زندہ بدست مردہ
نادیہ عنبر لودھی
بہت عرصہ پہلے مرزا فرحت اللہ بیگ نے ایک مضمون مردہ بدست زندہ لکھا تھا۔ جس میں انہوں نے ایک میت کا احوال قلم بند کیا تھا اور اس کی تدفین کا نقشہ کھینچا تھا۔
آج میں بھی ایک میت کا احوال لکھوں گی ۔ دنیا میں انسان آتا ہے اور اپنے حصے کی زندگی گزار کے چلا جاتا ہے۔ کچھ خوش نصیب اس زندگی کو رب کی بندگی میں گزارتے ہیں اور یہ زندگی ان کے لیے توشہ آخرت بن جاتی ہے۔ اور کچھ اپنے مفاد کی فکر میں انسانوں کو روندتے چلے جاتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو زمین پر فر عون بنتے ہیں اور قبر میں کیڑوں کا لقمہ۔ ایسے لوگ قیامت کے دن کیڑوں کی شکل میں ہو نگے۔کبھی کبھی طویل اور دردناک بیماری بھی جس انسان کو عدل پر مجبور نہیں کر سکتی۔ اصل مسلۂ یہ ہے کہ ۔ ظالم عدل کر ہی نہیں سکتا۔ چلئیے آئیے میں آپ کو ایک ہسپتال کا منظر دکھاؤں۔
یہ شہر کا ایک مہنگا ہسپتال ہے۔ اور کینسر کا وارڈ ہے۔ یہاں وہ لوگ ہیں جن کی اولاد دنیاوی اعتبار سے بڑی بڑی پوسٹوں پر ہے اور دین کے اعتبار سے دنیا دار۔ آج یہ بستر مرگ کے ارد گرد کھڑے ہیں۔ ان میں سے کسی کو اپنی موت یاد نہیں۔ یہ مرنے والے کو تڑپتا دیکھتے ہیں لیکن اپنی اصلاح نہیں کرتے۔ مرنے والے بھی خوب ہیں ذرا حالت بہتر تو رشتہ داروں کی غیبتیں کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
خاص طور پر بہوؤں کی نیکیوں میں اضافہ کر نا انہیں بہت مر غوب ہے۔ جب درد بڑھتا ہے تو ہاۓ ہاۓ۔ وراثت سے متلعق کوئی بات ان کے لب پر نہیں آتی شاید مرنے کا ارادہ نہیں۔ لیکن دوُر اندیش بہت ہیں مال وزر اور طلائی زیورات بیمار پڑتے ہی پسندیدہ اولاد کو چپکے سے اٹھوادیےجاتے ہیں۔ جس کو دل چاہا نوازا جس کو دل چاہا محروم کیا۔ اور موت کا خیال تو ہے شاید احساس نہیں ہے۔ لیکن موت تو آچکی۔ کمرے کے کسی کونے میں چھپی اپنی بے درد آنکھیں گاڑے بیٹھی ہے۔
اس وارڈ سے اکثر جنازے نکلتے ہیں۔ داخل ہونے والے پھر اپنے قدموں پر واپس نہیں جا پاتے۔ لیکن حضرت انسان کی خوش فہمی اسے سکون سے مرنے بھی نہیں دیتی۔ لیجئے ایک خاتون انتقال کر گئیں۔ اب اہل خانہ میت کو لے کے گھر روانہ ہوۓ۔ تدفین سے فراغت کے بعد ثواب دارین کے لیے دیگیں دم دی گئیں۔ ختم کے نام پر امیر رشتہ داروں کو مرغن کھانے کھلاۓ گئے۔ قیام وطعام کے بعد لوگ گھروں کو سدھارے۔ اور شرعی وارثوں کو جو کہ مال وزر اور طلائی زیورات کی وراثت سے پہلے ہی محروم ہو چکے اب مقروض ہو گئے۔ جس گھر میں کبھی آج تک دیگ نہیں آئی تھی وہاں دیگوں کی قطار لگ گئی۔ برادری میں نام بھی تو بنانا ہے۔
لیجئے گھر کا ماحول خاموشی میں ڈوب گیا۔ چند دن گزرے اور پھر مرنے والے کو ایسے بھول گئے جیسے وہ کبھی گھر پر حاکم ہی نہیں تھا۔ اس کی رعونت بھری آواز کبھی گونجی نہیں تھی۔ مرنے والے کو بھی اپنی موت یاد نہیں تھی وہ سمجھتا تھا کہ دنیا پر ہمیشہ رہے گا اور وارثین بھی مرنے پر حیران ہیں لیکن یہ حیرت انہیں سدھارتی نہیں ہے
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشین تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبین تھا
(حبیب جالب)
جب یاد آئی دو آنسو آنکھوں سے نکلے اور بس۔ پھر وہی دنیا کے جھمیلے۔ کیا آنسو قبر کے عذاب میں کمی کر سکتے ہیں ؟ ختم کے نام پر پکے پکوان مردے کو کیا راحت دینگے۔ وراثت میں کی ناانصافی کو ن سا فیض دے گی۔ وہی بے حسی اولاد کا وطیرہ بنی جو مردے کی ذات کا حصہ تھی۔ زندہ اولاد کو اپنی موت یاد نہیں تو مرنے والے کے لئیے کوئی صدقہ جاریہ کیا کر یں گے۔
سنگ مرمر کی قبر بنا کے نیک اولاد ہونے کا ثبوت دیا۔ واہ واہ کروائی اور بس۔ راحت قبر کے اندر ہوتی ہے باہر نہیں۔ آج موت کا ہمیں علم تو ہے لیکن یقین نہیں۔ اگر یقین ہو تو ہم اپنی مرضی کی زندگی جی نہیں سکتے۔ لیکن ہم جیتے ہیں اور جیتے چلے جاتے ہیں پھر ایک دن مر جاتے ہیں۔
تبصرے بند ہیں۔