قضیہ35-A کا: قانونی معاملہ یانظریاتی جنگ

الطاف حسین جنجوعہ

جموں وکشمیر ریاست کے پشتینی باشندوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے آئین ہند میں ریاست کو دفعہ370اور 35-Aکے تحت خصوصی درجہ دیکر چند اختیارات اور مخصوص مراعات دی گئیں ہیں جس کا خالص مقصدبلالحاظ مذہب وملت، رنگ ونسل، ذات پات ریاست کے شہری کو تحفظ فراہم کرنا ہے لیکن اِن دفعات کو اب مذہبی اور علاقائی رنگت دے دی گئی ہے۔یوں تو روز اول سے بھاجپا ’ایک ودھان، ایک پردھان اور ایک نشان‘کے ایجنڈہ پر عمل پیرا ہے لیکن بطور خاص سال2014میں مرکز کے اندر اقتدار میں آنے کے بعد دفعہ370اور35Aکے خلاف بلواسطہ اور بلاواسطہ طور پر ملک گیر مہم شروع کی گئی۔ان دفعات کی آئینی اور قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لئے غیر سرکاری تنظیموں اور چند افراد کی وساسط سے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایاگیا۔اس وقت جموں وکشمیر ریاست میں دفعہ35-Aپر بڑا وبال کھڑا ہے۔ وادی کشمیر کے لوگ یک زباں اس کے حق میں سراپا احتجاج ہیں تو وہیں جموں میں اس پر ملا جلا رد عمل ہے۔جموں صوبہ کے کل دس اضلاع ہیں جن میں رہائش پذیر مجموعی طور چالیس فیصد مسلم آبادی کے ساتھ ساتھ ہندو اور سکھ طبقہ کا بھی ایک وسیع حلقہ خصوصی پوزیشن کو برقرار رکھنے کے حق میں ہے۔ پونچھ، راجوری، کشتواڑ، رام بن اور ڈوڈہ اضلاع تو مکمل طور خصوصی پوزیشن کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں جاتے، ریاسی میں بھی دو تہائی اکثریت یہی چاہتی ہے جبکہ اودھم پور، جموں، کٹھوعہ اور سانبہ اضلاع میں ہندو طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کو ہٹانے کاپرزور مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے لئے ایک پرزور مہم بھی چلائی جارہی ہے۔وہیں خطہ لداخ میں اس پر کوئی خاص رد عمل دیکھنے کو نہیں مل رہاہے۔ریاست کے اندر صورتحال اب ایسی دکھائی دے رہی ہے کہ اس پر قانونی /آئینی نقطہ نگاہ سے زیادہ نظریاتی جنگ چھیڑی گئی ہے۔

        چونکہ مجموعی طور اکثریتی آبادی جموں وکشمیر کو حاصل خصوصی درجہ کا مکمل تحفظ چاہتی ہے، اس لئے اب جموں میں چند ہندو تنظیموں کی طرف سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی سائڈ لائن کر کے’ہندو کارڈ‘کھیل کر ایک نیا ماحول اور نظریہ تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ ہے کہ جموں وکشمیر کو اسلامی ریاست بنایاجارہاہے اور اس عمل سے روکنا ہے۔

جنوری2018کوکٹھوعہ کی تحصیل ہیرا نگر کے رسانہ گاؤں میں آٹھ سالہ خانہ بدوش معصوم بچی کی اجتماعی آبروریزی اور قتل معاملہ کے بعد سے صورتحال یکسر تبدیل ہوئی ہے۔

        ہندؤں کے مذہبی، سیاسی، معاشی، سماجی مسائل ومطالبات کے تحفظ اور مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہونے کے مقصد سے کئی ماہ کی خفیہ مشق کے بعد تشکیل دی گئی ایک جُٹ جموں ‘ تنظیم کے بینر تلے گذشتہ روز جموں کے مقامی ہوٹل میں ’دفعہ35-A:جموں محاصرے میں ‘موضوع پرسیمینار کا اہتمام ہوا جس میں مقررین کے خیالات، تاثرات، تجاویزاور مطالبات سن کر بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ نظریاتی طور پر حالات کو کس حد تک سنگین بنانے کی شروعات کی گئی ہے۔ اس سیمینار میں جموں صوبہ کے بیشتر اضلاع سے مختلف سیاسی، سماجی، مذہبی، تجارتی، غیر سرکاری تنظیموں سے وابستہ ہندو طبقہ کے چنیدہ چنیدہ لوگوں نے شرکت کی۔رسانہ معاملہ کی سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ کرنے اور ملزمین کے حق میں بنائی گئی’ہندو ایکتا منچ‘ جس نے بھارت کا قومی پرچھم اٹھاکر ملزمین کے حق میں صدا احتجاج بلند کیاتھا،کے بیشتر عہدادران، لیڈران بھی اس سیمینار کا حصہ تھے۔مقررین میں مورخ پروفیسر ہری اوم، سماجی وسیاسی کارکن سونم مہاجن، اودھم پور سے آزاد ایم ایل اے پون گپتا، کشمیری پنڈتوں کی تنظیم پنن کشمیر کے چیئرمین اجے چرنگو، دہلی سے آئی مصنفہ وکالم نویس مدھو کیشور اور ایک جٹ کے چیئرمین ایڈووکیٹ انکور شرما شامل تھے۔اس سیمینار کو مکمل طور مذہبی رنگت دیتے ہوئے آغاز میں ماں کالی ویرجی کی خصوصی پوجا ہوئی۔استقبالیہ خطبہ میں ایک جُٹ کے سنیئر عہدادار اشونی شرما نے اٹل بہاری واجپائی کو کشمیری لفظ استعمال کرنے پر تنقید کی اور آنجہانی نے ایسا کر کے جموں کے ڈوگروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی تھی۔انہوں نے کشمیریت، انسانیت، جمہوریت نہیں بلکہ ’کشمیریت، بدنیت اور حریت‘ ہونا چاہئے۔

        پروفیسر ہری اوم نے کہاکہ پچھلے ستر سالوں سے جموں کے لوگ کشمیریوں کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ نئی دہلی نے بھی جموں کے ڈوگروں کو کوئی اہمیت نہ دی۔ 1947,1954,1975میں جومعاہدے یاایکارڈ ہوئے وہ صرف کشمیری حکمرانوں کے ساتھ،2003, 2008اور2015میں بھی جوسمجھوتے کئے گئے وہ بھی کشمیر ی حکمرانوں کے مفادات کو مد نظر رکھ کر ہوئے۔انہوں نے کہاکہ جموں وکشمیر کو مکمل طور مسلم ریاست بنانے، نظام مصطفی کے قیام اور آزادی کی باتیں کرنے والوں کواہمیت مل رہی ہے۔ دفعہ35-Aایک بڑا فراڈ ہے جس کو چوری سے صدارتی حکم نامہ کے تحت14مئی1954کو لایاگیا اور 14مئی1944سے لاگو کیاگیا۔ یہ آئین کی تمہید کے منافی ہے۔ یہاں کی بیٹیاں جن کی شادی بیرون ریاست ہوجاتی ہے، انہیں اور ان کے بچوں کو مالکانہ حقوق نہیں۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے جہاں مرضی پیدا ہوں، وہ یہاں کے شہری ہوسکتے ہیں مگرجموں کے لوگ نہیں، عمر عبداللہ کی ماں انگلستان کی، ان کی پیدائش وہاں ہوئی، وہ جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ بھی بن گئے۔ہندوستان میں منموہن سنگھ، اندرپال گجرال، ووہرا جیسی شخصیات اعلیٰ عہدوں پر پہنچ سکتے ہیں مگر یہاں پر70سالوں سے رہ رہے مغربی پاکستانی رفیوجیوں اور بالمیکی سماج کو بنیادی شہری حقوق حاصل نہیں۔ ہری اوم نے انتہائی جارحانہ لہجہ میں کہاکہ مبینہ طورچین، تبت، بھوٹان، بنگلہ دیش، روہنگیا سے آئے مسلمانوں کو یہاں پر راشن کارڈ، آدھار کارڈ دیئے گئے۔جامع مساجد کے امام بنائے گئے لیکن ہندؤں کو نظر انداز کیاجارہاہے۔ ہم سے دھوکہ ہوا ہے کسی کو معاف نہیں کریں گے۔ پروفیسر ہری اوم جوکہ جموں یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے سربراہ رہی ہیں، نے کہاکہ وہ صدر جمہوریہ ہند اور وزیر اعظم کو نہیں مانتے، تب مانیں گے جب وہ جموں وکشمیر میں اپنے نام پر زمین لیکر دکھادیں۔ رسانہ معاملہ ایک سازش تھی کہ وہاں پر رہائش پذیر ہندو ؤں کے 17گھروں کو بے گھر کر کے وہاں پر بٹھنڈی بسایاجائے۔ رسانہ معاملہ ہندوستان کی تاریخ کو تبدیل کرے گی جس کی شروعات ایک جٹ جموں کے بینر تلے ہوچکی ہے اور آئندہ ہر بات کا زبردست جواب دیاجائے گا۔رسانہ معاملہ میں ہندؤ ں کے ساتھ کی گئی زیادتی کی وجہ سے بی جے پی سڑک پرہے، مودی در در پر ہیں اور ووہرا کو جبری کرسی چھوڑنا پڑی۔ ہری اوم نے این این ووہرا جوکہ جموں وکشمیر کے 10برس تک گورنر رہے، کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان پر کشمیری حکمرانوں کے تئیں نرم رویہ اختیار کرنے کا الزام لگایا۔بھارت ماتا کی جے، بم بم بولے، کے بلندنعرؤں کے بیچ ہری اوم نے تقریرجاری رکھتے ہوئے مزید کہا’’ہم اب بھوک ہڑتال، مطالبہ، اپیل، دھرنے نہیں دیں گے۔ ذہنی طور نظریاتی طور جنگ لڑی جائے گی، مضبوط تحریک چلے گی، ہندوؤں کو ایک جٹ کیاجائے گا۔ یہاں پر وہابی اور سلفی اسلامی فاشسٹ ریاست نہیں بننے دی جائے گی۔ان کے مطابق ایک جٹ جموں ایک خیال ایک تحریک ہے۔ کشمیری 35-Aکی بحالی کا مطالبہ چھوڑ دیں، یا پھر ان کے لئے ہندوستان بھر میں 35-Aلاگو ہونا چاہئے، وہ کسی بھی جگہ زمین، نوکری اور ووٹ دینے کے اہل نہ ہوں۔ ڈوگروں نے کشمیریوں پر سالہا سال حکمرانی کی ہے۔ یہ عارضی غلامی اب ان کے پاس ہے، جس کو جلد ختم کیاجاتاہے۔

ٍ      بھارتیہ جن سنگھ کے سرکردہ رہنماؤں میں شامل رہے لالہ شیوچرن کے فرزند اور اودھم پور سے آزاد ایم ایل اے پون گپتا نے دلبرداشتہ انداز میں کہاجموں کو 70سالوں سے کشمیری حکمرانوں نے دبا رکھا ہے۔ قانون سازیہ، عدلیہ، ایگزیکٹیو میں ایسا نظام قائم ہے جہاں پر جموں والوں کی اتنی بھی نہیں چلتی کہ کشمیری حکمرانوں کی مرضی کے بنا پتہ بھی نہیں ہلے۔ بطور ایم ایل اے پچھلے تین سال اسمبلی کے اندر مسائل کو اجاگر کرنے کی ہرممکن کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ بطور وزیر مملکت برائے خزانہ امور ومنصوبہ بندی معلوم ہواکہ ہر بجٹ میں جموں اور کشمیر کے ساتھ بہت زیادہ نا انصافی ہوتی ہے۔ کمشنر سیکریٹری کے نام پر نامعلوم بجٹ کروڑوں کا رکھاجاتاہے جس کا بیشترتصرف کشمیر میں ہوتاہے۔پون گپتانے کہا’’میں نے بی جے پی سے کہاکہ کشمیر کے بجٹ کو بڑھائے بغیر، جموں کے بجٹ میں آہستہ آہستہ اضافہ کیاجائے اس سے پانچ سالوں کے اندر ہم کم سے کم برابری پر آجائیں گے۔لیکن بی جے پی نے اقتدار کی خاطر اپنے آپ کو پی ڈی پی کے پاس گرہوی رکھا۔ سابقہ پی ڈی پی۔ بی جے پی مخلوط حکومت نے کشمیر کے اندر آئی ایس آئی کے جھنڈے لہرانے کی چھوٹ دی،انکاؤنٹر کے بعد جنگجوؤں کے نماز جنازہ کے نام پر جلسے، جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی، کشمیر میں بنکرز توڑے گئے،شری شنکر کو کشمیر جانے کی اجازت نہیں ملی لیکن اسی روز کشمیریونیورسٹی میں انٹی نیشنل سیمینار کرنے کی اجازت دی گئی، سیکورٹی ٰ کو داؤ پر لگایاگیا۔برہان وانی پی ڈی پی کا ورکرتھا، یہ تباہی خود پی ڈی پی نے کروائی، جس سے کشمیر کی صورتحال اس وقت انتہائی نازک ہے۔ جموں کے لوگوں نے ستر سالوں سے بھارت کے جھنڈے کو مضبوطی سے اُٹھارکھا ہے لیکن نئی دہلی کی طرف نظر انداز کئے جانے کے سبب آج ہمارے کاندھے کمزور پڑتے جارہے ہیں۔ دفعہ 35-Aپر بات کرتے ہوئے پون نے کہایہ بہت بڑی نا انصافی ہے۔ اگر اس کو رکھنا ہی ہے تو دلت سماج، بالمیکی سماج، مغربی پاکستانی رفیوجیوں کو شہریت دی جائے۔ بیرون ریاست کے بیروکریٹس، ڈاکٹرزپولیس افسران جویہاں کئی سالوں سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کو ایک مدت کے بعدجس کا تعین سرکار کرے، کے بعدشہریت دی جانی چاہئے۔ صنعتکار، تاجر وں کے لئے سرمایہ کاری کی ایک حدمقرر کی جائے اوراگر وہ یہاں روزگار کے مواقعے پیدا کرتے ہیں، ریاست کی خدمت کر رہے ہیں، تو انہیں شہریت دی جانی چاہئے۔ترقی اور روزگار میں انصاف کرنا ہوگا۔

        مدھو کیشورجنہوں نے کٹھوعہ آبروریزی وقتل معاملہ میں گرفتار ملزمین کے حق میں نئی دہلی کے اندر کئی پلیٹ فارموں پر آواز بلند کی اور کئی مضامین بھی تحریر کئے، نے کہاکہ جموں کی آواز کو بلند کرنے اور جموں سے متعلق قائم غلط Narrativeکوختم کرنے کے لئے نئی دہلی میں جموں، کشمیر اینڈ لداخ واچ نام سے پلیٹ فارم تیار کیاجائے گا۔ دہلی میں جموں والوں کی آواز بلند ہوگی۔انہوں نے کہاکہ رسانہ معاملہ پر مکمل رپورٹ تیار کی ہے جس کو جلد ریلیز کیاجائے گا۔35اے ایک ایڈز جیسی مہلک بیماری کی علامت ہے۔یہ غلط تاثر دیاجارہاہے کہ ڈوگروں کے تحفظ کے لئے یہ دفعہ بنایاگیاتھا لیکن یہ تو آج بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں، ان پر تو ہر طرح سے حملے ہورہے ہیں۔ انہوں نے سیمینار میں تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے بیچ کہا کشمیر سے سبھی لوگ جموں میں آکر بس گئے، جموں شہر کو چاروں طرف سے محاصرے میں لے لیاہے۔جموں والوں پرPro-Rappistہونے کے الزامات لگائے گئے، محبوبہ مفتی نے یہ پاپ کیا ہے جواس کی سات پشتیں بھگتیں گی۔مندروں کے شہر کو منی پاکستان بنایاجارہاہے۔ روشنی ایکٹ اسکیم اور 14فروری2018کی Minutes of Meetingکے تحت مسلمانوں کو قانونی طور پر سرکاری اراضی، جنگلات اراضی پر ناجائز قبضہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ رسانہ معاملہ میں وہاں کے ہندؤں نے بھارت کا جھنڈا اُٹھاکر ایجی ٹیشن شروع نہ کی ہوتی تو آج حالات مختلف ہوتے، وہاں پر مسلمانوں کو جنگلات پر بسانے کی سازش تھی۔مدھوکیشور نے تو یہ کہتے ہوئے حد ہی کر دی کہ دفعہ35-Aعلی محمد جنا ح کے نامکمل ایجنڈا کی عمل آوری کا تسلسل ہے۔ یہاں پر وزیر اعلیٰ صرف مسلمان وہ بھی سنی بنایاجاتاہے۔ کشمیری پنڈتوں کو کشمیر سے نکال کر پہلی بڑی غلطی کی گئی تھی اور اب رسانہ معاملہ کی سازش رچ کر دوسری بڑی سازش کی گئی ہے۔ آئین کے تحت، قانونی طور منظم طریقہ سے گھیرا بندی کی جارہی ہے۔ ہندوستان کو دار السلام بنانے پر عمل ہورہاہے۔ انڈین میڈیا کو آئی ایس آئی نے پیٹرول ڈالر میں خرید لیاہے، خریدار تو یہاں بھی تھے، میڈیابکی تو وہ بھی غیروں کے ہاتھوں، شیکھر گپتا جیسے بھی ایسے آرٹیکل لکھ رہے ہیں جن سے غداری کی بو آتی ہے۔ یونائٹیڈ سٹیٹ آف ساؤتھ انڈیا بنانے کی تجویز بھی انہیں کا حصہ ہے۔ آخر میں انہوں نے کچھ مطالبات کئے کہ آئین کو نہ ماننے والوں، علیحدگی پسند، حریت لیڈران کی جائیدادیں ضبط کی جائیں، کسی بھی ادارہ یونیورسٹی میں ان کو داخلہ، اسکالرشپ نہیں ملنا چاہئے۔ اردو پر وار کرتے ہوئے مدھو کیشور نے کہاکہ اردو زبان نے بیڑا غرق کیا ہے، یہ ڈوگروں کی زبان نہیں، لداخ والوں کی زبان نہیں لیکن اس کو تھوپاگیا، اردو کو حاصل سرکاری زبان درجہ کو ختم کرنے کے لئے مہم چلائی جائے کیونکہ یہ لوگوں کو  پاکستان کے ساتھ جذباتی طور جوڑتی ہے۔ ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کیاجائے۔ کشمیر کے اندر پنن کشمیر اور فوجی کالونیاں بنائیں جائیں۔ تمام علیحدگی پسند لیڈران کو انڈومان، نیکوبار جزائر کی جیلوں میں مقد کیاجائے۔بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے خفیہ ایجنڈہ کو ظاہر کرنے کے لئے مہم چلائی جائے۔ جموں وکشمیر میں وورلڈ کلاس ٹیلی ویژن چینل جوکہ کوئی بڑی بات نہیں، بنایاجائے۔ اخباری ادارے قائم کئے جائیں اوراپنے ایجنڈا کی خوب پبلسٹی کی جائے۔ سوشل میڈیا پر مزید سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔سونم مہاجن جوکہ ٹوئٹر پرمتنازعہ بیانات لکھنے اور ٹی وی مباحثوں میں جارحانہ رویہ اختیار کرتی رہتی ہیں نے اُسی لہجہ میں کہا کہ جموں کو کشمیریت، اسلامیت اور حریت سے آزادی چاہئے۔ جموں وکشمیر صرف کشمیر تک محدود نہیں، لداخ اور جموں بھی اس کا حصہ ہیں۔ کشمیرمرکوز لیڈران کو جموں کے ڈوگروں کی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جموں والے اپنے حق کی بات کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ عہد کیاجائے کہ جموں میں ایک انچ زمین مسلمانوں کو نہ دی جائے۔ موصوفہ کا کہناتھاکہ بھارتیہ عدلیہ پر کوئی بھروسہ نہیں، سازش کے تحت رسانہ میں 9ہندوں کو جیل میں قید کیاگیا۔

        کشمیری پنڈتوں کی تنظیم پنن کشمیر کے صدر اجے چرنگو نے سیمینار میں بولتے ہوئے کہاکہ جموں وکشمیر میں عملی طور اسلامی ریاست بنانے پر کام ہورہاہے۔ آئین ساز اسمبلی میں کوئی بھی غیر نیشنل کانفرنسی نہیں تھا، سبھی نیشنل کانفرنس کے تھے جنہوں نے ایک اسلامی ریاست بنانے کے لئے اسی طرز پر آئین بنایا۔انہوں نے کہاکہ نام کوئی بھی رکھاجائے لیکن عملی طور تو اسلامی کریکٹر ہے جس میں بقول ان کے غیر مسلمانوں کے لئے جگہ نہیں۔ یہاں پر بنیادی حقوق نافذ نہ کرنے کا فیصلہ شریعت کا نفاذ عمل میں آنا تھا۔یکسانیت کو یہاں ختم کیاگیاہے۔ 2013کے کشتواڑ فسادات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ سیکورٹی فورسز اور پولیس بھی غیر مسلمانوں کے حق میں نہیں، ایک ایسا سسٹم رکھاگیاہے یہ انتظامیہ، حکومت بھی کچھ نہیں کرے گی۔ ہمیں خود اپنا دفاع کرنا ہوگا۔ ذہنی طور بھی اورجسمانی طور بھی۔ایسی پالیسیاں منصوبے بنانے ہوں گے تاکہ ہم ذہنی طور پر انہیں ہراسکیں۔ چرنگو کا کہناتھاکہ آئیڈیالوجیکل، ذہنی طور کشمیری مسلم حکمران ہم سے بہت آگے ہیں، ان کو شکست دینے کے لئے منظم، منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

        ایڈووکیٹ انکور شرما جوکہ مسلمانوں کے خلاف آئے روز متنازعہ بیانات دیتے رہتے ہیں نے سمینار کے دوران اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ قانونی طریقہ سے جموں پرDemographic Invasionکیاجارہاہے۔ انہوں نے الزام لگایاکہ روشنی ایکٹ لاکر جموں صوبہ میں قریب19لاکھ کنال جنگلات اور سرکاری زمین کے مالکانہ حقوق تفویض ہوئے جن میں 99فیصد مسلمان ہیں۔ مائنارٹی کمیشن کو یہاں لاگو نہیں کیاگیا۔ پونچھ میں ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت پورے شہر کو اوقاف اراضی قرار دیاگیا۔آئین ِ ہند، سیکولر ازم، انسانی حقوق کی آڑ میں قانونی وآئینی طور سمجھ بوجھ کے ساتھ ہمار ا محاصرہ کیاجارہاہے، جموں کو چاروں اور سے گھیر لیاگیاہے۔ بٹھنڈی میں پچاس ہزار مسلمانوں نے گھر بنا لئے ہیں، وہ سبھی جنگلات اور سرکاری زمین پر ہیں۔ 14فروری2018کی Minutes Of Meetingکے ذریعہ یہ گوجر مسلمانوں کو اراضی پر قبضہ کرنے اور گئوہتیہ کی کھلی چھوٹ دی گئی۔اس پر اگر کوئی کورٹ سے آرڈر لیکر جائے بھی تو سبھی ڈی سی کو کہاگیاکہ پولیس پروٹیکشن نہ دی جائے۔انکور نے کہا’’کھل کر بولنا پڑے گا،جب تک ہم مرض کو اس کے اصلی نام سے نہیں پکاریں گے تب تلک علاج کیسے ہوگا۔ اگر کینسر کامرض ہے، ہم اس کو معمولی پھوڑا قرار دیں تو ڈائی گنوز نہیں کیاجائے گا۔ اس لئے یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے اندر جموں وکشمیر کی شکل میں ایک اسلامی ریاست کا گھٹن کیاجارہاہے۔ ہدف پورے ہندوستان کو ’دارالسلام ‘بنانا ہے جس کے لئے جموں وکشمیر کو گیٹ کے طور استعمال کیاجارہاہے مگر جموں کے ہندؤ ایسا ہونے نہیں دیں گے۔انہوں نے انکشاف کیاکہ’’ ہم نے سندربنی، نوشہرہ، کالاکوٹ، پونچھ، کشتواڑ، بھدرواہ، رام بن، کٹھوعہ، اودھم پور، سانبہ، جموں میں ایک طویل مہم کے تحت بند دروازہ میٹنگیں کیں، جگہ جگہ اکائیاں بنا دی گئی ہیں، کئی ماہ تک خاموشی سے مہم چلانے کے بعد ’ایک جٹ جموں ‘کا قیام عمل میں لایاگیاہے۔یہ سب Divine Interventionسے ہورہاہے۔مسلمانوں کے خلاف کھل کر بولنا ہوگا، ہمیں عہد کرنا ہوگا، اُن کو ایک انچ زمین نہ دیں گے۔ اپنی زمینوں کو بچانا ہے۔مسجدوں کی بڑھتی تعداد کو روکنا ہے۔دفعہ35-Aمیں ایک جٹ جموں نے بھی درخواست عدالت عظمیٰ میں دائر کر دی ہے جس کی شنوائی ہوگی۔اس سیمینار سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ دفعہ 35-Aاور370کو کس قدر مذہبی اور علاقائی رنگت دے دی گئی ہے جبکہ حقیقی معنوں میں ایسا نہیں ہے۔ ’ایک جٹ جموں ‘جس کو بیرون ریاست کے جموں میں کاروبار کر رہے صنعتکاروں، تاجروں اور بڑے کارپوریٹ گھرانوں سمیت کئی با اثر سخت گیر ہندو شخصیات کاآشرواد حاصل ہے، 13نکاتی ایجنڈہ کی عمل آوری میں اِ ن دنوں سرگرم عمل ہے جن میں ریاست کے اندر مسلم اعلیحدگی پسندی کو روکنا، اُن کو شکست دینے کے لئے اندرونی سپورٹ ڈھانچہ کو منہدم کرنا، ریاست میں تمام قسم کی جہادی طاقتوں کا خاتمہ،جموں میں ڈیموگرافی طور ہورہے حملہ کا دفاع کرنا، اپنی زمینوں، جنگلات، دریاؤں، ندی نالوں کو غیر قانونی قبضہ سے بچانا، رسانہ معاملہ کی سی بی آئی انکوائری، روشنی ایکٹ کے تحت ہوئے انتقالات کا خاتمہ،14 فروری2018کی Minutes of meetingکی منسوخی،اقلیتوں کے فوائید اور مراعات پر ریاست کی اکثریتی آبادی کے قبضۃ چھڑانا،جموں سے غیرملکیوں بنگلہ دیش ی اور روہنگیا کونکال کر یہاں پر جموں کے ہندو کریکٹر کو برقرار رکھنا۔ 1947کے مغربی پاکستانی رفیوجیوں کو سبھی شہری حقوق اور والمیکی برادری کو ریاست کے اندر یکساں حقوق دلانا،کسٹوڈین محکمہ کو ختم کر کے اس کی اراضی کے مالکانہ حقوق پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے لوگوں کو دینے، کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی، بیرون ریاست شادی کرنے والی خواتین اور ان کے بچوں کویہاں پر مالکانہ حقوق دلانا ہے۔تنظیم کا ماننا ہے کہ 1947کے بعد  سے جموں کو سیاسی، سماجی، تہذیبی اور اقتصادی طور تباہ کرنے کے لئے ٹارگٹ کیاجارہاہے جس میں لیجسلیٹواور ایگزیکٹیو جہادی ہیں۔

        سال2015میں اس وقت مرحوم مفتی محمد سعید نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی مخلوط حکومت کی تشکیل دونوں صوبوں کے درمیان نظریاتی طور پائی جارہی خلیج کو ختم کرنے کے لئے کیاتھا لیکن موجودہ حالات سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ خلیج مزید گہری ہوئی ہے۔ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ ہندو طبقہ کے لوگوں کا بھارتیہ جنتا پارٹی سے اعتماد اُٹھ گیا ہے اور دیگر سخت گیر ہند تنظیمیں جن میں شیو سینا، ویشو ہندو پریشد،بجرنگ دل وغیرہ تنظیمیں اپنی جگہ بنا رہی ہیں اور ایک سخت گیر    ہندو سماج کی بنیاد ڈالنے کی کوششیں کی جارہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو جموں میں صدیوں پرانے آپسی بھائی چارہ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی،مذہبی رواداری کو نقصان پہنچے گا جوکہ کسی بھی طبقہ یا حلقہ کے مفاد میں نہیں۔ حقیر سیاسی مفادات کی حصولی کے لئے مذہبی اور علاقائی دوریاں قائم کرنے والوں سے عوام کو باخبر رہنا چاہئے اور ان کسی بھی چال سے خود کو بچانا چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔