غیر ازدواجی تعلقات کے مہلک اثرات

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

مشرقی اور مغربی تہذیب کا فرق یہی تھا مغرب نے بے حیائی، شہوت پرستی، نفسانی خواہشات کو حیوانی انداز میں تکمیل کے لئے انسانیت کو بے مہار چھوڑ دیا، جس طرح جانور کے لئے کوئی اصول حیات نہیں ہوتے، اسی طرح انہوں نے انسان کے لئے بھی شہوت پرستی، نفسانی خواہشات کی تکمیل کا دروازہ حیوانیت کی طرح بالکل وا کردیا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں نہ معاشرہ ہے، نہ خاندان، نہ ماں باپ کا مقدس رشتہ ہے، نہ بھائی بہن کی محبت، نہ میاں بیوی کا پیار، مرد وعورت کے بے منش اور آزادانہ اختلاط نے اس معاشرے کے تانے بانے بکھیر دیئے، خاندانی کی بنیادیں ہل گئیں، معاشرتی دیواریں ڈھ گئی، ابھی سوشل میڈیا پر ایک انگزی محقق کی طلاق یا شوہر کی موت کے بعد جو عدت ہوتی ہے اس پر اس نے تحقیق اور ریسرچ کیا کہ اسلام نے مطلقہ کو تین حیض، حاملہ کو وضع حمل اور معتدہ وفات کو چار مہینے دس کی کی عدت گذارنے کا حکم کیوں دیا ہے؟ اس نے یہ ریسرچ اپنی بیوی پر کی تو پتہ چلا کہ مرد کے مادہ منویہ کے جو سپریم ہوتے ہیں، اس کے اثرات پہلے اور دوسرے حیض کے بعد بھی باقی رہتے ہیں اور تیسرے حیض کے بعد ختم ہوجاتے ہیں، اور وضع حمل بھی یہ رحم کے دوسرے کے مادہ منویہ سے خالی ہونے کی نشانی ہے، البتہ جو معتدہ وفات کی مدت عدت بڑھ کرہے ؛ اس لئے ہے کہ وہ غم اور حزن وملا ل میں ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس سے مرد کے جراثیم ختم ہونے کے لئے وقت لگتا ہے، اس نے اپنی بیوہ پر ریسرچ کیاجس کے نتیجے میں پتہ چلا کہ اس کچھ اولادیں اس کی اپنی نہیں ہیں، حرام عورت میں جب یہ مختلف النوع جراثیم۔ یکجا ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں اس میں یہ جراثیم ایڈز کی بیماری کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور وہ دوسرے مردجو اس عورت سے ملتے ہیں ان میں اس بیماری کے منتقلی کا سبب بن جاتے ہیں، اس لئے  اسلام نے انسانیت کے بقاء اور نسب کی حفاظت کے لئے یہ نظام رکھا ہے مرد وعورت کے نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں اور وہ جائز اور حلال طریقے سے اپنی خواہش نفس انسانیت کے دائرہ میں رہ جس کے نتیجے میں قرابت اور رشتہ داریاں وجود میں آئیں، انسانیت ہو، خاندان اور معاشرہ  بسے، پھر جب عورت مطلقہ ہوجانے پر بھی اس سے جائز رشتہ قائم کرنے کے لئے تین حیض عدت گذارنی پڑتی ہے، اسلام کا یہ نکاح کے رشتہ پر مبنی یہ پاکیزہ نظام اور بندھن ہے جس کے نہایت مثبت اور دورس اور پائیدار نتائج ہوتے ہیں، جس کے بے شمار فوائد ہوتے اور بے شمار اضرار اورنقصان سے بچاؤ ہوسکتا ہے۔ اس طرح اسلام کیوں کر زنا جیسے عظیم جرم کی اجازت دے سکتا ہے جونہ صرف خاندان او ر معاشرت کے خاتمہ کا سبب ہے ؛ بلکہ اس سے انسانیت ہلاکت اور تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے، ایڈز جیسے امراض انسانیت کا پیچھا شروع کردیتے ہیں، اسلام کے علاوہ شاید کوئی مذہب جو زنا جیسے گھناؤنے عمل کو کسی بھی صورت میں اچھا سمجھتاہو، کونسا ایسا مرد  ہے جو یہ قبول کرتا ہو کہ اس کی بیوی یا اس کی بیٹی یا اس کی ماں یا اس کی بہن لوگوں کے لئے سامانِ تعیش بنے، جو بھی ایسا کرے گا، تو وہ اپنے لئے اس پر راضی ہوا کہ اس نے اپنے آپ کو بعض جانورں کے سے بھی نیچے مرتبہ میں گرالیا، جیسا آج کچھ یورپی ممالک کی صورتحال ہے، جسے وہ ’’بیویاں تبدیل کرنے کے کلب‘‘ کا نام دیتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے زنا کو جرم قرار دینے والا ۱۵۷سالہ قدیم قانون کو غیر آئینی بتا کر عورت کی آزادی کی نام پر غیر ازدواجی (زنا) کو جرم کے دائرہ سے نکال دیا، ویسی ہی معاشرہ میں عورتوں کے ساتھ ہوسناکی کا سلسلہ جاری ہے، عورتیں اور بیٹیاں غیر محفوظ ہیں، ہر دن جنسی ہراسانی کے واقعات در پیش آتے ہیں، اس قانون سے اس کو اورشہ ملے گی اور کھلم کھلا بے محابا مرد وعورت بغیر ازواجی زندگی مزے لینے کے لئے مرد عورتوں کی تلاش میں عورتوں کو ہراساں کرے گے اورعورتیں مردوں کے دل لبھانے میں لگیں، اس کے بھیانک نتائخ مرتب ہوں، جس کی ہماری ہندوستانی وثقافت اور معاشرہ اور سارے ادیان بالکل بھی اجازت نہیں دیتے۔

جو بھی زنا کو مباح قرار دے گا گوہ وہ شخص اپنی نسل اور اپنے خاندان اور فیملی میں ایسے شخص داخل کرنا مباح کیا جو اس کے خاندان اور فیملی اور نسل میں شامل نہ تھا، اس طرح وہ اس کے خاندان کے ساتھ وراثت میں شامل ہوگا، اوراس کے ساتھ محرم والے معاملات کرنے پڑیں گے؛  حالانکہ وہ اس کامحرم بھی نہ تھا، خاندان اور عائلی زندگی کی تباہی وبربادی کا زناباعث بنتا ہے، اگر شوہر کسی عورت کو معشوق بنالے یا بیوی کسی کو اپنا عاشق بنالے تو بلا شک وشبہ خاندان تباہ وبرباد ہوجائے، وہ شوہر اپنی معشوقہ کی چکر میں بیوی اور بچوں کے حقوق میں کمی کوتاہی کرے گا، اوربیوی اپنے عاشق کے چکر میں شوہر اور بچوں کی ذمہ داریوں سے نبر د آزما نہ ہوسکے، اس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے، اس زنا کی اجازت سے فحاشی اور برائی کے پھیلاؤ ربانی قدرتی سزاؤں کے علاوہ معاشرے میں مختلف بیماریاں مثلاسیلان، ایڈز کی خطرناک بیماریاں در آئیں گی جس نے کئی ملین انسانوں کو  اب تک فنا کے گھاٹ اتار دیا ہے، اور کئی ملین انسان اس بیماری کے شکار ہوچکے ہیں۔

ایچ آئی وی یعنی ایڈز دنیا کا مہلک ترین مرض ہے،اس میں مبتلا مریض کی بیماری کیخلاف قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے اور نتیجہ، ،معمولی سا بخار بھی جان لیوا ہو سکتا ہے ایڈز کا مرض انتقال خون، ،شیونگ بلیڈز اور دیگر چند طریقوں سے پھیل سکتا ہے لیکن یہ متعدی مرض نہیں، ،اور اس کے مریض کے ساتھ کھنا پینا یا رہنا منع نہیں، ، ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ساڑھے تین کروڑ افراد ایڈز کا شکار ہیں، ،ان افراد کی بڑی تعداد افریقی ممالک میں بستی ہے، ،دنیا بھر میں ایڈز کے سب سے زیادہ شکار افراد جنوبی افریقہ میں ہیں جن کی تعداد، ایک کروڑ سے زیادہ بیان کی جاتی ہے، ،نائیجیریا میں ستر لاکھ جبکہ بھارت میں یہ تعداد تیس لاکھ کے قریب ہے، ، مشرق وسطی میں ایڈز کے چوبیس لاکھ مریض ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں یہ تعداد سولہ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، بھارت میں سال دو ہزار بارہ میں ایڈز سے ہونیوالی ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار، ،نائیجیریا میں ایک لاکھ اور جنوبی افریقہ میں چونتیس لاکھ تھی،،دنیا بھر میں ایڈز کے زیادہ تر افراد پندرہ سے پینتیس سال کی عمر کے ہیں تاہم کچھ کیسز میں عمر انچاس سال تک بھی ریکارڈ کی گئی ہے،،یورپ میں گیارہ لاکھ، ،شمالی امریکہ میں تیئس لاکھ جبکہ جنوبی امریکہ میں سولہ لاکھ افراد اس موزی مرض کا شکار ہیں، ۔ ایڈز سے بچاؤ کی سب سے بڑی تدبیر یہ ہے کہ اپنے جیون ساتھ تک محدود رہیں۔

زناکی اباحت در اصل یہ عورت کی نسوانیت اورعزت وناموس کو تار تار کرنا ہے، اس کو ایک ایسا ذلیل ورسوا اوراستعمال شدہ سامان بنا نا ہے جس کی کوئی قدر وقیمت نہیں، کیوں کر کوئی پاک معاشرے میں عورت کی توہین اور تذلیل اور اس کو بکاؤ اوراستعمال کا سامان بنایا جاسکتا ہے، اسلام نے تو عورت اسی حقارت اور ذلت کی خست سے نکال کر اس کو بہن، بہو، ماں، ساس، نانی، دادی، پھوپھی جیسے رشتہ میں نکاح کے ذریعہ جوڑا ہے۔

در اصل زنا کی خرابی اور فساد وبگاڑ ہی اتنا زیادہ ہے کہ اس سے نسب کی حفاظت کا نظام، مصلحت اور عزت وعصمت اور ناموس کی حرمت وحمایت پامال ہوجاتی ہے، اس کی بناء پر لوگوں کے مابین سب سے زیادہ دشمنی اور بغض وعداوت جنم لیتی ہے، زنا کی وجہ سے ہر ایک دوسرے کی بیوی، بیٹی، اس کی بہن اوراس کی ماں کی عزت وناموس کو خراب کرتا تو اس کی وجہ سے دنیا میں خراب اور فساد مچ جات ہے، اس لئے زنا کو کسی بھی معاشرے اچھی نگاہ سے دیکھا نہیں گیا۔

زنا ایک عربی اصطلاح ہے جس سے اسلامی قوانین میں مراد ایک ایسے جماع (sexual intercourse) کی لی جاتی ہے جو اپنے وقوع میں قبل ازدواجی یا بیرون ازدواجی ہو؛ چونکہ زنا اپنے حیاتیاتی معنوں میں جماع ہی ہے اور زنا کی تعریف کے مطابق مرد کے قضیب (penis) کا عورت کے مہبل (vagina) میں ادخال ضروری ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا بیان سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ عربی اصطلاح زنا میں دونوں مفاہیم شامل ہیں ؛ اول، قبل ازدواجی (fornication) جماع جو نکاح(شادی) سے قبل یا غیر شادی شدہ افراد کے مابین واقع ہو اور دوم، بیرون(غیر )ازدواجی (adultery) جماع جو اپنے غیر منکوحہ (مرد یا عورت)سے کیا جائے۔ گو کہ دونوں صورتوں میں یہ زنا (جماع)ہی ہے لیکن صورت اول الذکر میں اس گناہ کی سزا قرآن کی رو سے سو کوڑوں کی شکل میں اور بعد الذکر کی صورت میں اس گناہ کی سزا احادیث کی رو سے رجم کی شکل میں بتائی جاتی ہے۔

غیر ازدواجی زنا کی سزا رجم کا ذکر احادیث میں آتا ہے لیکن قرآن میں زنا کی سزا کے طور پر اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس سزا کی موجودگی قرآن سے ثابت نہیں ہے؛ مزید یہ کہ کم از کم چار صالح اور مقتدر گواہ ایسے ہونا لازم ہیں کہ جو اس واقعہ کا مفصل اور آنکھوں دیکھا حال بیان کر کے اس کی شہادت دے سکتے ہوں ؛ یعنی ان گواہوں نے متعلقہ افراد کو زنا کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو (اور زنا کی تعریف کے مطابق مرد کے قضیب کا عورت کے مہبل میں ادخال لازم ہے، گویا گواہوں کا اس ادخال کو دیکھنا رجم کی گواہی کی شرط بنتا ہے)۔ اور اگر ان میں سے کسی کی بھی گواہی غلط ثابت ہوتی ہو تو ان گواہوں پر خود سخت سزا لازم ہوتی ہے۔ رجم پر آج بھی مسلم دنیا میں متنازع افکار پائے جاتے ہیں جبکہ غیر مسلم دنیا میں مسلم علما کی جانب سے بھی رجم کی سزا کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا اور نا ہی کوئی فرد رجم کی سزا دینے کا مستحق قرار دیا جاتا ہے، پتھروں سے مارنے کے عمل (رجم)کا ذکر ناصرف اسلامی، بلکہ قدیم یونانی، یہودی اور مسیحی دستاویزات میں بھی ملتا ہے۔

نکاح اور زنا میں فرق یہ ہے کہ زنا فقط جنسی تقاضے کو پورا کرنا ہے، جب کہ نکاح میں اس عورت کی ذمہ داری لینی پڑتی ہے، اس کو مہر دینا پڑتا ہے اور عورت اس کی وراثت میں شامل ہوجاتی ہے، جہاں زندگی میں بے اعتدالی آجاتی ہے وہاں لوگ نکاح سے فرار اختیار کرتے ہیں، گھبراتے ہیں کیوں کہ وہ عورت کو ایک کھلونا سمجھ کر اس سے جنسی لذت حاصل کرلیتے ہیں۔

اس طرح زنا نہایت قبیح اور موجب کفر عمل ہے، جس کی وجہ سے انسان میں خشیت ِ الٰہی، مروت، غیرت او رعزت وشرافت ختم ہوجاتی ہے، حیاکم ہوجاتی ہے، اس کے چہرہ سے رونق ختم کردی جاتی، اس کے چہرے پر سیاہی وظلمت چھاجاتی ہے، زانی بغض وعناد کی ایسی بلندی پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کے سامنے دنیا اندھیر ہوجاتی ہے، اس پر فقر ونحوست برستی ہے، مروت  زنادہ معاشرہ میں حرمت ختم ہوجاتی ہے اس سے نیکی اور عدل کانام چھین لیاجاتاہے، اس کو فاسق قاصر، زانی اور خائن کا نام دیا جاتا ہے، زنا کی نحوست یہ ہوتی ہے زانی کے جسم سے ایک قسم کی بدبو آتی ہے، دل کی تنگی وپریشانی بھی اس کی وجہ ہوتی ہے، زنا انسان کو قطع رحمی، والدین کی نافرمانی، حرام کمائی، مخلوق پر ظلم، اہل وعیال کو ضائع کرنے پر آمادہ کرتا ہے، کبھی حرام طریقے سے خون بہانے پر مجبورکردیتا ہے، کبھی علم یا بغیر علم جادو اور شرک کی طرف لے جاتا ہے، یہی ایک برائی کئی برائیوں کے لشکر کو لی آتی ہے، اس کو دنیا اور آخرت میں رسواکرکے رکھ دیتی ہے۔ زنا سے لڑکی کی عزت جاتی رہتی ہے،ساری خاندان کو بھی مشکوکاور معیوب نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، وہ خاندان پر کلنک اور دھبہ ہوتی ہے، زنا سے حاملہ ہونے والی عورت اپنے بچے کو قتل کردے تو اس نے قتل اور زنا دونوں کو جمع کیا، اگر اس زنا والی لڑکے کو خاندان میں لے جاتی ہے تو ناحق ایک شخص کو شریک خاندان کر کے خاندان کے حقوق کی تباہی کا باعث بنتی ہے، زنا بچے پر بھی ظلم ہے، اس کے لئے اندھیر ہے، کیوں کہ زانی اپنا نطفہ ایسی جگہ تخم ریز کرتا ہے جس سے پیدا ہونے والے بچہ کا نسب آباء واجداد سے کٹا ہوتا ہے، اور نسب ایک دوسرے سے مربوط ہونے کی طرف داعی ہوتا ہے، زنا سے پیدا ہونے والا بچہ سماج پر کلنک ہوتا ہے، ہر طرف سے اسے دھتکار دیا جاتا ہے، زنا دشمنیاں پیدا کرتا ہے، زانی مرد وعورت کے خاندانوں میں انتقام کی آگ بھڑ ک اٹھتی ہے، کیوں کہ جب کسی کی عزت اور غیرت کو روند دیاجاتا ہے اس کا جوش دل غیرت سے بھرجاتا ہے اور پھر قتل وغارت گری اور لڑائیوں کے بازار گرم ہونے کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے۔ ایڈز، سیلان، زہری اور اس جیسی بیماریاں در آتی ہیں، اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں فرمایا: ’’تم زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، یہ بے حیائی اور برائی کا راستہ ہے ‘‘اور دوسری جگہ فرمایا: ’’زانیہ اور زانی، کوڑے مارو ہر ایک کو ان دونوں میں، سوسو کوڑے‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’شادی شدہ مرد اور عورت زناکریں تو دونوں کو سنگسار کردو یہ اللہ کی طرف سے سزا ہے۔ اور ایک جگہ فرمایا: زانی ایمان کی حالت میں زنا نہیں کرتا ( یعنی جب وہ زنا کرتا ہے تو ایمان سے خالی ہوجاتا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑے گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرنا۔

اس لئے اس مسئلہ پر ویسے تو کھلے بندوں عمل ہو ہی رہا ہے، پھر سپریم کورٹ کی اس حوالے قانونی اجازت سے ہندوستانی معاشرہ اور یہاں کی تہذیب وثقافت اور خاندان اور معاشرہ کے تباہ ہونیاور امراض کے پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہے، اس حوالے سے سپریم کورٹ کو نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔