صدقۂ فطر ادا کیے بغیر روزے قبول نہیں ہوں گے
سراج الدین ندویؔ
رمضان کا ایک اہم عمل صدقہ ٔ فطر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’نبیﷺ نے صدقۂ فطر فرض فرمایا۔
یہ صدقہ روزے دار کے لیے لغویات اور بے حیائی کی باتوں سے پاکیزگی کا باعث اور مسکینوں کے لیے خوراک کاسامان فراہم کرتاہے۔ جو شخص اسے عید کی نماز سے پہلے ادا کرتا ہے تو یہ ایک قبول ہونے والا صدقہ ہے اور جو شخص نماز کے بعد اسے ادا کرتاہے تو وہ عام صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے۔‘‘ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
اس حدیث میں صدقۂ فطر کی دو حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک حکمت یہ ہے کہ روزے دار سے بہت سی کوتاہیاں ہوجاتی ہیں۔ زبان و نگاہ سے بہت سی خطائیں صادر ہونے کا امکان رہتاہے،اس لیے روزوں کے اختتام پر صدقے کا حکم دیا گیاتاکہ اس صدقے کے ذریعے وہ کوتاہیاں اور خطائیں بخش دی جائیں جو روزے دار سے قصداً یا سہواً سرزد ہوگئی ہیں اورروزے دار کو پاکیزگی حاصل ہوجاتی ہے۔یہ اللہ کا کتنا بڑا نعام ہے کہ اس نے چندسکوں کے عوض ہمارے گناہ معاف کرنے کا وعدہ کیا۔
دوسری حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ عید کے دن تمام مسلم معاشرے کو خوشی و مسرت میں شریک ہونا چاہیے اور غرباء و مساکین کو مانگے بغیر اتنی رقم ضرور مل جانی چاہیے کہ وہ عید کی خوشی دوسروں کی طرح مناسکیں۔دوسروں کو خوش کرنا بہت بڑی نیکی ہے ۔اس لیے حکم دیاگیا کہ صدقۂ فطر کی رقم نماز ِ عید سے پہلے پہلے غریب افراد تک ضرور پہنچا دی جائے۔
حضرت عبد اللہ ابن مبارک جو اپنے وقت کے بڑے فقیہ اور تاجر تھے ،کہتے ہیں کہ دوسروں کو غیر متوقع طور پر خوش کرنے سے اللہ جنت دیتا ہے ،ان کا ایک واقعہ ہے کہ ایک بار ایک شخص ان کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ مجھے 700درھم کی ضرورت ہے ،عبد اللہ ابن مبارک ؒنے اپنے اکائونٹینٹ کے نام ایک پرچی لکھ کر دے دی ،جب وہ شخص اکائونٹنٹ کے پاس پہنچا اور پرچی دی تو اس نے معلوم کیا کہ تمہیں کتنے درھم چاہئے ،اس نے کہا 700درھم ،اکائونٹنٹ بولا کہ اس میں تو سات ہزار لکھے ہیں ،دونوں تحقیق کے لیے عبداللہ ابن مبارک ؒکے پاس پہنچے ،انھوں نے کہا کہ تمہیں معلوم کرنے کی کیا ضرورت تھی ،جو لکھا تھا وہ دے دیتے،لائو پرچی ،آپ نے اس پر کچھ لکھا اور پرچی دیتے ہوئے کہا کہ جو لکھا ہے وہ پورا کرو،اکائونٹینٹ گیا اور اس نے چودہ ہزار درھم اس شخص کو دے دیے ۔وہ بہت خوش ہوا اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔کچھ دیر بعد اکائونٹینٹ نے شیخ سے اس کی حکمت معلوم کی تو عبد اللہ ابن مبارک ؒ نے فرمایا ۔کہ اس نے سات سو مانگے اگر تم سات ہزار دیتے تو وہ غیر متوقع طور پر خوشی پاتا،اب چونکہ سات ہزار کی بات کھل چکی تھی اس لیے میں نے چودہ ہزار دیے تاکہ وہ غیر متوقع طور پر خوش ہوجائے۔
نبی کریم ﷺ نے صدقۂ فطر کے لیے زکوٰۃ الفظر کالفظ استعمال فرمایا ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اس کی ادائیگی بھی زکوٰۃ کی طرح ضروری ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ زکوٰۃ مال پر واجب ہوتی ہے اور مال کو پاک کرتی ہے جب کہ صدقۂ فطر انسان پر واجب ہوتا ہے اور اُسے گناہوں کی آلایشوں سے پاک کرتاہے۔فطرہ در اصل افطار کے ہم معنی ہے۔ دونوں کا مادہفطر‘‘ ہے۔ جس طرح روزہ مکمل ہونے پر شام کو افطار کیا جاتا ہے اسی طرح ماہِ رمضان کی تکمیل پر صدقہ فطر ادا کیا جاتا ہے۔صدقۂ فطرہر صاحب نصاب مسلمان پر واجب ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:
’’ مالداری کی حالت کے بغیر کوئی صدقہ نہیں۔‘‘
صدقۂ فطر ہر آزاد وغلام، مرد وعورت، ہر چھوٹے بڑے پر واجب ہے حتیٰ کہ عید کا چاند دیکھنے کے بعد اور نمازِ عید سے پہلے بھی جو بچہ پیداہوا تو اس پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے۔صدقۂ فطر سر پرست پر واجب ہوتاہے اور اس کو اپنے زیر سرپرستی (جن کا وہ کفیل ہو) ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔ مثلاً بیوی کا صدقۂ فطر شوہر کے ذمہ ہے۔ بچوں کا صدقۂ فطر باپ کے ذمہ ہے۔ اگر کوئی نوکر یا خدمت گار ہو تو اس کی طرف سے صدقۂ فطر مالک کو ادا کرنا ضروری ہے۔
مقدار: صدقۂ فطر اگر گندم کی صورت میںدیاجائے تو نصف صاع دیا جائے گا۔ گندم کے علاوہ دیگر اشیاء ایک صاع دی جائیں گی۔ ہندوستانی اوزان کے لحاظ سے نصف صاع ۶۶۶ ۔۱ کلو گرام اور ایک صاع ۳۳۲۔۳ کلو گرام ہے۔ گویا کہ فی کس صدقۂ فطر کی مقدار گیہوں کے لیے ۶۶۶۔۱ کلو گرام اور دیگر چیزوں کے لیے ۳۳۲۔۳ کلو گرام ہے۔
تمام خوردنی اشیا ء جن کااستعمال بطور غذا کیا جاتا ہو ان کو صدقۂ فطر میں دیا جاسکتا ہے۔ البتہ قیمتی سے قیمتی چیز دینا افضل ہے، یا اس شئ کی قیمت دے دی جائے تو اور بھی بہتر ہے۔صدقۂ فطر اگر کوئی عید کی نماز سے پہلے ادا نہ کرسکے تو اسے نماز کے بعد ادا کردینا چاہیے۔صدقۂ فطر پیشگی بھی ادا کرنا جائز ہے۔صدقۂ فطر کے بھی مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔