ظلم و بربریت کے دورمیں اپنی سمت کون طے کرے گا؟

 جاویدجمال الدین

 جھاڑکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں بعدنمازجمعہ مسلم نوجوانوں نے گستاخ رسول نوپورشرما اور نوین جندل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے زبردست احتجاج کیا ، جوبعد میں پُر تشدد ہوگیااور اس کے نتیجے میں ایک 16 سالہ لڑکے سمیت دومظاہرین جاں بحق ہوگئے، بچے کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مظاہرے سے کچھ فاصلے پر کھڑا دوسروں کی طرح "اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر” کے نعرے لگا رہا تھا۔ مذکورہ بچے کی تصویر اور ویڈیو کلپ دیکھ کر میں اندر تک ہل گیا اور میرے دماغ میں یادوں کی فلم چلنے لگی، اچانک 24 ، فروری 1989 کا ممبئی محمد علی روڈ پر پیش آنے والے پولیس کی بے دریغ اور نہتے بے قصوروں پر اندھا دھند فائرنگ کے مناظر میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔ میرادماغ ماوف ہوگیا اور آنکھیں نم ہوگئیں، وہ بیانات بھی گونجنے لگے جو نام نہاد لیڈروں اور پولیس اعلیٰ افسران نے دیئے جوکہ بالکل نہیں بدلے ہیں۔ وہ سب کچھ نظر آتا ہے جوہن اور وہ کی پالیسی کی نشان دہی کرتاہے۔

 اگر توجہ دے کر جائزہ لیا جائے تو احساس ہوگا کہ آج بھی وہی بیانات واقدامات اقلیتی فرقے کے خلاف کیے جارہے ہیں ، جو تین چار عشرے پہلے کیے جارہے تھے، انہیں چوراچکا اور لٹیرا اور جاہل ثابت کرنے کی پوری کوشش جاری ہے۔ بلکہ فرقہ پرستوں اور شرپسند عناصر سے زیادہ مبینہ طورپرسرکاری مشینری پیش پیش رہتی ہے۔ پہلے میں تقریباً 33 سال قبل بدنام زمانہ ہندوستانی نژاد مصنف سلمان رشدی نے ‘شیطانیک ورسیس’ نامی کتاب لکھ کرازواج مطہرات کی شان میں گستاخی کی تھی اور اسی طرح دنیا بھر میں شدید احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ، کہیں کہیں اس نے سنگین صورتحال اختیار کرلی اور کہیں پُر تشدد واقعات بھی پیش آئے ، لیکن ممبئی میں بلا قیادت اور بنا حکمت عملی سے جلوس نکلا گیا ، احتجاجی جلوس تشدد کی نذر ہوگیا، یا کہہ سکتے ہیں کہ اسے پُر تشدد بنا دیا گیا، جن تنظیموں  نے اس کا اعلان کیا تھا، ان کے لیڈروں کو راتوں رات حراست میں لے لیاگیا اور بغیر قیادت جب یہ جلوس بعدنماز جمعہ جنوبی ممبئی کے مسلمان اکثریتی علاقے سے برطانوی قونصل خانہ واقع فورٹ فلورافاونٹن  تک جانے کے لیے نکلاتو اسے بیچ راستے میں۔ روک کر  بلااشتعال آنسو گیس کے گولے داغے گئے اور پھر بے دریغ گولیاں برسائی گئیں۔ مجھے رانچی کے نوجوان کو دیکھ کر ممبئی کرافورڈ مارکیٹ کے اس نوجوان کی یاد آگئی جب اس نے پولیس کی وارننگ کو نظرانداذ کرکے  ایک طرف کھڑے ہوکر نعرہ تکبیر اور نعرہ رسالت ص کے نعرے لگانا جاری رکھا۔ بس پھر کیا تھا، ایک اہلکار نے آودیکھا نہ تاؤ ، اور اس کے سینہ کا نشانہ۔ لگا دیا۔

  مذکورہ واقعہ کی روزنامہ اردو ٹائمز کے لیے یہ میری پہلی رپورٹنگ تھی۔ میں فائرنگ کے بعد بھاگابھاگ، قریبی جےجے اسپتال پہنچا تو کازویلٹی وارڈ کے برآمدے  میں  12، لاشیں پڑی تھیں اوران میں جوان ، بوڑھے بچے سبھی شامل تھے۔ جلوس سے پہلے مستان تالاب میدان میں جب مظاہرین جمع ہونے لگے تو ان کے زیادہ ممبئی پولیس فورس اور ایس آرپی ایف کے مسلح جوان تعینات نظرآئے ، جنہوں نے اپنے اعلیٰ پولیس افسر جی آرشنگارے کے حکم پر اندھا دھند فائرنگ کی تھی۔ شنگارے ایڈیشنل پولیس کمشنر تھااور اس کے ایک مسلم مخالف  بیان نے شردپوار کی قیادت میں مہاراشٹر کی کانگریس حکومت کو مصیبت میں ڈال دیا تھا ، جس کے بعد اس کاتبادلہ کرنا پڑاتھا، لیکن آج اس طرح کے بیانات اور الفاظ برسر اقتدار لوگوں کی طرف سے استعمال کیے جاتے ہیں اور بلاجھجک وہ ایسے بیانات دیتے ہیں، جو ایک سیکولر اور جمہوری ملک کے رہنماء کو زیب نہیں دیتا ہے۔

  دراصل پولیس افسر شنگارے نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے  متعصبانہ انداز میں کہاکہ” میں نے ان کی کمر توڑ دی ہے، اور یہ لوگ  آئندہ کئی سال تک جلوس نکالنے کی ہمت نہیں کریں گے بلکہ  اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکیں گے۔ "البتہ اس کا جواب دینے کے لیے اُس وقت کے وزیراعلی پوار  کے جگری دوست اور منتقسیم مسلم لیگ کے لیڈر مولانا ضیاء الدین بخآری نے ایک علامتی مظاہرہ ضرور کیا تھا، لیکن اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ  ایک حد تک اُن  کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی تھی اور ان  بارہ لاشیں دیکھ کرممبئی کا مسلمان سہم گیا تھا، کیونکہ شردپوار اوروزیرداخلہ آنجہانی ولاس سامنت جیسے سیکولر لیڈروں کے ہوتے ہوئے نوجوانوں کی اندھا دھند گرفتاری کی گئی، بلکہ ظلم کی انتہا کردی گئی تھی۔

  بس، آج 33سال بعد بھی یہی ٹرینڈ یا انداز چل رہاہے۔ کیا کسی وزیراعلی  کوایسا اندازاپناناچاہئیےاور اس قسم کا بیان دینا چاہئیے، جیسا اتر پردیش کے وزیر اعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ اور مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوان ایک مخصوص فِرقے کے خلاف دے رہے ہیں۔ یوگی ایک ایسی کارروائی کے حق میں ہیں اور ایک نظیر بنانا چاہتے ہیں، جیسی کانپور میں اورپھر پریاگ راج میں جاوید پمپ کا مکان مسمار کرکے انہوں نے دی ہے۔

  جبکہ مدھیہ پردیش کے وزیراعلی شیوراج سنگھ چوہان کا ایک وائرل ویڈیو کلپ ان کی  ذہنیت اور کم ظرفی کو پیش کرتا ہے، اس بیان میں ان کے چہرے سے رعونت ٹپکتی نظر آتی ہے، ایک ظالمانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ کھرگون کے حوا لے سے کہتے ہیں کہ "اُن لوگوں کا ایسا حال کیا جائے اور اُن کے خلاف ایسی کارروائی کی جائے کہ زندگی دوبھر کردی جائے کہ وہ زندگی سے پناہ مانگنے لگیں ۔ "کیا کوئی وزیراعلی اور اعلیٰ عہدہ پر فائز قوم کا رہنماء ایک مخصوص فرقے کے خلاف ایسا ظالمانہ انداز اپنا سکتا ہے، ہمیشہ سے عدلیہ اور مقننہ اعلیٰ منصب رہے ہیں، لیکن انہیں اب پاوں سے روندنے کی کوشش کی جارہی ہے، بلکہ اُن کو ایک حدتک اس مقصد میں کامیابی بھی مل چکی ہے۔

  آ خری مرحلے میں بچی کچی  مسلم لیڈرشپ کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں، جو دور دور تک کہیں نظر نہیں  آرہی ہے، اگر کسی احتجاج میں ہمارے نوجوان سڑکوں پر آنے کا منصوبہ بناتے ہیں تو ان کو سمجھانے اور اعتماد میں لینے کے لیے کوئی بھی آگے نہیں آتا ہے ، جو بیان بازی کرکے متنبہ کرتے ہیں ان کی کوئی گنتی اور قدر نہیں کی جاتی ہے، بلکہ من حیث القوم ، انہیں چمچہ اور بکاو کہہ کر اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ کھرگون سے لیکر کانپور، الہ آباد ، سہارنپور وغیرہ میں امن وامان کی دہائی دے کر جو ظلم ڈھائے گئے ہیں ، اس کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی میں ایک ٹھنڈی  لہر سی دوڑجاتی ہے اوردل ودماغ جواب دے دیتے ہیں۔ نصف صدی سے یہی سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ  کئی محاذ پراپنے آپ کو مضبوط و مستحکم کرنا ہوگا، ایک لیڈر شپ تیار کرنی ہوگی، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ پہلے کانگریس نے ایک دو کو چھوڑ کر کسی بھی مسلم  لیڈر کو پھلنے پھولنے نہیں دیا ، زیادہ مقبولیت اور شہرت پراس کے پرکاٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، بی جے پی اس کے نقش قدم پر ہے اور جولائی سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بی جے پی کا ایک بھی مسلمان ممبر نہیں ہوگا۔ ایک واضح وصاف پیغام”ہمیں آپ کی ضرورت نہیں ہے” دے دیاگیاہے۔ یہ تشویش کی بات ہے کہ برسر اقتدار پارٹی نے اپنے وزیر اعظم کے نعرے "سب کاساتھ، سب کاوکاس اور سب کاوشواس”کے برعکس ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی کو درکنار کردیا ہے۔ بے اعتمادی اور حوصلہ شکنی کی فضاء بن چکی ہے۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب "مسلمانوں کی سمت کون طے کرئیگا-"بس فی الحال ایسا وقت آگیا ہے کہ ہر حال میں ایک جامع اور ٹھوس منصوبہ بندی سے  مسلمانوں کواپنی ایک سمت طے کرنا ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔