ملک زادہ منظور احمد: شخصیت اور فن
مرتب : حکیم نازش احتشام اعظمی
سن اشاعت : 2016
صفحات : 357
قیمت : 400
ناشر : اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤ نڈیشن، نئی دہلی
ملک زادہ منظور احمد کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ سرسری طورپر صرف اشارہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ورنہ ان کی شخصیت کے تمام پہلو پر لمبی گفتگو کی جا سکتی ہے۔انھوں نے ناظم مشاعرہ کی حیثیت سے جو شناخت قائم کی تھی، وہ بہت دنوں تک یاد کی جائے گی۔انھوں نے نظامت کو فن دیا؛ایسا فن جس کا بہت دنوں تک تتبع کیا جائے گا۔ملک زادہ منظور احمد نے شاعری میں بھی کلاسیکی روایت کو قائم رکھا، گو کہ ان کی شاعری کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے، لیکن جو بھی ہمارے سامنے ہے، وہ ان کی شاعری کا انتخاب ہے۔ایسا انتخاب جسے دیکھ اور پڑھ کر غالب کی یا د آجاتی ہے۔’شہر ستم‘کے نام سے انھوں نے اپنی شاعری کا انتخاب شایع کیا تھا۔ملک زادہ منظور احمد نے مولانا آزاد پر جو تحقیقی کام کیا ہے، وہ آزاد شناسی میں اہم درجہ رکھتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعری کے ساتھ ساتھ اللہ نے انھیں تحقیق و تنقید کی بھر پور صلاحیت ودیعت کی تھی۔’شہر سخن‘نامی کتاب ایک طرح سے معاصر شعرا کا تذکرہ ہے۔’شہر ادب‘کی اشاعت نے انھیں ایک خاکہ نگار کے طور پر بھی متعارف کرایا۔ ’رقص شرر‘ اردو خودنوشت کی روایت کا ایک ایسا باب ہے، جو اپنے انداز تحریر سے خاص وعام کی نظروں کا ایسا سر چشمہ ہے، جسے ہر با ذوق پڑھنا پسند کرتا ہے۔یہ خودنوشت آپ بیتی کی بجائے جگ بیتی ہے۔یہ ہندوستان کی تاریخ کا بھی ایک حصہ ہے، جہاں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کی صورت حال پر گفتگو کی گئی ہے۔ملک زادہ منظور احمد نے اردو کی بقا اور اس کے تحفظ کے لیے جو عملی اقدامات کیے ہیں، وہ ناقابل فراموش ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ ان کی علمی و ادبی خدمات کا جائزہ لیا جائے۔’ملک زادہ منظور احمد: شخصیت اور فن‘ میں ان کی علمی، عملی اور ادبی خدمات کا اس طرح سے جائزہ لیا گیا ہے کہ کوئی بھی گوشہ تشنہ نہ رہ جائے۔
ذکربالا کتاب میں کل تینتیس مضامین ہیں۔جن میں خاص بات یہ ہے کہ سارے مضامین بالکل نئے ہیں۔ یقیناًمرتب کتاب کے لیے یہ کسی بھی طور آسان نہیں رہا ہوگا کہ اتنے سارے قلم کاروں سے رابطہ کیا جائے ، اور مختلف موضوعات پر لکھوایا جائے۔ لیکن یہ مرتب کتاب (حکیم نازش احتشام اعظمی)کی اردو دوستی اور اردو نوازی کا بین ثبوت ہے کہ انھوں نے اس مشکل مرحلے سے گزر کر قارئین کے سامنے ملک زادہ منظور احمد کی شخصیت اور فن کے مختلف گوشوں کو پیش کیا ہے۔
زیر نظر کتاب(ملک زادہ منظور احمد: شخصیت اور فن)میں اردوکے اہم قلم کاروں کے ساتھ نئے لکھنے والوں کی تحریروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔اس کتاب میں جہاں پروفیسر خالد محمود، پروفیسر ظفر احمد صدیقی، پروفیسر احمد محفوظ اور پروفیسر سید سراج اجملی کے مضامین شامل ہیں، وہیں ڈاکٹر محمد اختر، ڈاکٹر عمیر منظر، ڈاکٹرعلاؤ الدین، ڈاکٹرمشیر احمد کے علاوہ سلمان فیصل، نازیہ ممتاز، عائشہ پروین اور اشفاق محمد عمر کے بھی مضامین شامل کتاب ہیں۔ اس فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ تقریباً تین نسلوں کے قلم کاروں(ایک وہ جنھوں نے اپنی تحریروں سے زبان و ادب کو بہت اعتبار بخشا ہے، دوسرے وہ جن کی تحریروں کو قارئین نے سراہا ہے، اور اپنی تحریر کے پختگی کا ثبوت دیا ہے تیسرے وہ جو ابھی نئے لکھنے والے ہیں)کے مضامین کو یکجا کیا گیا ہے۔پروفیسر ظفر احمد صدیقی دور حاضر کے اہم محقق و ناقد کے طورپر جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے کلاسیکی ادب پر جو کچھ کیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔پروفیسر خالد محمود نے سفر نامے پر جو تحقیقی کام کیا ہے، وہ کام سفرنامے کے حوالے سے اہم کام ہے۔ ملک زادہ منظور کے سفر نامے پر ان کا مضمون ،معلوماتی اور کافی دلچسپ ہے۔پروفیسر احمد محفوظ کا مضمون ملک زادہ منظور کی شاعری کا بہت خوبصورت احاطہ کرتا ہے۔اسی طرح سے دوسرے لکھنے والوں کے مضامین اپنے اپنے موضوعات کے اعتبار سے کافی اہم اور معلوماتی ہیں۔ اوپر چند کا ذکر کیا گیا ہے۔طوالت کے سبب کچھ قارئین کے لیے موقوف کیاگیاہے۔
ملک زادہ منظور احمد: شخصیت اور فن کے مرتب حکیم نازش احتشام اعظمی کی اس سے پہلے کئی اہم کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔بنیادی طور پر وہ ایک حکیم ہیں۔لیکن اردو سے دلچسپی ان کو وراثت میں ملی ہے۔ان کی ایک کتاب’اردو کے فروغ میں طبیب ادبا و شعرا کا حصہ‘بہت مقبول ہوئی۔ اس کے علاوہ طب کے مختلف موضوعات پران کے مضامین اکثر و بیشتر شایع ہوتے رہتے ہیں۔تقریبا درجن بھر کتابوں کے مصنف و مرتب حکیم نازش احتشام کی تازہ کتاب اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔اس کتاب کے مشمولات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے جس طرح سے محنت کی ہے، قارئین اسے ضرور سراہیں گے۔ملک زادہ منظور احمدکے تعلق سے غالباً یہ پہلی کتاب ہے، جہاں ان کے ہر گوشے پر گفتگو کی گئی ہے۔ کتابت و طباعت دیدہ زیب ہے، قیمت بھی مناسب ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ یہ کتاب ملک زادہ منظور کے شیدائیوں کے لیے ایک طرح کا تحفہ ہے۔ ساتھ ہی قوی امید یہ ہے کہ قارئین اس کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھیں گے۔
تبصرے بند ہیں۔