رہبر کامل ﷺ: حربی اخلا قیات کی روشنی میں

ڈاکٹر غلام قادر لون

 انسانی زندگی میں ہمہ جہت تبدیلی لانے کا تقاضا ہے کہ ایسے مواقع کی اصلاح پر توجہ دی جائے جہاں عفو و در گزر کا کوئی گزر نہیں ہوتا۔ یہ موقع میدانِ جنگ کا ہے، جس میں انسان درندوں کی سطح پر اُتر آتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت جنگ ایک ایسی ہولناک مصیبت تھی جس میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا تھا۔ جنگ میں بربریت کا مظاہرہ کرنابہادری اور فخر کی بات سمجھی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ عرب جنگ کو وسیلہ معاش سمجھتے تھے۔ وہ اس بات کو معیوب جانتے تھے کہ تین ماہ مسلسل بغیر جنگ کے گزر جائیں اور وہ مالِ غنیمت سے محروم رہیں۔

رسول اللہ ﷺ جنگ کو ناپسند کرتے تھے۔ عرب اپنے بچوں کے نام ’’حرب‘‘ رکھتے تھے۔ حضرت علیؓ نے اپنے ایک بیٹے کا نام ’’حرب‘‘ رکھا۔ آپﷺ نے اس کا نام بدل کر حسنؓ رکھ دیا۔۸ ھ میں جب آپﷺ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے اور آپﷺ کی قیادت میں قبائل کی فوجیں اپنے اپنے سرداروں کی رہنمائی میں آگے بڑھ رہی تھیں، ابو سفیان یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔انصار کے علمبردار حضرت سعد بن عبادہؓ تھے۔انہوں نے ابو سفیان کی طرف دیکھ کر کہا:آج گھمسان جنگ کا دن ہے، آج کعبہ حلال کیا جائے گا۔ ابو سفیان نے یہ الفاظ سنے تو رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ حضورﷺ نے سنا کہ سعدؓ نے کیا کہا۔ آپﷺ نے جواب دیا کہ سعدؓ نے غلط کہا ’’آج کعبہ کی عظمت کا دن ہے ‘‘۔آپﷺ نے حکم دیا کہ حضرت سعدؓ کے ہاتھ سے علم لے لیا جائے اور ان کے بیٹے کو دے دیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینے کے دس برسوں کے دوران جنگ کا تصور بدل دیا۔ آپﷺ نے جنگ کو اخلاق و آداب کا پابند بنایا اور حربی اخلاقیات کی مستحکم بنیادقائم کی جس کی آج کے انسان کو سخت ضرورت ہے۔ دنیا کی تمام قوموں کی اخلاقیات کا اصل امتحان میدانِ جنگ میں ہوتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ میدانِ جنگ میں سب سے پہلے اخلاقی اقدار قتل کیے جاتے رہے ہیں۔ عرب تو خیر مشرک تھے اس معاملے میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار زیادہ داغدار رہا ہے۔ یہودیوں کو تو حضرت مسیحؑ نے سانپ اور سانپ کے بچے کہا تھا، خود عیسائی بھی جنگ میں کسی اصول کے پابند نہیں رہے ہیں بلکہ تاریخ کا طویل ترین خونیں باب امن کے انہی علمبرداروں کی خونریزیوں سے مزین ہے جنہوں نے پچھلے دو ہزار سال سے زمین کے چپے چپے پر تبلیغ کی ہے کہ مارنے سے مارا جانا بہتر ہے۔ عرب قبائلی برتری، عصبیت، مالِ غنیمت اور انتقام گیری کے لیے جنگیں لڑتے تھے۔ آپﷺ نے ان کی ذہنیت بدل دی اور جنگ کے بجائے جہاد کا پاک اور ارفع تصور پیش کیا جو عبادت کی شان لیے ہوئے ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہی لڑائی خدا کی راہ میں ہوگی جس کا مقصد ہو کہ اللہ کا بول بالا ہو جائے۔جہاد کے آغاز سے اختتام تک ایک ایک قدم پر آنکھوں کے سامنے عبادت کا منظر آتا ہے۔ کوچ کے دوران راستے میں جہاں بلندی آتی وہاں آپﷺ تکبیر بلند کرتے اور جب بلندی سے اترتے تو تسبیح کہتے۔ یہ عمل نماز کے مشابہ تھا جس کے دوران قیام، تکبیر اور رکوع و سجدے میں تسبیح پڑھی جاتی ہے۔ میدانِ جہاد میں آپﷺ سپہ سالار ہوتے تھے لیکن لشکر ِ اسلام کی تعداد پر بھروسہ کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت کی دعا کرتے رہتے تھے۔ میدانِ بدر میں پوری رات اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے۔فتح مکہ کے روز ذی طویٰ کے مقام پر آپﷺ اپنی سواری پر اس طرح گردن جھکائے ہوئے تھے کہ ٹھڈی مبارک لکڑی کے کجاوے سے لگ جاتی تھی۔ مکہ میں داخل ہوکر اُم ہانی کے گھر میں آٹھ رکعت شکرانے کی پڑھیں۔ عرب لڑائیوں میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو بھی قتل کرتے تھے۔ بعض اوقات بچوں کو تیر اندازی کا نشانہ بناتے تھے۔ آپﷺ نے اس سے منع فرمایا۔ لشکر کی روانگی کے وقت آپﷺ سپہ سالار کو ہدایت دیتے کہ کسی بوڑھے، بچے، کمسن اور عورت کو قتل نہ کرنا۔ عرب لڑائی کے دوران زندوں کو آگ میں جلاتے تھے۔ آپﷺ نے اس کی ممانعت کی کہ آگ کا عذاب دینا صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ لڑائی میں گرفتار یا مغلوب دشمن کے ہاتھ پائوں اور دوسرے اعضاء کاٹ کراسے چھوڑ دیا جاتا کہ وہ تڑپ تڑپ کر جان دے دے۔رسول اللہ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی اور فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی قتال کرے تو چہرے سے پرہیز کرے۔ آپ ﷺ نے مثلہ کرنے یعنی اعضاء بگاڑنے سے منع فرمایا۔ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ قتل کرنے میں عفیف ترین لوگ اہل ایمان ہوتے ہیں یعنی وہ بے رحمی سے اذیت دے کر قتل نہیں کرتے۔ بدر میں جو لوگ قیدی بناکر مدینہ لائے گئے ان میں قریش کے شعلہ بیان مقرر سہیل بن عمرو بھی تھے جو آپﷺ کے خلاف تقریروں میں آگ اُگلتے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے عر ض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ان کے دو نیچے کے دانت اُکھڑوادیں تاکہ پھر تقریر نہ کرسکیں۔ آپﷺ نے فرمایا اگر میں اس کا مثلہ کروں تو اگرچہ میں نبی ہوں مگر خدا میرے اعضاء بھی بگاڑ دے گا۔جنگِ احد میں ابو دجانہ کے ہاتھ میں رسول اللہ ﷺ کی تلوار تھی۔ لڑائی کے دوران ایک عورت سامنے آگئی، ابو دجانہ نے ہاتھ روک لیا کہ عورت کے خون سے رسول اللہﷺ کی تلوار رنگین نہ ہو۔

ایک مغربی مورخ نے لکھا ہے کہ یورپ والوں نے مفتوح قوموں کے ساتھ بہترین سلوک اور میدانِ جنگ میں دشمن کی لاشوں کے احترام کا سبق اسلام ہی سے سیکھا ہے لیکن پچھلے تین سو سال کی مغربی تاریخ کو دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ وہ اس سبق کو کب کا بھول چکے ہیں۔ ۱۸۵۷ء میں دہلی میں انگریز افسر میجر ہڈسن نے مغل شہزادوں کو جان بخشی کے وعدہ پر ہتھیار ڈالنے کو کہا۔ جب شہزادے میجر کے پاس آئے تو اس نے انھیں کپڑے اتارنے حکم دیا اور دیوانِ عام کے سامنے اُن کے سینوں میں تین تین گولیاں ماریں۔ میجر نے اسی درندگی پر بس نہیں کی بلکہ اس نے شہزادوں کا خون پیا اور قہقہے لگائے۔ لاشیں ایک دن اور ایک رات کے لیے کوتوالی کے دروازے پر لٹکائی گئیں۔ گرفتار بوڑھے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے سامنے خوان لایا گیا تو اس میں شہزادوں کے سر تھے۔ مسیحی اخلاق کی تبلیغ کرنے والی قوم کا ایک اور سیاہ کارنامہ ۴ستمبر ۱۸۹۸ء کو دیکھنے میں آیا جب انگریز افسر کچز خرطوم میں داخل ہوا، اس وقت مہدی سوڈانی کی وفات کو تیرہ برس ہوئے تھے۔کچز نے خرطوم میں فاتحانہ طور داخل ہوتے ہی مہدی سوڈانی کی قبر کھدوائی اور اس کی نعش قبر سے نکال کر ان کی ہڈیاں برسرِ بازار نذرِ آتش کیں۔ جس سے خوش ہوکر برطانوی پارلیمنٹ نے اسے لارڈ کا خطاب عطا کیا اور تیس ہزار پونڈ نقدی انعام میں دیئے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے اپنے اس ’’مایہ نازسپوت‘‘ کو اس شرمناک حرکت کے صلے میں D.C.L کی ڈگری عطا کی۔ جلیانوالہ باغ کے قاتل برگیڈیرڈائر کو ۱۳اپریل ۱۹۱۹ء کو نہتے لوگوں پر گولیاں برسانے کے بعد جب عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پوری پنشن اور تمام حقوق و مراعات کے ساتھ فوج سے رخصت کیا گیا تو ملک بھر کے انگریز افسروں نے اس کا دل رکھنے کو چھبیس ہزار پونڈ کی بھاری رقم پیش کی۔ مسیحی تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ اس کے مقابلے میں تیرہ سو سال پہلے کے اس نظام ِ اخلاق کو دیکھیے۔حضرت خالدؓ نے غلطی سے شک کی بنا  پر ایک جگہ تلوار چلادی جس سے کچھ لوگ مارے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے سُنا تو کھڑے ہوگئے اور قبلہ رو ہوکر تین مرتبہ کہا :’’اے اللہ ! خالدؓ نے جو کچھ کیا میں اس سے بری ہوں۔ اس کے بعد آپﷺ نے حضرت علیؓ کو بھیجا جنہوں نے ہر ایک مقتول حتیٰ کہ کتوں تک کا خون بہا ادا کیا۔ اسیرانِ جنگ کے ساتھ دورِ جاہلیت میں عرب بڑی بے رحمی کا سلوک کرتے تھے۔ دور جاہلیت ہی کا کیا ذکر، بغرام، ابو غریب اور گوانتانامو بے کے قیدیوں پر جو کچھ گزر ی اور جس کی جزوی تفصیلات میڈیا میں آتی رہی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کا انسان دورِ جاہلیت سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس معاملے میں جو اسوہ کاملہ پیش کیا ہے وہ آج کے دورر میں فاتح اور مفتوح سب کے لیے بہترین رہنما ہے۔ ۲؍ہجری میں بدر کی جنگ ہوئی تو مشرکین کے قیدی مدینہ لائے گئے۔ رسول  اللہ ﷺ نے انھیں صحابہ ؓ میں تقسیم کیا۔ صحابہؓ انھیں اپنے اپنے گھروں میں لے گئے۔ آپﷺ نے تاکید فرمائی کی قیدیوں کے ساتھ بہترین سلوک کرو۔ صحابہؓ نے ان کے ساتھ مہمانوں کا برتائو کیا۔ ایک قیدی کا بیان ہے کہ میں انصاریوں کے گھر میں قید تھا۔ وہ لوگ صبح یا شام کو روٹی مجھے پیش کرتے اور خود کھجور کھا کر گزارہ کرلیتے۔ میں شرمندہ ہوتا اور روٹی انھیں دیتا لیکن وہ ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔۸؍ہجری میں حنین کا معرکہ ہوا تو ہوازن کے چھ ہزار جنگی قیدی آپﷺ کے قبضے میں آئے۔ رحمت عالمﷺ نے ان سب کو رہا کردیا اور ہر قیدی کو ایک ایک مصری خلعہ (قبطی چادر کا جوڑا) عنایت فرمایا۔بعض قبائل سے قیدیوں کو آزاد کروا کر انھیں ہر قیدی کے بدلے چھ چھ اونٹ اپنے پاس  سے دیئے۔ ۹؍ہجری قبیلہ طائی کے جنگی قیدی مدینہ لائے گئے ان میں مشہور سخی حاتم طائی کی بیٹی سفانہ بھی شامل تھی۔ اس نے جس وقت رسول اللہ ﷺ سے کلام کیا وہ اس وقت ننگے سر تھی۔ آپﷺ نے اسے سر ڈھانپنے کے لیے ردائے مبارک عنایت فرمائی۔ کچھ روز بعد اسے زادِ راہ اور سواری عطا فرما کر عزت و احترام کے ساتھ آزاد کرکے رخصت کردیا۔ گزشتہ سطور میں ہم نے دیکھا،ایک عیسائی خاتون اسیرِ جنگ کی عزت و حرمت کا خیال رکھنا، اسے سر ڈھانپنے کے لیے ردائے مبارک دینا پوری انسانیت کے لیے اسوہ کاملہ ہے۔ اس کے مقابلے میں اکیسویں صدی کا شرمناک عیسائی کردار دیکھئے۔ جرمنی میں مروہ الشرینی کو ایک عیسائی درندے نے کمرہ عدالت میں گولیاں مار کر قتل کردیا۔ مروہ الشرینی کا جرم یہ تھا کہ وہ مسلمان تھی اور اس کے سر پر حجاب تھا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ عیسائی اخلاقیات کی ایک اور شرمناک مثال ہے۔ گناہ ناکردہ کی پاداش میں عافیہ صدیقی کو ملت فروش اور غدار پرویز مشرف کے عہد نامسعود میں اغوا کیا گیا۔ امریکہ میں مقدمہ چلایا گیا۔ قید تنہائی میں  اس سے اسکارف اور قرآن شریف چھین لیا گیا۔ بھری عدالت میں اس کے سر سے اسکارف نوچا گیا، جب اس نے مڑ کر اپنے بھائی کی طرف دیکھا تو سارجنٹ نے اس کے چہرے پر تھپڑ مار دیا اور چہرہ دوسری طرف گھما دیا۔ مظلوم ملتِ اسلامیہ کی بے کسی کی اس سے بڑھ کر اور کیا شہادت ہوگی۔ اس کے برعکس دورِ نبوی میں جنگی قیدیوں کے آرام و آسائش کا پورا خیال رکھا جاتا تھا۔ سیرت پاک کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺاُن کے لیے لباس کا انتظام فرماتے  تھے۔

امانت داری کی قدر جاہلیت میں بھی کی جاتی تھی لیکن انگریزوں کا مقولہ ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔اس معاملے میں اہل مغرب انجیل سے زیادہ میکاولی کے پرستار ہیں۔ ۱۹۷۹ء میں ایران میں انقلاب آیا تو امریکہ نے اپنے ملک میں اس کے سارے اثاثے منجمد کردیئے۔ یہی عمل ان سارے ممالک کے ساتھ دہرایا جاتا ہے جہاں مغرب اور امریکہ کے مفادات کو خطرہ لاحق رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں بھی دنیا کی رہبری کی ہے۔مکی زندگی کے دوران آپﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں کو ہر طرح کی تکلیف دی گئی۔دارلندوہ میں جمع ہوکر آپﷺ کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ اس وقت بھی مخالفین کی امانتیں آپﷺ کے پاس تھیں۔ ہجرت کی رات آپﷺ نے حضرت  علیؓ کو اپنے بستر پر سُلایا اور امانتیں ان کے حوالے کیں کہ انہیں ان کے مالکوں تک پہنچائیں۔ مکہ میں صحابہؓ کے مکانات اور جائیداد پر قریش نے قبضہ کیا تھا۔آپﷺ کے ذاتی مکان پر جس میں آپﷺ کی ولادت ہوئی تھی حضرت عقیلؓ نے قبضہ کیا تھا وہ اس وقت کافر تھے، انھوں نے قبضہ کرکے اسے ابو سفیان کے ہاتھ فروخت کیا تھا۔ فتح مکہ کے روز کعبہ کے دروازے پر ایک شخص نے عرض کیا کہ ابو سفیان سے ان کا مکان واپس دلوایا جائے۔ابو سفیان نے ان کا مکان چار سو دینار میں فروخت کیا تھا۔ آپﷺ نے آہستہ سے ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ خاموش ہوگئے۔ مہاجرین نے مکانات کی واپسی چاہی لیکن آپﷺ نے حکم دیا کہ خدا کی راہ میں جو جاچکا ہے اس کی واپسی ٹھیک نہیں۔ تمام مہاجرین خاموش ہوگئے۔اس موقعہ پر آپﷺ نے اپنے ذاتی مکان کا ذکر تک نہیں فرمایا۔ مکی دور میں ایک مرتبہ آپﷺ نے خانہ کعبہ کے کلید بردار عثمان بن طلحہ سے کنجی مانگی تھی تاکہ کعبہ میں داخل ہوں۔ اس نے انکار کردیا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا ایک دن یہ کنجی میرے ہاتھ میں ہوگی۔ فتح مکہ کے دن آپﷺ نے عثمان سے کنجی طلب کی۔ کنجی لے کر کعبہ کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئے۔کعبہ سے باہر نکلے تو کنجی آپﷺ کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت عباس ؓ  یا حضرت علی ؓ  نے درخواست کی کہ کنجی بنی ہاشم کو عطا کی جائے۔ آپﷺ نے عثمان بن طلحہ کو بلایا اور کنجی عطا فرمائی۔ ارشاد فرمایا کہ جو شخص تم سے کنجی چھینے گا وہ ظالم ہوگا۔ اس موقع پر آپﷺ کے یہ الفاظ ’’آج نیکی اور وفا کا دن  ہے‘‘ کتنے شریں ہیں۔

عرب اگر چہ عہد کے پابند تھے مگر جنگ کے دوران عہد شکنی کرتے تھے۔ مشرکوں، یہودیوں اور عیسائیوں نے بار بار آپﷺ کو دھوکے دیئے۔ عہد شکنی کی۔ آپﷺ کے داعیوں کو شہید کیا۔ لیکن آپﷺ نے ایفائے عہد کی جو مثالیں قائم کیں وہ آج بھی بنی نوع انساں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ۴؍ہجری میں عضل اور قارہ قبائل کے لوگوں نے آپﷺ سے درخواست کی کہ تعلیم دین کے لیے کچھ صحابہؓ کو ان کے ہاں روانہ کیا جائے۔ آپﷺ نے دس داعیوں کو بھیجا۔ رجیع نامی چشمے پر پہنچ کر ان کے ساتھ بد عہدی کی گئی۔آٹھ کو وہیں شہید کردیا گیا اور دو کو مکہ لے جاکر قریش کے ہاتھ فروخت کردیا،جنہوں نے دونوں کو شہید کردیا۔ اسی سال اہل نجدنے یہی چال چل کے سترہ داعیوں کو بد عہدی کرکے شہید کردیا۔ یہود نے متعدد بار بد عہدی اور غداری کی۔ دوسری طرف آپﷺ کا اسوہ اپنی مثال آپ رہا۔ مہاجرین جب مدینہ آئے تو کچھ لوگ مکہ میں رہ گئے تھے۔ ان میں حضرت حذیفہؓ اور ان کے والد حضرت یمانؓ تھے۔ یہ لوگ مکہ سے مدینہ آرہے تھے کہ قریش کا سامنا ہوا۔ قریش نے انہیں روکا اور وعدہ لیا کہ دونوں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔ دونوں باپ بیٹے اس وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب بدر کی جنگ ہو رہی تھی۔ انہوں نے شرکت کی اجازت چاہی لیکن آپﷺ نے انہیں روک دیا کہ قریش کو وعدہ دے چکے ہو اس کی پابندی کرو۔حالانکہ اس وقت لشکر اسلام کا یہ حال تھا کہ ایک ایک آدمی باعث تقویت ہوتا۔ صلح حدبیہ کے موقع پر جب ابھی معاہدہ لکھا جا رہا تھا تو حضرت ابو جندلؓ پابہ زنجیر لائے گئے۔ انہوں نے بدن کے داغ  دکھائے۔انہوں نے صحابہؓ سے درد انگیز درخواست کی۔ تمام صحابہ ؓ بیقرار ہوگئے۔ حضرت عمرؓ کو طیش آرہا تھا۔ حضرت ابو بکرؓ بار بار خدمتِ اقدس میں جاتے تھے۔ لیکن معا ہدہ کی پابندی سب سے بالا تر تھی۔ آپﷺ نے ابو جندل ؓ کو قریش کے حوالے کردیا۔ ایک مر تبہ قریش کی طرف سے ابو رافع قاصد بن کر آئے۔ دربارِ نبوت کا ماحول دیکھ کر مسلمان ہوگئے۔ اور عرض کی اب واپس نہیں جائوں گا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آپ قاصد ہیں۔ قاصد کو روک لینا عہد کی خلاف ورزی ہے اس وقت واپس جائو پھر آجانا۔عرب جنگوں اور لڑائیوں میں سفیروں کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ مسلیمہ کذاب کا قاصد آیا اور نہایت سختی سے کلام کیا۔ لیکن آپﷺ نے فرمایا کہ قاصد کا قتل کرنا مناسب نہیں ہے۔ قریش نے آپﷺ کے قاصد کے اونٹ کو مار ڈالا اور خود قاصد کو بھی قتل کرنے لگے لیکن دوسرے لوگوں نے بچایا مگر آپﷺ نے یہاں بھی اس اصول کی بنیاد ڈالی کہ سفیر کو قتل نہ کیا جائے۔ یہ وہ اخلاقی اصول ہے جس کو آج کا مہذب انسان بھی پامال کر رہا ہے جس کی مثال افغانستان کے سابقہ سفیر ملا عبدالسلام ضعیف اور ان کے ساتھ روا رکھا گیا غیر انسانی اور غیر اخلاقی سلوک ہے۔ خندق کے واقعہ میں دشمن کا ایک بہادر مسلمانوں کے لشکر پر حملہ آور ہوا۔ مسلمانوں نے اس کا تعاقب کیا وہ بھاگ کر خندق میں جا گرا، مسلمانوں نے اسے وہیں قتل کردیا۔ دشمن کی طرف سے پیغام آیا کہ ہم ایک سو اونٹ آپ کو دیں گے اگر آپ ہمیں ہمارے آدمی کی لاش دیں گے۔ یہ وہ وقت تھا جب رسول اللہ ﷺ کے پیٹ پر پتھر بندھے تھے اور صحابہؓ بھوک سے نڈھال ہو رہے تھے، آپﷺ نے جواب دیا کہ تم اپنے آدمی کی لاش لے جائو تمہارے مال کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ آپﷺ نے لاش ان کے حوالے کردی جس سے ایک نئی مثال قائم ہوگئی۔

مکہ میں قحط پڑا تو ابو سفیان نے رسول اللہ ﷺ کو لکھا کہ لوگ بھوکوں مر رہے ہیں۔ اس زمانے میں نجد سے غلہ آنا بھی بند ہوگیا تھا۔ آپﷺ کی شانِ رحمت دیکھئے جن لوگوں نے آپﷺ کے خلاف جنگیں لڑی ہیں اور اس وقت بھی آپﷺ کی نبوت سے انکاری ہیں ان کے لیے آپﷺ نے نجد کے سردار ثمامہ بن اثال کو لکھا کہ مکہ کے لوگوں کے لیے غلہ کی سپلائی بحال ہو۔ پھر اسی پر بس نہیں کیا بلکہ آپﷺ نے اپنی طرف سے مکہ کے غُرباء کے لیے پانچ سو اشرفیاں بھیجیں۔ مورخین کا بیان ہے کہ حضرت محمدﷺ نے ابو سفیان کو لکھا کہ یہ رقم غرباء کی امداد کے لیے روانہ کر رہا ہوں۔ انسانی ہمدردی اور رحم و مروت کی یہ مثالیں صرف حیات طیبہ کا حصہ ہیں۔ خیرات کا جو تصور اسلام نے دیا ہے وہ سب سے ارفع ہے اسی لیے قرآن کے الفاظ میں مومن خیرات لینے والے سے نہ تو جزا چاہتا ہے نہ شکریہ۔آج یورپ اور امریکہ کی انسان دوستی اور غریب پروری کی جعلی داستانیں ہمارے لبرل طبقوں میں گشت کرتی رہتی ہیں لیکن حقائق کے لیے ہمیں تاریخ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ عراق پر پابندیاں لگاتے وقت امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ نے کہا تھا کہ ہم جانتے  ہیں کہ ان پابندیوں سے عراق میں پانچ لاکھ بچے لقمہ اجل بن سکتے ہیں لیکن یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے یعنی یہ پریشانی کی بات نہیں ہے۔ غزہ کی ناکہ بندی، پانی اور بجلی کی سپلائی روک لینا اور رفح پر زمین دوز آہنی دیوار تعمیر کرنا آج کے انسان کے منافقانہ کردار اور دوہرے معیار کی زندہ مثال ہے۔ پوری دنیا میں امریکہ، مغرب اور ان کے حواری چلا رہے ہیں کہ مسلم ممالک میں جمہوریت نہیں پنپ رہی ہے اس لیے مسلمان پیچھے ہیں۔ فلسطین کی نمائندہ تنظیم حماس نے الیکشن جیتا تو عیسائیوں اور یہودیوں کو سانپ سونگھ گیا۔ امریکہ اور مغرب نے تمام امداد بند کردی اور ایک منتخب، جائز اور قانونی سرکار کو ناکام کرنے کے لیے تمام ابلیسی ہتھکنڈے استعمال کیے اور غزہ کی ناکہ بندی کروادی۔

۲۰۰۸ء میں اسرائیل نے محصور فلسطینی مسلمانوں پر حملہ کردیا اور چودہ سو فلسطینی شہید ہوئے۔ ۲۰۱۰ء میں جب غزہ کے محصورین کے لیے امداد لے جانے والے فلو ٹیلا پر اسرائیل کی فوجوں نے حملہ کیا اور امداد لے جانے والے نو رضاکار جاں بحق ہوگئے۔ جن کا قصور یہ تھا کہ وہ غزہ کے محصور انسانوں کے لیے امداد لے جارہے تھے۔ جدید دور کے مغرب کی ’’دریا دلی ‘‘ دکھانے کے لئے یہی ایک مثال کافی ہے

ڈبو ئے ہیں نہ جانے کیا سفینے

ہمارے عہد کی دریا دلی نے

حیات طیبہ کی معنویت ہمارے دور میں روز بروز بڑھ رہی ہے۔ قومی اور علاقائی تعصبات اور تنگ نظریوں کے جواز کے لیے آج مغرب نے اپنی عیاریوں سے مختلف جال بچھا رکھے ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے پیروئوں سے کہا تھا کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو لیکن پیرانِ کلیسا نے اپنے پیرئوں کو اس کے برعکس تعلیم دی۔ ایران کے ڈاکٹر مصدق، پانامہ کے ایک سابق صدر اور عراق کے صدام حسین کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس نے آج کے پورے اخلاقی نظام کو متأثرکیا ہے۔ ایک مفکر کا قول ہے کہ جو چیز اخلاقی طور پر غلط ہو وہ سیاسی لحاظ سے کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ رسول اللہ ﷺ مکہ میں فاتحانہ حیثیت سے داخل ہوئے۔ آپﷺ کے مخالفین اس وقت بھی مقابلہ کر رہے تھے۔ قریش کے سردار ابو سفیان مغلوب ہوئے۔ آپﷺ نے ان کی عزت افزائی فرمائی کہ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوگا وہ مامون ہوگا۔ عکر مہ بن ابی جہل مکہ سے بھاگ گئے۔بیوی کے کہنے پر واپس آئے۔ عکرمہ نے اس دن بھی مقابلہ کیا تھا۔آپﷺ نے انہیں آتے دیکھ کرصحابہ ؓ سے فرمایا کہ عکرمہ آرہے ہیں ان کے باپ کو برا نہ کہنا۔مُردوں کو برا کہنے سے زندوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ عکرمہ نزدیک آئے تو آپﷺ فرطِ مسرت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور تیزی سے ان کی طرف چلے کہ بدن مبارک پر چادر تک نہ تھی۔صفوان بن امیہ مکہ سے بھاگ گئے تھے۔ آپﷺ نے امان کی علامت کے طور پر اپنا عمامہ بھیج دیا۔ صفوان آئے، آپﷺ نے اسلام کی دعوت دی۔ اس نے دو مہینے کی مہلت مانگی۔ آپﷺ نے فرمایا دو نہیں چار مہینے۔ بعد میں صفوان اسلام لے آئے۔ وحشی، ہندہ، سہیل بن عمرو سب کی جان بخشی گئی۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمام قریش کعبہ کے صحن میں جمع ہوں۔ مورخین لکھتے ہیں کہ ایسا لگ رہا تھا لوگ قبرستانوں سے نکل کر آرہے ہیں۔ آپﷺ نے خطاب فرمایا کہ جانتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں۔ سب نے گردنیں جھکا لیں اور کہا آپ شریف ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا جائو تم سب آزاد ہو آج تم پر کوئی داروگیر نہیں۔ کیا تاریخ عالم میں کوئی ایسی مثال مل سکتی ہے ؟

مدینہ کے دس سال کے دوران غزوات و سرایا کی تعداد ۸۲ ہے جن میں غزوات کی تعداد ۱۹ ہے۔ ان میں مقتولین اور اسیروں کی تعداد دیکھئے تو حیرت ہوتی ہے۔ دس برسوں کے اندر مسلمانوں اور کافروں کے مقتولین کی کل تعداد ۱۰۱۸ ہے۔ ان دس برسوں کے دوران آپﷺ نے بڑا علاقہ فتح کیا۔ آپﷺ کی وفات کے وقت تیس لاکھ مربع رقبے کا علاقہ آپﷺ کے زیر نگین تھا۔ مدینہ کے قیام کے دوران روزانہ اوسطاََ آٹھ سو پنتالیس مربع میل سے زیادہ رقبہ آپﷺ کے قبضے میں آتا رہا لیکن سید المرسلینﷺ کا حال یہ رہا کہ وفات کی شب گھر میں چراغ کے لیے تیل موجود نہ تھا۔ یہی اسوہ کاملہ انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔

1 تبصرہ
  1. خورشید احمد کہتے ہیں

    ڈاکٹر غلام قادر لون کے مضامین بڑے جاندار ھوا کرتے ہیں موجود جمہوری حکومتوں کے سیاہ اخلاقیات بشمول مسلمان ممالک کا بھر پور تذکرہ ہوتا تو مضمون میں توازن پیدا رھتا میری دانست میں جمہوری حکومتوں کے بجائے بادشاہت زیادہ عوام پرور اور حربی اخلاقیات کے پابند تھے

تبصرے بند ہیں۔