مباحث خطباتِ اقبال
میر افسر امان
مختلف حضرات کی طرف سے علامہ شیخ محمداقبالؒ حکیم الامت پر لکھی گئیں کتب اورخود اقبال ؒ کی شاعری کی اُؒردو کتب ہماری لائیربیری میں موجود تھی۔پھر بھی اقبالؒ کی شاعری کا۱۰؍کتب جن میں ۶؍ فارسی اور۴؍ اُردو کا مکمل سیٹ بمعہ تشریح مذید بھی حاصل کیا۔ہماری دلی خواہش ہے کہ اقبالؒ کی نثری کتب کو بھی حاصل کریں۔ ہم ’’اقبالؒ قائدؒ مودودیؒ فکری فورم چلا رہے ہیں، اس لیے یہ کتب ریفرنس کے لیے ضروری ہیں۔ اللہ بھلا کرے قلم کاروان کے صدر نشین پروفیسر ڈاکٹر ساجد خان خاکوانی کا انہیں نے ہمیں ’’مباحث خبات ِ اقبال ‘‘ (تشریحات کے ساتھ ) جو پرفیسر داکٹر محمد عارف خان نے لکھی ہے، تحفتاً عطاکر کے اس کی کمی کچھ حدتک پوری کر دی۔ ابلاغ عام کے لیے اس کتاب پر تبصرہ قارئین کی نظر کرتاہوں۔
مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خاں صاحب کی یہ کتاب علامہ اقبالؒ کے سات خطبوں پر مباحث اور تشریحات پر مبنی ہیں۔ مصنف کی تیس سے زاہد کتب شائع ہو چکی ہیں۔ سال کا کچھ عرصہ برطانیہ میں گزارتے ہیں۔ شایدیہی وجہ ہے کہ تحقیقی اور کتابی دنیا لندن میں بیٹھ کر’’ مباحِث خطبات ِ اقبال‘‘ تشریحات کے ساتھ، جیسی مشکل کتاب میں اقبالؒ کی نثر کی تشریح کرنے میں کامیاب ہوئے۔
مصنف نے اپنی کتاب میں پہلے علامہ اقبالؒ کے تین خطبوں، خطبہ اوّل’’ علم اور مذہبی مشاہدات‘‘ خطبہ دوم ’’ مذہبی مشاہدات کافلسفیانہ معیار‘‘ اور خطبہ ہفتم’’ کیا مذہب کا امکان ہے‘‘ ان تینوں خطبات میں مذہب کا بطور ایک ذریعہ علم کا بھر پور دفاع کیاہے۔ پھر خطبہ سوم میں ’’ ذاتِ الہٰیہ کا تصور اور حقیقت دعا‘‘ خطبہ چہارم ’’ انسانی خودی، جبر و قدر، حیات بعد الموت‘‘ اور خطبہ پنجم ’’ اسلامی ثقافت کی روح‘‘ کے متعلق ہیں۔ خطبہ ششم میں ’’اسلام کی ساخت میں حرکت کا اصول‘‘۔ مصنف نے ان تمام خطبوں میں مغرب کی ترقی و فلسفہ کو اسلامی کی تعلیمات کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔مصنف یہ بھی لکھتے ہیں کہ اقبالؒ کے خطابات مغرب کی ترقی اور فلسفہ سے متاثر ہونے والے پڑھے لکھے مسلمانوں کے لیے ہیں۔ جو ترقی کی ساری راہوں کو اللہ کی طرف سے دیے گئے علم سے جوڑتے ہیں کے قائل ہیں۔
راقم الحروف کو یا دآ رہا ہے کہ علامہ اقبالؒ ک کی ایک بات جو اُس نے کسی دوست کو کہی تھی۔ شورش کاشمیری نے اپنی کتاب’’ فیضانِ اقبال‘‘ (تجلیاتِ کلیم و مشاہداتِ حکیم) میں کسی جگہ لکھا ہے کہ میرے اشعار کو سمجھنے کے لیے پہلے قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں۔ اِس میں شک نہیں کہ اقبالؒ مفسر قرآن اور حدیث ہیں۔ ’’اقبالؒ کل کا شاعر ہے‘‘۔اقبال نے کہا تھا کہ میرا کلام باقی رہے گا(کتاب اقبال کے چند جوہر پارے صفحہ ۴۴)
اب ہم ایک ایک کر کے کتاب’’ مباحث خطبات ِ اقبال‘‘ میں بیان کردہ مصنف کی کاوش کو مختصر کرتے ہیں۔
اقبالؒ کے خطبہ اوّل’’علم و مشاہدات‘‘ کے شروع میں مصنف نے اقبالؒ کی کتاب’’ ضرب کلیم‘‘ کا شعر یہ درج کیا ہے۔ یہ شعر اس خطبہ کہ مکمل شریع کرتا ہے :۔
زمانہ ایک، حیات ایک،کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری، قصہ، جدید، و قدیم
پروفیسرڈاکٹر محمد عارف خان کے مطابق اقبالؒ خطبہ اوّل’’ علم و مشاہدات‘‘ میں علم کا جائزہ لیتا ہے۔کہتا ہے کہ مغرب نے جو مذیب سے ہٹ کر مادی ترقی ہے۔ اس مادی علم کو مذہب کے خلاف بغاوت قرار دیا تھا۔مغرب نے خدا کو چلینج کیا۔ گویا انسان اتنا طاقت ور ہو گیا کہ شعور کے لیے کسی اور کا محتاج نہیں۔
خطبہ دوم’’ مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‘‘ میں مصنف کے مطابق اقبالؒ مغرب کے فلسفوں کے بر عکس، مذہبیات و اسلامیت کے تحت تمام مذاہب کو علم کی ترقی و ترویج میں ایک ارتقائی کردار کرتے ہیں اور اسلام کو جدید مؤثر افکار کا ترجمان مانتے ہیں۔
خطبہ سوم ’’ ذاتِ الہٰیہ کا تصور اور حقیقت دُعا‘‘ میں مصنف اقبالؒ کے خطبہ کا تجزیہ کرتاہے۔ اللہ کی ذات یکتا ہے۔کن فیکون ہے۔ذات الہٰیہ کا علم، علمِ جاریہ ہے۔ذات الہٰیہ کی قدرت، طاقت اور آزادی مطلق ہے۔ ذات الہٰیہ نے پیدائش کا عمل کن سے شروع کیا جو اب بھی جاری ہے۔ذات الہٰیہ کی قربت کا ذریعہ عبادت ہے۔دُعا کو مولانا رومی کے اس
شعر’’گام آہو‘‘ اور ناف ِآہو‘‘ سے واضح کرتا ہے۔ ’’ ذاتِ الہٰیہ کا تصور اور حقیقت دعا میں اقبالؒ فرماتے ہے کہ حضرت محمدؐ کی آمد دراصل ذاتِ الہٰیہ کی تصوری تکمیل کا اعلان ہے۔ ذات الہٰیہ کی حقیقت کاا عتراف تو زندگی کے آغاز سی ہی کسی کسی نہ شکل میں موجود رہا ہے۔ حضرت محمدؐ نے ذاتِ الہٰیہ کے وجود کا تصویری ذہنی نقشہ کو بھی حتمی شکل دے دی۔ خدا کو دیکھنا و پانا انسان کا اوّل و آخر مقصد رہا ہے۔ اقبالؒاسے ’’ بال جبریل‘‘ کے اس شعر میں بیان کرتے ہیں :۔
عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی
نقش گرِ ازل! تیرا نقش ہے ناتمام ابھی
خطبہ چہارم’’ انسانی خودی، جبر و قدر،حیات بعدالموت‘‘ کے متعلق مصنف لکھتا ہے کہ جدید نفسیات اور قرآنی فکر کے نفسیاتی تعینات و تجزیے کا ایک مفصل باب ہے۔ اس میں انسانی نفس کی حقیقت،زمینی دنیا کی حدود و دائرہ،اَن دیکھی دنیا کے اسرار حدودو رموز، حقیقتِ مطلعقہ کی جستجو و آرزو مضامین بیان کیے گئے ہیں۔
خطبہ پنجم ’’اسلامی ثقافت کی رُوح‘‘ میں مصنف لکھتا ہیں کہ اقبالؒ نے مسلمانوں کی چودہ سو سالہ ثقافت کی تاریخ اور تاریخی اہمیت کا جائزہ پیش کیا۔ جب مسلم دنیابحیثیت اُمت وسعی علاقوں میں بطور قوم پسماندگی و غلامی کی زندگی بسر کر رہی تھی۔
خطبہ ششم’’ اسلام کی ساخت میں حرکت کا اصول‘‘(الا اجتہادفی الاسلام) میں مصنف اقبالؒ کی کتاب‘‘ بانگ ِ ِ درا‘‘ سے اشعار کوٹ کرتے ہیں۔ جن کاآخری شعر ہے:۔
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھیرے ذرا، کچل گئے ہیں
اچھا ہوتا کہ مصنف سب خطبوں کے شروع میں اقبالؒکے شعر کوٹ کرتے جو اقبال ؒکی نثر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ پہلے خطبہ کی طرح سارے خطبوں کے آخر میں حوالہ جات درج کر دیتے تو آیندہ تحقیق کرنے والوں کے لیے سہولت ہوتی۔
خطبہ ہفتم’’ کیا مذہب کا امکان ہے‘‘ کو بھی مصنف اقبالؒ کی کتاب ’’ضرب کلیم‘‘ کے ایک شعر سے شروع کرتاہے:۔
’’رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اُتر گیا جو ترے دل میں ’’ لا شریک لہ‘‘
اس خطبہ کا مخاطب برطانیہ کا جدید ذہن تھا۔ جو مذہب کو پیچھے چھوڑ کر حواس و سائنس کی نئی دنیا میں قدم رکھ چکا تھا اور فلسفہ کے طالب علم شامل تھے۔مغرب نے مذہب کو علم کی دنیا سے خارج کر دیا۔مصنف لکھتا ہے کہ اقبالؒ کے نذیک انسانی زندگی کے تین مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ ایمان، دوسرا مرحلہ سوچ و فکر، تیسرا مرحلہ معرفت و ریاضت۔
صاحبو! ہم نے شروع میں شورش کاشمیری کی کتاب سے ایک بات بیان کی تھی کہ اقبالؒ کہتا ہے کہ میرے کلام کو سمجھنے کے لیے پہلے قاری کو قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ اسی لیے اقبالؒ فرماتے ہیں کہ:۔
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں
کتاب مباحث خطبات اقبال‘‘اقبالؒ کے سات خطبات کی جزیات کے ساتھ تشریع کرنے کی ایک کاوش ہے۔ اگر اقبالؒ کو کوئی سمجھنا چاہتا ہے تو اقبال کی دوسری کتب کے ساتھ، اس کتاب جسے میں ’’ انساکلوپیڈیا آف اقبال‘‘ کہتا ہوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اقبال ؒشناسوں کے لیے یہ کتاب ایک خزانہ سے کم نہیں۔
تبصرے بند ہیں۔