صدقۃ الفطر
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
اسلام کے معاشی نظام میں غرباء،یتامیٰ،مساکین،سائل اورمحروم کے لیے خصوصی انتظامات ہیں،صاحب نصاب لوگوں پر ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے مستقل مدات مقرر کیے گئے ہیں،زکوٰۃ،کفارہ،عشرہ،فدیہ وغیرہ کے ذریعہ ان کی کفالت کی جاتی ہے اوراسے ان کاحق قرار دیاگیاہے،انہیں مدات میں سے ایک صدقۃ الفطر ہے،یہ رمضان المبارک میں ہربالغ،نابالغ مردو عورت،بچے،بچیوں بلکہ عیدالفطر کی صبح صادق سے پہلے پیداہونے والے بچے،بچیوں کی طرف سے بھی نکالاجاتاہے،بڑوں کے سلسلہ میں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ روزے میں جو کمی کوتاہی ہوئی اس کی تلافی کی ایک شکل یہ صدقہ ہے،لیکن نابالغ کی بھی صدقہ الفطر کی ادائے گی میں شمولیت کامطلب اس کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے کہ غرباء کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم فراہم کی جاسکے،مقصد یہ ہے کہ عید کے دن جو خاص اللہ کی جانب سے مہمانی کا دن ہے، کوئی بھوکا نہ رہے،اللہ رب العزت کی طرف سے من وسلویٰ اترنے کی روایت نہیں رہی،ایسے میں یہی ایک صورت رہ گئی ہے کہ امراء اورصاحب نصاب لوگوں کی طرف سے رقم اورضروریات زندگی کی چیزیں انہیں دی جائیں؛ تاکہ وہ بھی بھوکے،ننگے،بوچے نہیں رہیں۔
رمضان کے روزے جو لوگ رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؛ خواہ بوڑھاپے کی وجہ سے ہو یا دائمی مریض ہونے کی وجہ سے،ان کے لیے بھی روزہ کا فدیہ مقرر کیاگیاہے،اس میں مسکین کو کھانا کھلانا یاایک صدقہ فطر کی ادائے گی ہے،اس کے ذریعہ بھی کچھ رقم غرباء تک پہونچ جاتی ہے اور اس طرح شہر مواساۃ (غم خواری کامہینہ)کے تقاضوں کی تکمیل ہوتی ہے،صدقۃ الفطر کی ادائے گی مقررہ اجناس کی قیمت کے اعتبار سے الگ الگ ہوسکتی ہے،امارت شرعیہ نے کم ازکم پچاس روپے صدقۃ الفطر کااعلان کیا ہے، اس کے ساتھ ہی بعض مدارس کی طرف سے بھی اپنے اپنے علاقوں میں صدقہئ فطر کااعلان کیاجارہاہے،کہیں اس سے زیادہ اداکرنے کو کہاجارہاہے اورکہیں اس سے کم،اس سے خلجان میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اوریہ سمجھنا چاہیے کہ یہ اختلاف مقامی قیمت کے اعتبار سے ہے،یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ صدقہئ فطر صدقہ ہے اورصدقہ کار ثواب ہے۔ کم ازکم مقدار جس سے صدقہئ فطر اداہوجائے،بتادی جاتی ہے،آپ چاہیں تو اس سے زیادہ بھی اس مد میں نکال سکتے ہیں،کھجور،کشمش وغیرہ کی قیمت صدقہئ فطر میں اداکریں توخود بخود صدقہ الفطر کی رقم بڑھ جائے گی،سارامعاملہ توفیق کاہے،اوریہ توفیق اللہ کی طرف سے ملاکرتی ہے۔
تبصرے بند ہیں۔