معاوضہ
مدثر احمد
ہندوستان میں آئے دن گروہی تشدد کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں اور ان وارداتوں میں مارے جانے والے زیادہ تر مسلما ن ہیں، وہی مسلمان جو اس ملک میں اقلیت قرار دئے جاتے ہیں اور وہ پچھلے چار سالوں سے گروہی تشدد کی وباء کا شکار ہورہے ہیں۔ ان مہلوکین کو جہاں حکومت کی جانب سے مرکر بھی چین نہیں ہے وہیں انکے اہل خانہ کو بھی انصاف نہیں مل پار ہاہے، انصاف کے معاملے میں نہ صرف گروہی تشدد کا شکار ہونے والے افراد ہیں بلکہ عصمت دری، فرقہ وارانہ فسادات کا شکار افراد اور بے بنیاد الزامات میں ملوث ہوکر برسوں جیلوں میں زندگیاں گزارنے والے بے قصور بھی ہیں۔ ہندوستانی آئین کا جائزہ لیاجائے تو یہ وہ آئین ہے جس میں سب کو مساوات کا پیغام دیاگیاہے، سب کو جینے کا حق دیا گیا ہے، مظلوم کا انصاف دینے کا قانون ہے، ظالم کو سزا دینے کا قانون ہے لیکن اسی آئین کو آج ہندوستان میں حکومتیں چلانے والے اور قانون کو نافذ کرنے والے لوگ غلط استعمال کررہے ہیں جس کی وجہ سے پورے ہندوستان میں ایک طرح سے افراتفری کا ماحول بناہوا ہے اور یہاں کی اکثریت خوف کے ماحول میں جینے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
پچھلے دنوں محمد عظیم نامی مدرسے کا طالب العلم گروہی تشدد کا شکار ہوا تھا، دہلی میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد جہاں ملک بھر میں اس معصوم کے حق میں آواز بلند ہونے ہی والی تھی کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ اس بچے کے لواحقین کو یہ کہہ کر منوالیا کہ اس معاملے کو زیادہ بڑھاوا نہ دیا جائے اور حکومت سے جو معاوضہ ملے اسے قبول کرلے، معاملے کو زیادہ طول دینے سے انصاف تو ملنے سے رہ گیا، البتہ پریشانیاں زیادہ ہونگی، ہاں اگر معاوضے کی رقم معمولی ہوتو اس کے لئے بھی پریشان نہ ہوں ہم کچھ زیادہ رقم دلوائیں گے۔ اس ڈیل کے بعدمحمد عظیم کے اہل خانہ کو پانچ لاکھ روپئے کا معاوضہ دے دیا گیا اور اسکے اہل خانےمعصوم کی میت کو لے کر وہاں سے چلے گئے۔ اسی طرح سے ایک واردات لکھنئو میں بھی پیش آئی جس میں ایک نو سالہ ایک بچی کی عصمت دری کرنے کے بعد اسے ماردگیا تھا، جب معاملہ تھانے پہنچاتو پولیس نے معاملے کو درج کرتے ہوئے اس پر کارروائی کرنے کے بجائے بچی کے سرپرستوں کو یہ کہہ کر منوانے کی کوشش کی کہ معاملے کو رفع دفع کریں ہم 8-10لاکھ روپئے کا معاوضہ دلوادیں گے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی جانوں کی قیمت آٹھ دس لاکھ روپئے ہی ہے؟۔
دراصل بات معاوضے کی نہیں ہے اور نہ ہی اس میں معاوضہ دینے والوں کا قصو ر ہے بلکہ قصوروار تو ہماری قوم ہے جو کچھ پیسوں کے لئے انسانی جانوں، عورتوں و بچیوں کی عصمت کا سودا کررہی ہے۔ ہمارے درمیان کئی ایسے لوگ ہیں جو قوم کے مسائل کو سلجھانے، ان مسائل کو قانونی طریقے سے حل کرنے کے لئے پہل کرنے کے بجائے چند روپیوں کی خاطر دلالی کرتے ہیں۔ ایک انسان کی جان کی قیمت اگر پانچ دس لاکھ روپئے ہے تو ہماری قوم ایسے ہی کٹتی رہے گی، قوم کی بچیوں و عورتوں کی زندگیاں و عزت تار تار ہوتی رہینگی پھر کچھ پیسوں کی خاطر معاملات کو نمٹا دیا جائیگا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس قوم کو انصاف و حق کے علمبردار ہونے کا درجہ حاصل ہے وہی قوم آج معاملات کو نمٹانے کے لئے معاوضے دینے لگے ہیں۔ جب تک قوم کی دلالی کرنے والے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے اس وقت تک قوم کی حفاظت ناممکن ہے۔
ہم نے کئی ایسے معاملات دیکھے ہیں جن پر اگر صحیح طریقے سے جدو جہد کی جائے، انصاف کی لڑائی لڑی جائے تویقینی طورپر ہمیں نہ صرف انصاف ملے گا بلکہ یہ آنے والی نسلوں اور حکومتوں کے لئے سبق آموز واقعات ثابت ہونگے۔ اتر پردیش کے میرٹھ ضلع کے ہاشم پورہ کا ہی معاملہ لے لیا جائے، اس معاملے میں پورے 31 سال بعد 50مسلمانوں کے اہل خانہ کو انصاف ملاہے اور اس انصاف کو حاصل کرنے کے لئے انکے اہل خانہ نے پورے 31سا ل تک کی جد وجہد کی ہے، مسلسل قانونی لڑائی لڑی، ذیلی عدالتوں میں انصافی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ان مسلمانوں کے اہل خانہ نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا یااور آج پچاس مسلمانوں کے 16قاتلوں کو سزا ملی ہے۔
اسی طرح سے عشرت جہاں انکائونٹر کے معاملے میں بھی دیکھیں، کس طرح سے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس معاملے سے علیحدگی اختیار کرلیا لیکن بھلا ہو اس تیستاسلواڈ کا جو اس معاملے میں قاتل پولیس اہلکاروں کو سزادلوانے اور عشرت جہاں کے اہل خانہ کوانصاف دلانے کے لئے اپنے اوپر سینکڑوں مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹنے کے باوجود مسلسل اپنی جد و جہد جاری رکھی ہوئی ہیں، پولیس و حکومتی کارندوں کی جانب سے پہلے لالچ پھر دبائو ڈالنے کے باوجود اپنی تحریک کو جاری رکھی ہوئی ہیں جس سے امید کی کرن اب بھی جاگ رہی ہے کہ عشرت جہاں انکائونٹر معاملے میں بھی انصاف ملے گا۔ اگر تیستاسلواڈ کی جگہ ہمارا ہی کوئی اپنا ہوتا تو اس معاملے کو ڈر کے مارے چھوڑ دیا ہوتا یا پھر عشرت جہاں کے اہل خانہ کو معاوضہ دلاکر اپنے آپ کو لیڈر بنالیا ہوتا۔ ہم انصاف کی لڑائی لڑنے کو ہمت کا کام نہیں مان رہے ہیں بلکہ متاثرین و مظلومین کو معاوضے دلواکر اپنے آپ کو لیڈر مان رہے ہیں۔ ان معاملات کو تھانوں اور ایوانوں سے باہر کچھ پیسے لے دے کر سلجھانے کو لیڈری مان رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم پر حملے رکنے کانام نہیں لے رہے ہیں۔
دوسری جانب ہندوفرقہ پرست تنظیمیں معمولی سی بات کا بتنگڑ بنا کر معاملات کو عدالتوں تک لے جارہے ہیں جس سے نہ صرف انہیں قانونی طورپر طاقت مل رہی ہے بلکہ ہماری لاپرواہیوں کی وجہ سے انہیں بڑی حد تک کامیابی بھی مل رہی ہے۔ آر ایس ایس کی ہی بات لیں، انکے پاس ایک ایسی ٹیم ہے جو ہر واردات کو مذہبی و فرقہ پرستی کا رنگ دے کر پورے ہندوستان میں معاملے کو زیر بحث بنادیتے ہیں اور انکے یہاں مرنے والوں کو مارنے والے سے معاوضہ نہیں لیا جاتا بلکہ انکی ہی قوم انہیں معاوضہ دے کر مارنے والے کو تختہ دار تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ معاوضہ مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ انصاف مسئلے کا حل ہے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔