائش کرنے پر سلوسٹر ٹرنر جیسے لوگ مجبور ہو جاتے ہیں۔
٭٭
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔