طبِ یونانی اور ہندو اطبا
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
اسلامک بک فاؤنڈیشن نئی دہلی کے مالک جناب فراست علی نے خواہش کی کہ انھیں طب کی ایک کتاب رام پور رضا لائبریری رام پور کی طرف سے طبع کرانے کے لیے دی گئی ہے۔ میں اس کی ریڈنگ کرلوں اور کمپوزنگ میں کوئی غلطی ہو گئی ہو تو درست کردوں۔ معلوم ہوا کہ وہ شفاء الملک حکیم عبد اللطیف فلسفی (1900۔1970) کا مشہور کتابچہ ‘ہماری طب میں ہندوؤں کا ساجھا’ ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں حکیم صاحب کے کچھ فوٹو فراہم کردوں تو انھیں کتاب میں شامل کردیا جائے۔ میں نے یہ دونوں کام کردیے۔
جدید دور کے ہندوستانی اطبا میں حکیم عبد اللطیف نمایاں حیثیت کے مالک تھے۔ وہ طبیہ کالج علی گڑھ کے پرنسپل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یونی ورسٹی کے متعدد انتظامی عہدوں پر بھی فائز تھے۔ طب کے مختلف موضوعات پر ان کے قلم سے اعلی تحقیقی تصانیف اور مقالات شائع ہوئے ہیں ، جن میں الشیخ الرئيس ابن سینا کی کتاب الادویۃ القلبیۃ کا اردو ترجمہ اہم ہے۔
حکیم عبد اللطیف کا کتابچہ ‘ہماری طب میں ہندوؤں کا ساجھا’ بہت اہم موضوع پر ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ ہر دور میں طب یونانی کے فروغ میں ہندو اطبا کا قابلِ قدر حصہ رہا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طب یونانی کو صرف مسلمانوں سے منسوب کرنا درست نہیں۔
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی پبلیکیشن سے منظر عام پر آیا تھا۔ زمانہ طالب علمی میں راقم نے اس کا مطالعہ کیا تھا۔ بڑی خراب طباعت اور بوسیدہ نسخہ تھا۔ یہ تازہ ایڈیشن بہت دیدہ ذیب ہے۔ اس کی طباعت معیاری ہے۔ اس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس پر حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی کا مبسوط مقدمہ ہے، جس میں انھوں نے حکیم صاحب کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔
اس کتاب کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں ایک ساتھ شائع ہوئی ہے۔ شفقت صاحب کے مقدمے کا ہندی ترجمہ متوازی صفحہ پر شامل کیا گیا ہے۔ اصل کتاب دو کالم میں ہے : دائیں کالم میں اردو اور بائیں کالم میں ہندی۔
رضا لائبریری قابلِ مبارک باد ہے کہ اس نے اس اہم کتاب کو شائع کیا۔ اس طرح کی کتابوں کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے فرقہ واریت کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔
تبصرے بند ہیں۔