ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
بھارت مختلف مذاہب، تہذیبوں اور زبانیں بولنے والوں کا ملک ہے۔ کھان پان، رہن سہن، رسم و رواج ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہوئے بھی سب کو اپنانا اور اپنے دامن میں جگہ دینا اس کا مزاج ہے۔ جسے ہم وسیع القلبی اور وسیع المشربی کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی آیا وہ یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ جسے دنیا نے ٹھکرایا اسے بھی اس ملک نے اپنے اندر سما لیا۔ اس طرح یہاں کے لوگوں کی میزبانی ضرب المثل بن گئی۔ دنیا کے مختلف ممالک کے لوگ یہاں آ کر نہ صرف بسے بلکہ وہ اس سر زمین کا ایسا حصہ بن گئے جسے پہچاننا بھی مشکل ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی نظریہ، تصور یا تہذیب وجود میں آئی تو اس کی جھلک بھارت میں دیکھائی دی۔ یہاں ایسے افراد بھی رہتے ہیں جن کی ثقافت قصہ پارینہ بن چکی لیکن وہ اور ان کا کلچر یہاں زندہ ہے۔ تمام طرح کے اختلافات کے باوجود سب انڈین ہیں۔ اسی کو گنگا جمنی تہذیب (کمپوزٹ کلچر، انیکتا میں ایکتا یا یونیٹی ان ڈائیورسٹی) کہا جاتا ہے۔ گاندھی جی کے نزدیک سبھی مذاہب محترم تھے۔ وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو کمتر نہیں سمجھتے تھے۔ اپنی تقریروں میں وہ ویدوں کے ساتھ قرآنی آیات بھی بیان کرتے۔ دیگر مذاہب کے اقوال ملک میں سماجی اور سیاسی رواداری قائم رکھنے میں معاون تھے۔ البتہ ایک طبقہ ان کی مثبت سوچ کا مخالف تھا مگر گاندھی جی جانتے تھے کہ سب کو ساتھ لئے بغیر ملک کو انگریزوں سے آزاد نہیں کرایا جا سکتا۔
آزادی تو مل گئی لیکن نسلی تعصب، نفرت، ہندو شدت پسندی، فرقہ وارانہ تفریق اور ہندو مسلم فسادات نے ملک کو تقسیم کر دیا۔ ہندو لفظ کے آسرے عوام کو بیدار کرنے، مذہبی شدت پیدا کرنے اور ہندو راشٹر کے تصور سے واقف کرانے کی شروعات 1857 سے پہلے ہی رفارمسٹ موومنٹ کے ذریعہ ہو چکی تھی۔ اس کام کے لئے برہمو سماج، آریہ سماج، ہندو جاگریتی سبھا جیسی اصلاحی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ابتداء میں یہ تحریک مذہبی تھی۔ جسے بیرون ملک سے پڑھ کر آئے راجہ رام موہن رائے، وویکا نند، اروبندو وغیره نے شروع کیا تھا۔ انگریزوں کے اہمیت دینے کی وجہ سے ان کے حوصلے بڑھ گئے۔ 1857 کے بعد اس کا سیاسی چہرہ ہندو مہاسبھا کی شکل میں سامنے آیا۔ ہندو راشٹر وادیوں نے 1870- 1880 میں گائے اور ہندی کے نام پر تحریک چلائی۔ جس میں ہندی ہندو ہندستان کا نعرہ دیا گیا۔ 1885 میں جب کانگریس بنی تو یہ ہندو راشٹر وادی اس میں شامل ہو گئے۔ کانگریسی لیڈر لال چند نے پارٹی میں اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو کانگریس میں شامل کرنے اور آزادی کی تحریک سے جوڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے کانگریس پر مسلم appeasement (منھ بھرائی) کا بھی الزام لگایا۔ ہندو راشٹر کے نظریہ کو 1909 میں پنجاب ہندو مہاسبھا بننے کے بعد تقویت ملی۔ الگ الگ صوبوں میں ہندو مہاسبھائیں قائم ہوئیں۔
اکھل بھارتیہ سرو دیشیہ مہاسبھا 1915 میں بننے کے بعد ہندو راشٹر کا سوال اور زور سے اٹھایا جانے لگا۔ مہاسبھا کا ماننا تھا کہ بھارت ہندو راشٹر ہے۔ اس میں مسلمانوں کو اپنے حقوق، مذہبی شناخت اور حصہ داری کی بات کرنے کا حق نہیں ہے۔ انہیں آزادی کی تحریک سے بھی نہیں جوڑنا چاہئے۔ ہندو راشٹر وادی مسلمانوں کو اپنا سب سے بڑا دشمن مانتے تھے۔ وہ انگریزوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنا چاہتے تھے۔ اس نظریہ کو اعلیٰ ذات کے ہندو، زمیندار اور راجہ، مہا راجہ آگے بڑھا رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندو سماج میں موجود طبقہ واریت (ذات،پات کا نظام) چھواچھوت کا علاج اسلام اور مسلمانوں کے پاس ہے۔ ہندو دلت اور کمزور طبقات ان کے ساتھ نہ چلے جائیں۔ وہ ساوتری بائی پھولے اور جیوتی با پھولے کے ذریعہ دلتوں کو اوپر اٹھانے کی کوششوں سے بھی خائف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر کمزور طبقات پڑھ لکھ کر شہروں میں مزدور بن جائیں گے تو ان کے کھیت کھلیان میں کون کام کرے گا۔ دوسری طرف ہندو شدت پسندی، مذہبی عصبیت اور فسادات کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہندو اکثریت مسلمانوں کو اقتدار میں حصہ داری نہیں دے گی اور نہ ہی ان کے حقوق محفوظ رہیں گے۔ اس کا مسلم لیگ نے فائدہ اٹھایا۔ مسلم لیگ بھی اعلیٰ ذات کے مسلمانوں اور زمینداروں کی جماعت تھی۔
بہر کیف ہندو راشٹر کے تصور، مذہبی نفرت، تفریق اور تمام شدت پسندی کے باوجود گاندھی جی کی سوچ غالب رہی۔ گاندھی اور جواہر لال نہرو نے سوچ سمجھ کر جمہوری نظام نافذ کیا۔ جس میں سبھی کے حقوق اور ضروریات کا خیال رکھا گیا۔ مسلمانوں کی اکثریت تقسیم ملک کی مخالف تھی۔ انہوں نے تقسیم کو روکنے کے لئے دہلی میں بڑے بڑے احتجاج بھی کئے تھے۔ مگر بٹوارے کے اعلان سے عام مایوس ہی نہیں ہوا بلکہ اس کی ہمت ٹوٹ گئی۔ دوسری طرف ملک میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے۔ گاندھی جی فسادات روکنے میں لگ گئے، اس افراتفری کے عالم میں سید محمود، اللہ بخش، عبدالقیوم انصاری، ڈاکٹر مختار انصاری، مولانا آزاد نے مسلمانوں کی ہمت بڑھائی۔ ان کی کوشش سے بڑی تعداد میں مسلمانوں نے بھارت میں ہی رہنا تسلیم کیا۔
آزادی کے بعد کئی موقع ایسے آئے جب ہندو خاص طور پر شدت پسندوں اور مسلمانوں کے درمیان ڈائیلاگ کی فضا ہموار ہوئی۔ لیکن بات ہر چند آگے نہیں بڑھ سکی جبکہ کلیہ یہ ہے کہ ترقی کے لئے سب کا ساتھ ناگزیر ہوتا ہے۔ اور جمہوریت میں تو ایک ادنیٰ شہری بھی ایک اکائی مانا جاتا ہے۔ اس بات کا ادراک اب شاید آر ایس ایس کو بھی ہو چلا ہے۔ اسی لئے ان کی گفتگو محتاط ہو گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ ساورکر کے نفرت زدہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر موجودہ حکومت بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کے ایجنڈے پر گامزن ہے۔ لیکن ایک تبدیلی جس کا ذکر ضروری ہے کہ سنگھ کے سربراہ کے سدرشن نے گول والکر کی کتاب بنچ آف تھاٹ سے اس حصہ کو نکال دیا۔ جس میں مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹوں کو ملک کا دشمن بتایا گیا تھا۔ اور اب موجودہ سر سنگھ چالک ڈاکٹر موہن بھاگوت نے مسلمانوں کی لنچنگ کرنے والوں کو ہندوتوا کا دشمن بتایا ہے۔ انہوں نے خواجہ افتخار احمد کی کتاب کا اجراء کرتے ہوئے کہا کہ سب کا ڈی این اے ایک ہے۔ ہندو مسلمانوں کے پرکھے ایک ہیں۔ اتحاد کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں اگر کوئی ہندو یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کو یہاں نہیں رہنا چاہئے تو وہ ہندو نہیں ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ ڈائیلاگ کرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے مل کر مسائل کو حل کرنے پر زور دیا۔
موہن بھاگوت کے اس بیان کا پورے ملک میں خیر مقدم ہوا۔ لیکن نفرت کا جو الاؤ کئی دہائیوں سے سلگ رہا ہے اس کے کثیف دھوئیں میں ڈاکٹر بھاگوت کا بیان گھٹ کر رہ گیا۔ انہیں ہندو وادی سوچ رکھنے والوں کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اطلاعات کے مطابق سر سنگھ چالک کے بیان کے بعد بھی کانپور، مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ اور دہلی میں پارلیمنٹ کے قریب جنتر منتر پر شدت پسندوں نے بے خوف ہوکر پولس کی موجودگی میں نفرت بھری نعرے بازی کی۔ وہاں موجود لوگوں کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ہندو راشٹر کا مذہبی جنون، نفرت، تشدد اور عدم رواداری کا زہر معاشرے میں بری طرح سرایت کر چکا ہے۔ چاہے وہ کوئی بھی شعبہ ہائے زندگی ہو۔ پولس کا مظلوموں کے خلاف رویہ یہی دکھاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھاگوت جی کا پیغام کیا ان کے کیڈر تک نہیں پہنچا یا ان کی باتیں کیڈر کے گلے نہیں اتر رہیں۔ ایسی صورت میں ڈائیلاگ کی فضا کیسے ہموار ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی مصلحت اور مذہبی شدت کے چشمہ کو اتار کر یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ کوئی بھی مذہب نفرت نہیں سکھاتا۔ ملک ترقی ہمارے تہذیبی فلسفہ واسو دیوا کٹمب کم (ساری انسانیت ایک خاندان ہے) میں پوشیدہ ہے۔ جسے علامہ اقبال نے اپنے الفاظ میں کچھ یوں بیان کیا ہے۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستان ہمارا
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔