شہید مطیع الرحمان نظامی- بنگلہ دیشی حکومت کا ظلم عظیم
یہ قربانیاں اسلامی تحریکات میں جان ڈال دیتی ہیں!
ایس احمد پیرزادہ
بنگلہ دیش نے حال ہی میں جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمن نظامی کو تختہ دار پر چڑھا کر دنیا انسانیت سے اُٹھنے والی اُن لاکھوں آوازوں کو نظر انداز کردیا جوبنگلہ دیش کی اسلامی تحریک کی پوری قیادت کی سولی چڑھانے کی کارروائیوں کو غیر منصفانہ اور غیر جمہوری طرز عمل قرار دے رہے تھے۔مولانا مطیع الرحمن نظامی ایسے پانچویں اپوزیشن لیڈر ہیں جنہیں نام نہاد انٹرنیشنل ٹربیونل آف بنگلہ دیش کے احکامات کے تحت پھانسی دے دی گئی ہے۔ یہ انٹرنیشنل ٹربیونل بنگلہ دیشی حکومت نے پینتالیس سال قبل کی پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے وجود میںا ٓنے کے وقت کے جنگی جرائم میں ملوث افراد کو سزائیں دینے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔یہ ٹربیونل انٹرنیشنل کہلایا جاتا ہے لیکن اس کی حیثیت کا بھانڈا اُس وقت پھوٹ گیا جب پوری دنیا کے ماہرین قانون نے اس پر سوالات اُٹھائے ہیں۔ ایک تو یہ خالص اس نیت سے قائم کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے حکمران جماعت اپنی سیاسی حریفوں کو راستے سے ہٹاکر اپنے لیے اقتدار کی راہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صاف کررہی ہے۔ دوسرا جنگی جرائم میں ملوث قرار دئے جانے والی اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران کو یہ موقع ہی فراہم نہیں کیا گیا کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرسکتے۔ اس ٹربیونل نے اپنی پوری مدت میں سرکاری مداخلت سے سرکاری احکامات کے تحت کام کیا ہے۔جتنے بھی لوگوں کو ابھی تک اس ٹربیونل کے ذریعے سے سزائے موت سنائی گئی اُن میں سے کسی ایک کو بھی غیر جانبدار طریقے سے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ٹربیونل کاقیام اور اس کی کام کاج کے طریقوں کو عالمی سطح کے قانونی ماہرین نے قانونی تقاضوں کے سراسر خلاف قرارد یا ہے۔اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل،ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، انٹرنیشنل بار ایسویشن اور برٹش ہاوس آف لاڈس کے علاوہ دیگر چھوٹی بڑی سینکڑوں عالمی سطح کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ٹربیونل کے قیام اور اس کے کام کاج کے طریقوں پر سوالات اُٹھائے ہیں۔
جن لوگوں کو آج کی بنگلہ دیشی حکومت جنگی جرائم میں ملوث ہونے کی بنیاد پر سزائیں دے رہی ہیں اُن پر اُس وقت بھی کوئی کیس نہیں کیا گیا جب بنگلہ دیش کا پاکستان سے علاحدہ ہونے کے موقعے پر1972 سے پندرہ اگست 1975 تک شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیشن کے مسند اقتدار پر براجمان تھے۔اُس وقت شیخ مجیب الرحمن کی حکومت نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے 195 فوجی اہلکاروں کو مبینہ طور پر جنگی جرائم میں ملوث قرار دیاتھا اور پھر سہ فریقی معاہدے کے تحت جس پر پاکستان ، بنگلہ دیش اور ہندوستان نے دلی میں دستخط کیے ہیں اُن تمام فوجیوں کو معاف کردیا گیا۔ اس معاہدے کے حوالے سے شیخ مجیب الرحمن کی یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ” دنیا جان جائے کہ بنگالی قوم کیسے معاف کرتی ہے۔“ شیخ مجیب الرحمن کی بات میں صداقت کہاں تک ہے؟ کیا واقعی پاکستانی افواج جنگی جرائم میں ملوث تھی یا پھر ہندوستانی فوج اور اُس کے حمایت یافتہ گروہوں نے جرائم کا ارتکاب کرکے پاکستانی فوج پر الزامات تھوپ دئیے؟ اس پر یہاں بات کرنی مقصود نہیں ہے البتہ یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ پاکستان سے اُس مشرقی حصہ ٹوٹ جانے کے بعد جن لوگوں پر جنگی جرائم کے لیے فرد جرم عائد کردیا گیا تھا اُن میں جماعت اسلامی کے یہ لوگ شامل نہیں تھے، جنہیں آج سولیوں پر لٹکایا جارہا ہے۔
1996 سے 2001 تک موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ پہلی بار حکومت کی کرسی پر براجمان ہوئی۔ اپنے اس پانچ سالہ دور اقتدار میں موصوفہ نے ایک مرتبہ بھی نہیں کہا کہ تین دہائیاں قبل جنگی جرائم میں مبینہ طور ملوث ہونے والوں کے خلاف کیس چلا یا جائے۔2008 ءمیں جب شیخ حسینہ دوسری مرتبہ بائیں بازوں کی جماعتوں کی حمایت کے ساتھ برسر اقتدار آئی توانہوں نے نام نہاد جنگی جرائم کے لیے” انٹرنیشنل ٹربیونل“ کا قیام عمل میں لایا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد شیخ حسینہ بیرونی طاقتوں کے کہنے پریہ سب کرنے لگی ہیں۔ماہرین قانون کا ماننا ہے کہ اس ٹربیونل میں کوئی بھی چیز ”انٹرنیشنل“ نہیں ہے سوائے نام کے۔نہ ہی اس میں کسی دوسرے ملک کا جج موجود ہے اور نہ ہی عالمی سطح کے قانونی ماہرین سے مدد طلب کرلی گئی ، حتیٰ کہ جماعت سے وابستہ لیڈران کی مدد کے لیے کئی عالمی سطح کے ماہرین قانون جو مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ ہیں اُن کے کیسوں کی پیروی کے لیے آنا چاہتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی حکومت نے اُنہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ Toby M Cadman عالمی سطح کے جانے مانے بیرسٹر ہیں۔ وہ جنگی جرائم ٹربیونل کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ اُنہیں بھی جماعت کے لیڈران کے کیسوں کی پیروی کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ موصوف کو ڈھاکہ ائر پورٹ سے ہی واپس بھیج دیا گیا۔کئی ملکی جانے مانے وکلاءنے ٹربیونل میں اِن کیسوں کی پیروی کرنی چاہی تو اُن میں سے کئی ایک کے خلاف کیس دائر کردئے گئے جبکہ دوسرے وکلاءکو دھمکیاں دی گئی اور انہیں جبراً ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔اتنا ہی نہیں بلکہ مولانا مطیع الرحمن نظامی کے خلاف حکومت نے چارج شیٹ تیار کرنے میں دو برس کا وقت لیا ، اس کے برعکس مولانا کے وکیل کو جواب دینے کے لیے صرف بیس دن کا وقت دیا گیا۔کورٹ نے حکومت کو کم از کم 26 گواہ پیش کرنے کی اجازت دے دی جبکہ مطیع الرحمن نظامی کے لیے صرف چھ گواہوں کو پیش ہونے کی اجازت دی گئی۔
مولانا مطیع الرحمن نظامی نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے اسلامک اسٹیڈیز میں اعلیٰ ڈگری حاصل کررکھی تھی،اور موصوف دو مرتبہ پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوکر آئے ہیں۔ بحیثیت ایگریکلچرمنسٹر کے اپنے فرائض انجام دئے اور ساتھ ہی ساتھ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر بھی تھے۔ بنگالی عوام میں کافی شہرت رکھتے تھے اور دنیائے اسلام میں بااثر ترین شخصیات میں اُن کا شمار ہوتا تھا۔ اس درویش صفت انقلابی شخصیت کو قتل وغارت گری اور عصمت ریزی جیسے بھونڈے الزامات میں تحت دار پر چڑھا لیا گیا ہے۔عقل کی اندھی بنگلالی وزیر اعظم کم از کم ایسے جھوٹے الزامات نہ لگاتی جو مولانا مطیع الرحمن نظامی جیسی شخصیت کے شایانِ شان نہیں تھے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہماری ریاست جموں وکشمیر میں بھی چھوٹی عقل کے ایسے دانشور بیٹھے ہیں جو ایک آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں اور اُن کے نزدیک جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف یہ غیر انسانی، غیر اصولی اور غیر قانونی رویہ جائز ہے۔ یہ لوگ دراصل مغربیت کی مرعوبیت کا اس قدر شکار ہوچکے ہیں کہ اب اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھنا ، اپنے کانوں سے سننا اور اپنے دماغ سے سوچنا بھی بندکردیا ہے اور وہیں کچھ کہتے ہیں جو موجودہ زمانے میں اسلام دشمن طاقتیں کہتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں یہ کس کی ایما پر ہورہا ہے؟ کون کروارہا ہے؟ کیوں کروا رہا ہے؟ یہ سب عیاں ہے۔ اخبارات میں بنگلہ دیشی دورے پر جاتے وقت بھارت کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کا بیان بھی موجود ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی بڑھتی عوامی مقبولیت بھارت کے لیے تشویش پیدا کرنے والی بات ہے اور دنیا کی بڑی جمہوریت کا دعویٰ رکھنے والے اس ملک کے صدر کابیان بھی عالم انسانیت نے سن لیا ہے۔ گزشتہ برس وزیر اعظم ہند نے بھی اپنے دورے کے دوران بہت کچھ کہا ہے۔ بنگلہ دیش میں غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق کل آبادی کا25 فیصد حصہ براہ راست جماعت اسلامی سے وابستہ ہے۔ ملک بھر میں حکومت کے بعد سب سے بڑا تعلیمی Setup جماعت اسلامی کا ہے، طبی شعبے میں اعلیٰ کوالٹی کے ہسپتال اور میڈیکل کالج جماعت کے قائم کردہ مختلف ٹرسٹ چلا رہے ہیں۔ٹرانسپورٹ اور دیگر بہت سارے شعبوں میں جماعت کی کافی Investment ہے۔ بینکنگ سیکٹر اور معیشت کے دوسرے شعبوں میںجماعت نے اپنی گرفت کافی مضبوط بنالی ہے۔ 2010 میں دلی سے شائع ہونے والے ایک انگریزی میگزین کی رپورٹ کے مطابق وہاں کی حکومت تمام شعبوں کو چھوڑ کر صرف جماعت کے قائم کردہ بینکوں کو چلانے کی اہلیت نہیں رکھتی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر جماعت کے تمام اداروں اورشعبوں پر پابندی عائد کردی جاتی تو ملک میں نہ صرف ہنگامی حالات پیدا ہوجائیں گے بلکہ یہ ملک دیوالیہ بھی ہوسکتا ہے۔بنگالی عوامی کے تئیں جماعت اسلامی کی اس پیمانے پر خدمت کا لازمی نتیجہ یہ برآمد ہوتا کہ جماعت بنگالی عوامی کی ہردلعزیز جماعت کے طور پر سامنے آجاتی۔ اور یہ عالمی چودھریوں کے لیے کسی بھی صورت میں قابل قبول بات نہیں تھی۔اس لیے نادان شیخ حسینہ کے کندھے پر بندوق رکھ کر داو کھیلا گیا اور بنگلہ دیش کو انارکی اور بے چینی کے راستے پر دھکیلاگیا۔ شیخ حسینہ کے اس اندھے پن کا خمیازہ بنگالی عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ رہا سوال جماعت اسلامی اور اس جیسی دیگر دینی تحریکات کا تو اس حوالے سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ قربانیوں اور تختہ دار سے تحریکات کمزور ہونے کے بجائے دہائیوں تک مضبوط ہوجاتی ہیں۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں صفحہ اول کے خالص ایک درجن لوگ موجود تھے ، جن پر نام نہاد جنگی جرائم کے ٹرابیونل کے تحت کیس چلایا گیا اور بیشتر کو پھانسیاں بھی دی گئیں۔ پروفیسر غلام اعظم اور دیگر کئی بزرگ جیل کی کال کوٹھریوں میں ہی ابدی نیند سو گئے۔ چند ہی لوگ بچے ہیں جن کے سزائے موت پر ابھی عمل ہونا باقی ہے۔ وہ بھی جب ہوگا تو پھر بنگلہ دیشی حکومت کے پاس کیا رہے گا۔ اتنی بڑی ملک گیر جماعت اس ایک درجن افراد سے ہی نہیں چلتی تھی بلکہ قیادت کے منصب پر براجمان ہونے کے لیے دوسری اور تیسری صف میں سینکڑوں افراد موجود ہیں۔لاکھوں لوگ ہیں جو تن ، من اور دھن سے اقامت دین کے کاز کی آبیاری کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس عوامی سیلاب کو شیخ حسینہ اور اُن کے بیرونی حمایت یافتہ طاقتیں کیسے روکیں گے۔ دنیاپرستوں کی جماعت ہوتی تو ایک ہی پھانسی سے دہائیوں تک دفن ہوجاتی ہے یہ دینی جماعت ہے ایک ایک پھانسی سے دہائیوں کے لیے امر ہوگئی ہے۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی سے وابستہ لیڈران کو سولی پر چڑھانے نے عالمی طاقتوں بشمول اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک کو بھی عریاں کردیا ہے۔ ایک جانب جمہوری طرز عمل اختیار کرنے کو ہی آگے بڑھنے کا واحد ذریعہ قرار دیا جارہا ہے، دوسری جانب مصر اور بنگلہ دیش میں جمہوری لائن اختیار کرنی والی جماعتوں کے افراد اور قیادت پر ظلم و ستم روا رکھے جانے کی خاموش حمایت کی جاتی ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان واحد شخصیت ہیں جنہوں نے مضبوط مو¿قف اختیار کیااور مغربی طاقتوں کو آئینہ بھی دکھا دیا۔ باقی دنیا خاموش تماشائی بن گئی۔ مسلم ممالک کے عیاش حکمران اپنی عیاشیوں میں گم ہیں اورانہوں نے ہر جگہ اپنی اپنی رعایا کو آگ و آہن اور جنگ و جدل کے دلدل میں چھوڑ رکھا۔ اسلامی دنیا میں کہاں کیا ہوتا ہے اُنہیں اس کے ساتھ غرض ہی نہیں ہے۔ وہ صرف اپنے اقتدار اور اپنی کرسیوں کی حفاظت کررہے ہیں۔ بادشاہیت، آمریت اور تاناشاہی کو بچانے کے لیے یہ حکمران اہل کفر کی گود میں جاکر بیٹھے ہیں اور اپنی ہی مسلم عوام کے ساتھ وہ سب کچھ کرتے ہیں جو صرف یہودی جیسے اسلام کے شدید دشمنوں سے ہی تواقع رکھا جاسکتا تھا۔دنیا عنقریب دیکھ لے گی۔ اقتدار کے حوس کے شکار یہ اسلامی مملکتوں کے حکمران بھی رُخ بدلتی ہواو¿ں کو دیکھیں گے۔ وہ وقت آنے والا ہے جب اسلام پسندوں کی جدوجہد ، کوششیں اور قربانیاں رنگ لائیں گی۔ جب مولانا مطیع الرحمن کی شہادت اور حسن البنا ءکے جانبار اخوان کی قربانیاں اپنا اثر دکھانا شروع کردیں گے۔ اسلام کو غالب آکر رہنا ہے البتہ اس سے قبل اپنوں کے نفاق اور غیروں کی ظلم و جبر کا بھانڈا بھی پھوٹنا لازمی ہے تاکہ اسلامی انقلاب کے موسم بہار میں دوستی اور دشمنی کا فرق واضح ہوکررہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔